قدوۃ السالکین، سراج العارفین،
زبدۃ العارفین، محبوب سبحانی، غوث صمدانی، محی الدین الشیخ عبدالقادر
جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مراتب علیامدارج رفعیہ حاصل ہیں۔ وہ کسی اور
کو حاصل نہیں ہیں
جو ولی قبل تھے بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں مرے آقا تیرا
عبادت و ریاضت، تقوٰی و درایت، توکل و غنا، جود و سخا، کرم و عطا، معرفت و
درایت، کشف و کرامت اور مجاہدہ نفس کی جو رعنائیاں آپ میں نظر آتی ہیں وہ
دیگر ارباب تصوف میں نظر نہیں آتی ہیں، افق ولایت پر بہت سے ماہ و نجوم
درخشندہ و تابندہ ہوئے ہیں اور اپنی تابانیوں کو دکھا کر روپوش ہو گئے مگر
محبوب سبحانی کا مہر درخشاں ہے آج بھی اتباع شریعت و طریقت، علم ظاہر و
باطن اور کشف و معرفت میں آپ یکتائے روزگار اور منفرد المثال ہیں کرامتوں
کی دنیا بڑی وسیع و عریض ہے، مردہ کو زندہ کرنا، چور کو ابدال بنانا، ڈاکو
کو ولی اور ولی گر بنانا، ڈوبی کشتی کا پار لگانا، بیک وقت ستر مریدوں کے
یہاں افطار کرنا، مدرسہ نظامیہ میں بیٹھ کر مصیبت زدہ مسافروں کی مدد کرنا،
لاولد کو اولاد سے نوازنا آپ کے عظیم الشان مرتبہ ولایت کی بین دلیل ہے۔
سردست عنوان کے مطابق آپ کی چند کرامتیں حاضر خدمت ہیں ملاحظہ فرماکر عقیدت
کو لذت بخشیں۔
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت باسعادت یکم
رمضان المبارک بروز جمعہ 570ھ مطابق 1075ھ میں سر زمین جیلان میں ہوئی یوں
تو حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اللہ تعالٰی نے مادر زاد ولی
بنایا تھا اور آپ جملہ مناصب پر بالکلیہ فائز تھے۔فصاحت و بلاغت کے اعتبار
سے شیخ سعدی کا یہ قول پورا اترتا تھا
بالائے سرش زہوشمندی
می تافت ستارہ بلندی
آپ جس خاندان میں پیدا ہوکر پروان چڑھے اور زمانہ طفولیت گزارا وہ حسنی اور
حسینی سادات کرام کا ایسا پروقار گھرانا تھا جو اتباع شریعت و طریقت اور
پیروی سنت کے اعتبار سے ایک الگ مقام رکھتا تھا۔ جس زمانے میں تاجدار جیلاں
عبادت و ریاضت اور مجاہدہ نفس کے دشوار گزار مراحل طے فرما رہے تھے۔ شیطان
کی فتنہ پردازیاں چراغ سحر کی طرح پھر بھڑکیں اب تک ہر موڑ پر شیطان آپ سے
شکستیں کھا چکا اور اپنے کسر فریب میں نہ لا سکا تھا فضل الٰہی سے آپ
روحانیت کے مقام ارفع و اعلٰی پر گامزن ہوتے جا رہے تھے۔ رفعت و بلندی کی
انتہائی منازل تک آپ کی رسائی شیطان سے دیکھی نا جا سکی اور پراگندہ صورت
بنائے بدبودار لباس اوڑھے ہوئے آپ کی خدمت میں آکر کہنے لگا میں ابلیس ہوں
میری جماعت کے تمام افراد کو آپ نے عاجز و ناکام کر دیا اپنے سارے ہتھکنڈے
استعمال کر چکا لیکن آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی لٰہذا میں نے ہار مان
لی۔ اور آپ کی خدمت بابرکت میں رہنے کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں سرکار غوث
اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ارشاد فرمایا لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی
العظیم ظالم میں کسی طرح مطمئن نہیں ہو سکتا یہ تیری باتیں سراسر فتنہ ہیں۔
جس میں تو مجھے ملوث کرنا چاہتا ہے۔ ابھی آپ کا جواب ختم بھی نہیں ہوا تھا
