بیت اللہ شریف کے ایمان افروز مناظر

جس وقت یہ سطور قلمبند کی جا رہی ہیں اس وقت یہاں سات شوال ہے اورجب قارئین انہیں ملاحظہ فرمارہے ہوں گے اس وقت آٹھ شوال ہو گا ۔آج کا دن یہاں حج کے اژدحام کی انتہا کا دن ہوتا ہے ۔پوری دنیا سے اللہ کے خوش نصیب بندے حرمین شریفین پہنچ چکے ہیں اور رش کا یہ عالم ہے کہ ہر طرف انسان ہی انسان دکھائی دیتے ہیں ۔نماز وں کے اوقات میں حرمین شریف کے داخلے حصے چھتیں ،تہہ خانے ہی نہیں بلکہ مسجد حرام سے ملحقہ سڑکیں بھی نمازیوں سے بھری پڑی ہوتی ہیں بلکہ میلوں تک صفیں بنتی ہیں اور جوں ہی نماز ختم ہوتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے مسجد حرام کے ہردروازے سے اور ہر راستے اور سڑک پر انسانوں کا ایک ریلا ہے جو سمند ر کی خاموش موجوں کی طرح بہا چلا جا تا ہے ۔اردو میں انسانوں کے ہجوم کے لیے جتنے محاورے پڑھے وہ سب آج سمجھ آتے ہیں کہ ”تل دھرنے کی جگہ نہ ہونے سے کیا مراد ہے؟ “....”کھوے سے کھوا کیسے چھلتا ہے؟“....”اللہ زمیں اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود تنگی داماں کی شکایت کیسے کرتی ہے ؟“

دنیا بھر کے انسان ....جن میں کالے بھی ہیں اور گورے بھی ،امیر بھی ہیں اور غریب بھی ،عرب بھی ہیں اور عجم بھی لیکن اس دربار میں سب فقیرانہ انداز سے آتے ہیں عہدہ ومنصب کیا ؟رنگ ونسل کی کیا تمیز ؟امیری وغریبی میں کیا فرق ؟یہاں محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں....اور تو اور لباس تک اتروا لیا جاتا ہے ....علماءکے جبہ ودستار ،امراءکے قیمتی لباس ،عہدہ ومنصب کی تمام شناختیں مٹ جاتی ہیں اور سب دیوانہ وار اس گھر کی طرف دوڑے چلے آتے ہیں ....آدمی جب احرام باندھتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آخرت کے سفر پر روانہ ہورہا ہے وہی سفید لباس ....وہی خوف ورجا ءکاعالم ....وہی اشتیاق اور بے بسی کی ملی جلی کیفیات....

یہ عجیب بارگاہ ہے جہاں ہر کوئی اپنے ایک ہی رب کو پکار رہا ہے اور وہ سب کی سن رہا ہے ....سب کی زبانیں سمجھ رہا ہے ....سب کی جھولیاں بھر رہا ہے ....سب کی مرادیں پوری ہو رہی ہیں ....سب اس کے ساتھ راز ونیاز میں مصروف ہیں ....کہیں لبیک اللہم لبیک کے ترانے ہیں ،کہیں قرآن کریم کی تلاوت کے زمزمے ہیں ....کہیں اس کی تسبیح وتمجید گونج رہی ہے ....کوئی اس کو اپنے دکھڑے سنا رہا ہے ....کوئی اس کے سامنے جھولی پھیلائے کھڑا ہے ....کوئی ٹکٹکی باندھے اس کے گھر کو دیکھ رہا ہے ....کسی کی آنکھوں سے چھم چھم آنسو برس رہے ہیں ....کوئی نوافل پڑھنے میں مشغول ہے ....کوئی صفاو مروہ کے درمیان بھاگ رہا ہے ....کوئی آب زم زم کے جام پر جام پیے جاتا ہے ....کہیں حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے کشمکش جاری ہے ....کہیں میزاب رحمت تلے جگہ پانے کی سعی ہو رہی ہے ....کوئی ملتزم سے لپٹ اہو اہے ....کوئی باب کعبہ کے سامنے عجز ونیاز کی تصویر بنے کھڑ اہے ....اور وہ سب کو دیکھ رہا ہے ....سب کو دے رہا ہے ....سب کی سن رہا ہے ....عجیب دَر ہے ؟اللہ کی قسم عجیب گھر ہے ....سوچتا ہو ں جن کے پاس کعبہ نہیں ان کے پاس اور کیا ہے ؟....کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں ....کل من علیہا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام

