1۔ قبر کی ڈانٹ
محمد غزالی “کیمیائے سعادت“ میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں، جب کسی میت کو قبر
میں اتار دیا جاتا ہے تو قبر فوراً اس سے سوال کرتی ہے کہ اے آدمی ! تو نے
مجھے کس لئے فراموش کر رکھا تھا ؟ کیا تجھے اتنا بھی پتا نہ تھا کہ میں
دُکھوں کا گھر ہوں جس میں رنج درد اور تکلیف ہی تکلیف ہے، اندھیرا گھر ہوں
جس میں تاریکی ہی تاریکی ہے، تنہائی کا گھر ہوں، پھے اے شخص تو کس بات پر
اکڑ اکڑ کر پھرتا تھا ؟ یہاں تک کہ میرے اوپر سے گزرتے وقت تیرا ایک پاؤں
حیرت سے کہیں پڑتا تھا تو دوسرا کہیں۔ قبر کی ڈانٹ سن کر اگر وہ مُردہ کسی
نیک بندے کا ہو تو ایک غیبی آواز یہ کہہ کر قبر کو مطمئن کر دیتی ہے کہ اے
قبر ! یہ تو کس سے کہہ رہی ہے ! یہ تو ایک نیک اور پاکیزہ بندہ ہے جو ہمیشہ
نیکی کا حکم کرتا رہا اور بُرائی سے منع کرتا رہا یہ سن کر قبر کہتی ہے،
اچھا یہ بات ہے تو یہ لوگ میں اس کے لئے گلزار بن جاتی ہوں۔ چنانچہ پھر اس
شخص کا بدن نور میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کی رُوح آسمان کی طرف پرواز کر
جاتی ہے۔
اس حدیث پاک پر آپ ذرا غور فرمائیے کہ جب کوئی قبر میں جاتا ہے چاہے وہ نیک
ہو یا بد اس کو قبر میں ڈرایا جاتا ہے۔ اے اسلام کی تبلیغ کرنے والو !
تمہیں مبارک ہو۔ اے نیکی کے کام کرنے والو ! تمہیں مبارک ہو کہ قبر میں ایک
غیبی آواز آپ کی تائید و حمایت کرے گی اور اس طرح قبر آپ کے لئے گلزار بن
جائے گی اور یاد رکھئے ! قبر میں صرف عمل جائے گا، آپ کی بلند کوٹھیاں،
محلات، مکانات، آپ کی دولت، آپ کا بینک بیلنس، آپ کا وسیع کاروبار، آپ کے
بڑے بڑے پلاٹ، آپ کے لہلہاتے کھیت اور خوشنما باغات، یہ آپ کے ساتھ قبر میں
نہیں آئیں گے۔ چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا
ہے تو سب سے پہلے اس کا عمل آکر اس کی بائیں ران کو حرکت دیتا ہے اور کہتا
ہے کہ میں تیرا عمل ہوں وہ مُردہ پوچھتا ہے میرے بال بچے کہاں ہیں ؟ میری
نعمتیں کہاں ہیں ؟ میری دولتیں کہاں ہیں ؟ تو عمل کہتا ہے یہ سب تیرے پیچھے
رہ گئے اور میرے سوا تیری قبر میں کوئی نہیں آیا۔
2۔ قبر کا سلوک
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ، ایک مرتبہ کسی جنازے کے ساتھ
تشریف لے گئے جب قبرستان پہنچے تو ایک الگ جگہ پر بیٹھے گہری سوچ میں پڑ
گئے لوگوں نے عرض کیا، یاامیر المومنین ! آپ تو اس جنازے کے ولی تھے اور آپ
ہی علیحدہ ہو کر بیٹھ گئے ؟
فرمایا، ہاں مجھے ایک قبر نے آواز دی اور مجھ سے یوں کہا کہ اے بن
عبدالعزیز ! تو مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتا کہ میں ان آنے والوں کے ساتھ
کیسا سلوک کرتی ہوں ؟ میں نے کہا تو مجھے ضرور بتا۔ اس نے کہا میں ان کے
کفر پھاڑ دیتی ہوں، بدن کے ٹکڑے کر دیتی ہوں، خون سارا چوس لیتی ہوں، گوشت
کھا لیتی ہوں اور بتاؤں کہ آدمی کے جوڑوں کے ساتھ کیا کرتی ہوں ؟ مونڈھوں
کو باہوں سے جُدا کر دیتی ہوں اور سرینوں کو رانوں سے جدا کر دیتی ہوں اور