کہ پردہ غیب سے ایک ہاتھ نمودار ہوا اور شدت کے ساتھ ابلیس کے سر پر پڑا کہ
زمین کے اندر دھنستا ہوا غائب ہو گیا۔
سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مکمل طور پر علوم ظاہری حاصل کرنے
کے بعد علوم باطنی کے حصول کی ابتدا کی اور مجاہدہ و ریاضت کی انتہائی مشکل
اور پرخار راہوں میں قدم رکھا چنانچہ آپ شہر چھوڑ کر عراق کی ویران وادیوں
میں یکتا و یگانہ زنسگی بسر کرنے لگے تاکہ کامل یکسوئی حاصل ہو اور اپنے
معبود حقیقی کی عبادت و بندگی خشوع و خضوع سے کی جا سکے۔ تین سال کا عرصہ
گزر جانے کے بعد آپ اپنے نفس کو انتہائی مشقت و جانفشانی میں ڈال دیا اور
ایک سال تک آپ نے قطعی پانی نوش نہیں فرمایا صرف جنگلی ساگ و پات پر قناعت
فرماتے رہے پھر ایک سال مکمل صرف پانی پر گزارا کیا اور کھانا ترک کردیا
تیسرے سال کھانے پینے سونے ہر شئی سے اپنے نفس کو محروم کردیا۔ حضور سیدنا
شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ایسا عروج و ارتقا نصیب ہوا
کہ آپ خود فرماتے ہیں کہ میں عراق کے جنگلوں میں بیس سال تک رہا شب و روز
سوائے عبادت الٰہی کوئی کام نہ کرتا سالہا سال راتیں آنکھوں سے گزریں۔ نیند
کا غلبی طاری ہوتا تو میں ایک قدم پر کھڑا ہو جاتا اور مکمل قرآن مقدس ختم
کر لیتا پھر عبادت الٰہی میں مصروف ہو جاتا۔ ایک دفعہ آپ نے ارشاد فرمایا
میں کئی سال ویرانوں میں رہا اور وہاں میری خوراک صحرا کی کھجوریں اور لباس
سوت کا ایک جبہ تھا۔ میں برہنہ پا جنگلوں میں چلتا پھرتا تھا میرے تلوے
چھلنی ہو گئے تھے۔ زمانہ شباب میں لوگوں پر جذبات غالب ہوتے ہیں مگر میں
جوانی پر قابو پا چکا ہوں ایک بار لوگوں نے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی
اللہ تعالٰی عنہ سے کہا کہ ہم آپ کی مانند روزے رکھتے نمازیں ادا کرتے اور
آپ ہی کے مثل ریاضت و بندگی کرتے مگر آپ کے جیسا مرتبہ نہ پاسکے۔ اس پر
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ
تم لوگوں نے اعمال میں مزاحمت کی تو کیا خدا کی نعمتوں میں بھی مزاحمت کر
سکتے ہو واللہ میں کبھی کھانا نہیں کھاتا ہوں جب تک کہ ہاتف غیبی سے یہ ندا
نہ سن لیتا ہوں۔ حق کی قسم ! اے عبدالقادر تو کھا لے۔ میں کبھی نہیں پیتا
ہوں یہاں تک کہ مجھ سے کہا جاتا ہے کہ اے عبدالقادر! تجھے میرے حق کی قسم
تو پی لے۔ اسی لئے اعلٰیحضرت فاضل بریلوی رضی اللہ تعالٰی عنہ بارگاہ غوث
اعظم میں یوں عرض کرتے ہیں۔
قسمیں دے دے کے کھلاتا ہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ ترا چاہنے والا تیرا
سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ مذید آگے ارشاد فرماتے ہیں
کہ میں کسی فعل کو انجام نہیں دیتا حتٰی کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ اے
عبدالقادر! یہ کر۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آپ ایسے جنگل میں تشریف لے گے
جہاں کھانے پینے کی اشیاء کا دور دراز تک کوئی نام و نشان نہیں تھا مسلسل
کئی روز تک مصروف عبادت رہنے کے بعد بھوک پیاس کا غلبہ ہوا بیک وقت دیکھتے
ہی دیکھتے ابر چھا گیا اور خوب زوردار بارش ہوئی تب آپ نے پانی نوش فرمایا