بیت اللہ شریف کے گرد طواف کرتے ہوئے لاکھوں انسان کس والہانہ انداز سے اس سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں گاہے انسان بعض لوگوں کی اداؤں میں ہی کھو جاتا ہے ....ایک سادہ سا دیہاتی عرب عجیب والہانہ پن سے کہ رہا تھا ”یا اللہ ! میں تو تیرے در پر نہیں آسکتا تھا تو نے اپنی رحمت سے بلا یا مگر اب مجھے خالی ہاتھ واپس نہ لوٹانا“یہاں ہر کسی کی عجیب کیفیت ہوتی ہے ....کل شب نمازِ مغرب میں امام صاحب اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی ....سب کو رُلا دیا ....ان کے لیے قرات مشکل ہو رہی تھی اور سب نمازی بھی رو رہے تھے۔

آج بیت اللہ شریف میں حجاج کا آخری دن ہے اِدھر عبادات ،کیفیات اور رش کایہ عالم ہے اور اُدھر منیٰ میں حاجیوں کے استقبال کے لیے زور وشور سے تیاریاں جاری ہیں ....منیٰ کے میدان میں ایک عجیب وغریب شہر آباد ہے ....تا حد نگاہ خیمے ہی خیمے ہیں ....آج شام اور کل صبح سے خیموں کا یہ دیس آباد ہو جائے گا اورتمام حاجی لبیک اللہم لبیک کا ورد کرتے ہوئے ان خیموں کو بسا دیں گے ....رات مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے ایک جگہ حاجیوں سے خطاب فرمایا اور خوب خطاب فرمایا۔ کہنے لگے” یہ حج کی عباد ت عجیب عبادت ہے ....آدمی گھر سے بیت اللہ کا ارادہ کر کے نکلتا ہے ،حجر اسود کے بوسے کی تمنا لیے چلتا ہے ....آب زم زم کی پیاس بجھانے آتا ہے ....صفا ومروہ کے درمیان سعی کی نیت کرتا ہے ....اللہ کے گھر کی لاکھ نمازوں کا اجر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ....باب کعبہ اور ملتزم پراپنی مرادیں منوانے کی تمنا رکھتا ہے ....لیکن اللہ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ بیت اللہ شریف سے نکلو اور منی ٰ چلے جاؤ....پھر عرفات کا وقوف ہوتا ہے ....پھر مزدلفہ میں شب بسری ہوتی ہے ....پھر رمی جمرات ....ان سب مقامات پر بیت اللہ نہیں ،حجر اسود نہیں ،صفا مروہ نہیں ،باب کعبہ اور ملتزم نہیں ،مقام ابراہیم اور حطیم نہیں لیکن بس سب اپنے رب کے امر کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے منی ٰ جاتے ہیں ....عرفات کے میدان میں جا کر اس کی بارگاہ میں التجائیں کرتے ہیں ....شیطانوں کو کنکریاں مارتے ہیں ....یہ ایک مشق ہے کہ انسان اپنی خواہش کا بندہ نہیں بلکہ اپنے رب کے حکم کا غلام ہے ....اپنی مرضی کا نام دین نہیں بلکہ رب کی رضا ہی سب کچھ ہے ....بیت اللہ شریف کے لیے کوئی اپنے گھر سے نہیں آتا بلکہ سب اللہ کے لیے آتے ہیں....اور جب اللہ کا حکم ہوتا ہے اس کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے ....اسی طرح نمازوں کا معاملہ دیکھ لیجیے ....انسان پوری زندگی وقت پر نماز پڑھتا ہے لیکن عرفات میں عصر کی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھا دی جاتی ہے اور مغرب کی نماز وقت ہونے کے باوجود حکم یہ ہوتا ہے کہ نہیں پڑھنی انسان حیران ہوتا ہے کہ ”یااللہ پوری زندگی تو میری وقت پر نماز پڑھنے کی عادت رہی یہ آج کیا ہوا؟“تو اس کو جواب ملتا ہے تمہاری عادت اور معمول نہیں میرا حکم ماننے اور میرے حبیب کے طریقے میں نجات ہے “اور یہی حج کی اس عبادت کا سبق ہے کہ اللہ کا حکم اور بنی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ انسان کی خواہشات ،عادات ، مفادات،لباس ،وضع قطع اور راحت وآرام ہر چیز سے مقدم ہو جائے ....یہی راہ نجات ہے ۔
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130186 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.