رانوں سے گھٹنوں اور گھٹنوں کو پنڈلیوں سے اور پنڈلیوں کو پاؤں سے جدا جدا
کر دیتی ہوں۔یہ فرما کر عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ رونے لگے اور
فرمایا کہ دنیا کا قیام بہت ہی تھوڑا ہے اور اس کا دھوکہ بہت زیادہ ہے اس
میں جو عزیز ہے وہ آخرت میں ذلیل ہے اس میں جو دولت والا ہے وہ آخرت میں
فقیر ہے اس کا جوان بہت جلد بوڑھا ہو جائے گا اس کا زندہ بہت جلد مر جائے
گا اس کا تمہاری طرف متوجہ ہونا تم کو دھوکہ میں نہ ڈال دے حالانکہ تم دیکھ
رہے ہو کہ یہ کتنی جلدی منہ پھیر لیتی ہے اور کتنا نادان ہے وہ شخص جو اس
کے دھوکے میں پھنس جائے کہاں گئے اس کے وہ دلدادہ جنہوں نے بڑے بڑے شہر
آباد کئے، بڑی بڑی نہریں نکالیں، بڑے بڑے باغات لگائے اور بہت تھوڑا عرصہ
رہ کر سب کچھ چھوڑ کر چل دئیے وہ اپنی صحت اور تندرستی کے بل بوتے پر
گناہوں میں مبتلا ہوئے اور یہ لوگ مال کی کثرت کے سبب قابل رشک تھے باوجود
اس کے کہ مال کمانے میں ان کو بہت رکاوٹیں پیش آتی تھیں مگر پھر بھی خوب
کماتے تھے ان پر لوگ حسد کرتے تھے لیکن وہ بالکل بے فکر ہو کر مال کو جمع
کرتے رہتے تھے اور اس کے جمع کرنے میں ہر قسم کی تکلیف کو خوشی سے برداشت
کرتے تھے لیکن اب دیکھ لو کہ مٹی نے ان کے بدنوں کا کیا حال کر دیا اور خاک
نے ان کے جسموں کو کیا بنا دیا کیڑوں نے ان کے جوڑوں اور ان کی ہڈیوں کا
کیا حال بنا دیا وہ لوگ دنیا میں اونچی اونچی مسہریوں پر اونچے اونچے فرش
پر اور نرم نرم گدوں پر نوکروں اور خادموں کے درمیان آرام کرتے تھے عزیز و
اقارب، رشتہ دار اور پڑوسی ہر وقت دلداری کو تیار رہتے تھے، لیکن اب کیا ہو
رہا ہے ؟ کوئی آواز دے کر ان سے پوچھے کہ تم پر کیا گزر رہی ہے ؟
غریب امیر سب ایک ہی میدان میں پڑے ہوئے ہیں کوئی مالدار سے پوچھے کہ اے
بھائی مالدار تیرے مال نے تیری قبر میں کیا ساتھ دیا ؟ کوئی غریب سے پوچھے
کہ اے بھائی غریب تیری غربت نے تجھے قبر میں کیا نقصان پہنچایا ؟ ان کی
زبان کا حال پوچھ جو بہت چہکتی تھی ان کی آنکھوں کو دیکھ جو ہر طرف دیکھتی
تھیں، ان کی نرم نرم کھالوں کا حال دریافت کر، ان کے خوبصورت اور دلرُبا
چہروں کا حال پوچھ کہ ان کا کیا بنا ؟ ان کے نازک جسموں کا پوچھ کہ کہاں
گیا اور کیڑوں نے ان سب کا کیا حشر بنایا ؟ ان کے رنگ کالے کر دئیے ان کا
گوشت کھا لیا ان کے منہ پر مٹی ڈال دی اعضاء کو الگ الگ کر دیا جوڑوں کو
توڑ دیا۔
آہ !! کہاں ہیں ان کے وہ خدا جو ہر وقت “حاضر ہوں جی“ کہتے تھے۔
کہاں ہیں ان کے خیمے اور خوبصورت کمرے جن میں آرام کرتے تھے کہاں ہیں ان کے
وہ مال اور خزانے جن کو وہ جوڑ جوڑ کر رکھا کرتے تھے۔ ان خدام نے ان کو قبر
میں کھانے کے لئے کوئی توشہ بھی نہ دیا ان کی قبر میں کوئی بستر بھی نہ
بچھا دیا کوئی تکیہ ہی لگا دیا ہوتا یونہی زمین پر ہی ڈال دیا۔ کوئی باغیچہ
اور کوئی پھلواری بھی نہ لگا دی آہ ! اب وہ بالکل اکیلے ہی پڑے ہیں اور