تھوڑے سے وقت کے بعد تیز روشنی ظاہر ہوئی اور آسمان سے چہار جانب میں پھیل
گئی اسی میں سے آواز آئی “عبدالقادر میں تمہارا خدا ہوں آج سے میں نے تم پر
جملہ اشیاء حلال کر دیں اور تم پر نماز معاف کردی آپ نے یہ سنتے ہی لاحول
ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم کا ورد فرمایا اور فوراً روشنی کافور ہوگئی
اور اس کی جگہ دھواں پھیل گیا پھر آواز آئی، عبدالقادر تم کو تمہارے علم نے
بچالیا ورنہ میں تم جیسے کتنے عابدوں، زاہدوں کو تاریک وادی میں گم کرچکا
ہوں۔ آپ نے جواب دیا، اے کمبخت شیطان مجھ کو میرے علم نے نہیں بلکہ فضل رب
نے بچالیا۔ اتنا سننا تھا کہ شیطان نے گہری سانس لی اور یہ کہتا ہوا چل دیا
کہ تم پھر بچ گئے ان خطرناک منازل کے بعد خداوندقدوس نے آپ کے اوپر آپ کا
باطن ظاہر فرمایا ابلیس نے مخلوق کی محبت اور دنیاوی تعلقات کے جال بچھانے
شروع کر دئیے مگر فضل ربانی سے حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ
تعالٰی عنہ نے قطعی التفات نے کیا آخر ایک سال بعد دنیاوی رشتوں اور محبتوں
کے جال بھی تار تار ہو گئے اور سرکار جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کٹھن
دشوار منزل سے بتمام و بکمال گزر گئے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ
دور طالب علمی سے ہی عادتاً ویرانوں، جنگلوں، بیابانوں میں مصروف ذکر الٰہی
رہا کرتے تھے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کا عظیم کارنامہ تو یہ تھا کہ جب
امت مسلمہ اپنی صحیح راہ سے بھٹک کر اسلامی تعلیمات کو محض زبانی پندو
نصائح تک محدود کر لینے کے باعث زوالی اور پستی کا شکار ہوگئی تو آپ نے
جدوجہد اور اتباع رسول کا والہانہ اور ایثار و قربانی سے لبریز عملی درس
دیا جس سے منطقی نتیجہ میں دنیائے اسلام ایک بار پھر اپنا کھویا ہوا مقام
حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
ایک مرتبہ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ والدہ ماجدہ سے
اجازت لیکر جستجوئے علم میں گھر سے باہر نکلے رات کا وقت تھا سخت سردی اور
تیز ہوا چل رہی تھی اس خوف و دہشت والے منظر میں شیخ عبدالقادر جیلانی رضی
اللہ تعالٰی عنہ جب در استاذ پر پہنچے تو استاذ کے گھر کے دروازے کو بند
پایا پوری رات وہیں کھڑے رہے جب صبح کی سفیدی نمودار ہوئی تو استاذ صاحب نے
باہر جانے کے لئے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک بچہ کھڑا ہے آپ کے استاذ نے
سوال کیا میاں کون ہو ؟ اور یہاں کب سے کھڑے ہو دیکھتے نہیں سردی کتنی سخت
ہے آپ نے فرمایا رات ہی سے۔ یہ تھا ادب معلم جو ابھی استاذ ہوئے بھی نہ تھے
آج کے دور کے طالب علموں کو اس سے استفادہ کرنا چاہئیے۔ یہی موڑ طالب علم
کو کامیابی کی منازل پر گامزن کر سکتا ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے۔
باادب بانصیب بے ادب بے نصیب
جب سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عمر شریف 19سال کی
ہوئی اور احیاء دین کا کام بطرز احسن ادا کرلیا تو اللہ تعالٰی نے ان کی
الوالعزم ذات گرامی کے ذریعے دنیا کو اتحاد اور شریعت و طریقت سے روشناس
