آج آٹھ ذی الحجہ یوم الترویہ ہے
۔حجاج کرام کے قافلے رات سے ہی منی میں پہنچنا شروع ہو گئے تھے اس وقت تما
م حاجی منی میں تاحد نگاہ پھیلی ہوئی خیموں کی دنیا میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں
اور منیٰ میں ہر طرف سے لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک کی صدائیں
گونج رہی ہیں ۔منی میں مختلف کمپنیوں کی طرف سے الگ الگ خیمے لگائے جاتے
ہیں جن میں ادائیگی کے حساب سے سہولیات مہیا کی جاتی ہیں ۔اس میدان میں آکر
انسان سوچتا ہے کہ جب ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اس وقت نہ
کوئی سہولت تھی نہ ذرائع آمد ورفت ،نہ سائے کا انتظام تھا نہ کھانے پینے کا
بندوبست چلچلاتی دھوپ میں ،دہکتے ہوئے صحراؤں میں ،پیدل یا گھوڑوں اور
اونٹوں پر حج کرنا کس قد ر مشکل کام تھا،مگر اللہ ان عظیم ہستیوں پر کروڑوں
دفعہ رحمتیں نازل فرمائیں انہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر تمام مشقتیں برداشت
کیں بلکہ زیادہ پیچھے جانے کی بھی ضرورت نہیں یہی چند برس پیچھے پلٹ کر
دیکھیں تب بھی حج میں کتنی مشکلات ہو تی تھیں ہڈیوں کا گودا پگھلا دینے
والے پیدل راستے ،اعصاب شکن بحری سفر اور نہ جانے کیا کچھ مشکلات ہوتی تھیں
پھر منی ،عرفات اور مزدلفہ کی گرمی اور سختیاں ،رمی جمرات میں رش ،بھگدڑ
اور دم گھٹنے کی وجہ سے ہونے والی اموات کا تصور کر کے ہی انسان کے رونگٹے
کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اب منظر بالکل بدل گیا ہے ۔ہر قسم کی سہولت اور راحت
....اللہ رب العزت خادم الحرمین الشریفین اور ان کے جملہ رفقاءاور کارکنان
کو اپنی شان کے مطابق جزائے خیر عطا فرمائے ۔جس اہتمام کے ساتھ ،جس خلوص
اور تندہی کے ساتھ یہ لوگ حج انتظامات کرتے ہیں انہیں دیکھ کر انسان ورطہ
حیرت میں ڈوب جاتا ہے ۔یہ لوگ اللہ کا انتخاب ہیں اور حسن انتخاب ہیں گاہے
یوں محسو س ہوتا ہے کہ ایسے انتظامات انسان کا بس کا روگ نہیں اور سچ بھی
یہی ہے یہ محض اللہ رب العزت کے فضل وکرم اور اس کی توفیق کا نتیجہ ہے ۔حرمین
شریفین میں جو تعمیرات کی گئیں اور جس سلیقے سے کی گئیں انہیں دیکھ کر
انسان دیکھتا ہے رہ جاتا ہے ....ان تعمیرات میں فن تعمیر کی رعایت بھی کی
گئی اور معیار کا بھی خیال رکھا گیا ....حاجیوں کی راحت کو بھی پیش نظر
رکھا گیا اور مستقبل کو بھی ملحوظ رکھا گیا ....نہ کسی کام میں بے ترتیبی
نظر آتی ہے اور نہ ہی بدانتظامی ....بخل کا شائبہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوتاہ
نظری کاواہمہ ....بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا تصور نہیں ....ان صحرائی علاقوں میں
پانی کا اتنا وافر انتظام کے کبھی کسی جگہ پانی ختم ہونے کی شکایت نہیں ملی
....آب زم زم کے کولر جگہ جگہ سلیقے سے رکھے گئے ہیں اور کبھی ایسا نہیں
