جگجیت سنگھ۔ ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

آخری سفراور کچھ متفرق باتیں

ممبئی کی میرین لائن میں واقع چندن وادی برقی شمشان کے اطراف میں بسنے والوں کو شمشان کی انتظامیہ سے شکایت رہتی ہے کہ ایک ناخوشگوار ُبو ہر وقت ان کو اپنے نرغے میں لیے رہتی ہے، اس فضائی آلودگی نے ان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ لیکن دس اکتوبر سن دو ہزار گیارہ کی سہ پہر وہ اس بارے میں کوئی حرف شکایت اپنے لبوں پر نہ لائے ۔ اس روز چندن وادی برقی شمشان میں ڈھلتی سہ پہر کے وقت اردو زبان کے سفیر کو نذر آتش کردیا گیا۔اردو زبان کا یہ سفیر آج چندن وادی شمشان کے ریکارڈ میں چار عدد ہندسوں پر مشتمل ایک نمبر تھا جبکہ بجلی کی طاقتور اور بے رحم بھٹی کے لیے صرف ایک گوشت پوست کا مردہ جسم جسے اس نے چشم زدن میںراکھ میں تبدیل کردیا۔

اس کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اس عظیم فنکار کے ان گنت مداحوں کے دل بھی جل کر راکھ ہوگئے۔

چندن وادیشمشان انتظامیہ کے پاس موجودdeath register میں یہ کوائف درج ہوئے :

تاریخ: 10 اکتوبر 2011
نام: جگجیت سنگھ دھیمان (Dhiman)
عمر: 70 برس
مذہب: ہندو (لواحقین کی مرضی سے لکھوایا گیا)
نذر آتش کرنے کا متوقع وقت: 3.30
نمبر اندارج میت: 1510

ممبئی فلمی صنعت سے وابستہ شاعر و کہانی کار جاوید اختر کے موبائل فون پر جگجیت سنگھ کی آخری فون کال کا ریکارڈ ابھی تک موجود ہے ، دوپہر تین بجکر کر چار منٹ پر آنے والی اس کال کے دوران وہ جاوید اختر کے ساتھ اگلے سال کے مشترکہ منصوبوں پر دیر گئے بات کرتے رہے تھے۔

دوپہر کے وقت ممبئی میں جگجیت سنگھ کی ارتھی کو ان کی رہائش گاہ سے اٹھایا گیا ، درجنوں کیمرے اس منظر کو دنیا بھر میں دکھا رہے ہیں ، ارتھی کو چار خوش لباس سرداروں نے کاندھے پر اٹھارکھا ہے ، ان کی سرخ و نیلی پگڑیاں دھوپ میں چمک رہی ہیں ، ارتھی پر پھولوں کی برسات ہورہی ہے ، ان پھولوں کو کچھ دیر بعد شعلوں کی نذر ہوجانا ہے:

پھول دشمن کے ہوں یا اپنے ہوں
پھول جلتے نہیں دیکھے جاتے

ایک لحضے کو کیمرہ پنکج ادھاس کے چہرے پر ٹھہر گیا جو آنسو بہاتے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔پھر ایک دوسرا منظر جس میں چندن وادی شمشان میں جگجیت سنگھ کے دیرنیہ دوست مشہور پاکستانی گلوکار غلام علی نڈھال قدموں سے اپنے دوست کو الوداع کہنے چلے آرہے ہیں، غلام علی کو دو افراد نے سنبھالا ہوا ہے۔ وہ اپنے دل میں ایک گہرا دکھ اور اپنے دوست کی یادیں لیے لاہور واپس لوٹیں گے ، ممبئی کی اس تقریب میں جگجیت سنگھ کے ہمراہ گانے کی ان کی خواہش اب کبھی پوری نہیں ہوسکے گی!

جگجیت سنگھ 10 اکتوبر 2011 کی صبح آٹھ بجے اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ان کے جسم میں موجود خون ، رگوں میں مزید دوڑنے پھرنے کا قائل نہ رہا تھا اور اس نے اپنے مسکن سے فرار ہونے کے لیے جسم کا وہ حساس ترین گوشہ منتخب کیا جہاں سے ایک مرتبہ اخراج کے بعد اس کو کم کم ہی واپس آتے دیکھا گیا ہے!

