سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات و واقعات حصہ سوئم

“سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی کرامات“
ڈاکو تائب ہو گئے

سرکار بغداد حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “جب میں علم دین حاصل کرنے کے لئے جیلان سے بغداد قافلے کے ہمراہ روانہ ہوا اور جب ہمدان سے آگے پہنچے تو ساٹھ ڈاکو قافلے پر ٹوٹ پڑے اور سارا قافلہ لوٹ لیا لیکن کسی نے مجھ سے تعرض نہ کیا، ایک ڈاکو میرے پاس آکر پوچھنے لگا اے لڑکے ! تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟ میں نے جواب میں کہا: “ہاں۔“ ڈاکو نے کہا۔ “کیا ہے ؟“ میں نے کہا: ““چالیس دینار۔“ اس نے پوچھا: “کہاں ہیں ؟“ میں نے کہا: “گدڑی کے نیچے۔“
ڈاکو اس راست گوئی کو مذاق تصور کرتا ہوا چلا گیا، اس کے بعد دوسرا ڈاکو آیا اور اس نے بھی اسی طرح کے سوالات کئے اور میں نے یہی جوابات اس کو بھی دئیے اور وہ بھی اسی طرح مذاق سمجھتے ہوئے چلتا بنا، جب سب ڈاکو اپنے سردار کے پاس جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سردار کو میرے بارے میں بتایا تو مجھے وہاں بلا لیا گیا، وہ مال کی تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔
ڈاکوؤں کا سرادر مجھ سے مخاطب ہوا: “تمہارے پاس کیا ہے ؟ میں نے کہا: چالیس دینار ہیں، ڈاکوؤں کے سردار نے ڈاکوؤں کو حکم دیتے ہوئے کہا: “اس کی تلاشی لو۔“ تلاشی لینے پر جب سچائی کا اظہار ہوا تو اس نے تعجب سے سوال کیا کہ “تمہیں سچ بولنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟“ میں نے کہا: “والدہ ماجدہ کی نصیحت نے۔“ سرادر بولا: “وہ نصیحت کیا ہے ؟“ میں نے کہا: “میری والدہ محترمہ نے مجھے ہمیشہ سچ بولنے کی تلقین فرمائی تھی اور میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ سچ بولوں گا۔“
تو ڈاکوؤں کا سردار رو کر کہنے لگا: “یہ بچہ اپنی ماں سے کئے ہوئے وعدہ سے منحرف نہیں ہوا اور میں نے ساری عمر اپنے رب عزوجل سے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف گزار دی ہے۔“ اسی وقت وہ ان ساٹھ ڈاکوؤں سمیت میرے ہاتھ پر تائب ہوا اور قافلہ کا لوٹا ہوا مال واپس کر دیا۔“ ( بہجۃ الاسرار، ذلر طریقہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 168 )
نگاہ ولی میں یہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

نگاہ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے چور قطب بن گیا
سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدینہ منورہ سے حاضری دے کر ننگے پاؤں بغداد شریف کی طرف آ رہے تھے کہ راستہ میں ایک چور کھڑا کسی مسافر کا انتظار کر رہا تھا کہ اس کو لوٹ لے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب اس کے قریب پہنچے تو پوچھا: “تم کون ہو ؟“ اس نے جواب دیا کہ “دیہاتی ہوں۔“ مگر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کشف کے ذریعے اس کی معصیت اور بدکرداری کو لکھا ہوا دیکھ لیا اور اس چور کے دل میں خیال آیا “شاید یہ غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہیں۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو اس کے دل میں پیدا ہونے خیال کا علم ہو گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا “میں عبدالقادر ہوں۔“
تو وہ چور سنتے ہی فوراً آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مبارک قدموں پر گر پڑا اور اس کی زبان پر یاسیدی عبدالقادر شیئاًللہ (یعنی اے میرے سردار عبدالقادر میرے حال پر رحم فرمائیے) جاری ہو گیا۔“ آپ کو اس کی حالت پر رحم آ گیا اور اس کی اصلاح کے لئے بارگاہ الٰہی عزوجل میں متوجہ ہوئے تو غیب سے ندا آئی: “اے غوث اعظم ! اس چور کو سیدھا راستہ دکھا دو اور ہدایت کی طرف رہنمائی فرماتے ہوئے اسے قطب بنا دو۔“ چنانچہ آپ کی نگاہ فیض رساں سے وہ قطبیت کے درجہ پر فائز ہو گیا۔“ (سیرت غوث الثقلین، ص 130)
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی حکومت

حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قصیدہ غوثیہ شریف میں فرماتے ہیں: “بلاداللہ ملکی تحت حکمی یعنی اللہ عزوجل کے تمام شہر میرے تحت تصرف اور زیر حکومت ہیں۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعا ۔ ۔ ۔ الخ، ص 147)
بلاداللہ ملکی تحت حکمی سے ہوا ظاہر
کہ عالم میں ہر اک شے پر ہے قبضہ غوث اعظم کا

عصا مبارک چراغ کی طرح روشن ہو گیا:

حضرت عبدالملک ذیال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ “میں ایک رات حضور پرنور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مدرسے میں کھڑا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اندر سے ایک عصا دست اقدس میں لئے ہوئے تشریف فرما ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ “کاش حضور اپنے اس عصا سے کوئی کرامت دکھلائیں۔“ ادھر میرے دل میں یہ خیال گزرا اور ادھر حضور نے عصا کو زمین پر گاڑ دیا تو وہ عصا مثل چراغ کے روشن ہو گیا اور بہت دیر تک روشن رہا پھر حضور پرنور نے اسے اکھیڑ لیا تو وہ عصا جیسا تھا ویسا ہی ہو گیا، اس کے بعد حضور نے فرمایا: “بس اے ذیال ! تم یہی چاہتے تھے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 150)
انگلی مبارک کی کرامت

ایک مرتبہ رات میں سرکار بغداد حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہمراہ شیخ احمد رفاعی اور عدی بن مسافر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزار پر انوار کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے، مگر اس وقت اندھیرا بہت زیادہ تھا حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ان کے آگے آگے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب کسی پتھر، لکڑی، دیوار یا قبر کے پاس سے گزرتے تو اپنے ہاتھ سے اشارہ فرماتے تو اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ہاتھ مبارک چاند کی طرح روشن ہو جاتا تھا اور اس طرح وہ سب حضرات آپ کے مبارک ہاتھ کی روشنی کے ذریعے حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے مزار مبارک تک پہنچ گئے۔“ (قلائد الجواہر، ملخصاً ص 77)
اللہ عزوجل کا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے وعدہ

حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: “میرے پروردگار عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “جو مسلمان تمہارے مدرسے کے دروازے سے گزرے گا اس کے عذاب میں تخفیف فرماؤں گا۔“ (الطبقات الکبرٰی، منہم عبدالقادر جیلانی، ج1، ص179، و بہجۃ الاسرار، ذکر فصل اصحابہ و بشراہم، ص 194)
مدرسے کے قریب سے گزرنے والے کی بخشش

