دنیابدلتی ہے رنگ کیسے کیسے۔پل میں سونا،پل میں چاندی،پل میں ہیرا۔

19ویںصدی تک علم سیاسیات میںریاست کے 3ستونوں(فوج،عدالیہ اور مقننہ)کا ذکر ہوتا تھا،یہ ہی ملت کی حفاطت کے فرائض سرانجام دیتے آرہے تھے۔لیکن بیسویںصدی کے آخری عشروں میں میڈیا نے نہ صرف اپنے آپ کو چوتھاستون ثابت کروایا بلکہ اس وقت باقی تینوں ستونوں سے کافی حدتک برتری کی پوزیشن کی طرف گامزن و رواںدواں ہے۔میڈیا نے یہ پوزیشن اس لیے حاصل کی کیونکہ یہ تصویر کے دونوں حصوں کو غیر جانبداری سے عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔عید کے ایام میںراقم کا جی کررہا تھاکہ قارئین کو دو قومی نظریہ کے بارے میں اپنے خیالات سے روشناس کرواؤں۔ لیکن یکے بعد دیگر ے میرے سامنے دوایسے مضمون آئے جس نے میری دماغ وقلم کا رخ تبدیل کر دیا۔

آخر یہ مضمون کیاتھے؟ جس کو قارئین کے سامنے پیش کرنے پر میرے قلم نے ارادہ ان پر لکھنے کا سوچا ۔پہلاواقعہ ایک علامہ اقبال میڈیکل کالج کے MBBSکے طالب علم (جواد)کا ہے۔جواد کی عمر جب3سال تھی تو اس وقت وہ شدید بیمار ہوا،پھرآہستہ آہستہ بیماری سے نجات تو مل گئی لیکن وہ اپنی ٹانگوں سے معذور ہو گیا۔معذوری کے باعث 7سال تک وہ گھر کے صحن تک ہی میں رہتا تھا۔7سال کی عمر میں اس کے والدین نے دوسرے بچوں کی طرح اپنے بچے کو بھی سکول میں داخل کروایا،لیکن معذوری کے باعث وہ سکول چل کر نہیں جاسکتا تھا۔اس لیے اس کے والد اسے سائیکل پر بیٹھا کر سکول چھوڑ آتے تھے اور سکول اور گھر کا درمیانی فاصلہ 2کلومیٹر کے لگ بھگ تھا۔سکول کے احاطہ میں جواد رینگ رینگ کر مڈل تک تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا کیونکہ اس کے دل و دماغ میں صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ بڑے ہوکر ڈاکٹر بنے گااور مریض کا علاج خدمت سمجھتے ہوئے کرے گا ۔معذوری کے باوجود 2004میں جواد نے میٹرک کا امتحان 658نمبروں سے پاس کیااور ایف ایس سی میں 1100میں سے 830نمبر حاصل کرنے کے بعد انٹری ٹیسٹ کا امتحان دینے چلاگیااور انٹری ٹیسٹ میں کامیابی بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ، لیکن ٹانگوں سے معذوری کی بدولت میڈیکل بورڈ کے سات ڈاکٹروں نے جواد کواس شعبہ کیلئے نااہل قرار دیا۔کیونکہ وہ مریضوں کے چیک اپ کیلئے دماغی طور پر تو فٹ تھا لیکن جسمانی طور پر UNFITتھااور مریضوں کا چیک اپ کھڑے ہوکر نہیں کر سکتا تھا۔

جس شخص کا ارادہ پختہ ہوتو وہ فالج کی حالت میں بھی ایک آنکھ کی پلک سے بھی کتاب لکھ سکتا ہے ، کیونکہ ایسے افراد کے ساتھ مدد و نصرت ہوتی ہیں اور اللہ کی طرف سے ایک خاص وصف حاصل ہوجاتا ہے۔ جواد کوجس میڈیکل بورڈ نے مسترد کیا تھا اس میں سے ہی ایک رحم دل ہڈیوں کے ڈاکٹر نے جواد کے ارادہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا اگر آپ اپنی ٹانگوں کے آپریشن کروالے تو آپ نارمل زندگی بسر کر سکتے ہیں اور اپنے خیالات اور خوابوں کی تکمیل میں بھی کامیاب ہوجائیں گئے۔جواد نے ڈاکٹر کے تعاون کا خیرمقدم کرتے ہوئے 6ماہ میں 6آپریشن کروانے کے بعد دوبارہ انٹری ٹیسٹ دیا اور پھر میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوا مگر اب اس کے ساتھ دو عدد بیساکھیاں بھی تھی جس کی وجہ میڈیکل بورڈ نے دوبارہ جواد کو مسترد کرنے لگا تھا مگر اﷲ کی مدد کی بدولت میڈیکل بورڈ نے جواد کو 6ماہ کا ٹائم دیتے ہوئے کہاکہ اگرتم 6ماہ کے اندر اندر ایک بیساکھی سے چلنا شروع کر دیتے ہو تو ہم آ پ کو داخلہ دے دیں گے ۔جس سے جواد کو کامیابی کی ایک کرن نظر آ ئی،اور آج وہ 3rd Year کا سٹوڈنٹ ہے ۔اورامید کرتے ہیں جلد ہی پریکٹیکل فیلڈ میں آکر مریضوں کا علاج ایک محسن کے طور پر کرے گا ۔انشاءاﷲ

