فکرِ اقبال ۔۔۔ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

ہر قوم میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں، ایسے رہنما ہوتے ہیں جن پر بجا طور پر قومیں فخر کرتی ہیں اور اگر یہ رہنما اقبال جیسے شعلہ نواہوں تو کرئہ ارض پر نئی مملکت کا ناقابل یقین معجزہ بھی رونما ہو ہی جاتا ہے۔ پاکستان کا بن جانا اقبال اور قائداعظم جیسے مخلص اور پاکیزہ کردار رہنمائوں کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسکی مثال کم از کم ماضی قریب میں موجود ہی نہیں۔

برصغیر کے مسلمان ہزار سال تک کی حکمرانی کے بعد جس کسمپر سی اور تاریکی میں زندگی گزار رہے تھے اس میں روشنی کی یہی کرنیں تھیں جو ان کی زندگی کا باعث اور ثبوت بنیں خود بقول اقبال۔
ولولہ اک تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاکِ بخارا و سمر قند

1930 کا سال تھا بر صغیر کے مسلمان سا لہاسال سے انگریز اور ہندو کے سامنے بے بس تھے ان کا استحصال جاری تھا مسلمان اِن سارے حالات کے عادی ہو چکے تھے لیکن ایسے میں اقبال نے پاکستان کا تصور دیا جو گویا برصغیر کے مسلمانوں کو ایسے راستے پر لگانا تھا جس کا انجام یقینی منزل تھی ۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی تعین کردہ منزل کے علاوہ کسی دوسرے تیسرے حل کی گنجائش ہی نہ رکھی انہوں نے اپنی قومی غیرت اور خودی کو ہر شے پر مقدم رکھا اور منزل پالی۔ اقبال کا خواب شرمندہ تعبیرہوا قائد کی محنت رنگ لائی اور ایک نئے ملک نے جنم لیا ۔پاکستان آزاد نہیں ہوا تھا بلکہ بنا تھا کیونکہ اس سے پہلے اس نام کا کوئی ملک کرئہ ارض پر موجود نہ تھا ۔ لیکن بدقسمتی سے اس ملک کو بنانے والے، اسکو سنوارنے تک زندہ نہ رہ سکے اور ہم اس ملک کو اُس طرح نہ سنھبال سکے جیسا کہ اس کا حق تھا۔ آج بھی ہم فکر اقبال کا حوالہ دیتے نہیں تھکتے لیکن ہم نے اُسے اپنی قومی زندگی میں وہ جگہ نہ دی جو دی جانی چاہیے تھی۔ ہم نے یہ ضرور کیا کہ اشعارِ اقبال کو اپنی تقریروں کی خوبصورتی کے لیے استعمال کیا اس سے لوگوں میں جوش و خروش پیدا کیا اور پھر محفل اور جلسہ بر خواست کر دیا گیا۔ اقبال کو بس ہم نے اتنا ہی یا د کیا حا لانکہ آج بھی فکرِ اقبال کو قومی غیرت اور خودی کو زندہ کرنے کے لیے استعمال کرنا انتہائی ضروری ہے۔ آج کے پاکستان کو ماضی کے ہندوستان سے زیادہ اسکی ضرورت ہے۔ آج ہم دنیا میں جس مقام پر کھڑے ہیں وہ ہر گز وہ نہیں جس کا خواب اقبال نے دیکھا تھا۔ آج تو ہم اپنی خودی و خود داری کھو چکے ہیں ۔ ہر غیر قوت کے دستِ نگر ہیں امریکہ ہو یا کوئی اورغیر ملکی قوت وہ ہمیں اپنی جا گیر سمجھے ہوئے ہیں بین الاقوامی سطح پر ہمیں اگر کوئی اہمیت دی جارہی ہے تو صرف اِن قوتوں کے مفادات کی حد تک ، چاہے اِن مفادات کی خاطر ہمارے لوگوں کے خون کی ندیاں بہا دی جائیں ۔ معاشی سطح پر ہم اِن قوتوں کے محتاج ہیں، تکنیکی مقابلے میں ہم بہت پیچھے ہیں، تعلیمی پالیسی اور تعلیمی نظام کا ہم اب تک تعین نہیں کر سکے ہیں ایسا اس لیے نہیں ہے کہ ہمارے پاس ٹیلنٹ نہیں ہے، ہے بلکہ سب کچھ ہے لیکن نہیں ہے تو وہ خودی و خوداری نہیں ہے جس نے ایک بے نام قوم کو قوم بنا دیا تھا یا وہ خلوص نہیں ہے جس نے ایک آواز کو وہ طاقت بخشی تھی کہ جس سے زمین ہنداور تاج برطانیہ کانپ اٹھے تھے اور جس کو پکارنے والا زمین پر تھا لیکن اُس کی صدا تھی آسمانوں میں۔ وہ آواز جس نے قوم کے ہر فردِ بشر کو جگا کر رکھ دیا تھا۔ صرف اس لیے کہ وہ مخلص تھا وہ اپنی عزت اور غیرت کا سودا انہیں کرتا تھا اور قوم کو بھی یہی بتاتا تھا۔ لیکن افسوس کہ اقبال کو اپنا قومی شاعر ماننے والے آج عمل سے مکمل طور پر عاری ہو چکے ہیں وہی عمل جسے اُس نے جنت اور جہنم کا تعین قرار دیا تھا ۔آج قوم قوم سے زیادہ ایک ہجوم بنتی جا رہی ہے ہر ایک اپنی زندگی بنانے کے چکر میں مبتلائ ہے اور اسی دوڑ میں ملک و ملت کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں آج یوم اقبال پر اقبال کے شعروں سے محافل گرمانے سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم فکر اقبال کو اپنی قومی زندگی میں یوں شامل کریں کہ یہ اب کے، مسلمانان پاکستان کو جگا دیں اور عوام سے لے کر حکومت اور حکومت سے لے کر عوام تک ہر ایک خود کو قومی ترقی کا ذمہ دار سمجھے اور اپنی کوتا ہوں کا خود ادراک کرتے ہوئے اپنا جرم تسلیم کرے اور اسے دوبارہ نہ دہرائے تو پھر ہی اقبال کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا ایک مضبوط اسلامی مملکت کا خواب اور یہ کچھ نا ممکن بھی نہیںکیونکہ بقول اقبال ۔
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 594748 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.