ہم زبان کی دنیا میں رہتے ہیں اور اپنی
تمام تر ضروریات ، جذبات، احساسات اور اپنے خیالات ، تجربات، مشاہدات،
افکار، عمل اور ردِ عمل کا اظہار دیگر ذرائع کے مقابلے میں زبان کے ذریعے
بڑی معنویت، آسانی اور شائستگی سے کرتے ہیں۔ زبان قدرت کی طرف سے انسان کو
دیا گیا ایک لاثانی تحفہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنی ذات سے کائنات تک کی
افہام و تفہیم کرسکتاہے بلکہ کرتاہے۔ گویا زبان کا عمل دخل اور تعامل ہماری
زندگی کے ہر ایک گوشے سے تعلق رکھتاہے۔ ہماری ذات، روایات، تہذیب ، افکار
یہاں تک کہ ہمارے خواب، رابطے اور ضابطے ، سب کے سب زبان کے ذریعے ہی اظہار
کے حیطے میں آتے ہیں۔ حالانکہ بعض اوقات ایک لمحے کی خاموشی ہزاروں جملوں
پر غالب ہوجاتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ خاموشی ہمیشہ اظہار کا ساتھ نہیں دے
سکتی۔ اسی طریقے سے اعضائے جسم کے حرکات اور اشارے بھی محدود و مخصوص معنی
و صورتِ حال میں ہی ترسیلی معاونت کرپاتے ہیں۔گویا خاموشی یا اشارے خواہ
کسی بھی حد تک معنی خیز کیوں نہ ہوں لیکن ان کے بین اظہار کا ذریعہ زبان ہی
بنتی ہے، خواہ وہ تحریری ہو یا تقریری۔
زبان کی اہمیت اور تعامل کو خیال اور تصور اور زبان کے تقابل سے بھی سمجھا
جاسکتاہے۔ مثلاً ایک لمحے میں صدیوں کا سفر تصور و تخئیل ، شعور کی
رویاتلازمۂ خیال کے ذریعے ممکن ہے مگر اس کا اظہار زبان کے وسیلے سے ہی
ممکن ہے۔ گویا زبان ہمارے خارجی اعمال کے ساتھ ساتھ داخلی افکار کی ترسیل
کا ذریعہ تو ہے ہی علاوہ ازیں یہ علوم ظاہری و باطنی کی محافظ بھی ہے۔ اس
کے استعمال سے ایک فرد اپنے علم و فضل کو نہ صرف یہ کہ دوسرے افراد تک
منتقل کرتاہے بلکہ ایک نسل اپنے تمام تر علمی، تہذیبی ، سماجی، تاریخی ،
معاشی، ادبی اور غیر ادبی معاملات کو دوسری نسل کے لیے محفوظ بھی کرتی ہے۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ زبان ہمیں حیوان سے انسان بناتی ہے۔
زبان کی تعریف، جہات و نوعیات اور اس کے تفاعل و تعامل پر مختلف ماہرین اور
مکاتبِ فکر نے مختلف طریقوں سے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ سپائر کے مطابق
‘‘زبان ایک خالصتاًانسانی ترسیل کا آخذی /اختراعی طریقۂ کار ہے’’َ۔
(1921:8)- چامسکی نے زبان کو متکلم کی اساسی/خلقی صلاحیت سے تعبیر کیا ہے
جس کا استعمال متکلم یا بولنے والا ایک مخصوص قواعدی نظام کے دائرے میں
کرتاہے’’ (1957:13)-جان لائنس نے ہال کے Essay on language (1968) سے یہ
تعریف نقل کی ہے کہ ‘‘زبان ایک نظام ہے جس کے ذریعے انسان عادتاً آخذی یا
اختراعی، زبانی (Oral) علامتوں کا استعمال ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کرنے
یا ترسیل کے لیے کرتاہے’’۔ (2007:4)- ہنری سویٹ کے خیال میں زبان افکار کو
ظاہر کرنے کا تکلمی ذریعہ ہے۔ ماہرینِ عمرانیات نے زبان کو تہذیبی بیوہار
کہا ہے اور ماہرینِ سماجیات اسے سماج میں رہنے والوں کے درمیان ربط و
ارتباط کا وسیلہ تسلیم کرتے ہوئے سماجی مظہر تصور کیا ہے۔ فلسفیوں نے زبان
کو انسانی تجربات کا ترجمان ثابت کیا ،تو شعراء و ادباء اسے ایک فنّی حوالے