(1) ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ “فلاں قبرستان میں ایک شخص دفن کیا گیا ہے جس کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے اس کی قبر سے چیخنے کی آواز آتی ہے جیسے عذاب میں مبتلا ہے۔“ حضور پرنور نے ارشاد فرمایا: “کیا وہ ہم سے بیعت ہے ؟“ عرض کی : “معلوم نہیں۔“ فرمایا: “ہمارے یہاں کے آنے والوں میں تھا ؟“ عرض کی: “معلوم نہیں۔“ فرمایا: “کبھی ہمارے گھر کا کھانا اس نے کھایا ہے ؟“ عرض کی: “یہ بھی معلوم نہیں۔“ حضور غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مراقبہ فرمایا اور ذرا دیر میں سر اقدس اٹھایا ہیبت و جلال روئے انور سے ظاہر تھا ارشاد فرمایا: “فرشتے ہم سے یہ کہتے ہیں کہ “ایک بار اس نے ہم کو دیکھا تھا اور دل میں نیک گمان لایا تھا اس وجہ سے بخش دیا گیا۔“ پھر جو اس کی قبر پر جاکر دیکھا تو فریاد و بکا کی آواز آنا بالکل بند ہو گئی۔“ (المرجع السابق)
(2) حضور غوث پاک سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں ایک جوان حاضر ہوا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے عرض کرنے لگا کہ “میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے میں نے آج ان کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں جاؤ اور میرے لئے ان سے دعاء کا کہو۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس نوجوان سے فرمایا: “کیا وہ میرے مدرسے کے قریب سے گزرا تھا ؟“ نوجوان نے کہا: “جی ہاں۔“ پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے خاموشی اختیار فرمائی۔
پھر دوسرے روز اس کا بیٹا آیا اور کہنے لگا کہ “میں نے آج رات اپنے والد کو سبز حلہ زیب تن کئے ہوئے خوش و خرم دیکھا ہے۔“ انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ “میں عذاب قبر سے محفوظ ہو گیا ہوں اور جو لباس تو دیکھ رہا ہے وہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے مجھے پہنچایا گیا ہے پس اے میرے بیٹے ! تم ان کی بارگاہ میں حاضری کو لازم کر لو۔“
پھر حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی نے فرمایا: “میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ “میں اس مسلمان کے عذاب میں تخفیف کروں گا جس کا گزر (تمہارے) مدرسۃ المسلمین پر ہو گا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر اصحابہ و بشراہم، ص 194)
رہائی مل گئی اس کو عذاب قبر و محشر پر
یہاں پر مل گیا جس کو وسیلہ غوث اعظم کا
حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی محبت قبر میں کام آگئی

حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے زمانہء مبارکہ میں ایک بہت ہی گنہگار شخص تھا لیکن اس کے دل میں سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی محبت ضرور تھی، اس کے مرنے کے بعد جب اس کو دفن کیا گیا اور قبر میں جب منکر نکیر نے سوالات کئے تو اس نے ہر سوال کے جواب میں “عبدالقادر“ کہا، تو منکر نکیر کو رب عزوجل کی بارگاہ عالیہ سے ندا آئی: “اگرچہ یہ بندہ فاسقوں میں سے ہے مگر اس کو میرے محبوب صادق سید عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ذات سے محبت ہے پس اسی سبب سے میں نے اس کی مغفرت کردی اور حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی محبت اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے حسن اعتقاد کی وجہ سے اس کی قبر وسیع کو دیا۔“ ( سیرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 188 )
عذاب قبر سے نجات مل گئی

بغداد شریف کے محلہ باب الازج کے قبرستان میں ایک قبر سے مردہ کے چیخنے کی آواز سنائی دینے کے متعلق لوگوں نے حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بارگاہ میں عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے پوچھا: “کیا اس قبر والے نے مجھ سے خرقہ پہنا ہے ؟“ لوگوں نے عرض کیا: “حضور والا ! اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔“ پھر آپ نے پوچھا کہ “اس نے کبھی میری مجلس میں حاضری دی تھی ؟“ لوگوں نے عرض کیا: “بندہ نواز ! اس کا بھی ہمیں علم نہیں۔“ اس کے بعد آپ نے پوچھا کہ “کیا اس نے میرے پیچھے نماز پڑھی ہے ؟“ لوگوں نے عرض کیا: “کہ ہم اس کے متعلق بھی نہیں جانتے۔“ تو آپ نے ارشاد فرمایا: “المفرط اولی بالخسارۃ یعنی بھولا ہوا شخص ہی خسارہ میں پڑتا ہے۔“
اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مراقبہ فرمایا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے چہرہ مبارک سے جلال، ہیبت اور وقار ظاہر ہونے لگا، آپ نے سرمبارک اٹھا کر فرمایا کہ “فرشتوں نے مجھے کہا ہے: “اس شخص نے آپ کی زیارت کی ہے اور آپ سے حسن ظن اور محبت رکھتا تھا اور اللہ عزوجل نے آپ کے سبب اس پر رحم فرما دیا ہے۔“ اس کے بعد اس قبر سے کبھی بھی آواز نہ سنائی دی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فضل اصحابہ و بشراہم، ص 194)
مرغی زندہ کر دی:

ایک بی بی سرکار بغداد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں اپنا بیٹا چھوڑ گئیں کہ “اس کا دل حضور سے گرویدہ ہے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس کی تربیت فرمائیں۔“ آپ نے اسے قبول فرما کر مجاہدے پر لگا دیا اور ایک روز ان کی ماں آئیں دیکھا لڑکا بھوک اور شب بیداری سے بہت کمزور اور زرد رنگ ہو گیا ہے اور اسے جو کی روٹی کھاتے دیکھا جب بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں تو دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے سامنے ایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے حضور رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے تناول فرمایا تھا، عرض کی: “اے میرے مولٰی ! حضور تو مرغی کھائیں اور میرا بچہ جو کی روٹی۔“ یہ سن کر حضور پرنور رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنا دست اقدس ان ہڈیوں پر رکھا اور فرمایا:
“قومی باذن اللہ الذی یحیی العظام وھی رمیم“
یعنی جی اٹھ اللہ (زعوجل) کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائے گا۔ یہ فرمانا تھا کہ مرغی فوراً زندہ صحیح سالم کھڑی ہو کر آواز کرنے لگی، حضور اقدس رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گا تو جو چاہے کھائے۔“ ( بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 128 )
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی دعاء کی برکت

حضرت شیخ صالح ابوالمظفر اسماعیل بن علی حمیری زریرانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک نیک شخص تھے اور شیخ امام علی بن المیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی صحبت میں رہ چکے تھے وہ فرماتے ہیں کہ شیخ سردار علی بن المیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب بیمار ہوتے تو کبھی کبھی میری زمین کی طرف جو کہ زریران میں تھی تشریف لاتے اور وہاں کئی دن گزارتے ایک دفعہ آپ وہیں بیمار ہو گئے تو ان کے پاس میرے غوث صمدانی، قطب ربانی، شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی بغداد سے تیمارداری کے لئے تشریف لائے، دونوں میری زمین پر جمع ہوئے، اس میں دو کھجور کے درخت تھے جو چار برس سے خشک تھے اور انہیں پھل نہیں لگتا تھا ہم نے ان کو کاٹ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک کے نیچے وضو کیا اور دوسرے کے نیچے دو نفل ادا کئے تو وہ سبز ہو گئے اور ان کے پتے نکل آئے اور اسی ہفتہ میں ان کا پھل آ گیا حالانکہ وہ کھجوروں کے پھل کا وقت نہیں تھا میں نے اپنی زمین سےکچھ کھجوریں لے کر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر کر دیں آپ نے اس میں سے کھائیں اور مجھ سے کہا: “اللہ عزوجل تیری زمین، تیرے درہم، تیرے صاع اور تیرے دودھ میں برکت دے۔“
حضرت شیخ اسماعیل بن علی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “میری زمین میں اس سال کی مقدار سے دو سے چار گنا پیدا ہونا شروع ہوا، اب میرا یہ حال ہے کہ جب میں ایک درہم خرچ کرتا ہوں تو اس سے میرے پاس دو سے تین گنا آ جاتا ہے اور جب میں گندم کی سو (100) بوری کسی مکان میں رکھتا ہوں پھر اس میں سے پچاس بوری خرچ کر ڈالتا ہوں اور باقی کو دیکھتا ہوں تو سو بوری موجود ہوتی ہے میرے مویشی اس قدر بچے جنتے ہیں کہ میں ان کا شمار بھول جاتا ہوں اور یہ حالت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی برکت سے اب تک باقی ہے۔(بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 91)
خلیفہ کا مال و دولت خون میں بدل گیا