ہوا کہ کسی نے کوئی کولر خالی پایاہو ....باتھ روم بھی وافر اور وضو کی
جگہیں بھی بے شمار ....اے سی اور ٹھنڈک کا بھی مستقل بندوبست....صفائی
ستھرائی کا ایسااہتمام کہ مساجد شیشے کی طرح چمکتی دکھائی دیتی ہیں ....صفائی
کے لیے تیار کی گئی جدید مشنری سے بھی استفادہ کیا جاتاہے مگر صفائی کرنے
والے خوش نصیب لوگوں کی وارفتگی اور دلجمعی کو دیکھ کر رشک آتا ہے ....یہ
لوگ اس ذوق وشوق اور پھرتی سے صفائی کرتے ہیں کہ انسان انہیں رک کر دیکھتے
رہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ....امن وامان کا ایسا ماحول کہ نہ کہیں لڑائی
جھگڑا اور نہ دھکم پیل ....نہ شور شرابا اور نہ تو تکا ر ....اتنے بڑے مجمع
کو کنٹرول کرنا اور وہ بھی ایک دو دن نہیں بلکہ کئی کئی دن تک اللہ کی نصرت
کے بغیر ممکن ہی نہیں ....مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں تو پھر بھی چلیں
پورے سال کا معاملہ ہے وہاں کے انتظاما ت پھر بھی سمجھ آتے ہیں لیکن یہاں
منی ،عرفات ،مزدلفہ اور جمرات کے صرف پانچ دنوں کے لیے جس قدر محنت کی جاتی
ہے وہ یقیناکسی عجوبے سے کم نہیں ....کشادہ سڑکیں ....مرتب راستے ....ایک
سلیقے اور ترتیب سے لگائے گئے کیمپ....خیموں اور کیمپوں کی خدمات مہیا کرنے
والوں کی مانیٹرنگ کا بندوبست ....جگہ جگہ بیت الخلاؤں اور پانی کا بندوبست
....فائر بریگیڈ کا کے جگہ جگہ بنے مراکز ....صحت کے مراکز ،ڈسپنسریاں اور
ہسپتال ....شہری دفاع کے مستعد اور فعال اہلکار ....قانون نافذ کرنے والے
اداروں کا بھرپور کنٹرول ....ولی عہد زشہزادہ نایف سے لے کر امیرمکہ شہزاد
ہ خالد الفیصل تک اور رابطہ عالم اسلام ی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عبداللہ بن
عبدالمحسن الترکی سے لے کر وزیر حج تک اور سعودی سفیر عبدالعزیز الغدیر سے
لے کر عام درجے کے کارکنا ن تک ہر کوئی اپنے کام میں جتا ہو ا ہے ....ان
لوگوں کا ایک نعرہ ہے ”حاجیوں کی خدمت ہمارے لیے شرف بھی ہے ....اور امانت
بھی ....بھاری ذمہ داری اور مسوولیت بھی “ان کے کام کرنے کے انداز کو دیکھ
کر لگتا ہے کہ یہ اپنے اس سلوگن پر حرف بحرف پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں
ہمارے پی آئی کی ”باکمال لوگ لاجواب سروس“والا معاملہ یہاں نہیں ہے ....یہ
لوگ اپنی تمام توانائیاں صرف کر کے ہر مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں
آپ رمی جمرات کا معاملہ ہی لے لیجیے ....چند برس پہلے کتنے حادثات ہوتے تھے
لیکن اب انہوں نے تینوں شیطانوں کے گرد اس طرح تہہ در تہہ راستے بنا دئیے ،انہیں
اتنی وسعت دے دی کہ ہر کوئی سہولت سے رمی کر سکتا ہے ....اسی طرح ٹریفک کا
معاملہ بھی یہاں خاصا پیچیدہ تھا لیکن اس کا بھی حل ڈھونڈنے کی مختلف
کوششیں ہوئیں سڑکیں کشادہ کی گئیں ....سرنگیں بنائی گئیں ....فلائی اورز
