پولیس والوں کی عید

ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے پولیس والے لوگوں کی نفرت اور تضحیک کا نشانہ بنتے آئے ہیں چاہے اس کی وجہ کچھ بھی رہی ہو۔ اس میں کچھ پولیس والوں کا اپنا کردار بھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ان سے نفرت کرنے پہ مجبور ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان میں زیادہ تر لوگ اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن ایک کہاوت ہے کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کرتی ہے ۔ سو پولیس میں موجود ایسے گندے لوگوں کی وجہ سے تمام پولیس فورس پر سے تمام لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے اور لوگ ان کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کو طرح طرح کے القابات سے نوازتے ہیں۔ لیکن ہمیں عوام کو ہمیشہ دونوں پہلوئوں پہ نظر رکھنی چاہئیے ۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ ہر جگہ پہ اچھے اور برے انسان موجود ہوتے ہیں۔ تو اسی طرح پولیس میں جولوگ اچھے ہیں اور اپنی ڈیوٹی پوری ایمانداری سے سرانجام دیتے ہیں ہمیں ان کو اور ان کے کام کو سراہنا چاہئیے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئیے۔

چاہے سردی ہو، گرمی ہو، بارش ہو، طوفان ہو یا پھر جیسے بھی موسمی و ملکی حالات ہوں ہمیں یہ پولیس والے اپنی ڈیوٹی پہ نظر آئیں گے۔ اس طرح عید کا تہوار آتا ہے اور اس موقعہ پہ لوگ دوسرے ملکوں سے اپنے گھر والوں کے ساتھ عید کرنے واپس اپنے گھروں میں آجاتے ہیں تاکہ اپنے خاندان کے ساتھ ان خوشی کے لمحات کو شیئر کرسکیں ۔ لیکن اس خوشی کے تہوار پہ بھی پولیس والوں کو اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنا نصیب نہیں ہوتا ۔ یہ پہلے آپ کو عید گاہوں کے باہر لوگوں کی سیکیورٹی پہ مامور نظر آئیں گے تاکہ کہیں کوئی ناخوشگوار واقع رونما نہ ہوجائے اور لوگوں کے جان و مال کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کو دائو پہ لگاتے ہیں ۔ اور عید کی نماز کے بعد یہ لوگ آپ کو سڑکوں پہ گشت کرتے ہوئے نظر آئیں گے تاکہ جرائم پیشہ عناصر کو کوئی کاروائی کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ اور پھر جب ان کی ڈیوٹی ختم ہوتی ہے تو عید بھی ختم ہوچکی ہوتی ہے۔ اور یہ بے چارے اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ چل یار کوئی نئیں اگلے سال پھر عید آجائے گی۔

میں تمام پولیس والوں کو سیلیوٹ پیش کرتا ہوں۔

پولیس والوں کی عید کے متعلق ایک ایس ایم ایس ملا تھا دوست کی طرف سے ۔

کہتا تھا مجھ کو پولیس میں ‌بھرتی نہ کروا ماں
اب میرے بغیر کیسے عید مناؤں گی ماں
سب کے بیٹے جب آئیں گے عید پڑھ کے
تم دروازے میں‌ کھڑی تکتی رہ جاؤ گی ماں
سویاں جب بانٹنے لگو گی محلے میں
تمہاری پلک آنسوؤں سے بھیگ جائے گی ماں
شام تک بھی جب نہ پہنچ پائوں گا گھر
تیرے دل کی دھڑکن جیسے رک سی جائے گی ماں
عید پڑھ کے جب واپس آؤں گا ڈیوٹی پہ
تسلی یہ دل کو دے کہ سو جاؤں گا ماں
عید کا کیا ہے اگلے سال پھر آجائے گی ماں
Adnan Shahid
About the Author: Adnan Shahid Read More Articles by Adnan Shahid: 14 Articles with 19054 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.