کراکے کل نفس ذائقۃ الموت کے تحت اپنے جوار رحمت میں راحت ابدی کی نیند سے
سرفراز فرمایا اور آپ دنیا کو الوداع اور داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے گیارہ
ربیع الثانی کو محبوب حقیقی سے جاملے۔ آپ کے علومرتبہ کا یہ عالم ہے کہ اگر
کوئی شخص کسی حاجت میں اللہ تبارک و تعالٰی کی جانب غوث اعظم رضی اللہ
تعالٰی عنہ کا توسل کرے تو اس کی حاجت روائی ہوگی۔
* ابو مظفر نامی ایک تاجر نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے استاذ
محترم حضرت سیدنا شیخ حماد کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ حضور سو
اشرفیاں اور اتنی قیمت کا سامان لیکر تجارت کیلئے قافلہ کے ہمراہ شام جا
رہا ہوں آپ سے دعا کی درخواست ہے۔ سیدنا شیخ حماد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے
فرمایا تم اپنا سفر ملتوی کردو اگر سفر کے لئے گئے تو ڈاکو تمہارا سارا مال
لوٹ لیں گے اور تمہیں بھی قتل کر ڈالیں گے تاجر یہ سن کر بڑا پریشان ہوا
اسی پریشانی کے عالم میں واپس آرہا تھا کہ راستے میں حضور غوث اعظم رضی
اللہ تعالٰی عنہ سے ملاقات ہوگئی آپ نے ارشاد فرمایا کہ کبیدہ خاطر نہ شوق
سے ملک شام کا سفر کرو۔ انشاءاللہ سب درست ہو جائیگا چنانچہ وہ قافلے کے
ساتھ روانہ ہوگیا اس کے کاروبار میں انتہائی نفع ہوا۔ ایک ہزار اشرفیوں کی
تھیلی لیکر حلب پہنچا اتفاقاً وہ اشرفیوں کی تھیلی کہیں رکھ کر بھول گیا
اسی فکر میں نیند نے غلبہ کیا اور سو گیا اور حالت نوم میں اسے ایک خوفناک
خواب نظر آیا کہ ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کرکے سارا مال لوٹ لیا اور اسے
بھی قتل کر ڈالا خوف و دہشت کے مارے اس کی آنکھ کھل گئی گھبرا کر اٹھا تو
وہاں پر کوئی ڈاکو وغیرہ نہیں تھے۔ اب اسے یاد آیا کہ اشرفیوں کی تھیلی
فلاں جگہ رکھی ہے۔ جلدی سے پہنچا تو تھیلی اسے مل گئی خوشی خوشی بغداد شریف
واپس آیا اور غور و فکر کرنے لگا کہ پہلے غوث اعظم سے ملوں یا شیخ حماد سے۔
اتفاقاً راستے ہی میں شیخ حماد رضی اللہ تعالٰی عنہ مل گئے دیکھتے ہی
فرمانے لگے کہ پہلے جاکر غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملو کہ وہ محبوب
ربانی ہیں انہوں نے تمہارے حق میں ستر بار دعاء مانگی اس لئے تمہاری تقدیر
بدل گئی اللہ عزوجل نے تمہارے ستاھ ہونے والے واقعہ کو خواب میں تبدیل
کردیا۔ چنانچہ وہ غوث اعظم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو حضور غوث اعظم رضی
اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میں نے تمہارے حق میں ستر بار دعاء مانگی تھی جس
کی بناء پر تم اپنے ساتھ ہونے والے حادثے سے محفوظ و مامون رہے۔
* ایک روایت میں ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں ایک خادم نے حاضر بارگاہ
ہو کر عرض کیا حضور میری تمنا ہے کہ آج میرے غریب خانے پر روزہ افطار کریں
آپ نے منظور فرمالیا۔ اور وہ چلے گئے اس کے بعد ایک دوسرے خادم حاضر خدمت
ہوئے انہوں نے بھی یہی خواہش ظاہر کی کہ آج میرے یہاں افطار فرمائیں آپ نے
ان کی بھی دعوت قبول فرمالی ان کے جاتے ہی تیسرے خادم حاضر ہوئے اور بڑی