اندھیرے میں پڑے ہیں ان کے لئے اب رات دن یکساں ہیں، دوستوں کو بھی نہیں مل
سکتے اور نہ ہی کسی کو اپنے پاس بلا سکتے ہیں۔
اب یہ اس حال میں پڑے ہیں کہ ان کی بیویوں نے دوسرے نکاح کر لئے وہ دوسروں
کے پہلوؤں میں مزے اڑا رہی ہیں وارثوں نے نکانوں پر قبضہ جما لیا اور مال
تقسیم کر لیا۔
مگر بعض خوش نصیب ایسے بھی ہیں جو اپنی قبروں میں بھی مزے اڑا رہے ہیں
تروتازہ چہروں کے ساتھ راحت اور سکون میں ہیں لیکن یہ وُہی لوگ ہیں جنہوں
نے اس دھوکہ کے گھر میں قبر کو یاد رکھا اور اپنے لئے توشہ جمع کرتے رہے
اور اپنے پہنچنے سے پہلے اپنے جانے کا سامان کر لیا۔
اے میرے نادان اسلامی بھائی ! تو عنقریب قبر میں ضرور جائے گا تجھے اس دنیا
کو چھوڑنا ہی پڑے گا پھر آخر کس چیز نے تجھ کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے تجھے
امید ہے کہ یہ کمبخت دنیا تیرے ساتھ رہے گی کیا تجھے یہ امید ہے کہ تو اس
کوچ کے گھر میں ہمیشہ رہے گا تیرے یہ وسیع مکانات تیرے یہ باغوں کے پکے
ہوئے پھل، تیرے نرم نرم بسترے، تیرے گرمی سردی کے بیش قیمت لباس سب کے سب
ایک دم رکھے رہ جائیں گے جب ملک الموت علیہ السلام آ جائیں گے تو کوئی چیز
ان کو نہ روک سکے گی۔ پسینوں پر پسینے آنے لگیں گے، پیاس کی شدت بڑھ جائے
گی اور جان کنی کی سختی میں کروٹیں بدلتا رہ جائے گا۔
افسوس صد افسوس ! اے میرے وہ بھائی، کہ آج مرتے وقت اپنے بھائی کی آنکھ بند
کر رہا ہے۔ کوئی اپنے بیٹے کی آنکھ بند کر رہا ہے، کوئی اپنے باپ کی آنکھ
بند کر رہا ہے ان میں سے کوئی کسی کو غسل دے رہا ہے، کسی کو کفن پہنا رہا
ہے، کسی کے جنازے کے ساتھ جا رہا ہے، کسی کو قبر کے گڑھے میں ڈال رہا ہے۔
کل کو تجھے بھی یہ سب کچھ پیش آنا ہے۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ
تعالٰی عنہ نے دو شعر پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے کہ “آدمی ایسی چیز کے ساتھ
خوش ہوتا ہے جو عنقریب فنا ہونے والی ہے اور لمبی لمبی آرزؤں اور دنیا کی
امیدوں میں مشغول رہتا ہے۔“
تیرا سارا دن غفلت میں گزرتا ہے اور رات تیری سونے میں گزر جاتی ہے اور موت
تیرے اوپر سوار ہے دنیا میں چوپائے اس طرح زندگی گزارتے ہیں جس طرح تو
زندگی گزار رہا ہے کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا
کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کا وصال ہو گیا۔
3۔ قبر کا امتحان
پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو ! آہ ایک نہ ایک دن ہمیں بھی قبر کے ہولناک
گڑھے میں اتار دیا جائے گا، ہاں ہاں ! ہم اپنے دفن کرنے والوں کو دیکھ رہے
ہوں گے جب وہ مٹی ڈال رہے ہوں گے یہ بھی نطر آ رہا ہوگا لیکن کچھ بول نہیں
سکیں گے۔ دفن کرنے کے بعد ہمارے ناز اٹھانے والے رخصت ہو رہے ہوں گے قبر
میں ان کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی ہوگی دل ڈوبا جا رہا ہوگا اتنے میں
اپنے لمبے لمبے دانتوں سے قبر کی دیواروں کو چیرتے ہوئے خوفناک شکلوں والے