پاکستانی گلوکار غلام علی، گلزار، ونود کھنہ، جاوید اختر، روپ کمار راٹھور، سونو نگم، شان، رضا مراد، مدھر بھنڈارکر اور راج ببر کی آنکھیں مستقل نم ہیں ۔

ایک کونے میں جگجیت سنگھ کی اہلیہ چترا سنگھ اداس کھڑی ہیں، آنسوؤں کو چھپانے کے لیے انہوں نے سیاہ شیشوں والی عینک کا سہارا لیا ہے جو ممبئی میں ان موقعوں پر ایک لازمی ضرورت بن کر رہ گئی ہے۔ کچھ دیر بعد اخباری نمائندے تصاویر کی تلاش میں چندن وادی شمشان کے اس اندرونی کمرے تک جاپہنچتے ہیں جہاں چترا سنگھ اپنے شوہر کے ساتھ کچھ وقت خاموشی کے ساتھ گزارنا چاہتی ہیں ، ان کی خفگی کے باوجود تصاویر محفوظ کی جاتی ہیں۔

چندن وادی برقی شمشان میں میت کو نذر آتش کرنے کے پیسے نہیں لیے جاتے ہیں لیکن اگر کوئی دینا چاہے تو 250 روپے دے سکتا ہے، یہ اختیاری رقم ہے ۔
جگجیت سنگھ کے لواحقین نے 250 روپے پیشگی ادا کردیے!

جگجیت سنگھ ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے لیکن آخری رسومات ہندو اور سکھ ، دونوں مذاہب کے مطابق سر انجام دی گئیں۔ آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے امریکہ سے ایک سندھی پنڈتراجیشور مہاراج کو بلایا گیا تھا، جگجیت سنگھ کی آخری رسومات میں ان کے چھوٹے بھائی کرتار سنگھ دھیمان نے حصہ لیا۔ میت کو چندن وادی شمشان کے مرکزی ہال میں آخری دیدار کے لیے رکھا گیا۔ سہ پہر تین بجے لوگوں سے درخواست کی گئی کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں کہ جگجیت سنگھ کو نذر آتش کرنے اندرلے جایا جارہا ہے۔ارتھی اٹھائی گئی اور فضا ” جو بولے سو نہال، ست سری اکال‘ اور ’ رام نام ست ہے‘ کی ملی جلی آوازوں سے گونج اٹھی۔ تین بجکر چالیس منٹ پر انہیں نذر آتش کردیا گیا۔

ہندوستان کے ایک انگریزی اخبار جگجیت سنگھ کی موت پر تبصرہ کیا :
”گزشتہ پیر (10 اکتوبر 2011) کو شرد پورنیما کی رات تھی، سال کی وہ رات جب چاند کی چمک اپنے عروج پر ہوتی ہے، یہ چمک کچھ مزید بڑھ گئی جب ایک اور ستارہ ان میں جاملا۔“
٭

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جگجیت سنگھ کے چاہنے والوں میں کمی نہیں ۔ زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں نے ان کی موت پر اظہار افسوس کیا۔جناب آصف نورانی نے حال ہی میں مہدی حسن پر ایک کتاب لکھی ہے ، اس کتاب میں انہوں نے جگجیت سنگھ کی رائے کو بھی شامل کیا ہے۔ جگجیت سنگھ، مہدی حسن کے بہت بڑے مداح تھے، کئی بارتو لوگوں نے انہیں مہدی حسن کے قدموں میں بیٹھا دیکھا۔ آصف نورانی بیان کرتے ہیں:

” جگجیت سنگھ ، مہدی حسن کو اپناروحانی گرو مانتے تھے۔سن 1979 میں جگجیت اور چترا، پاکستان آئے تھے، کراچی پریس کلب میں انہوں نے یادگار غزلیں پیش کیں، لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔اپنے اس دورے کے دوران، جگجیت سنگھ نے مہدی حسن سے’ آشیرواد‘ لیا۔ مہدی حسن پر کتاب لکھنے کے دوران جگجیت سنگھ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آصف نورانی کو اپنی رائے پیش کی، لکھ کر اور اپنی آواز میں ریکارڈنگ کروا کر بھی۔ ایک مرتبہ جگجیت سنگھ سے فون پر بات ہوئی، وہ مہدی حسن کی بیماری پر اظہار تشویش کرتے رہے ، جگجیت سنگھ کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ مہدی حسن کو دوبارہ گاتا دیکھ سکیں ۔افسوس کہ وہ یہ حسرت لیے اس دنیا سے چلے گئے، میں (آصف نورانی) یہاں یہ بات بتا تا چلوں کہ مہدی حسن کوان کے اہل خانہ نے جگجیت سنگھ کی موت کی خبر سے آگاہ نہیں کیا ہے ، وہ ان کو اس حالت میں کوئی مزید صدمہ نہیں پہنچانا چاہتے۔“

جگجیت سنگھ نے مہدی حسن پر آصف نورانی کی کتاب ('Mehdi Hasan: The Man and his Music) میں اپنی یہ رائے پیش کی تھی ::

"Mehdi sahib's selection of ghazals is remarkable. His pronunciation is flawless and the magic of his rendition is heightened by the impeccable manner in which he enunciates the words. His voice retains its balance whether he touches the low notes or hits the high ones."

کراچی میں مقیم محقق ، شاعرو ادیب جناب عقیل عباس جعفری نے انٹرنیٹ پر ایک گوشہ تخلیق کیا جہاں احباب اپنے تاثرات درج کرتے رہے۔ اسی گوشے سے ایک انتخاب پیش خدمت ہے:

” سن انیس سو انہتر میں جگجیت اور چترا پاکستان آئے تو میں کیا پوراپاکستان ان کی آواز کے سحر میں گرفتار ہوگیا۔کہیں سے ان کی ایک کیسٹ Unforgettable ہاتھ لگ گئی، اس کی ہر غزل اتنی مرتبہ سنی کہ ایک ایک شعر یاد ہوگیا ،بلکہ اب تک یاد ہے۔انہی دنوں مجھے ہندوستان جانے کا اتفاق ہوا۔وہاں میں نے اپنے ایک عزیز سے کہا کہ جگجیت سنگھ کا کوئی کیسٹ آیا ہو تو مجھے دلوا دیں۔ان عزیز نے بڑی حیرانی سے پوچھا : ” کون جگجیت ؟ “ ۔ ۔ میں نے بیان کرنا چاہا تو وہ بولے کہ تم پاکستانی تو ہر ہندوستانی فنکار کو ایسے ہی سر چڑھالیتے ہو، ہوگا کوئی تھرڈ ریٹ فنکار ۔ ۔میں انہیں دیکھتا رہ گیا۔بات آئی گئی ہوگئی۔ میرے وہ عزیز امریکا منتقل ہوگئے۔24 برس بعد 2003 میں، میں امریکا گیا تو میرے وہی عزیز مجھے لینے ائیر پورٹ آئے ہوئے تھے۔گاڑی ائیرپورٹ سے روانہ ہوئی تو ان کی گاڑی میں جگجیت کی آواز گونج اٹھی۔میں نے حیرانی سے پوچھا: ” ارے، آپ کی گاڑی میں جگجیت کیا کررہے ہیں ؟ “
انہیں ایک ہی لمحے میں چوبیس برس پرانا واقعہ یاد آگیا، پھر انہوں نے جس شرمندگی سے مجھے دیکھا ، میں وہ منظر کبھی نہیں بھلا سکتا“
(عقیل عباس جعفری)