کے طورپر دیکھتے ہیں۔ زبان کے اساتذہ نے اسے صلاحیتوں کا تنظیم کا ر قرار
دیا ہے۔ زبان کو خود اختیاری وصف بھی کہا گیا ہے۔ خود اختیاریت پسندوں کا
کہنا ہے کہ لفظ (مجموعۂ اصوات)اورمعنی میں منطقی ربط نہیں ہوتا ورنہ کیا
وجہہ ہے کہ ایک چوپائے کو انگریزی میں ‘‘ڈاگ’’، کشمیری میں ‘‘ہوٗن’’ ،کنڑ
میں ‘‘نِئی’’،ملیالی میں ‘‘نایا’’، تمل میں "نائی " فرانسیسی میں ‘‘چی این’’
عربی میں ‘‘کلب’’ فارسی میں" سگ" اور سنسکرت میں ‘‘ککرّ’’کہتے ہیں۔ اور یہی
ککر عاریت کے بعد بنگالی میں " کُکَر" بھو جپوری میں "کوٗ کُر " اسامی میں
"کُکَر" اڑیہ میں" کُکُرَ" گجراتی میں" کُتروٗ "پنجابی میں ‘‘کوٗکَر’’
مراٹھی میں ‘‘کُترا" اور ہندی/ اردو میں ‘‘ کتّا ’’ کہلاتاہے۔
دراصل زبان ایک پیچیدہ ہمہ گیراور بتدریج تغیر پذیر مظہر ہے جو ظاہری اور
مخفی علوم سے منسلک ہو کر اپنا روپ بدلتی اور رنگ دکھاتی رہتی ہے۔ لہذا محض
یہ کہہ دینے سے زبان کی تہیں نہیں کھلتیں کہ یہ ترسیل و ابلاغ کا موثر ترین
ذریعہ اور بیوہار ہے جو انسانی صلاحیتوں کا بخوبی اظہار کرتی ہے بلکہ زبان
اس سے سوا بھی بہت کچھ ہے۔ زبان کی مختلف تعریفات کی روشنی میں یقیناً اس
کے بیشترا وصاف کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے لیکن اس کے طرۂ پُرپیچ کا
اندازہ لگانا ہنوز دشوار ہے ۔ سرِ دست یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ زبان محض
ترسیل و ابلاغ کا موثر ترین ذریعہ یا بیوہار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم
یہ کہتے ہیں کہ: " یا اللہ دنیا میں امن قا یم کر دے" اس جملے سے قلبِ
ماہیت تو ہو سکتی ہے لیکن بات کی ترسیل نہیں ہوئی کیوں کہ ترسیل کے لیے دو
افراد کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے جب ہم مرہومین کو مخاطب کرتے
ہیں تو ہم صرف اپنی بات کہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ہمارا مخاطب غایب ہے لہذا
نہ تو وہ ہماری بات سنتا ہے اور نہ ہی جواب دیتا ہے اس لیے ہماری بات کی
ترسیل نہیں ہوئی۔ گویا ثابت یہ ہوا کہ زبان صرف ترسیل کا ذریعہ نہیں ہے۔
باوجود اس کے مذکورہ تعریفوں کو بہ تدریج پیش کرتے ہوئے ممکنہ حد تک اس کے
رموز و اسرار کو سمجھنے کی کوشش تو کی ہی جاسکتی ہے۔
جب یہ کہاجاتاہے کہ ہم زبان جانتے ہیں تو اس کے عام معنی یہ ہوتے ہیں کہ
اسے ہم بولتے اور سمجھتے ہیں۔ گو یا ہمارے اندر ایسی صلاحیت موجود ہوتی ہے
کہ ہم ایک خاص ترتیب میں مخصوص آوازوں کو ادا کرکے انہیں بامعنی تصور
کرلیتے ہیں اور ان ترتیب یافتہ آوازوں کے معنی سے اگر سامع یا سامعین بھی
واقف ہوتے ہیں تو گویا کہنے والا جو کہنا چاہتاہے ، سننے والا وہی
سمجھتاہے۔ سواس کے معنی یہ ہوئے کہ ان ترتیب یافتہ آوازوں کے ایک ہی نوع
کے معنی سے متکلم اور سامع ، دونوں کا واقف ہونالازمی ہے۔ اس نقطۂ نظرسے
دیکھا جائے توزبان ایک سماجی مظہر قرار پاتی ہے علاوہ ازیں زبان کو تقلیدی
عمل تصور کرنے والوں کا خیال بھی یوں قابل توجہ ہوجاتاہے کہ ایک پنج سالہ
بچہ اپنے والدین اور معاشر کی باتوں کو نہ صرف یہ کہ سمجھنے لگتا ہے بلکہ
