ھندستان كي جنگ آزادي كي
ابتدا 1757ء سے ہوئي جو 1947ء ميں تقسيمِ وطن پر اختتام كو پہنچي۔ اس ايك
سو نوّے سالہ جنگ كو دو حصوں ميں تقسيم كيا جاتا ہے۔ اس كا پہلا دور 1757ء
سے شروع ہو كر 1857ء پر ختم ہوا اور دوسرا دور جو در اصل تحريكِ آزادي كے
نام سے معنون ہونا چاہيے ،1885ء سے شروع ہو كر 15 اگست1947ء ميں آزاديِ ہند
پر اختتام پذير ہوا۔ پہلے دور ميں باضابطہ ميدانِ جنگ ميں معركہ آرائياں
ہوئيں۔ بے شمار لوگوں نے انگريزوں كے پنجہ استبداد سے ملك كو آزاد كرانے كے
ليے اپني جانوں كو قربان كيا۔ ليكن غدارانِ وطن كي اعانت سے سات سمندر پار
سے آنے والي سفيد فام قوم يكے بعد ديگرے ہر ميدان ميں كامياب ہوتي چلي گئي۔
انگريزوں كے خلاف پہلي جنگ 1757ء ميں پلاسي كے ميدان ميں لڑي گئي۔ دوسري
جنگ1764ء ميں بكسر﴿بہار﴾ ميں وقوع پذير ہوئي۔ تيسري جنگ علاقہ روہيل
كھنڈ1774ء ميں لڑي گئي، چوتھي جنگ1799ء ميں سرنگا پٹنم﴿جنوبي ہند﴾ ميں ہوئي
۔ اس كے بعد 1801ء ميںانگريزوں نے اودھ اور روہيل كھنڈ اور 1803ء ميں بنديل
كھنڈاور دہلي كو اپني شاطرانہ چالوں سے معاہدوں كے جال ميں پھانس كر عملي
طور پر پورے ملك پر اپني حكومت قائم كر لي اور حقيقتاً براے نام كچھ نواب
اور راجا باقي ره گئے، ليكن اصل اقتدار انگريزوں كے ہاتھوں ميں چلا گيا۔
يہاں تك كہ دہلي كا حكمراں بھي انگريزوں كا تنخواه دار اور محكوم و فرماں
بردار بنا ديا گيا۔ يہي وه حالات تھے جن كي وجہ سے 1857ء كا ملك گير انقلاب
،تصادم اور ہنگامہ ہوا، جس ميں مسلمانوں كي قوت فنا ہو گئي ۔ انگريزوں كي
چيره دستياں بڑھ گئيں، انگريز پورے ملك پر قبضہ كرنے بعد دہلي كے تخت و تاج
كے مالك بن گئے۔
1857ء تك بر صغير ہند و پاك اور بنگلہ ديش كا مسلمان ديوبندي اور بريلوي
مسلك ميں تقسيم نہيں ہوا تھا، نہ ديوبندي اور بريلوي نام سے كوئي جماعت
عالمِ وجود ميں آئي تھي۔ يہ مسلكي تقسيم ہندستاني مسلمانوں ميں انگريزوں كي
غلامي كے بعد پيدا ہوئي۔ 1857ء كي جنگ مسلمان ہار گيا اور اس كے بعد 1866ء
ميں ايك عربي مدرسے كي بنياد قصبہ ديوبند ضلع سہارن پور ميں ركھي گئي جو
بعد ميں دار العلوم ديوبند بن گيا اور يہاں كے فضلا اپنے كو ديوبندي كہنے
اور لكھنے لگے۔ اس تاريخي حقيقت كے بعد اگر كوئي يہ دعويٰ كرے كہ1857ء كي
جنگ آزادي علماے ديوبند نے لڑي ہے تو اس دعويٰ كو جھوٹ ، غلط بياني اور
تاريخ كے چہرے پر سياہي پوتنے كے سوا كوئي دوسرا نام نہيں ديا جا سكتا ۔ آج
كل كچھ خود ساختہ مورخ اور مصنف يہ ذليل حركت كر رہے ہيں اور لوگوں كو باور
كرانے كي كوشش ميں لگے ہيں كہ در اصل جنگ آزادي علماے ديوبند نے لڑي ہے ۔
بديہي طور پر يہ سوال سامنے آتا ہے كہ جب 1857ء كے نو سال كے بعد مدرسہ
ديوبند كا سنگ بنياد ركھا گيا تو يہ جنگ آزادي علماے ديوبند نے كيسے لڑي؟
