گذشتہ ہفتے رضا اکیڈمی، ممبئی
اور دیگر سُنّی اِداروں نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ”اذان“ کے نام
کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ جس کے بعد دیگر افراد و اِدارے بھی بیدار ہوئے
اور فلم ”اذان“ کے نام کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ بلکہ ایک چیریٹبل ٹرسٹ نے
فلم کے نام کی تبدیلی کے لیے ممبئی کے سِٹی سِول کورٹ میں درخواست داخل
کردی ہے۔ لیکن اب تک اس کے ردعمل میں فلم کا نام تبدیل نہیں کیا گیا اور
فلم ۴۱ اکتوبر سے ریلیز ہورہی ہے۔
فلمو ں اور ٹی وی پر آئے دن اسی طرح اسلام اور مسلمانوں کی شبیہہ بگاڑنے کی
دانستہ کوششیں کی جاتی ہیں، اور ایسے مناظر دکھائے جاتے ہیں جس سے غیر
مسلموں کے دِلوں میں دین اسلام اور مسلمانوں کی منفی تصویر سامنے آئے۔
فلموں میں اکثر غنڈے، بدمعاش، موالی، اسمگلر، ڈان، گینگسٹر اور حالیہ چند
برسوں میں دہشت گرد مسلمانوں کو ہی دکھایا جاتا ہے۔ جیکی شراف کی ایک فلم
جو کہ کہانی کے اعتبار سے ایک اچھی فلم تھی، لیکن اس میں چند سیکنڈ کے ایک
سین کے ذریعے مسلمانوں کو غیر قانونی ہتھیارفراہم کرنے والا دکھایا گیا۔ جب
ہیرو کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہتھیار کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ مسلم محلے
میں جاکر ایک داڑھی ٹوپی والے شخص سے ہتھیار خریدتا ہے۔ حالانکہ اس سین میں
مسلم کردار کو دکھانے کی قطعاً ضرورت ہی نہیں تھی۔
فلموں اور ٹی وی کو آج مسلمانوں کے خلاف دھڑلّے سے استعمال کیا جارہا ہے
اور ہم ہیں کہ بڑے ہی ذوق و شوق سے اپنی دینی تعلیم فراموش کرکے ان سے
تفریح حاصل کرتے رہتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت برباد کرتے ہیں۔
جب جب فلموں اور ٹی وی پر اسلام و مسلمانوں کی شبیہہ بگاڑنے کی کوشش کی
گئی، مسلمانوں میں سے صرف اہلِ حق اہلِ سُنّت و جماعت کے علما و اِدارے
فوراً میدان میں آگئے اور اس کے خلاف آواز اُٹھائی۔ جبکہ خود کو مسلمان
کہلانے والے نے کبھی اس میڈیا کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی۔ کیونکہ حضور اکرم
ﷺ، صحابہ کرام، بزرگانِ دین کی شان میں گستاخیاں کرتے کرتے ان کے دل اتنے
مردہ ہوگئے ہیں کہ اسلام پر کیسے بھی حملے ہوتے رہیں، یہ خاموش ہی رہتے
ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے دل میں اللہ و رسول کی محبت نہیں، اسلام
کی غیرت و حمیت کا احساس نہیں، یہ مردہ دل ہیں، تبھی تو اسلام کے خلاف کچھ
بھی ہوجائے، آواز اٹھانے سے خود کو روکے رکھتے ہیں۔ جبکہ سُنّی اس معاملے
میں بدنام ہیں کہ یہ فلموں پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ غیروں کو سب سے بڑا
اعتراض یہ ہے کہ جب فلم دیکھنا اسلام میں حرام ہے تو فلموں میں کچھ بھی
دکھایا جائے، مسلمان اس پر اعتراض کیوں کرتے ہیں؟ .... جب بابری مسجد شہادت
کے پس منظر میں فلم ”بامبے“ ریلیز ہوئی تو اس میں بے شمار سین مسلمانوں کے
لیے قابلِ اعتراض تھے جس پر رضا اکیڈمی و دیگر سنّی اداروں نے آواز اٹھائی۔
اس پر اس وقت آنجہانی ساجد رشید نے اردو ٹائمز میں اسی طرح کے بھونڈے
خیالات کا اظہار کیا تھا۔ تب راقم نے جواب دیا تھا کہ کتابیں معلومات میں
اضافے اور تفریح کا ذریعہ ہیں، لیکن اگر اس کے ذریعے کو کوئی سلمان رشدی یا
تسلیمہ نسرین کسی کے مذہب کے خلاف استعمال کرے تو کیا اسے ایسا کرنے دیا
جائے؟
آپ دیکھیں کہ سِکھ ہندوستان کیا پوری دنیا میں ایک چھوٹی سی اقلیت ہے، اس
کے باوجود جب بھی ان کے مصنوعی دھرم کے خلاف کسی فلم میں کوئی سین آجاتا ہے
تو وہ اس وقت تک ہنگامے برپا کرتے ہیں جب تک فلم سے وہ سین نکلوا نہ لیں۔
شاہ رخ خان کی ایک فلم کے سین جس میں ہیرو استنجا جانے کے لیے اپنی چھنگلی
سے اشارہ کرکے ایک گردوارے کی طرف جاتا ہے، پر سِکھوں نے سخت آواز اٹھائی
کہ یہ ان کے گردوارے کی توہین ہے۔ جبکہ اس میں کوئی توہین کا پہلو بھی نہیں
نکلتا۔ اس کے باوجود بھی سکھ اس فلم سے یہ سین تبدیل کروا کر ہی رہے۔
حالیہ فلم ”اذان“ کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اذان ہمارے مذہب میں انتہائی
مقدس بلکہ صرف عبادت کے لیے بلانے اور دیگر مذہبی مقاصد کے لیے ہی استعمال
کی جاتی ہے، آخر پروڈیوسر کو یہی نام ملا تھا فلم کے لیے۔ مسلمان کسی بھی
مذہب کی کبھی توہین و تنقیص نہیں کرتے، اس کے باوجود اسلام کے خلاف مسلسل
سازشیں ہوتی رہتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان ہمہ وقت بیداری کا مظاہرہ کریں۔
فلم، ٹی وی، انٹرنیٹ ہو یا پرنٹ میڈیا اسلام و مسلمانوں کے خلاف جب بھی
حملہ کیا جائے، مسلمان متحد ہوکر اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس وقت تک
قانونی دائرے میں رہتے ہوئے مظاہرہ جاری رکھیں تب تک خطا کار اپنی غلطی کی
معافی مانگتے ہوئے ازالہ نہ کردیں اور ہمارے مطالبے پورے نہ ہو جائیں۔ یہ
معاملہ چونکہ کسی فرد یا دینی اِدارے کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے، اس لیے تمام
ہی مسلمانوں کو متحد ہوکر کام کرنا ہوگا۔ پھر دیکھیں کون راہِ راست پر نہیں
آتا ہے۔ |