عاجزی کے ساتھ انہوں نے بھی یہی مدعا پیش کیا ان سے بھی وعدہ فرما لیا اسی
طرح یکے بعد دیگرے ستر خدام آئے سب نے یہی عرض کیا آپ نے کسی کا دل نہ توڑا
اور سب سے وعدہ فرماتے گئے جب افطار کا وقت قریب آیا تو حضور ایک ہی وقت
میں ہر ایک کے یہاں رونق افروز ہوئے اور روزہ افطار کیا صبح کو جب خدام
اکٹھا ہوئے تو ایک دوسرے سے فخر سے بیان کیا کہ کل حضور کا مجھ پر بڑا کرم
ہوا کہ میرے غریب خانہ پر روزہ افطار کیا دوسرے نے کہا تم غلط کہتے ہو کل
تو حضور میرے گھر تشریف لائے تھے غرض کہ جتنے بھی دعوت دینے والے تھے وہ
آپس میں بحث کرنے لگے جب یہ خبر مدرسے میں پہنچی تو مدرسے والوں نے کہا کل
تو حضور نے مدرسے سے باہر قدم بھی نہیں رکھا بلکہ یہیں افطار کیا بالآخر سب
لوگ خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ حضور یہ کیا ماجرا ہے ؟ آپ نے
فرمایا اس میں تعجب کی کیا بات ہے اللہ تعالٰی نے اولیاءاللہ کو اتنی طاقت
بخشی ہے کہ وہ بیک وقت متعدد جگہوں پر پہنچ سکتے ہیں۔
* ابو سعید عبداللہ بن احمد بن علی بن محمد بغدادی ازجی سے بغداد میں 554ھ
میں کہا کہ میری بیٹی جس کا نام فاطمہ تھا جس کو کوئی اٹھاکر لے گیا اور وہ
باکرہ تھی اس کا سن اس دن 16 سال کا تھا تب بھی سیدنا شیخ محی الدین جیلانی
رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور میں نے اس کا ذکر آپ سے
کیا آپ نے فرمایا کہ آج کی رات کرخ کے جنگل کی طرف چلے جاؤ پانچویں ٹیلے کے
پاس جاکر بیٹھو زمین پر اپنے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ لو اور خط کھینچنے کے
وقت بسم اللہ پڑھنا اور میرا نام لینا بھی جب تھوڑی رات آجائے گی تب اک
جنات کا گروہ تمہارے پاس آئے گا جو شکل و صورت میں مختلف ہونگے تم ان سے
کوئی خوف نہ کھانا جب صبح کی سفیدی نمودار ہوگی تو اس وقت ان کا بادشاہ
تمہارے پاس ایک لشکر کے ساتھ آئے گا اور تم سے تمہارا مطلب پوچھے گا تم ان
سے کہہ دینا کہ مجھ کو عبدالقادر جیلانی نے تمہاری طرف بھیجا ہے اور ان سے
اپنی لڑکی کا حال بیان کرنا تب میں اس جگہ پر گیا اور جو کچھ حکم آپ نے
مجھے دیا تھا اس کے موافق میں نے عمل کیا مجھ پر ڈراؤنی شکلوں والی صورتیں
گزریں لیکن کسی کی مجال نہیں کہ اس دائرہ کے قریب آئے جس میں میں تھا۔ رات
بھر گروہ در گروہ آتے رہے حتٰی کہ ان کا بادشاہ بھی گھوڑے پر سوار ہوکر
آپہنچا اس کے سامنے ایک گروہ تھا وہ آکر دائرہ کے پاس کھڑا ہوگیا اور کہنے
لگا، کہ اے انسان تمہاری کیا حاجت ہے ؟ میں نے کہا کہ مجھے شیخ عبدالقادر
جیلانی نے تمہاری طرف بھیجا ہے تب وہ گھوڑے سے اترا اور زمین کو بوسہ دیا
اور دائرہ سے باہر بیٹھ گیا اس کے ساتھی بھی بیٹھ گئے اور کہا تمہارا کیا
معاملہ ہے ؟ تب میں نے اپنی لڑکی کا حال بیان کیا اس نے اپنے ساتھیوں سے
کہا۔ یہ کام کس نے کیا ہے ؟ انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا پھر تھوڑی دیر
بعد ایک جن کو پکڑ کر لائے اور کہا کہ یہ چین کا جن ہے اس سے پوچھا گیا تم
کو کس چیز نے انگیختہ کیا کہ قطب کی عقاب کے نیچے چوری کرے اس نے کہا کہ