اسی زبان میں اپنا ردِ عمل بھی ظاہر کرنے کے لائق ہوجاتاہے۔ یعنی وہ زبان
جانتاہے۔
اصل میں بنیادی زبان کو جاننا اور زبان کی بنیاد کو جاننا دو الگ الگ
معاملات ہیں۔ بنیادی طورپر زبان جاننے کا مطلب یہ ہوتاہے کہ ہم جانیں کہ
کون سی آوازیں اس زبان میں ہیں اور بامعنی یابے معنی ہیں لیکن یہ جاننا
قطعی ضروری نہیں کہ کون سی آوازیں اس زبان میں نہیں ہیں۔ آوازوں اور ان
کی طرزِ تشکیل کے متعلق جاننا زبان سے واقفیت کا پہلا مرحلہ ہے جس کے تحت
ہم یہ جاننے لگتے ہیں کہ کسی مخصوص آواز کی ترتیب کس طرح معنی سے انطباق
والحاق کاتصورپیدا کرتی ہے۔مثلاً ہم جانتے ہیں کہ لفظ ‘‘لڑکا’’، ‘‘لڑکی’’
سے مختلف ہے گویا ہم مخصوص آوازوں کی مخصوص ترتیب اورمعنی کے باہمی رشتے
سے واقف ہیں۔ لیکن ایک عام فرد یا متکلم کی حیثیت سے ہمیں یہ نہیں معلوم
ہوتا کہ مذکورہ الفاظ میں ‘‘لڑک’’ مشترک خوشہ ہے اور ‘‘ آ ’’ اور ‘‘ی’’
متجانس، ساتھ ہی ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ یہاں ‘‘ آ ’’ اور ‘‘ی’’ دو ایسے
ذیلی صرفیے (allomorphs)ہیں جو ‘‘لڑک’’ کو جنس سے منسلک کردیتے ہیں۔ یعنی
‘‘ آ ’’ مذکر اور ‘‘ ی’’ مونث کی صوتی علامتیں ہیں۔ اسی طرح اگر ‘‘لڑک ’’
میں لاحقہ ‘‘پن’’ جوڑدیا جائے تو‘‘ لڑکپن’’صفت بن جاتی ہے ۔ اب اصوات یا
آوازوں کی ترتیب کو الٹ کردیکھئے تو ‘‘کڑل’’ ، ‘‘ ڑکل’’، ‘‘ ڑ لک’’ جیسی
آوازیں برآمد ہوں گی جو ظاہر ہے کہ ہمارے لیے بے معنی ہیں۔ عین ممکن ہے
کہ دوسرے الفاظ کے حروف یا ان کی صوتی ترتیب میں تبدیلی کے بعد بھی کوئی
دوسرا بامعنی لفظ بن جائے۔ مثال کے طورپر اب، کب، جب، رب وغیرہ کی ترتیب
بدلیے تو با، بک، بج اور بر جیسے آزاد و پابند صوتیے برآمد ہوں گے جو
بامعنی ہیں لیکن سرِدست، ‘‘ دو’’ یا ‘‘ ذو’’ کی ترتیب کو بدل کردیکھئے تو
سہی کون سا بامعنی لفظ بنتاہے۔ اسی طریقے سے جب ہم لفظ ‘‘لفظ’’ کے حروف
/اصوات کی ترتیب کو بدلیں گے تو ‘‘ظفل’’، ‘‘ظلف’’، ‘‘لظف’’، "فلظ" یا ‘‘
فظل ’’ جیسے آوازوں کے مجموعے برآمد ہوں گے۔ ان میں صرف آخری صوتی ترتیب
یعنی " فظل"، لفظ"فضل" کے مماثل ہے، باوجود اس کے بے معنی ہے کیوں کہ
تلفیظی نوعیات کے لحاظ سے دونوں الفاظ میں ‘‘ف’’ اور ‘‘ل’’ مشترک حروف
یاصوتی علامتیں ہیں اب مسئلہ ‘‘ظ’’ اور ‘‘ض’’کا ہے۔ یہ دونوں مصمتی صوتیے
دراز دار (Stricturess) ہونے کے باوجود ‘‘ظ’’ حنکی (Palatal) ہے جب کہ
‘‘ض’’ لث حنکی (Palato alviolar) ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ افضل ، فاضل,
تفضل ,افضال ,فضیل ، فضائل، تفضیل اور فضیلت ‘‘فضل’’سےمشتق الفاظ ہیں نہ
کہ‘‘فظل’’سےاسی طریقے سےحَسَن،حُسین ، حسین، حُسن،احسن، محسن تحسین، احسان،
محسنین، تحسینات ، احسانات، حسنین، حسّان، حَسَنہ، حسنات، محسنہ، حُسنہ،
تحسینی،تحسنیت، احسنیت، حسینی، حسنیت، حسّانیت وغیرہ کا مادہ حَسَنَ ہے نہ
کہ حَصَنَ تو ثابت یہ ہوا کہ ل ف اور ظ کی مخصوص ترتیب سے "لفظ" کی تشکیل
ہوئی ۔ اور ان کی ترتیب بدلنے کے بعد بے معنی آوازیں ہی برآمد ہو سکتی
ہیں۔ گویا ہر ایک صوتیہ نہ صرف یہ کہ ایک مخصوص ترتیب کے ساتھ مخصوص لفظ کی
