ٰٓانٹر بورڈ کے امتحانی تجربات ، پریشان طلباءاور ممکنہ متبادل حل

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کی تعلیم ہی امراضِ ملت کی دوا ہے۔ تعلیم کی فعالیت کا دارومدار نظامِ تعلیم پر ہوتا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس کی موثریت اس کے نظامِ امتحان یعنی اسیسمینٹ اور اویلوایشن سے وابستہ ہوتی ہے ۔اگر نظامِ امتحانات شفاف اور فعال ہے تو ڈگری کی ویلیو ہے ورنہ سب سراب ہے۔ اور قوم کے لئے عذاب ہے۔یہ بات بھی طے ہے کہ جو قومیں اپنے نظامِ تعلیم کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کرتیں وہ صدیوں کی مسافت پیچھے رہ جاتیں ہیں ۔پنجاب حکومت نے میٹرک اور انٹر میڈیٹ کا امتحانی نظام تبدیل کرنے کا قابل تحسین فیصلہ کیا مگر کچھ سیاسی مجبوریوں اور اقربا پروری کی جدی پشتی وبا کی وجہ سے اس امتحانی نظام کا پٹھہ ہی بیٹھ گیا ،وزیر اعلٰی حبیب جالب کی انقلابی نظمیں پڑھتے رہے اور طلباء سڑکوں پہ مارے مارے پھرتے رہے ، پولیس کے ڈنڈے کھاتے رہے اور ان کا ایک سال بھی تقریباََ ضائع ہو گیا ، مگر جنہوں نے اقربا پروری کی ان کو پولیس سلیوٹ مارتی رہی، جنہوں نے اس نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا انہیں کسی نے اوئے بھی نہیں کہا یہ پولیس ہے یا ابلیس ہے۔

اب وزیر تعلیم نے پیپرز کی ری چیکنگ کا حکم تو دے دیا ہے مگر اس ریچیکنگ سے کیا ہو گا جب تک ری مارکنگ نہیں ہو گی اور ری مارکنگ تو غیر قانونی ہو گی کیونکہ اس کی تو اجازت ہی نہیں اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے ۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس نظام کو ایسے شخص کے حوالے کرنا کیوں ضروری تھا جس پر پہلے ہی کرپشن کے کیسسز نیب میں زیرِ سماعت تھے ۔جس نے پہلے پنجاب یونیورسٹی میں گل کھلائے اور اب انٹر بورڈ میں تو باغ ہی کھلا دیا ۔کیا قومی وسائل ان وزیروں، مشیروں کے باپ دادا کی ملکیت ہے جو انے کی ریوڑیوں کی طرح اپنوں میں بانٹ رہے ہیں؟ اور کیا لاکھوں طلباءکے مستقبل سے کھیلنے والوں کو صرف معطل کرنا ہی کافی ہے ۔کیا لاکھوں روپے لوگوں کا مستقبل برباد کرنے کے دیے گئے ہیں یا دینے ہیں ۔جن طلبا ءنے اس بوگس رزلٹ کی وجہ سے موت کو گلے لیا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ان کے والدین کے لئے حکومت نے کیا کیا ہے؟

اس نئے امتحانی تجربے سے قبل کیا وزیر تعلیم یا اس کی ٹیم نے کسی ایسے تعلیمی ادارے کو کنسلٹ کیا جو آن لائن امتحان منعقد کر رہا ہو؟ یا جو نقل سے پاک امتحانی نظام کا نفاذ کرچکا ہو؟ کیا دنیا میں موجود آن لائن تعلیمی نظام کا تنقیدی جائزہ لیا ؟ شائد ایسا نہیں کیا گیا اگر ذرا سی کوشش کی ہوتی تو وہ جان جاتے کہ اپنے وطن میں ورچوئل یونیورسٹی گزشتہ چند برسوں سے چالیس چالیس ہزار طلبا کے آن لائن امتحان لے رہی ہے وہ بھی ہر سمیسٹر میں دو بار یعنی مڈ ٹرم اور فائینل ٹرم، کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا ۔ مزید یہ کہ یونیور سٹی کے طلبا ڈیٹ شیٹ بھی اپنی مرضی سے بناتے ہیں اور اپنا امتحانی مرکز بھی اپنی مرضی کا سلیکٹ کرتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ طلبا ایک ہی وقت میں مختلف سبجیکٹس کا امتحان دے رہے ہوتے ہیں ۔ لہذا نقل کا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے اور اگر ایک ہی سبجیکٹ کے طلبا پاس پاس بھی بیٹھے ہوں تو تب بھی ان کا کو ئیسچن پیپر مختلف ہوتا ہے۔یہ سب اس لئے ہے کہ یونیورسٹی نے ایک جامع کیو بیQB) (یعنی کوئسچن بینک بنایا ہوا ہے یہ انتہائی جدید اور اعلیٰ نظام ہے ۔ اب تو کئی اور یونیورسٹیاں بھی ان کے اس نظام سے استفادہ کر رہی ہیں ۔پنجاب حکومت بھی ورچوئل یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر نوید ملک سے رہنمائی لے سکتی تھی وہ ایک نفیس آدمی ہیں ضرور ہیلپ کرتے ۔مگر حکومت اور متعلقہ ادارے نے زحمت ہی نہیں کی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔!