میں نے اس کو دیکھا اور اس کی محبت میرے دل میں سماگئی بادشاہ نے کہا کہ اس
کی گردن اڑا دی جائے اور مجھ کو میری بیٹی حوالے کی میں نے اس سے کہا میں
نے آج کا سا معاملہ کبھی نہیں دیکھا تم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ
تعالٰی عنہ کی اس طرح فرمانبرداری کرتے ہو اس نے کہا بیشک وہ گھر بیٹھے
جنوں کو دیکھتے ہیں حالانکہ دور کے رہنے والے ہوتے ہیں وہ دیکھتے ہی اپنے
مکانوں کی طرف آپ کی ہیبت کی وجہ سے بھاگ جاتے ہیں اور خدائے تعالٰی جب کسی
قطب کو مقرر کرتا ہے تو اس کو جن و انس پر ظلبہ عطا فرماتا ہے۔
* ایک ضعیفہ آپ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی اے میرے آقا
میرے اس لڑکے کا دل آپ کی جانب بہت مائل ہے حضور اس کو غلامی میں قبول
فرمالیں۔ آپ نے اس کو اپنی تربیت میں لیا اور اس کو مجاہدہ و ریاضت کی
تعلیم دینے لگے۔ کچھ روز بعد وہ ضعیفہ اپنے بچے کو دیکھنے کی غرض سے حاضر
خدمت ہوئی تو دیکھا کہ ان کا بچہ خشک روٹی کھا رہا ہے اور بہت کمزور ہوگیا
ہے وہ ضعیفہ وہاں سے سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر
ہوئی تو دیکھا کہ وہ پکا ہوا مرغ کھا رہے ہیں عرض کی حضور آپ تو مرغ کھا
رہے ہیں اور میرا لڑکا خشک روٹی کھا رہا ہے۔ آپ نے اپنا دست مبارک ان ہڈیوں
پر رکھا اور فرمایا قم باذن اللہ فوراً ہڈیوں سے مرغ زندہ ہو کر بانگ دینے
لگا پھر آپ نے فرمایا جب تیرا بیٹا اس قابل ہو جائے گا تو وہ جو بھی چاہے
گا کھائیگا۔
* ایک مرتبہ شام کے وقت آپ کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ جسم مبارک پر قیمتی
جبہ تھا۔ جیسے ہی ایک چور نے دیکھا دل میں فیصلہ کرلیا کہ آج کسی طرح اس
جبہ کو حاصل کرکے ہی دم لونگا۔ اس ارادے سے چور حضرت کے پیچھے لگ گیا۔ حضرت
آگے آگے چل رہے تھے اور چور پیچھے پیچھے، چلتے چلتے جب سرکار غوث اعظم رضی
اللہ تعالٰی عنہ بیچ جنگل میں پہنچے چور کو اطمینان ہو گیا کہ شور مچانے کے
بعد کوئی بھی مدد کو نہیں آئے گا انتہائی تیز قدموں سے حضرت کے قریب گیا
جبہ مبارک کا دامن پکڑا ابھی چور دامن کھینچنا ہی چاہ رہا تھا کہ حضرت کے
دونوں ہاتھ دعا کے لئے بلند ہو گئے اور زبان مبارک سے یہ تاثیر کلمہ نکلا
اے اللہ عزوجل تیرے اس بندے نے جس طرح آج تیرے عبدالقادر کا دامن تھاما ہے
قیامت تک اس کا ہاتھ میرے دامن سے نہ چھوٹنے پائے۔ یہ جملہ سنتے ہی چور کے
دل کی کیفیت بدل گئی اور تائب ہوگیا پھر آپ کی نگاہ ولایت کے سہارے چند ہی
دنوں میں مرتبہ ولایت پر فائز ہوگیا۔
نگاہ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
* ایک بار سرکار بغداد حضور غوث پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ دریا کی طرف تشریف
لے جا رہے تھے وہاں ایک نوے سال کی بڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رو رہی
تھی ایک مرید نے بارگاہ غوثیت میں عرض کیا کہ یامرشدی! اس ضعیفہ کا اکلوتا
خوبرو بیٹا تھا بیچاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح کرکے دولہن کو اسی
دریا میں کشتی کے ذریعے اپنے گھر لا رہا تھا کہ کشتی الٹ گئی اور دولہا اور
دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی اس واقعہ کو برسوں گزر چکے مگر ماں کا جگر ہے