تشکیل کرنے میں معاون ہوتاہے بلکہ صرفی اور معنیاتی نقطۂ نظر سے اپنا
ممتاز شناخت نامہ بھی رکھتا ہے۔ یعنی اپنے جداگانہ وجود کی بنیاد پر ہر ایک
صوتیہ صوتی مماثلث کے باوجود لفظ کے معنی میں امتیاز پیدا کرنے کی قوت
رکھتاہے بہ الفاظ دیگر صرفی تشکیل میں صوتیوں اورلفظی تشکیل میں صرفیوں کا
مقام متعین ہوتاہے۔ لفظ کے معنوی امتیاز کا تعلق صرف اصوات کی مخصوص ترتیب
سے ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات ایک ہی زبان کے الفاظ سماجی، جغرافیائی،
تہذیبی ، سیاقی اور زمانی تغیر و تبدّل کے ساتھ اپنے معنی تبدیل کرتے رہتے
ہیں۔ مثلاً حرام خور کا متضاد حلال خور ہے یعنی جو شخص حلال کی روزی اور
روٹی کھائے وہ حلال خورہے لیکن اس لفظ کے سماجی معنوی تعمل کو ملحوظ رکھتے
ہوئے بھنگیوں کے علاوہ کسی کو حلا ل خور کہیں گے تو وہ بُرا مان جائے گا۔
گویا بعض اوقات لفظ کے لغوی معنی کے مقابلے میں سماجی معنی زیادہ اہمیت
اختیار کرلیتے ہیں یعنی زبان جاننے کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ہم لفظ کے زمانی،
سماجی، تہذیبی یا سیاقی معنوی تغیر کا علم رکھیں کیوں کہ لفظ زمانی ،
مکانی، یا سماجی تغیر کے ساتھ نئے معنوی قالب اختیار کرجاتے ہیں۔ مثلاً لفظ
،" بائی" ماضی قریب میں ممتاز عورتوں کا لقب ہوا کرتاتھا۔ جیسے میرا بائی،
رانی لکچھمی بائی وغیرہ لیکن اس کے بعد یہ لفظ رقاصاؤں ، گلوکاراؤں اور
طوائفوں کے لیے استعمال ہونے لگا اور فی الحال نوکرانیوں کے لیے استعمال
ہورہا ہے۔
بعض اوقات لفظ اپنے مرکزی معنی کے بجائے مقامی ، علاقائی، عصری ، سیاسی،
صحافتی اور مذہبی موضوعات سے متصل ہوکر اپنے کلیدی معنی کے برعکس استعمال
ہونے لگے ہیں۔ جیسے مولانا، مولوی ، استاد، علامہ، نیتاجی، بوا ،صلوٰۃ، لن
ترانی، جہاد، جہادی، طالبان وغیرہ بڑی حد تک اپنے معنوی تقدس کی پامالی کے
شکار ہوچکے الفاظ ہیں۔ مثلاً صلوٰ ۃ کے معنی رحمت اور درود کے ہیں یہی وجہہ
ہے کہ قرآن کی پہلی سورۃ کو صلوٰۃ بھی کہتے ہیں۔ لیکن مستوراتی زبان میں
اس کا استعمال بھلا برایا کھری کھوٹی سنانے کے معنی میں ہے۔ یہی حال لن
ترانی کا ہے۔ یہ کلمہ اللہ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خطاب کے
لیے اس وقت استعمال ہواتھا جب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے دیدار کی خواہش
ظاہر کی تھی یعنی رب ارنی کہا تھا، لیکن اس کے عصری معنی شیخی بگھارنے،
ڈینگ ہانکنے یا الہ آباد یوں کی زبان میں کہیں تو ،بکیتی کرنے کے ہو چکے
ہیں۔ اسی طریقے سے لفظ " جہاد"کا اصل معنی برائی، بدکاری اور نفسِ امارہ کے
خلاف عمل بلکہ جنگ ہے۔ تمام انبیاء، رُسُل اور صحابہ کرام جہاد کرتے تھے
یعنی بدی اور ناانصافی کے خلاف جنگ کرتے تھے گویا جہادی تھے لیکن عصر حاضر
میں صحافتی جہل اور سیاسی ستم ظریفی کا شکار ہو کر یہ اچھا خاصا لفظ دہشت
پسندی/آتنک واد کے معنی میں مستعمل ہوچکا ہے۔ یہی صورت حال طالبان، ہذب
اللہ اور القاعدہ وغیرہ کا ہے یہ سبھی الفاظ اپنے لغوی معنی کے بجائے اس کے
بر عکس یا متضاد معنی میں رائج کیے جاچکے ہیں۔ اسی طرز کی تبدیلی کو معنوی