جواد بھٹی کے انسانی خدمت سے لبریز جذبات کی ہمیں قدر ہے لیکن کچھ ایسے بھی مسیحا ہوتے ہیں جو اس مقدس پیسے کو داغدار کر دیتے ہیں جن کا مقصد صرف پیسہ بٹورنا ہوتا ہے دوسری خبر میری کچھ اس طرح سے ہے کہ30اکتوبر 2011کو اوکاڑہ کا ایک پھول کی مانند بچہ جس نے ابھی چلنا شروع ہی کیا تھا کہ ایک قوم کے محسوس کا خطاب رکھنے والے انسان کی وجہ سے دنیا کی رونقیں دیکھے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ بچپن میں ہر بچہ پانی سے پیار کرتا ہے اور بڑے شوق وجذبہ سے پانی میں ہاتھ مارتا ہے اور ساتھ ساتھ خوشی کا اظہار کرتا ہے جس کو دیکھ کر والدین اور عزیزواقارب بھی خوشی سے پھولے نہیںسماتے، بچے کو منع نہیں کیا جاتا،اور نہ ہی سمجھایا جاتا ہے کہ پانی کسی کا دوست نہیںبنا، کیوں کہ بچے کو سمجھ بوجھ بھی نہیں ہوتی۔ اسے کیسے سمجھائیں کہ جب یہ جوش میں آتا ہے تو بڑی بڑی گھر تبا ہ و برباد کر دیتا ہے، اور کتنی ماﺅں کی گود میں صف ماتم بچھ چکا ہے،اور باپوں کے کلیجہ پھٹ چکا ہے۔
تجھ کو رخصت کروں کیسے کہ میرا دکھ ہے یہی
پھر نہیں ملتا جو اک بار جدا ہوتا ہے

حسب عادت30 اکتوبر بروز اتوار کو زین احتشام جو کہ ہمارے قابل احترام صحافی دوست احتشام شامی کا لخت جگر تھا پانی کی بالٹی میں ہاتھ مار کر چھینٹوں سے کھیل رہا تھا ۔ اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور وہ سر کے بل بالٹی میں جا گرا ۔اس کی ماں نے اسے فوراً نکالا لیکن پانی اس کے حلق میں چلا گیا اور وہ گہری گہری سانسیں لینے لگا ۔اسے اٹھا کر فوراً اس کے رشتے دار قریبی چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹراصغر چوہدری کے کلینک لے جایا گیا۔ مگر اس بد بخت ڈاکٹر نے جب یہ سنا کہ بچہ پانی میں گر گیا ہے تو اس نے اسے فر سٹ ایڈ دینے سے انکا ر کر دیا۔ اور یہی کہتا رہا اسے سرکاری ہسپتال لے جائیں زین کے رشتے دار 10منٹ تک ا س کی منت سماجت کرتے رہے کہ آپ پیڈز ڈپلومہ ہولڈر ، چائلڈ سپیشلسٹ ہیں اس لیے سرکاری ہسپتال کے ایم او سے زیادہ قابل ہیں سو ہم اسی لئے آپ کے پاس لائے ہیں مگر اس دو منزلہ ہسپتال کے مالک ڈاکٹر اصغر نے کہا کہ نہیں میں اسے ٹریٹمنٹ نہیں دے سکتا ۔ میرا دماغ نہ کھاؤ۔ زین کے رشتے دار روتے پیٹتے ، ہچکیاں لیتے اپنے بچے کو اٹھا کر سرکاری ہسپتال کی طرف بھاگے ۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی زین نے آخری قے کی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملا ۔اور یوں ایک پھول کھلنے سے پہلے پودے سے علیحدہ ہو گیا۔

کون درست ہے اور کون غلط؟ایک طرف وہ سرکاری ڈاکٹر ہے، جس کی بدولت جواد آج خوشحال زندگی بسر کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ ڈاکٹر صاحب ہیں جس نے 2سال سے بھی چھوٹا زین جسے ٹریٹمنٹ بھی نہیں مل سکا۔ قارئین یہ بتائیے یہ کون سا قانون ہے جو ایک ڈیڑھ سالہ معصول بچے کو چیک کرنے سے روکتا ہے۔ میری سینئر ز داکٹر ز سے بات ہوئی تو سب نے کہا کہ ایسا کوئی قانون ہے ہی نہیں ۔ وہ صرف اپنی رپوٹ بچانے کے لئے ایسے مریض ہینڈل ہی نہیں کرتا کہ اگر انہیں کچھ ہو گیا تو اس کی دو کانداری متاثر ہو گی ۔

میری احکام بالا سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر ی کے مقدس شعبہ کو دو کانداری کے طو ر پر چلانے والوں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے معاشرے سے ایسی کالی بھیڑوں کا خاتمہ کیا جائے تاکہ آئندہ اور کوئی اور زین اپنی زندگی کی بازی نہ ہارے۔
Zeeshan Ansari
About the Author: Zeeshan Ansari Read More Articles by Zeeshan Ansari: 79 Articles with 81469 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.