”کالج کی رنگین دنیا، ناصر کاظمی کی پہلی بارش اور جگجیت کی غزلوں میں سے پہلا تعارف کس سے ہوا، ٹھیک سے یاد نہیں۔شاید یہ تینوں چیزیں چپکے سے زندگی میں اکھٹے ہی داخل ہوگئیں۔غالب کی غزلیں گنگنانا بھلا کس نے سکھایا، یہ بھی کبھی نہیں سوچا۔اور آواز کا یہ سحر کب تک چھایا رہا، اسکی بھی کچھ خبر نہیں۔ابھی سات برس پہلے تک تو آفس کے ڈیسک ٹاپ پراسی من مو ہنے گائیک کا ایک گیت بار بار خود کو دوہراتا رہا تھا۔چائے کی پیالی اور بیسمنٹ کی گیلی خوشبو ، آواز کی لہروں کے ساتھ مل کر عجیب ماحول بنا دیتے تھے۔کبھی کبھی رات کے نو بج جاتے اور بالکل پتہ نہ چلتا۔ اس فسوں کے تحت کئی مرتبہ اوپر کمپاؤنڈ میں درخت سے اٹکے چاند کو دیکھ کر کچھ نظمیں بھی ہوئیں۔کیا کہیں۔فن اور فنکار دلوں میں ہنستے بستے ہیں اور ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔کیا جانے کل کسی اور ماحول میں یہ آواز اسی مدھرتا کے ساتھ روح میں گھلنے لگے۔بس اتنا فرق ہے کہ اب کوئی نیا گیت نہیں دھڑکے گا، پرانی تانیں خودکو دوہراتی رہیں گی۔“
(گلناز کوثر)

Music alone with sudden charms can bind the wandering sense and calm the troubled mind
جگجیت کی سحر انگیز آواز مجھے ہمیشہ اوپر کی اس کہاوت کو سچ کا روپ دیتی محسوس ہوئی۔اس بھلے انسان نے جو چیز بھی گائی،یوں لگا جیسے وہ امر ہوگئی۔آواز میں اس بلا کا ’بیس ، غضب کا سوز،خال خال ہی نصیب ہوا گلوکاروں کو ۔اب کون ہے جگجیت جیسا ؟ ۔“
(ضیاءالدین نعیم)

”لیجیے جناب، لطافت کا ایک اور باب تمام ہوا۔مائیکل انجلو نے کہا تھا کہ حسن تو پتھر میں خوابیدہ ہوتا ہے، سنگ تراش اسے جگا دیتا ہے۔گلوکار کے لیے سر اور آواز کی وہی حیثیت ہے جو سنگ تراش کے لیے پتھر، ہتھوڑی اور چھینی کی ہے۔اس کی آواز، اس کی اپنے فن سے محبت الفاظ میں سموئے ہوئے معنی اور موسیقی کو جگا دیتی ہے۔جگجیت سنگھ بھی ایسے ہی گلوکاروں میں سے ایک تھے۔ جو چیز جگجیت کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی آواز کے مدھم رنگ ہیں۔ان کی غزلوں میں گداز دل اور لطافت اظہار کا خوشگوار اور فنکارانہ امتزاج ہے۔الغرض جگجیت سنگھ اپنے اندر لحن کی وہ اکائی تھے جو موسیقی کا الہامی سر مایہ کہا جاسکتا ہے۔“
(فرحان صادق)

”جگجیت سنگھ کی آواز، انداز گائیکی اور الفاظ پر ان کی گہری گرفت ان کو بہت سارے گلوکاروں سے ممتاز کرتی تھی۔ پانی میں آگ لگانے والی آواز۔ مجھے اس عظیم فنکار کی موت کا بہت غم ہے۔فنکار سرحدوں سے مبرا ہوتا ہے۔ان کی غزل گائیکی کے منفرد انداز کو تمام دنیا کے ُسر شناس پسند کرتے تھے۔“
(شاہین رضوی )