تنزل سے منسوب کیا جاتاہے۔ بعض اوقات لفظ اپنے اصل یا لغوی معنی کے بجائے
زبان کی تہذیب کی خاطر میں آکر کلچرل معنی میں مقبول ہوجاتے ہیں۔
بقول مشتاق یوسفی
‘‘ہمارے یہاں اندھے کو اندھا نہیں بلکہ حافظ جی کہتے ہیں’’۔
بہ الفاظ دیگر اردو میں گنوار کو چودہری، بھنگی کو حلال خوراور جمعدار یا
پہلوان، نائی کو ٹھاکر، جاہل کو معصوم، بے وقوف کو خوش فہم اورمنحوس کو سبز
قدم کہتے ہیں۔ بعض اوقات ایک علاقے میں ایک لفظ تعظیمی معنی رکھتا ہے لیکن
دوسرے علاقے میں تضحیکی بن جاتاہے۔ مثلاً لفظ ‘‘بھٔیا ’’ بہار ، مشرقی
اترپردیش اور مدھیہ پردیش کے کچھ علاقوں میں بھائی کے مقابلے میں زیادہ
مانوس اور تعظیمی لفظ ہے لیکن مغربی اترپردیش اور دہلی وغیرہ میں رکشاوالوں
یا پنساریوں کے لیے عام استعمال میں ہے اور پنجاب اور مہاراشٹر میں
توتضحیکی تخاطب کی علامت بن چکا ہے۔ گویا زبان جاننے کا مطلب یہ بھی ہوا کہ
ہم لفظ کے متغیر معنی سے واقفیت کے ساتھ ساتھ اس کے بنیادی یا کلیدی معنی
نیز اس زبان کی تہذیب سے بھی آگاہ ہوں۔
زبان جاننے کا ایک مطلب یہ بھی ہوتاہے کہ مناسب لفظوں کا مناسب بلکہ منطقی
استعمال کیا جائے جس کے لیے محاوروں، روزمروں اور مفرد الفاظ کی ترکیبی
ساخت اور دو لفظ کے مناسب ربط و اتصال پر بھی نظر ہو۔ یہاں پر چند بالکل
سامنے کے الفاظ پر گفتگو کرنا اس لیے مناسب معلوم ہورہا ہے کہ عصری تحریروں
میں ناواقفین سے لے کر ماہرین تک کے یہاں بے ضابطگی پائی جانے لگی ہے۔ کسی
نے لکھا ہے کہ ‘‘گاڑی مسافروں سے لبالب بھری ہوئی تھی’’۔ کسی نے رقم کیا ہے
کہ‘‘ جانوروں کا قافلہ چل پڑا تھا’’۔ اس ضمن میں یہ وضاحت بھی کردی جائے کہ
اس نوع کے جملے علامتی یا تجریدی یا طنزیہ انداز میں نہیں استعمال ہوئے
ہیں، بلکہ بیانیہ کے تحت لکھے گیے ہیں۔ لہذا زبان جاننے کے معنی یہ بھی
ہونا چاہیے کہ بھینس کے بچے کو کٹّا، کٹڑا یا کٹڑی کہتے ہیں اور سانپ کا
بچہ سپولا کہلاتاہے۔ الّو کا پٹّھا ہوتاہے اور مرغی کا چوزہ، اسی طریقے سے
گاڑی مسافروں سے کھچا کچ بھر سکتی ہے لبالب نہیں اور حوض پانی سے لبالب بھر
سکتاہے کھچا کھچ نہیں عین اسی طرح پر یہ کہنا مناسب ہوگا کہ، جانوروں کا
جھنڈ چل پڑا نہ کہ قافلہ چل پڑا۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے اپنے ایک
مضمون‘‘لفظ ومعنی’’ میں اس نقطۂ نظر سے بڑی کار آمد گفتگو کی ہے۔ کیفیؔ
نے لفظ کے مناسب استعمال کی فہرستیں بنائی ہیں جن میں سے چند ایک کو نقل
کرنا سود مند ہوگا۔ سردست غیر جانداروں اور جانداروں کے مجموعے کے لیے
مقررہ مناسب ترین اسم ِ جمع کی فہرست سے چند الفاظ درج کیے جارہے رہیں
بعدازاں جانوروں کی آوازیں اور قیام گاہیں، بالترتیب درج کی گئی ہیں۔ یہ
ضرورت اس لیے در پیش آئی کہ بول چال بلکہ عصری ادب میں بھی اس نوع کی
تراکیب کانہایت غیر فصیح بلکہ غلط استعمال اکثر دیکھنے کو مل جاتاہے۔
طلباء کی جماعت---- پرندوں کا جھنڈ----- فوج کا لشکر
رندوں کا حلقہ------ اناروں کی کنج------ روٹیوں کی تھئی
صوفیا کا دائرہ----- آواروں کی ٹولی----- پانوں کی ڈھولی
انسانوں کا ہجوم------ سواروں کا دستہ----- پھولوں کا گُل دستہ