مہیب بالوں کو لٹکائے ہوئے دو فرشتے منکر نکیر قبر میں آ موجود ہوں گے ان
کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوں گے اور وہ سختی کے ساتھ بیٹھائیں گے اور
کرخت لہجے میں سوالات کریں گے۔
من ربک ؟ تیرا رب کون ہے ؟ آہ ! رب عزوجل کو کب یاد کیا تھا جواب نہیں بن
پڑ رہا جو ایمان برباد کر بیٹھا اس کی زبان سے نکل رہا ہے، ھیھات ھیھات لا
ادری، افسوس افسوس ! مجھے کچھ نہیں معلوم ! پھر پوچھا جائے گا، مادینک ؟
تیرا دن کیا ہے ؟ ایمان برباد کرکے قبر میں جانے والا مُردہ سوچ رہا ہے کہ
ہم نے تو آج تک دنیا ہی بسائی تھی قبر کے امتحان کی تیاری کی طرف کبھی ذہن
ہی نہیں گیا بس صرف دنیا کی رنگینیوں ہی میں کھوئے ہوئے تھے، ہمیں قبر کے
امتحان کا کہاں پتا تھا کچھ سمجھ نہیں آرہی اور زبان سے نکل رہا ہے، ھیھات
ھیھات لا ادری، افسوس افسوس مجھے تو کچھ معلوم نہیں، پھر ایک حسین و جمیل
نور برساتا جلوہ دکھایا جائے گا اور سوال ہوگا ماکنت تقول فی حق ھذا الرجل
ان کے بارے میں تو کیا کہتا تھا ؟ کیسے پہنچانیں گے، داڑھی سے تو انسیت تھی
نہیں، یہودیوں کا طریقہ عزیز تھا یہ تو داڑھی والی شخصیت ہے کبھی زندگی میں
عمامے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ تو عمامے والے صاحب ہیں۔ یہ بزرگ تو زلفوں
والے ہیں ہمیں تو انگریزی بال عزیز تھے انہوں نے تو کُرتا شریف زیب بدن کیا
ہوا ہے اور ہم تو پینٹ شرٹ پہن کر گھومتے تھے ہم کیا جانیں یہ کون صاحب ہیں
ہمیں تو فنکاروں، گلوکاروں کے نام یاد ہیں ہمیں نہیں معلوم یہ کون صاحب ہیں
جس بدنصیب کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا، اس کے منہ سے نکلے گا، ھیھات ھیھات
لا ادری، “افسوس افسوس ! مجھے تو کچھ معلوم نہیں“ اتنے میں جنت کی کھڑکی
کھلے گی اور فوراً بند ہو جائے گی پھر جہنم کی کھڑکی کھلے گی اور کہا جائے
گا اگر تونے درست جواب دئیے ہوتے تو تیرے لئے وہ جنت کی کھڑکی تھی یہ سن کر
اسے حسرت بالائے حسرت ہوگی۔ کفن کو آگ کے کفن سے تبدیل کر دیا جائے گا۔ آگ
کا بستر قبر میں بچھایا جائے گا سانپ اور بچھو لپٹ جائیں گے۔
اور جب مومن اور نیک بندہ قبر میں جائے گا اور اس سے سوال ہوگا من ربک ؟
تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہے گا ربی اللہ میرا رب اللہ عزوجل ہے ! ما دینک ؟
تیرا دین کیا ہے ؟ زبان سے نکلے گا دینی الاسلام میرا دین اسلام ہے۔ پھر
پوچھا جائے گا ماکنت تقول فی حق ھذا الرجل اس ہستی کے بارے میں تو کیا کہتا
تھا ؟ تو زبان سے بے ساختہ جاری ہو گا۔ ھو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ
والہ وسلم، یہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد
جہنم کی کھڑکی کھلے گی اور فوراً بند ہو جائے گی اور جنت کی کھڑی کھلے گی۔
کہا جائے گا اگر تو نے درست جوابات نہ دئیے ہوتے تو تیرے لئے وہ دوزخ کی
کھڑکی تھی یہ سن کر اسے خوشی بالائے خوشی ہوگی، اب جنتی کفن ہوگا، جنتی
بچھونا ہوگا۔ قبر تاحد نظر تک وسیع ہوگی اور مزے ہی مزے ہوں گے۔ |