1857 کی جنگ آزادی کے بعد کتب خانوں،مدرسوں اورخانقاہوں کی بربادی

دهلي مسلمانوں كي ساڑھے سات سو ساله تهذيب كا قديم مركز تھا۔ اس سرزمين ميں بڑے بڑے علما و فضلا پيدا هوئے، بهت سے مدارس اور خانقاهيں تعمير هوئيں ، علوم و فنون اور تاريخ و ادب كا مركز رها۔1857ئ كي جنگ آزادي كے بعد انگريزوں نے هزاروں انسانوں كو بے دريغ قتل كيا اور هزاروں عمارتوں كو ڈھا ديا اور منهدم كيا، بهت سي درس گاهيں اور مدرسے ويران و برباد هوئے۔ سيكڑوں علما و فضلا اور شعرا و ادبا گوليوں كا نشانه بنے ۔ صهبائي و مير پنجه كش جيسے استاذانِ زمانه مارے گئے، بهت سے كتب خانے برباد هوئے۔ سلاطينِ دهلي كے سيكڑوں برس كے ذخيرے اور علما كي قديم كتابيں برباد هوئيں۔


شاهي قلعه كے كتب خانے كي بربادي سب سے بڑا سانحه هے۔ يه وه كتب خانه تھا جس ميں همايوں كے ذخائر تھے ، جس ميں همايوں كے حكم سے ترجمه كي هوئي اور جمع شده كتابيں تھيں، جس ميں جهاں گير كي مساعي اور كاري گري كے نمونے تھے۔ غرض كه يه ايك بهت بڑا كتب خانه تھا۔ بعض اوقات حضرت شاه عبد العزيز بھي قلعے سے كتابيں منگاتے تھے ۔ اسي طرح مياں نذير حسين قلعے كي كتابوں سے استفاده كرتے تھے۔ يه كتب خانه ايسا مٹا كه نام و نشان نه رها۔


مفتي صدر الدين رحمۃ الله عليه نامي گرامي عالم تھے۔ بهت سے علما ان كے شاگرد تھے۔ مدرسه دار البقا كو انھوں نے زنده كيا ۔ مفتي صاحب كے پاس ايك اچھا كتب خانه تھا ۔ سقوطِ دهلي كے بعد مفتي صاحب بھي گرفتار هوئے ، مقدمه چلا، بڑي مشكل سے آدھي جائداد واگزاشت هوئي، ليكن كتب خانه واپس نه هوا۔ لارڈ لارنس سے خاص طور سے اس سلسلے ميں درخواست كي گئي۔مولف حدائق حنفيه رقم طراز هيں:


٫٫1273ھ ميں دهلي كے غدر ميں آپ كو سخت زخمِ چشم پهنچا كه تعلق رو زگار بھي هاتھ سے گيا۔اور تمام جائداد و املاك بھي جو تيس سال كي ملازمت ميں پيدا كي تھي، سركار ميں ضبط هو گئي۔ بلكه جهاد كے فتوے كے اشتباه ميں چند ماه تك نظر بند رهے ، آخر كو رهائي پا كر لاهور تشريف لائے اور واسطے اپنے كتب خانے ماليتي تين لاكھ روپے كے جو دهلي كي لوٹ ميں نيلام هو گيا تھا ، حضور لارڈ جان لارنس كے پاس گئے، اس وقت پنجاب كے چيف كمشنر تھے اور مولانا ممدوح كے دهلي ميں مهربان ره چكے تھے، مطالبه كيا، ليكن چوں كه جائداد منقوله كے نيلام كا واپس هونا متعذر تھا اس ليے اپنے مطلب ميں كامياب نه هوئے۔٬٬

﴿حدائق الحنفيه، ص:483﴾


نواب ضيائ الدين خاں نواب احمد بخش كے فرزند تھے۔ لوهارو سے ان كے حصے كي رقم ملا كرتي تھي۔ اردو فارسي كے اديب و شاعر تھے۔ اردو ميں نير اور فارسي ميں رخشاں تخلص كرتے تھے، تاريخ كے بڑے عالم تھے۔ ان كے پاس ايك اچھا كتب خانه تھا ۔ وه اپني آمدني كا بڑا حصه كتابوں كي فراهمي پر صرف كرتے تھے۔ هندستان كي ضخيم تاريخ ايليٹ نے آٹھ جلدوں ميں لكھي هے۔ نواب ضيائ الدين كے كتب خانے سے ايليٹ كو سب سے زياده مدد ملي۔ اس نے آٹھويں جلد ميں اس كا اعتراف بھي كيا هے ۔ نواب ضيائ الدين مرزا غالب كي نظم و نثر كو خاص طور سے محفوظ ركھتے تھے ۔ مرزا صاحب ايك خط ميں لكھتے هيں:


٫٫ميرا ايك سببي بھائي هے نواب ضيائ الدين خاں سلمه الله تعاليٰ، وه ميري نظم و نثر كو فراهم كرتا رهتا هے۔ چناں چه مجموعه نثر اور كليات نظم اردو، سب نسخے اس كے كتب خانے ميں تھے، وه كتب خانه كه ڈر كر عرض كر رها هوں بيس هزار روپے كي ماليت كاهوگا، لٹ گيا، ايك ورق نهيں رها۔٬٬﴿خطوط غالب، مرتبه غلام رسول مهر﴾