بھیڑ بکریوں کا ریوڑ، ------ گلّا------ ٹِڈیوں کا دل فوجیوں کا دستہ
گایوں کا جونا------ انگور کا گچھّا------ درختوں کا جنگل
ستاروں کا جھرمٹ------ کیلوں کی گہل------ اناج کا غلّہ
جہازوں کا بیڑا------ ریشم کا لچھّا------ دولت کا انبار
کبوتروں کی تکڑی------ مزدوروں کا جتھّا------ بھانڈوں کی منڈلی ، وغیرہم
شیر دہاڑ تاہے۔------ گھوڑا ہنہناتاہے۔------ گدھا ہینچوں ہینچوں یا ڈھینچو
ڈھینچو کرتاہے۔
ہاتھی چنگھاڑتاہے۔------ کتا بھونکتاہے۔------ بِلّی میاؤں کرتی ہے۔
اونٹ بلبلاتاہے۔------ بکری ممیاتی ہے۔------ کوئل کوکتی ہے۔
کوا کائیں کائیں کرتاہے۔------ کبوتر غٹرغوں کرتاہے۔------ مکھّی بھنبھناتی
ہے۔
اُلو ہوکتاہے۔------ مور جھنکارتاہے۔------ توتا ٹائیں ٹائیں تارٹ لگاتاہے۔
اونٹ بغبغاتاہے (مستی میں)------ سانپ پھنکارتاہے۔------ مینڈک ٹّراتاہے۔
بندر گھگھیاتا ہے۔------ مرغا بانگ دیتاہے۔------ سانڈڈکار تاہے۔
مرغی کُڑ کُڑاتی ہے۔------ مرغا ککڑو کوں کرتاہے۔------ جھینگر جنگارتاہے۔
چڑیاں چوں چوں کرتی ہیں۔
اسی طریقے سے اشیأ، جانوروں کی آواز اور ان کو ٹھہرانے کی جگہ اور
انسانوں کی قیام گاہوں کے لیے الفاظ مخصوص ہیں۔ مثلاً
بادل کی گرج------ بجلی کی کڑک------ ہوا کی سنسنا ہٹ
گھوڑے کی ٹاپ------ سکے کی کھنک------ طبلے کی تھاپ
گنبد کی گونج------ گھڑیال کی ٹن ٹن------ بوندوں کی ٹپ ٹپ
کنگن کی کھن کھن------ چوڑیوں کی کھن کھن------ جھانجھر کی جھنکار
بادشاہ کا محل------ بیگموں کا حرم------ فوج کی بارگ
صوفی کا حجرا------ فقیر کا تکیہ------ سادھو کی کُٹیا
غریب کا جھونپڑا------ بھڑوں کا چھتا------ لومڑی یا گیدڑ کا بھٹ
چوہے کا بل ------ سانپ کی بانبی------ فوج کی چھاونی
گھوڑے کا اصطبل------ شیر کی کچھار------ رشی کا آشرم
توپ کی دنادن------ تنبور کی آس------ پائل کی چھن چھن
شرفاء کا گھر------ پرندوں کا گھونسلا------ مویشی کا کھڑک یا سار
(97۔194:1971(
الفاظ کے معنوی معیار و اقدار کے بعد اگر جملے کی سطح پر دیکھا جائے تو
زبان جاننے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم لفظوں کو ایک خاص ترتیب میں استعمال کرکے
فقرے اور جملے تشکیل کرتے ہیں۔ اس نوع کی صرفی اور نحوی تشکیل ہماری روز
مرہ کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ ادبی، فنی اور موضوعاتی ضروریات سے تعلق رکھتی
ہے۔ زبان کے عام استعمال کے لیے ہمیں کسی لغت یا دائرۃ المعارف کی ضرورت
نہیں پڑتی بلکہ ہم اپنی ضرورت اور صورتِ احوال کے لحاظ سے جملے تشکیل اور
اداکرتے ہیں۔ ان جملوں بلکہ جملوں میں استعمال ہونے والےالفاظ بعض اوقات ہم
روایتی معنی میں استعمال کرتے ہیں اور بعض اوقات بالکل اچھوتے اور اجنبی
معنی میں ۔ چامسکی نے زبان کے اس نوع کے استعمال کی صلاحیت کو تخلیقی جہت
سے تعبیر کیا ہے۔ زبان کے اس نوع کے استعمال کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ ہم
مقبول لسانی کلیثے کو مسمار ہی کریں بلکہ اس کا پابند رہتے ہوئے بھی تجدیدی
روّیہ اختیار کیا جاسکتاہے۔ اس سطح پر آکر زبان کی ہئیت و ساخت کے ساتھ
ساتھ اس کی تہذیب اور سماجیات بھی جڑجاتی ہے۔ مثلاً اردو جملے کی قواعدی