کہ بیچاری کا غم جاتا ہی نہیں روزانہ اس دریا پر آتی ہے اور بارات کو نہ
پاکر رو دھو کر چلی جاتی ہے۔ حضور غوث پاک رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اس ضعیفہ
پر بڑا ترس آیا آپ نے بارگاہ رب میں برائے دعا دست دراز کئے اور ڈوبی ہوئی
کشتی دریا سے برآمد ہونے کی التجا کی کہ یکایک وہ کشتی اپنے تمام ساز و
سامان مع دولہا دولہن اور باراتی سطح آب پر نمودار ہوگئی چند ہی لمحوں میں
کنارے آلگی تمام باراتی سرکار بغداد سے دعائیں لیکر خوشی خوشی اپنے گھر
پہنچے اس کرامت کو سن کر بے شمار کفار نے آکر سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی
رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دست حق پرست پر ایمان قبول کیا۔
نکالا تھا پہلے تو ڈوبے ہوؤں کو
اور اب ڈوبتوں کو بچا غوث اعظم
* ایک حسین عورت حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مریدہ تھی۔
مریدہ ہونے سے قبل اس پر ایک بدکار شخص عاشق تھا وہ عورت قضائے حاجت کے لئے
پہاڑ کی طرف نکل گئی۔ جب اس بدکار شخص کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے بھی
عورت کا پیچھا کیا اور اس کے دامن عصمت کو داغدار کرنا چاہا جب اس عورت کو
چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو اس نے سرکار بغداد رضی اللہ تعالٰی
عنہ کا نام لیکر پکارا۔ اور کہا۔ الغیاث یاغوث اعظم، الغیاث یاغوث الثقلین،
الغیاث یاشیخ محی الدین، الغیاث یاسیدی عبدالقادر اس وقت سرکار غوث اعظم
رضی اللہ تعالٰی عنہ مدرسے میں وضو فرما رہے تھے آپ کے پاؤں میں لکڑی کے دو
نعلین تھے آپ نے ان کو اتارا اور غار کی طرف پھینکا یہاں تک کہ اس فاسق کی
مراد کے حصول سے پہلے اس کے سر پر جا پہنچے۔ اس کے سر پر مارنے لگے۔ یہاں
تک کہ وہ مر گیا۔ وہ عورت دونوں نعلین مبارک کو لئے سیدنا شیخ عبدالقادر
جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور تمام حاضرین مجلس
کے سامنے اپنی کیفیت بیان کی۔
* ایک مرتبہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اہل بغداد کی نظروں
سے غائب ہوگئے لوگوں نے تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ دریائے دجلہ کی طرف تشریف
لے گئے یہان تک کہ جب لوگ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ آپ پانی پر چل رہے ہیں
اور مچھلیاں پانی سے نکل کر آپ کو سلام کر رہی ہیں اور قدم مبارک کو چھو
رہی ہیں اسی اثناء میں ایک بڑی جائے نماز دیکھی جو تخت سلیمانی کی طرح ہوا
میں معلق ہو کر بچھ گئی اس پر دو سطریں لکھی تھیں۔ پہلی سطر میں الا ان
اولیاء اللہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون اور دوسری سطر میں السلام علیکم یا
اھل البیت انہ حمید مجید لکھا تھا۔ اتنے میں بہت سے لوگ جائے نماز کے ارد
گرد جمع ہوگئے وہ ظہر کا وقت تھا تکبیر ہوئی اور آپ امام ہوئے اور نماز
قائم ہوئی جب آپ تکبیر کہتے تو حاملان عرش آپ کے ساتھ تکبیر کہتے اور جب آپ
تسبیح پڑھتے تو ساتوں آسمان کے فرشتے تسبیح پڑھتے جب آپ سمع اللہ لمن حمدہ
کہتے تو آپ کے لبوں سے سبز رنگ کا نور نکل کر آسمان کی طرف جاتا جب آپ نماز