يہ حقيقت ہے كہ 1857ء كي جنگ آزادي ميں علما نے قائدانہ رول ادا كيا جس كي
وجہ سے بڑي تعداد كو انگريزوں نے جوشِ انتقام ميں عبور درياے شور﴿كالا
پاني﴾ اور تختہ دار پر چڑھانے كي سزا سے لے كر يہ وحشيانہ سزا بھي دي كہ ان
ميں سے بعض كو زنده سور كي كھال ميں سل كر كھولتے ہوئے گرم تيل ميں ڈال
ديا۔ ايسي انسانيت سوز حركت دنيا ميں كسي قوم نے كسي قوم كے ساتھ نہيں كي
ہے۔ انگريزوں كے اقتدار ميں آنے كي يہ وه سياه تاريخ ہے جو ہميشہ كے ليے
انگريز قوم كو داغ دار كر گئي۔
سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ 1857ء اور اس سے پہلے جن علما نے حريت كا صور
پھونكا اور انگريزوں كے خلاف جہاد كا فتويٰ ديا ، ان كا تعلق كس جماعت سے
تھا؟ وه ديوبندي تھے، بريلوي تھے يا كسي اور جماعت سے تعلق ركھتے تھے ۔ يہ
وضاحت پہلے كي جا چكي ہے كہ 1857ء كي جنگ كے خاتمے كے 9 سال بعد مدرسہ
ديوبند عالمِ وجود ميں آيا، اس ليے انھيں ديوبندي تو كہا ہي نہيں جا سكتا
اور بريلوي كا لفظ بھي بہت بعد ميں عوام و خواص ميں ايك جماعت كي حيثيت سے
متعارف ہوا، اس ليے يہ بھي دعويٰ نہيں كيا جا سكتا كہ بريلوي جماعت نے جنگ
آزادي لڑي البتہ يہ بات برملا كہي جا سكتي ہے كہ وه عظيم الشان رفيع
المرتبت علماے كرام جنھوں نے جنگ آزادي ميں اپنے خون كا ايك ايك قطره ليلاے
حريت كے ليے قربان كر ديا وه جماعت اہلِ سنت سے تعلق ركھتے تھے اور انھيں
كے پس رو ،ہم مسلك، ہم عقيده، ہم خيال بريلوي جماعت كے علماے كرام ہيں۔ اس
ليے يہ دعويٰ قطعاً غلط نہ ہوگا كہ موجوده بريلوي جماعت كے اسلاف نے ہي جنگ
آزادي لڑي ہے اور انھوں نے ہي اس لڑائي ميں خنده پيشاني كے ساتھ تختہ دار
كو قبول كيا ہے۔ اس ليے آج جماعتي تقسيم كے بعد يہ دعويٰ بالكل حق ہے كہ
جنگ آزادي بريلوي جماعت نے ہي لڑي ہے۔
بريلوي جماعت ان تمام علماے حريت كو اپنے اسلاف ميں شمار كرتي ہے جنھوں نے
ايك صدي تك انگريزوں سے مقابلہ كيا اور جگہ جگہ اپنے مقدس خون سے نقش آزادي
ابھارا۔ تاريخ كا عميق مطالعہ روز روشن كي طرح اس حقيقت كو عياں كر ديتا ہے
كہ آج بھي تمام بريلوي علما ان علماے كرام كو خراجِ عقيدت پيش كرتے ہوئے
انھيں اپنے اسلاف ميں شمار كرتے ہيں اور ان ميں سے بيش تر كو اپنے اساتذه ،
استاذ الاساتذه اور پير و مرشد تسليم كرتے ہيں، اس كے بر خلاف موجوده علماے
ديوبند ان اسلاف كو اپنے اساتذه اور اكابر كے زمرے ميں شمار كرنے كو تيار
نہيں ہيں بلكہ ان كے خلاف زہر افشاني كرتے رہتے ہيں۔
جن اكابر نے شمع آزادي پر اپنے كو پروانہ وار نثار كيا وه ديوبند كے اكابر
ميں شمار نہيں كيے جاتے بلكہ وه سب كے سب علما بريلي كے پيشوا، رہ نما اور
مقتدا ہيں۔
اس سلسلہ بحث ميں ايك نام مشترك ہے جسے علماے ديوبند اپنے اكابر ميں ضرور
شمار كرتے ہيں اور علماے بريلي بھي ان كا بھر پور احترام كرتے ہيں، وه نام