ترتیب فاعل مفعول اور فعل (Subject object and Verb=SOV) سے بنتی ہے جیسے
کہ:"میں کھانا کھاتا ہوں۔" اس جملے میں مَیں فاعل، کھانا مفعول، کھاتا فعل
اور ہوں فعل ربط ہے۔ قواعد کی رو سے یہی جملے کی فصیح صورت ہے لیکن تخلیقی
ضرورت کے تحت اس ترتیب کو بدل کر بہت سے جملے نہ صرف یہ کہ وضع یا ادا کیے
جاسکتے ہیں بلکہ روایتی معنی کے برعکس لہجہ، بل یا زور ، استفہام، استعجاب
اور رموز اوقات کا استعمال کرکے نئے معنی بھی پیدا کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً
/میں کھاتاہوں؟کھانا/،/میں ہوں ! کھانا کھاتا/،/کھانا! میں کھانا
ہوں؟//میں؟ کھانا، کھاتاہوں؟/ اس نوع کے اور بھی بہت سے جملے پیش کیے
جاسکتے ہیں۔ ان جملوں کی معنوی توضیحات ایک مکمل مضمون کی متقاضی ہیں۔
تہذیبی سطح پر زبان کے مناسب وغیرہ مناسب استعمال کو درج ذیل جملوں کی مدد
سے سمجھا جاسکتاہے۔
(i)مَیں آپ کے دولت خانے پر حاضر ہوجاؤں گا لیکن آپ بھی میرے غریب خانے
پر تشریف لائیے گا۔
(ii)مَیں آپ کے غریب خانے پر تشریف لایالیکن آپ میرے دولت خانے پر حاضر
نہیں ہوئے ۔
دوسرے جملے کی ترتیب بدلنے سے یہ اردو تہذیب کے عین برعکس ہو گیا ہے کیوں
کہ اردو کی تہذیبی نزاکت و منکسرمزاجی اس بات کی اجازت نہیں دیتی ہیں کہ ہم
اپنے قیام گاہ کو دولت خانہ اور مخاطب کے مکان کو غریب خانہ کہیں، خود
تشریف لائیں یالے جائیں اور مخاطب کو حاضر ہونے کے لیے کہیں۔ زبان کے
تہذیبی برتاؤ کے علاوہ اس کا تخلیقی نظام و میزان بھی بڑی اہمیت کا حامل
ہوتا ہے۔ اس ضمن میں چامسکی کی ‘‘تخلیقی جہت’’ والی بات کویوں سمجھا
جاسکتاہے کہ قرۃالعین حیدر کے انتقال کے بعد سید محمد اشرف نے ایک افسانہ
نما مضمون لکھا جس میں قرۃ العین حیدر کی تدفین کے بعد وہ دیر تک فاتحہ
پڑھتے رہتے ہیں، تو کیا دیکھتے ہیں کہ دیپالی سرکار، گوتم نیلامبر، اقبال
سنگھ، کارمن، چمپااور سیتامیر چند انی وغیرہ آتے ہیں اور اپنے اپنے طریقے
سے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔ بظاہر اس واقعے پر یقین نہیں ہوتا اور
ہونابھی نہیں چاہیے، کہ یہ سبھی قرۃ العین حیدر کے افسانوی کردار ہیں لیکن
اک ذرا منطقی ہوکر سوچنے پر یہ واقعہ کئی سوال پیدا کرتاہے۔ مثلاً یہ کہ
کیا انسان اس قدر تخلیقی قوت رکھتاہے کہ افسانوی کرداروں کو حقیقی وجود بخش
دے۔ کیا جن کرداروں کو عام انسان نہیں دیکھ پاتا انہیں تخلیق کار دیکھ سکتا
ہے جیسا کہ سید محمد اشرف نے دیکھا ۔ کیا یہ سید محمد اشرف کی تخلیقی قوت
کا نتیجہ ہے کہ قرۃ العین حیدر کے یہ سبھی کردار اپنی افسانوی کائنات سے
نکل کر حقیقت کی دنیا میں آن بیٹھے ہیں۔ ممکنات و ناممکنات کا مسئلہ اپنی
جگہ لیکن اس واقعے کا اظہار کس کے ذریعے ہوا؟ ظاہر ہے زبان کے ذریعے، گویا
زبان جاننے کا مطلب یہ بھی ہو ا کہ جو کچھ کہا اور سنا جاسکتاہے یا بعض
صورتوں میں نہ کہہ سکنے والے معاملات و مسائل کے اصوات ، لفظ و معنی، جملے
اور ان کی نوعیات ، ان کے لسانی، سماجی، تہذیبی ، جغرافیائی، زمانی، مکانی
، سیاسی ، مذہبی ، فلسفیانہ، سیاقی اور ادبی و تخلیقی رموز و نکات سے نہ