دلي كے ايك رئيس زادے حسين مرزا تھے جو حسام الدين حيدر خاں كے فرزند اور نواب ذولفقار الدوله نجف خاں كے نواسے تھے۔ مرزا غالب سے بڑے خاص تعلقات تھے، بلكه مثل ان كے عزيزوں كے تھے ان كا بڑا اچھا كتب خانه تھا ، وه بھي بري طرح برباد هو گيا۔ مرزا غالب لكھتے هيں:


٫٫بھائي ضيائ الدين صاحب اور ناظر حسين مرزا صاحب هندي، فارسي، نظم و نثر كے مسودات مجھ سے لے كر اپنے پاس جمع كر ليا كرتے تھے، سو ان دونوں گھروں پر جھاڑو پھر گئي ، نه كتاب رهي ، نه اسباب رها۔٬٬﴿خطوط غالب، مرتبه غلام رسول مهر﴾


كليم الله جهان آبادي كا مقبره اجڑ گيا، وليِ كامل تھے۔ ان كي خانقاه ميں ديگر خانقاه كي طرح كتب خانه تھا، اس كے علاوه شيخ كا كلام وغيره بھي تھا۔ جب بربادي هوئي تو شيخ كے تبركات اور كتب خانه بھي برباد هو گيا۔ مرزا غالب يكم دسمبر 1863ئ كے ايك خط ميں حكيم احمد حسن مودودي كو لكھتے هيں:


٫٫شيخ كليم الله جهان آبادي كا مقبره اجڑ گيا، ايك اچھے گاؤں كي آبادي تھي۔ ان كے گاؤں كے لوگ تمام اس موضع ميں سكونت پذير تھے۔ وهاں كے رهنے والے گولي سے بچ گئے هوں گے تو خدا هي جانتا هے كه كهاں هوں گے۔ ان كے پاس شيخ كا كلام بھي تھا، كچھ تبركات بھي تھے، اب وه لوگ نهيں هيں كس سے پوچھوں؟٬٬﴿خطوطِ غالب ، جلد دوم،ص:138﴾


غرض يه ان كتب خانوں كي نشان دهي هو سكي ورنه بهت سے علمي ذخائر اور كتب خانے ايسے برباد هوئے كه آج ان كي نشان دهي بھي مشكل هے۔


مدرسوں اور خانقاهوں كي ويراني:ان كتب خانوں كے علاوه بهت سے علمي مراكزاور تهذيبي و ثقافتي ادارے بھي ختم هو گئے، ان ميں سے دهلي كالج خاص طور سے قابلِ ذكر هے۔ اس كے علاوه مفتي صدر الدين آزرده كا مدرسه دار البقا ختم هوا۔جس سے سيكڑوں طالب علم فارغ هو كر نكلتے تھے۔ ان كے علاوه بزرگوں كے روحاني مراكز اور خانقاهيں بھي برباد هو گئيں ، كئي نام ور بزرگ اور مشائخ حجاز كو هجرت كر گئے۔


حضرت كليم الله جهان آبادي كي خانقاه دهلي كي مشهور خانقاه تھي۔ اس كي بربادي كا ذكر غالب كے خط ميں اوپر كيا جا چكا هے۔ اس كے علاوه حضرت شاه فخر الدين كا خاندان بري طرح برباد هوا۔ حضرت كالے صاحب نبيره شاه فخر الدين بادشاه كے پير تھے، ان كے هزاروں عقيدت مند تھے۔ اس خاندان كے متعلق مرزا غالب حكيم احمد حسن مودودي كو لكھتے هيں:


٫٫خود يهاں كالے صاحب مغفور كا گھر اس طرح تباه هوا، جيسے جھاڑو پھير دي، كاغذ كا پرزه، سونے كا تار پشمينه كا بال باقي نه رها۔٬٬﴿خطوط غالب،ج:2ص:138﴾


يهاں كالے صاحب كے فرزند مياں نظام الدين سخت مشكلات ميں مبتلا هوئے اور شهروں شهروں مارے مارے پھرے۔


﴿قيصر التواريخ، ج:2،ص:460﴾


مرزا غالب انوار الدوله كو لكھتے هيں:


٫٫حال صاحب زادے مياں نظام الدين﴿فرزند كالے مياں﴾ كا يه هے كه جهاں سب اكابر شهر سے بھاگے تھے وهاں يه بھي بھاگ گئے تھے۔ بڑوده ميں رهے، اورنگ آباد ميں رهے، حيدر آباد ميں رهے۔ سالِ گزشته جاڑوں ميں يهاں آئے، سركار سے ان كي صفائي هو گئي ليكن صرف جاں بخشي هو گئي۔٬٬


﴿خطوطِ غالب ، ج:2،ص:56﴾


اس كے علاوه حضرت مرزا جان جاناں كي خانقاه برباد هوئي۔ اس خانقاه كے سجاده نشيں شاه احمد سعيد صاحب تھے ۔ شاه صاحب اور ان كے چھوٹے بھائي شاه عبد الغني صاحب اس وقت كي دلي كے سر برآورده مشائخ اور علما ميں سے تھے۔


جب دهلي پر انگريزوں كا قبضه هو گيا تو يه دونوں بھائي حجاز كو هجرت كر گئے۔ ان دونوں بزرگوں كے جانے سے دهلي سوني هو گئي۔


﴿قيصر التواريخ،جلد:2،ص:463﴾آ
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381258 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.