سے فارغ ہوئے تو یہ دعا کی اے پروردگار ! تیری بارگاہ میں تیرے پیارے حبیب
اور بہترین خلائق حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وصحبہ وسلم
کو وسیلہ بناکر دعا کرتا ہوں کہ تو میرے مریدوں کی اور میرے مریدوں کے
مریدوں کی جو میری طرف منسوب ہوں بغیر توبہ کے روح قبض نہ کرنا۔ حضرت سہیل
بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کی اس دعاء پر فرشتوں کے بڑے گروہ
کو آمین کہتے سنا۔ جب دعاء ختم ہوئی تو ہم نے ایک ندا سنی۔ ابشرفانی استجبت
لک اے عبدالقادر! خوش ہو جاؤ ہم نے تمہاری دعا قبول فرمالی۔
* ایک مرتبہ بارگاہ غوثیت میں حاضر ہوکر لوگوں نے عرض کی عالی جناب باب
الازج کے قبرستان سے ایک مردے کے چیخنے کی آواز آرہی ہے کچھ کرم فرمائیے۔
بچائیے، عذاب دور ہو جائے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کیا اس نے مجھ سے خرقہ خلافت
پہنا ہے ؟ لوگوں نے عرض کی، ہمیں اس کا علم نہیں۔ وہ کبھی میری مجلس میں
حاضر ہوا ؟ لوگوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ پھر فرمایا، کیا اس نے کبھی میرا
کھانا کھایا ؟ لوگوں نے اس مرتبہ بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ آپ نے پھر سوال
کیا کہ اس نے میرے پیچھے نماز ادا کی ؟ لوگوں نے وہی جواب دیا۔ جب حضور شیخ
عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سر اقدس کو جھکایا تو آپ پر جلال
و وقار کے آثار ظاہر ہوئے کچھ دیر بعد آپ نے ارشاد فرمایا مجھے ابھی ابھی
فرشتوں نے بتایا کہ اس نے آپ کی زیارت کی ہے اور آپ سے عقیدت بھی رکھتا
تھا۔ لٰہذا اللہ تعالٰی نے اس پر رحم فرمایا اور اس کی قبر سے آوازیں آنا
بند ہوگئیں۔
بد سہی چور سہی مجرم و ناکارہ سہی
اے وہ کیسا ہی سہی ہے تو کریما تیرا
* اسرار السالکین میں ہے کہ ایک دن آپ بازار تشریف لے جا رہے تھے دیکھتے
کیا ہیں کہ ایک نصرانی اور ایک مسلمان میں بحث و مباحثہ ہو رہا ہے نصرانی
بہت سے دلائل سے اپنے پیغمبر حضرت عیسٰی علیہ السلام کی فضیلت ثابت کر رہا
تھا۔ مسلمان اپنے پیغمبر آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت میں بہت سے
دلائل پیش کر رہا تھا آخر میں نصرانی نے کہا کہ میرے پیغمبر حضرت عیسٰی
علیہ السلام قم باذن اللہ کہہ کر مردے کو زندہ کرتے تھے بتاؤ کہ تمہارے نبی
نے کتنے مردے زندہ کئے ہیں یہ سن کر مسلمان نے سکوت اختیار کیا یہ سکوت
سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہایت ناگوار معلوم ہوا۔ نصرانی سے
ارشاد فرمایا میرے پیغمبر علیہ السلام کا ادنٰی معجزہ یہ ہے کہ ان کے خدام
مردوں کو جلا سکتے ہیں جس مردے کو کہے اس ابھی زندہ کردوں یہ سن کر نصرانی
آپ کو ایک بہت ہی پرانے قبرستان میں لے گیا اور ایک قبر کی طرف اشارہ کرکے
کہا آپ اس مردے کو زندہ کیجئے آپ نے فرمایا یہ قبر ایک قوال کی ہے آپ نے
قبر کی طرف کچھ پڑھ کر اشارہ کیا قبر شق ہوئی اور صاحب قبر جو قوال تھا قبر
سے باہر آیا اور زبان سے کلمہ شہادت ادا کیا یہ عظیم کرامت دیکھ کر نصرانی
بصدق دل ایمان لے آیا اور آپ کے خدام ذی الحتشام میں شامل ہوگیا۔ |