بہر حال حکومت کو چاہیے کہ نظامِ امتحان کو تبدیل کرنے اور اس کو جدید زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے کہ موجودہ فرسودہ نظام کو خیر باد کہے۔طلباءکے مستقبل سے کھیلنے کا تماشہ بند کرے۔نظام کو سادہ اور طلبا کے ذہنی معیار کے مطابق بنائے ۔آن لائن امتحانی نظام کو تدریجاََ متعارف کروایا جائے۔پہلے مرحلے میں اساتذہ کی متحرک شمولیت سے متعلقہ نصاب میں سے ایک جامع کوئیسچن بینک بنوایا جائے۔ اساتذہ کو گرمیوں کی تین ماہ کی چھٹیوں میں یہ ذمہ داری دی جا سکتی ہے ۔ہر سکول میں ایک اچھی کمپیوٹر لیب بنائی جائے جس میں انٹر نیٹ، سکینر اور پرنٹر کی سہولت موجود ہو۔ اس میں ایک انتہائی قابل اور ایماندار لیب انچارج متعین کیا جائے۔طلباءکو اپنی رہائش گاہوں کے نزدیک امتحانی مرکز الاٹ کئے جائیں ۔تمام طلباء کے لیئے ہر مضمون کے یونیک پیپرز کوئسچن بینک سے جنریٹ کئے جائیں اور یوں ہر سبجیکٹ کی پیپر فائیلز جنریٹ کی جائیں اور پیپر ٹائم سے آدھ گھنٹہ پہلے متعلقہ لیب انچارج کو ای میل کے ذریعے یہ پیپرز فائیل بھیجی جائیں اوہ وہ انہیں پرنٹ کرکے متعلقہ سپرنٹنڈنٹ کے حوالے کرے۔ نقل کا کوئی چانس ہی نہیں ہو گا کیونکہ ہر طالب علم کا کوئیسچن پیپر ہی مختلف ہو گا ۔دوسرے مرحلے میں طلباءکو کمپیوٹر پر آن لائین پیپر حل کرنے کی تربیت کی جائے اور امتحانی نظام کو مکمل طور پر آن لائن کر دیا جائے۔ بوٹی مافیا اور نقل مافیا اپنی موت آپ مر جائیں گے۔اور معیار تعلیم بھی بلند ہو گا۔مگر اس کے لئے ایک قا بل ایماندار اور متحرک ٹیم کی ضرورت ہو گی ورنہ ۔۔۔۔۔
وہی آبلے ہیں وہی جلن

حکومت نے تو کچھ کرنا ہی نہیں ہے لہذا عدالت کو چاہئے کہ اس ناکام امتحانی تجربے کی مکمل انکوائری کروائے اور ذمہ داران کو سخت سزا دی جائے ۔ اس کے علاوہ متاثرہ طلباءو طالبات کے لئے بھی کوئی درمیانی اور قانونی راستہ نکالے ۔
Shahzad Ch
About the Author: Shahzad Ch Read More Articles by Shahzad Ch: 28 Articles with 30707 views I was born in District Faisalabad.I passed matriculation and intermediate from Board of intermediate Faisalabad.Then graduated from Punjab University.. View More