بھارت میں اردو کی بقا کے بارے میں اکثر بات ہوتی رہتی ہے، اس سلسلے میں مخلصانہ کوششیں کرنے والوں کی بھی کمی نہیں، جگجیت سنگھ نے بھارت میں اردو کے سفیر کی حیثیت سے اپنا کردار بہ احسن طریق نبھایا اور بحیثیت ایک گلوکار ہمیشہ اردو زبان کے درست لب و لہجے کاخیال رکھا، انہیں اردو زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ سمپورن سنگھ گلزار کی ٹی وی سیریل مرزا غالب کی شہرہ آفاق مقبولیت میں جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی غزلوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ڈرامے میں شامل ان تمام غزلوں کا لب و لہجہ ڈرامے میں مرزا غالب کے جوانی سے بڑھاپے تک کے کرداروں کی مناسبت سے اختیار کیا گیا ہے۔ مذکورہ ڈرامے کی تمام غزلیں سن جائیے، کہیں تلفظ میں کوئی جھول نہ پائیں گے۔یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر کرتا چلوں، صرف ایک ایسا موقع تھا جب ہم نے جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی ایک غزل میں تلفظ کی ایک غلطی کو محسوس کی، وہ مشہور غزل ہے:
آدمی، آدمی کو کیا دے گا
جو بھی دے گا وہی خدا دے گا
اس غزل کا ایک شعر ہے:
میرا قاتل ہی میرا مُنصف ہے
کیا میرے حق میں فیصلہ دے گا

یہ غزل جب پہلی بار انہوں نے گائی تو لفظ ’منصف‘ کو واضح طور پر وہ ’ منُصب‘ ( مُن ۔صب! زیر کے ساتھ)گا رہے تھے جو شاید کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔

قابل غور اور قابل قدر بات یہ ہے کہ اس کے کچھ عرصے بعد انہوں نے اس غزل کو دوبارہ گایا اور اس مرتبہ اس غلطی کو درست کرلیا۔

غزل گانے کے دوران لطیفے سنانا ، جگجیت سنگھ کا ایک ایسا انداز تھا جس کو ان کے مداح بہت پسند کیا کرتے تھے۔ وہ ہلکی پھلکی گفتگو اور چھوٹے چھوٹے چٹکلوں سے سامعین کو محظوظ کیے رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ غزل سرا تھے، ”حضور آپ کا بھی احترام کرتا چلوں“، درمیان میں موسیقی مدھم ہوئی اور جگجیت سامعین سے کہنے لگے :

ایک صاحب اپنے گھر کے لان میں صبح سویرے بیٹھے تھے، ساتھ ہی ان کی بیوی بھی اخبار پڑھ رہی تھیں، بیوی نے شو ہر سے کہا، دیکھئے اخبار میں کیا لکھا ہے، آپ کو پتہ ہے یہ شراب نوشی کی عادت صحت کے لیے کس قدرنقصان دہ ہے ، شوہر کو رات کی شراب نوشی کا خمار تھا، بیوی سے کہنے لگے ” ٹھیک کل سے بند کردیں گے“
اگلے دن سے گھر میں اخبار آنا بند ہوگیا!

سامعین کے قہقہوں اور تالیوں سے ہال گونج اٹھا۔

ایک دوسرے موقع پر جگجیت، امریکہ کے کسی شہر میں غزل سرا تھے، سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی، غزل گاتے گاتے کہنے لگے ”، بھئی یہاں ہم سے بہت لوگ ملنے آرہے ہیں، ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ کالج میں تھے، اب مجھے تو یاد نہیں آتا، پھر سوچتا ہوں کہ کالج میں ایک کلاس میں دو دو، تین تین سال جو لگائے تھے، یقینا یہ سب لوگ سچ کہتے ہوں گے۔“

کراچی میں واقع فنون لطیفہ کی درسگاہ ’ناپا‘ کے استاد نفیس احمد نے جگجیت سنگھ کی موت پر کہا:

” جگجیت کی موت سے غزل گائیکی کے فروغ کو شدید دھچکا لگا ہے۔مہدی حسن خاں اب گاتے نہیں، غلام علی بھی بہت زیادہ کام نہیں کررہے،تو ایسے میں، میں سمجھتا ہوں کہ جگجیت سنگھ ہی ایک واحد فنکار تھے جو غزل کو پوری مہارت، اس کے تقدس اور معیار کے ساتھ پیش کررہے تھے۔“

سچ تو یہ ہے کہ جگجیت سنگھ کی موت محض ہندوستان ہی کا نہیں، پاکستان کا بھی نقصان ہے!
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 280214 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.