بنائے گئے ....لیکن جب پھر بھی بات نہ بنی تو ٹرین سروس کا منصوبہ بنا ....یادش
بخیر اس منصوبے پر کام کرنے والے کتنے چینی انجینئرز ابھی تک مشرف بااسلام
بھی ہو چکے ....اس سال یہ ٹرینیں تہتر ہزار حاجیوں کو فی گھنٹہ کے حساب سے
سروس مہیا کریں گی اور چھے گھنٹوں میں پانچ لاکھ حاجی اس ٹرین سروس سے
استفادہ کریں گے .... پاکستان کا ریلوے سسٹم جو انگریز نے بنا کر دیا تھا
سو برسوں بعد بلور صاحب ایسی عبقری ہستیوں اور پاکستانی حکومت کے اہلکاروں
نے اسے تباہی کے دہانے پہنچا دیا ہے جبکہ یہاں ٹرین کا اتنا کامیاب تجربہ
ہونے جارہا ہے ....یہاں یہ بھی یاد رہے کہ منیٰ کے میدان میں بعض حجاج کرام
مکتب کے ذمیہ داران کے رویوں کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے
ہیں کہ شاید یہ سعودی حکومت کی طرف سے ایسا ہے جبکہ حقیقت یہ کہ و ہ
پاکستانی اور سعودی ایجنٹوں کی باہمی ملی بھگت کا خمیازہ ہمارے بعض حجاج کو
بھگتنا پڑتا ہے اس لیے اگر ایسی کوئی صورتحال ہو تو اس کے بارے میں حکومتی
اہلکاروں کو آگاہ کرنا چاہیے کیونکہ یہاں پاکستان کی طرح اندھیر نگری نہیں
بلکہ حاجیوں سے بدسلوک اور خیانت کی پاداش میں ان لوگوں کو جرمانے بلکہ
لائسنس کی منسوخی جیسے نقصان کا بھی سامان کرنا پڑ سکتا ہے بشرطیکہ شکایت
جائز ہو اور اس مناسب طریقے سے صحیح جگہ تک پہنچایا گیا ہے ہو....المختصر
یہ کہ اللہ رب العزت سعودی عرب کے ان تمام حضرات کو اپنی شان کے مطابق
جزائے خیر عطا فرمائیں جو حجاج کرام کی خدمت کو اپنا دینی ،ملی اور شرعی
فریضہ سمجھ کر نبھا رہے ہیں ....یہاں اگر پاکستان میں خدمات سرانجام دینے
والے سعودی بھائیوں،اسلام آباد ایمبیسی اور کراچی واسلام آباد کے قونصلیٹ
کے عملے بالخصوص سعودی سفیر عزت مآب عبدالعزیز الغدیر،صالح المغیری اور بدر
العتیبی کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یقینا ناانصافی ہو گی یہ لوگ جس طرح دن
رات ایک کر کے حجاج کرام کی خدمت کے لیے خود کو وقف کیے رکھتے ہےں اور بڑی
مستعدی اور خندہ پیشانی سے جملہ امور نبھاتے ہیں اس پر اللہ انہیں اپنی شان
کے مطابق جزائے خیر عطا فرمائیں ۔دلچسپ ترین امر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ کے دس
ہزار نوجوانوں نے خود کو رضاکارانہ طورپر حاجیوں کی خدمت کے لیے وقف کر
رکھا ہے ان مستعد اور نوخیز پھرتیلے نوجوانوں کے سینوں پر لکھا جملہ”شباب
مکہ فی خدمتکم “پڑھ کر عجیب خوشی ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ عرب کتنے
ہی زوال وانحطاط کا شکار کیوں نہ ہو جائیں یہ جن ہستیوں کی اولاد ہیں ان کے
اوصاف وکمالات اورمہمان نوازی کی جھلک ان میں باقی رہتی ہے ....اللہ خادم
الحرمین الشریفین سے لے کر ایک عام کارکن تک ان سب لوگوں کی مساعی کو اپنی
بارگاہ میں قبول فرمائیں اور انہیں پوری پاکستانی قوم کی طرف سے جزائے خیر
عطا فرمائیں- |