گوشواروں اور اثاثوں کو ظاہر کرنے کی ضرورت

گوشوارے اور اثاثے ظاہر کرنے کا بنیادی مقصد تو بدعنوانی کے امکانات کا خاتمہ کرنا تاکہ معاشرہ اس بددیانتی اور بد عنوانی کے بداثرات سے پاک رہے۔ پوری قوم آج سراپہ احتجاج ہے کہ ملک کی اپر جسے الیٹ کلاس بھی کہتے ہیں اس نے ملک میں لوٹ مار اور بدعنوانی سے معاشرے اور ملک کو شدید ترین مالی بحران سے دوچار کر دیا ۔ اس وقت صورتحال یہ منظر کشی کرتی ہے کہ الیٹ کلاس اپنے گوشواروں اور اثاثوں میں غلط بیانی کر کے اصل صورتحال کے برعکس ظاہر کرتی ہے ۔ جو ایک جرم ہے اور جسکا ارتکاب بڑی دیدۂ دلیری سے کرتی ہے ۔ اس جرم کے مرتکب افراد خود کو کسی ادارے کو جواب دہی سے مثتثنی سمجھتے ہیں کوئی ادارہ ان سے پوچھ گچھ بھی نہیں کرتا تو اس بدعنوانی میں ترقی کے عزیم ا لشان مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

آج اس ملک کے کھلاڑیوں تاجروں، سیاست دانوں، فوجی اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ لوگوں ، بیوروکرتٹس کی آمدنی اور ان کے اثاثوں میں ایک توازن دکھائی نہیں دیتا جس کو ثابت کرنا خود ان کے اختیار میں بھی شاید نہ ہو ۔ اس بات میں مبالغہ ہو گا جب یہ کہا جائے کہ اس ملک کاہر وہ شخص جوکلیدی عہدے پر فائز رہا ہو بدعنوانی میں ملوث نہ رہا ہو ، اسکی اولادیں ، خاندان اور اسکے نزدیکی ساتھییوں کو اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع نہ دیا گیا ہو۔

غلام محمد کے خاندان اور اسکے اثاثوں کا جائزہ لیں، ایوب خان کی اولادوں اور خاندان کے اثاثوں کو دیکھ لیں، بھٹو دور کے ان کے قریبی ساتھیوں اور خاندان کے اثاثوں کا جائزہ لے لیں جن میں ہمارے اسوقت ملک کے اقتدار اعلٰی پر فائز فراد افرد کے اثاثوں کو دیکھ لیں۔ جنرل ضیائ الحق کی اولادوں ان کے قریبی لوگوں کے اثاثوں کا جائزہ لے لیں۔ نواز شریف اور انکی اولادوں اور قریبی ساتھیوں کی دولت اور اثاثوں کا جائزہ لے لیں ۔ کیا متعلقہ اداروں نے اس کی تفتیش اورتصدیق کر کے انہیں اس بد دیانتی پر کوئی سزا دی۔
اس بد دیانتی کی ایک بڑی مثال تو اس وقت دیکھنے میں آئی جو ایسے لوگ اپنے پاس کسی بھی جائداد سے انکاری ہیں چونکہ وہ اس دولت کو غیر قانونی زرائع استعمال کر کے لے گئے اور ا ن کی اولادیں غیر ممالک میں بڑی بڑی جائدادوں کی مالک ہیں۔ انہوں نے اپنے اثاثوں کو دوسرے ناموں پر منتقل کر دیا، چلیں کچھ دیر کے لئے یقین کر لیتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں لیکن ان کی اولادیں اور خاندان حیرت انگیز طور پر اتنی بڑی بڑی جائدادوں کی مالک کس طرح بن گئی ۔

دوسری سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس کرپشن کی نشاندہی کرنے والے لوگ ہیں جو لوٹ مار پر کاروائی کرنے کے نعرے عوام کے بڑے بڑے جلسوں میں تواتر سے لگا کر ان کے جزبات برا نگیختہ کرتے ہیں خود اپنے اثاثوں کو ظاہر کرنے میں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں ۔ حلفیہ اقرارنامے میں غلط بیانی کرنے کا کلچر بھی عام ہے جس پر کوئی شرمندگی بھی نہیں ہوتی ، حلف میں غلط بیانی غداری کے زمرے میں آتی ہے جس پر سزا دی جانی چاہئیے ۔

جب صورتحال اس نہج پر آ جائے اور پورا معاشرہ اس آلودگی کی لپیٹ میں آجاتا ہے ،یہی ا س ملک کی بدقسمتی بھی ہے اور یہ الیٹ کلاس جس کا حصہ سیاست دان ، بروکریٹں ، فوجی اسٹیبلشمنٹ ، انٹیلیجینں کے عہدیداران ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ، جج ، وکلاء صحافی اور کھلاڑی حضرات تمام لوگ اس آلودگی کو چھپانے کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ قوم کے غیض و غضب سے محفوظ رہیں ۔

جو لوگ اس ملک کے محبت رکھتے ہیں اور معاشرے کی خوبیوں اور خرابیوں پر بے لاگ تبصرے اور اپنی آراء کا بے لاگ اظہار کر کے قوم کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں ، سب سے پہلے انہیں چاہئیے کہ اپنے اثاثے اور گوشوارے قوم کے سامنے ظاہر کریں جس سے انکے قول و فعل کا تعین کیا جا سکے ۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو چور اور لٹیرے کہنے والے خود بھی انہیں جرائم کے مرتکب بھی پائے جاتے ہیں
جس سے قوم میں انکا اعتماد مجروح ہوا ہے اس لئے اس ملک سے محب کرنے والے سیاسی لیڈر ، بیوروکریٹس ، سیاست دان ، فوجی اسٹیبلشمنٹ ، انٹیلیجینں کے عہدیداران ،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ، جج ، وکلاء صحافی اور کھلاڑی حضرات قوم کے سامنے اپنی آمدنیوں اور اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کر کے اپنی حب الوطنی کا ثبوت دیں تا کہ اس ملک میں صفائی کا عمل شروع ہو۔ ملکی بہتری اور بقا کے لئے بلا تاخیر اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سے قوم صحیح نمائندوں کا انتخاب کر سکے گی جو اس ملک کے حقیقی وارث بھی ہونگے نوسرباز اور غلط بیانی کرنے والے خودبخود اس اقتدار، عہدوں کی رسہ کشی سے دستبردار ہو جائیں گے، قوم کو بھی ان کے شر سے محفوظ ہو جائے گی۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82153 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More