شيخ المشائخ حاجي امداد اللہ مہاجر مكي رحمۃ اللہ تعاليٰ عليہ كا ہے، اس
ليے اس پر تفصيلي گفتگو ضروري ہے كہ آخر حاجي صاحب مرحوم و مغفور كس جماعت
كے بزرگ اور ره نما كہے جا سكتے ہيں اور كون سي جماعت نظرياتي اعتبار سے ان
كے مسلك كي حامل اور ان كي تصنيفات ميں درج نظريات كو ماننے والي ہے۔
اس موقع پر پوري ذمہ داري سے يہ بات كہي جا سكتي ہے كہ علماے ديوبند ہزار
كہيں كہ حاجي صاحب ہمارے بزرگ اور رہ نما ہيں مگر ان كي يہ بات قابلِ تسليم
نہيں ہے كيوں كہ كسي بزرگ و ره نما سے وابستگي در اصل ان نظريات و عقائد كے
تسليم كرنے پر موقوف ہے جن كا اظہار انھوں نے اپني كتابوں اور ملفوظات ميں
كيا ہے۔ اول اول اكابر ديوبند حاجي صاحب سے وابستگي كا اظہار كرتے رهے،
ليكن نظرياتي اختلاف كي بنا پر ان ميں شديد اختلاف پيدا ہوتا گيا اور جب
حاجي صاحب نے اپني مشہور زمانہ كتاب ٫٫فيصلہ ہفت مسئلہ٬٬ لكھ كر ملك و
بيرون ملك شائع كرائي تو تمام علماے ديوبند ان كے باغي اور دشمن ہو گئے۔ حد
تو يہ ہے كہ حاجي صاحب كي كتابوں كي ہولي ديوبندي علما نے جلائي اور ان كے
نظريات سے كھلم كھلا اختلاف كرتے ہوئے نئي جماعت بنام ديوبندي جماعت كي بنا
ڈالي۔
اس ليے بر ملا كہا جائے گا كه علماے ديوبند اور جماعت ديوبند كا حاجي
امداد اللہ صاحب سے عقيدت مندانہ نہيں بلكہ باغيانہ تعلق ہے اور حاجي صاحب
مرحوم و مغفور كو ديوبندي جماعت ہر گز اپنا ره نما نہيں كہہ سكتي ہے۔
يہي ايك نام ايسا تھا جو جنگ آزادي ميں انگريز دشمني ميں صف اول ميں نظر
آتا ہے اور جب علماے ديوبند ان سے الگ تھلگ ہو گئے تو اب ديوبندي جماعت كا
پورا كشكول مجاہدينِ آزادي سے خالي ہے۔ ايك بھي شخص 1858ء تك اس جماعت كا
جنگ آزادي ميں شامل نہيں ہوا۔ ان تمام لوگوں نے انگريزوں كي ہم نوائي كي
اور ان غير ملكيوں كے تسلط كے ليے ہر ممكن مدد كرتے رهے۔
جب پوري جماعت جنگ آزادي ميں صفر نمبر پر پہنچ گئي تو كچھ جعل سازوں نے
تاريخ سازي كا بيڑا اٹھايا اور غلط بياني اور دروغ گوئي كا لبادہ پہن كر
اپنے دو مولوي صاحبان كو جنگ آزادي كا ہيرو ثابت كرنے كے ليے آنكھوں ميں
دھول جھونكنا شروع كر ديا، جس كي تازه مثال اتر پرديش كي حكومت كي جانب سے
شائع ہونے والے اردو ماہ نامہ نيا دور لكھنو كا وه نمبر ہے جو 1857ء كي جنگ
آزادي كے عنوان سے شائع ہوا ہے، جس كے ايك مضمون نگار فيصل احمد ندوي
بھٹكلي ندوۃ العلما لكھنو نے مولانا رشيد احمد گنگوهي اور مولانا قاسم
نانوتوي صاحبان كو جنگ آزادي كا سورما ثابت كرنے كے ليے بالكل غلط طور پر
يہ لكھا ہے كہ مولانا قاسم صاحب معركہ جنگ ميں نہ صرف شريك تھے بلكہ قيادت
كا فريضہ انجام ديا تھا۔ وه لكھتے ہيں:
مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوي كو سپہ سالار افواج قرار ديا گيا۔ شاملي اس
علاقے كا مركزي ميدان تھا وهاں تحصيل بھي تھي اور كچھ انگريز فوجي بھي رهتے