صرف واقف ہونا لازم ہوتاہے بلکہ اپنی تخلیقی قوت سے انھیں رنگ و آہنگ، سوز
و ساز، درد و داغ اور جسجو و آرزو کے ساتھ ایک متحرک صورت عطا کرنی ہوتی ہے
۔ یہ ملحوظ رہے کہ علوم اور ان کے تفاعل وتعامل کا رشتہ بنیادی طورپر زبان
سے ہی ہوتاہے لہذا کسی زبان کا بولنے والا اپنے لسانی علم کی بنیاد پر
اصوات و الفاظ، فقروں اور جملوں کو مختلف طرز اور مختلف معنی میں پیش
کرسکتاہے ۔وہ ایک جملے میں صوتی سطح کو بہ تدریج پڑھاکر یا کم کرکے مفہوم
کو بدل سکتاہے، ایک ہی جملے کو لہجے کی بنیاد پر بیانیہ /فجائیہ ،
استفہامیہ /سوالیہ یا حکمیہ /تحمکانہ بنا سکتاہے، اور سید محمد اشرف یا
دوسرے تخلیق کاروں کی طرح اپنی مرضی اور پسند سے ایک اچھوتا کائنا ت تخلیق
کر سکتا ہے۔ یعنی زبان کا جاننا، زبان دانی یالسانی استعداد (Linguistic
Competence) سے متعلق ہے لیکن اس کے مناسب ترین اور فنی استعمال کا تعلق
لسانی کار کردگی (Linguistics Performance) سے ہوتاہے۔ گویا زبان کا جاننا
اور زبان کے متعلق جاننا، دو الگ الگ معاملات ہیں۔ زبان جاننے کے معنی یہ
قطعی نہیں کہ دانشتاً ہم وہ سب کچھ جانتے ہیں جو زبان کے اجزا ہیں۔ یعنی
اصوات کی نوعیات ، مقام ِتلفیظ، ترکیبی صورتیں ، ہئیت و ساخت کے میکانکی
طریق ، لفظ و معنی کی جہات کی وجہیں اور طریقۂ کار و غیرہ۔ لیکن ہم لا
علمی کے باوجود زبان کا بڑی حد تک صحیح استعمال کرتے ہیں اور یہ ٹھیک اسی
طرح ہوتاہے جس طرح ہم درد کو محسوس توکرسکتے ہیں لیکن اس کا علاج ڈاکٹر
کرتاہے۔ یعنی جس طرح ڈاکٹر درد سے افاقہ دلانے کے لیے دوا یا جراحی کرتاہے
اس طریقے سے زبان کی جراحی کا کام ماہر لسانیات کا ہوتاہے۔ گویا عام آدمی
زبان کا استعمال اسی طرح کرتاہے جس طرح وہ توازن کے نظریے کو جانے بغیر
دوڑتا اور کھڑا ہوجاتاہے یا پھر صوتی ارتعاش کی تھیوری سے لاعلم ہونے کے
باوجود بولتا، چیختا ، اور روتاہے۔ رفتار اور کشش کے طبعی اصول یا موٹر کے
داخلی میکانکی عمل سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی موٹر گاڑی چلا تاہے۔
حوالہ جات
Sapir, E, 1921, “Language”, New York, Harcourt Brace, P.8.
Chomsky, N. 1957, “Syntactic Structures’’, the Hague: Mounton; P. 13.
Lyouns, John, 2007, “Language and linguistics: an Introduction”, UK,
Combridge.P.4.
دلوی، عبدالستار (مرتبہ) 1971، ‘‘اردو میں لسانیاتی تحقیق’’ بمبئی، کوکل
اینڈ کمپنی ص 97۔194.
معاون کتب
شہزاد سمبا، 2006 ‘‘جیم سے جملے تک’’ مالیگاؤں: منظر نما پبلشرز
Bloomfield, L (1935), Language, London: Allen & Unwin.
Formklin, Victoria and Rodman, Robert (1988), An Introduction to
Language, New York: Holl, Rinehart and Winston. INC.
Daller Helmut, James Milton, Jeanine Treffers-Daller (2007), Modelling
and Assessing Vocabulary Knowledge, UK: Cambridge University Press.
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
National Testing Service- India,
Centre for Testing and Evaluation,
Central Institute of Indian Languages,
Mysore-6
[email protected] |