تھے۔ قرار پايا كہ شاملي كي طرف كوچ كر كے اس پر حملہ كيا جائے، چناں چہ
چڑھائي ہوئي ۔ شاملي كے ميدان ميں جنگ لڑي گئي ، انگريزي فوج سے مجاہدين كا
سخت مقابلہ ہوا، انجام كار مجاہدين كو غلبہ ہوا۔ مقامي حكام نے رپورٹوں ميں
ان انقلابي مجاہدين كے جوش و خروش سے بھر پور دليرانه حملوں كا حيرت سے
تذكره كيا ہے۔ انگريز فوج نے پسپا ہو كر تحصيل ميں پناه لي ، مجاہدين نے
تين دن محاصره كے بعد تحصيل كا دروازه توڑ ليا ، اور اندر داخل ہوئے۔ دست
بدست جنگ ہونے لگي، اسي اثنا ميں حضرت حافظ ضامن شہيد ہوئے۔٬٬
﴿ماہ نامہ نيا دور انقلاب1857ء نمبر،ص:92 93﴾
اب ميں اس كے بعد ايك ايسي تاريخي دستاويز آپ كے سامنے پيش كرنا چاہتا ہوں
جو ديوبندي جماعت كے مشہورو معتبر مصنف مولانا عاشق الٰہي ميرٹھي كي نوشتہ
اور شائع كرده ہے۔ مولانا ميرٹھي نے ايك متعارف كتاب تذكرۃ الرشيد كے نام
سے لكھي جس كے حصہ اول كے حاشيہ ميں قصبہ شاملي ميں انگريزوں سے ہونے والي
آويزش كا تفصيلي ذكر اس طور پر كيا گيا ہے:
٫٫اصل قصہ يوں سنا تھا كہ قاضي سعادت علي خاں پسر نجابت علي خاں رئيس اعظم
زميں دار تھانہ بھون ضلع مظفر نگر كے دو بيٹے تھے، جن ميں بڑے لڑكے عنايت
علي خاں نے باپ كے مرنے پر رياست كا كام سنبھال ركھا تھا۔ ان كے چھوٹے
بھائي عبد الرحيم خاں جو بڑے بھائي كو باپ كي جگہ سمجھتے تھے، با اطمينان
حسب خواہش جہاں جي چاہتا چلے جاتے اور اميرانہ زندگي بسر كيا كرتے تھے۔
حقيقت ميں دونوں بھائي ايك دوسرے كے جاں نثار اور شيدا و عاشق زار تھے، اسي
گھٹا ٹوپ اندھياو ں ميں جب كه كئي جگہ غدر اور دہلي اس كا آشيانہ بنا ہوا
تھا، عبد الرحيم خاں مع چند احباب كے سہارن پور گئے اور سراے ميں كسي دوست
كے پاس ٹھہرے ۔ زميں دارانہ قضيوں ميں آدمي كے دشمن بہتيرے ہو جاتے ہيں،
چناں چہ ايك بنيا جس كو قديم سے اس رياست كے ساتھ عداوت تھي اتفاق سے وهاں
مقيم تھا اس نے زمانہ غدر كو غنيمت سمجھا اور پنكھي صاحب انگريز سے جو
باغيوں كي سر كوبي كے ليے حكم موت كا مجاز بنا كر انتظاماً ضلع سہارن پور
ميں معين كيا گيا تھا، جا مخبري كي كہ تھانہ كا رئيس بھي كمپني سے باغي ہو
گيا ہے، چناں چہ اس كا بھائي دہلي ميں كمك بھيجنے كے ليے ہاتھي خريدنے آيا
اور كئي دن سے سراے ميں ٹھہرا ہوا ہے۔ ادھر يہ جھوٹي مخبري ہوئي اور ادھر
گلي كوچوں ميں دشمنوں نے اس افواه كو پھيلا ديا، يہاں تك كہ ايك گاردست
سراے روانہ كيا گيا اور عبد الرحيم خاں مع ہمراهيان بالزام بغاوت جيل خانہ
بھيج ديے گئے۔
زمانہ تھا احتياط كا، فوراً ناكرده گناه جماعت كو پھانسي كا حكم ہو گيا
اور اگلے دن قاضي عنايت علي خاں كو اپنے بھائي كے دنيا سے رحلت كي اطلاع
ملي۔
اس خبر سے عنايت علي خاں پر رنج و غم كے پل ٹوٹ پڑے اور جوشِ حزن ميں
بھائي كے انتقام كا خيال پختہ ہو گيا۔ اتفاق سے چند فوجي سوار كہاروں كے
كندھے پر كارتوس كي كئي بھنگياں لدوائے سہارن پور سے كرانہ كي طرف جا رہے
تھے كہ قاضي صاحب كو اس كي اطلاع ہوئي اور يہ اپنے جنون ميں مست چند رفقا
اور رعايا كو ساتھ لے شير علي كے باغ كي سمت سڑك پر جا پڑے اور جس وقت سوار
سامنے سے گزرے ان كا اسباب لوٹ ليا۔ ايك سوار اُسي جنگ ميں زخمي ہو كر بہ
سمت مشرق جنگل كو بھاگا مگر تھوڑے ہي فاصلے پر گھوڑے سے گر كر مر گيا۔ اس
فساد كي خبر مظفر نگر پہنچي تو حاكمِ ضلع كي طرف سے تھانہ پر فوج كشي كا
حكم ہو گيا، جس پر عنايت علي خاں نے فساد كھلم كھلا بلند كيا۔ چناں چہ
شاملي كي طرف انگريز فوج كے جانے كي جھوٹي خبر پا كر نقاره بجايا گيا اور
جتھہ كا جتھہ تحصيل شاملي پر چڑھ دوڑا۔ جس وقت گورنمنٹ كو اہل كاران تحصيل
كے مارے جانے، خزانہ كے لوٹے جانے كي اطلاع ملي تو حاكم شاملي پہنچااور چار
طرف نقشوں اور قصبہ كي ويراني و بربادي ديكھ كر غصہ سے تھرا اٹھا، آخر يہ
كہہ كر كہ تھانہ بھون بھي اسي طرح مسمار كرا كر چھوڑوں گا، مظفر نگر واپس
ہو گيا، اس ليے كہ تنہا تھا اور اس بد امني كے وقت ميں جان كا خطره قوي۔
چند ماه بعد جب كہ امن ہوا اور دہلي كے فتح ہو جانے كي خبر مشہور ہوئي تو
قاضي صاحب كو اپني جان كي فكر ہوئي، يہاں تك كہ تھانہ ميں يہ خبر گرم ہوئي
كہ علي الصباح انگريزي فوج يہاں پہنچنا چاہتي ہے۔ اس وحشت اثر اطلاع سے
لوگوں كے تلوے نيچے سے زمين نكل گئي اور بھاگنے كو سوجھي كہ جدھر منہ سر
سمائے نكل جائيں۔چناں چہ آدھي رات كے وقت قاضي صاحب نے مع چند ہمراہيان كے
تھانہ بھون كو خير باد كہا اور بہ سمت نجيب آباد روانہ ہوئے اور وہاں سے
خدا جانے كہاں گئے اور كيا ہوئے۔ كچھ پتہ نہ چلا۔ سنا گيا ہے كہ قاضي عنايت
علي كو ہمارے اكثر ديني حضرات نے كارروائي سے منع كيا اور كمپني كي طرف سے
يہي پيام پہنچايا گيا كہ تم فساد سے باز آجاو ، اپنے بھائي كو صبر كرو،
غلطي سے يہ حركت ہو گئي، تو اگر تم انتقام سے باز آگئے تو تم كو تھانہ كا
نواب بنا ديا جائے گا۔ مگر تقدير كے مضبوط پنجوں سے بھاگ جانا طاقت سے باہر
ہے۔ حق تعاليٰ كے علم ميں جب اس گھرانے كي تباہي و جلا وطني و گم شدگي و
خانہ ويراني اسي طرح مقدر تھي تو قاضي عنايت علي كيا سمجھتے ۔ صبح صادق
نمودار ہوئي تو بلاے بے درماں اپنے ساتھ لائي۔ تھانہ بھون سركاري فوج سے
گھير ليا گيا اور مشرقي جانب سے گولہ باري شروع ہو گئي۔ دن نكلنے پر فوج
قصبہ ميں داخل ہوئي اور قتل و قتال و لوٹ مار كا بازار گرم ہو گيا۔ رات كي
تاريكي چھانے سے پہلے پہلے شہر پناہ كے چاروں دروازے كھول ديے گئے اور
مكانات پر مٹي كا تيل ڈال كر آگ دے دي گئي۔ اس عالمِ كس مپرسي ميں نواح و
حوالي كے ديہاتوں نے لوٹ مار اور بے جا حركتوں كا زياده حصہ ليا۔ خلاصہ يہ
كہ رات كي تاريكي چھانے سے پہلے پہلے حاكمِ ضلع كا وه قول پورا ہو گيا كہ
شاملي كي طرح تھانہ بھون كو مسمار كر دوں گا۔٬٬
﴿حاشيه تذكرۃ الرشيد،جلد:اول،ص:111 112﴾
مذكوره بالا اقتباس جو مشہور كتاب ٫٫تذكرۃ الرشيد سے نقل كيا گيا ہے، اس
بات كا واضح ثبوت ہے كہ علماے ديوبند كے اكابر مولانا قاسم نانوتوي اور
مولانا رشيد احمد گنگوہي كا شاملي كي جنگ سے دور كا بھي واسطہ نہيں تھا اور
اگر كسي طرح كا تعلق ثابت كرنے كي كوشش كي جائے گي تو مولوي عاشق الٰہي
ميرٹھي كي كتاب جھوٹ كا پلنده اور اس كے مصنف كو بہت بڑا دروغ نويس، جھوٹا
تسليم كرنا پڑے گا، پھر تو سارا دفتر ردي كي ٹوكري ميں ڈالنے كے لائق ہو
جائے گا۔ اور اگر مولوي عاشق الٰہي ميرٹھي كي تصنيف تذكرۃ الرشيد كو بحث سے
الگ بھي كر ديا جائے تو بھي مولانا قاسم نانوتوي اور مولانا رشيد احمد
گنگوہي كو جنگ آزادي كا سپاہي ثابت نہيں كيا جا سكتا۔ كيوں كہ كسي عصري
تاريخ ميں ان حضرات كا اس حيثيت سے كوئي تذكره نہيں ہے۔
اس موقع پر يہ سوال ضرور پيدا ہوتا ہے كہ جب ان دونوں حضرات نے انگريزوں
كے خلاف جنگ آزادي ميں كوئي حصہ نہيں ليا تو آخر مولانا قاسم نانوتوي صاحب
كي گرفتاري كس سلسلہ ميں ہوئي تھي۔جس ميں خود مولانا نے بار بار اپني صفائي
ميں يہ كہا ہے كہ شاملي كي جنگ يا كسي اور شورش ميں ميں نے كوئي حصہ نہيں
ليا ہے۔ مجھ پر اس جنگ ميں حصہ لينے كا الزام بالكل غلط لگايا گيا ہے اور
مولانا كي يہ صفائي اتني با وزن تھي كہ انگريزي حكومت نے اسے پورے طور پر
تسليم كرتے ہوئے مولانا كو باعزت بري كر ديا۔انگريزوں كي سمجھ ميں دلائل سے
يہ بات آگئي كہ يہ مولانا تو اپنے آدمي ہيں جو غلط فہمي كي وجہ سے گرفتار
كر ليے گئے ہيں۔
مذكوره بالا حقائق كي روشني ميں يہ بات بالكل واضح ہو جاتي ہے كہ1857ء كي
جنگ آزادي ميں موجوده علماے ديوبند كے اكابر نے قطعي كوئي حصہ نہيں ليا ہے،
البتہ بريلوي جماعت كے جو اسلاف اس وقت بنام جماعتِ اہلِ سنت متعارف تھے
اور آج بھي اسي نام سے جانے اور پہچانے جاتے ہيں۔ انھوں نے ہي پوري جنگ
آزادي لڑي، تختہ دار پر چڑھے، عبور درياے شور﴿كالا پاني﴾ كي سزا كاٹي اور
ہنستے ہوئے جامِ شہادت نوش كرتے رہے۔ اس تاريخي حقيقت سے كوئي منصف انكار
نہيں كر سكتا۔
البتہ جنگ آزادي كا دوسرا دور جو در اصل تحريكِ آزادي ہے، جس ميں نہ كوئي
ميدانِ كار زار گرم ہوا، نہ تلواريں چليں، جس كي ابتدا 1885ء سے ہو كريہ
جنگ 1947ء تك چلي ۔ اس ميں تحريك شروع ہونے كے 46 سال بعد كچھ علماے ديوبند
نے ضرور حصہ ليا جس كي ابتدا 21- ء1920سے ہوتي ہے، مگر اس پورے ستائيس سالہ
دورِ تحريك ميں ان علماے ديوبند نے قائدانہ رول ادا كرنے كے بجاے ہندستان
كے قومي ليڈر مسٹر گاندھي، پنڈت جواہر لال نہرو كے فالور كي حيثيت سے شريك
رہے اور انھيں كي جے بولتے رہے، اس ليے اس تحريكِ آزادي كا بھي انھيں قائد
اور ره نما قرار نہيں ديا جا سكتا۔ |