حضرت ابو عبداللہ محمد بن ابوالعباس موصلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ “ہم ایک رات اپنے شیخ عبدالقادر جیلانی، غوث صمدانی، قطب ربانی قدس سرہ النورانی کے مدرسہ بغداد میں تھے اس وقت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو سلام کیا اور نصیحت کا خواست گار ہوا اور آپ کی خدمت میں دس تھیلیاں پیش کیں جو دس غلام اٹھائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا: “میں ان کی حاجت نہیں رکھتا۔“ اور قبول کرنے سے انکار فرما دیا اس نے بڑی عاجزی کی، تب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی اور دوسری تھیلی بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دونوں تھیلیوں کو ہاتھ سے دبا کر نچوڑا کہ وہ دونوں تھیلیاں خون ہو کر بہہ گئیں، آپ نے فرمایا: “اے ابو المظفر ! کیا تمہیں اللہ عزوجل کا خوف نہیں کہ لوگوں کا خون لیتے ہو اور میرے سامنے لاتے ہو۔“ وہ آپ کی یہ بات سن کر حیرانی کے عالم میں بے ہوش ہو گیا۔
پھر حضرت سیدنا حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “اللہ عزوجل کی قسم ! اگر اس کے حضور نبی پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے رشتے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں خون کو اس طرح چھوڑتا کہ اس کے مکان تک پہنچتا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 129)
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے کرامت کا مطالبہ

راوی کا قول ہے کہ میں نے خلیفہ کو ایک دن حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں دیکھا کہ عرض کر رہا ہے کہ “حضور میں آپ سے کوئی کرامت دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ میرا دن اطمینان پائے۔“
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “تم کیا چاہتے ہو ؟“ اس نے کہا: “میں غیب سے سیب چاہتا ہوں۔“ اور پورے عراق میں اس وقت سیب نہیں ہوتے تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ہوا میں ہاتھ بڑھایا تو دو سیب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہاتھ میں تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان میں سے ایک اس کو دیا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو نہایت سفید تھا، اس سے مشک کی سی خوشبو آتی تھی اور المستنجد نے اپنے ہاتھ والے سیب کو کاٹا تو اس میں کیڑے تھے وہ کہنے لگا: “یہ کیا بات ہے میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ہاتھ میں نہایت عمدہ سیب دیکھا ؟“ آپ نے فرمایا: “ابو المظفر ! تمہارے سیب کو ظلم کے ہاتھ لگے تو اس میں کیڑے پڑ گئے۔“ (المرجع السابق، ص 121)
اندھوں کو بینا اور مردوں کو زندہ کرنا

حضرت شیخ برگزیدہ ابو الحسن قرشی فرماتے ہیں کہ “میں اور شیخ ابو الحسن علی بن ہیتی حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں ان کے مدرسہ میں موجود تھے تو ان کے پاس ابو غالب فضل اللہ بن اسمعیل بغدادی ازجی سوداگر حاضر ہوا وہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے عرض کرنے لگا کہ:
اے میرے سردار ! آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے جدامجد حضور پرنور شافع یوم النثور احمد مجتبٰی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ “جو شخص دعوت میں بلایا جائے اس کو دعوت قبول کرنی چاہئیے۔“ میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میرے گھر دعوت پر تشریف لائیں۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “اگر مجھے اجازت ملی تو میں آؤں گا۔“ پھر کچھ دیر بعد آپ نے مراقبہ کرکے فرمایا: “ہاں آؤں گا۔“
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے خچر پر سوار ہوئے، شیخ علی نے آپ کی دائیں رکاب پکڑی اور میں نے بائیں رکاب تھامی اور جب اس کے گھر میں ہم آئے دیکھا تو اس میں بغداد کے مشائخ، علماء اور معززین جمع ہیں، دسترخوان بچھایا گیا جس میں تمام شیریں اور ترش چیزیں کھانے کے لئے موجود تھیں اور ایک بڑا صندوق لایا گیا جو سر بمہر تھا دو آدمی اسے اٹھائے ہوئے تھے اسے دسترخوان کے ایک طرف رکھ دی گیا، تو ابو غالب نے کہا: “بسم اللہ ! اجازت ہے۔“ اس وقت حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مراقبہ میں تھے اور آپ نے کھانا نہ کھایا اور نہ ہی کھانے کی اجازت دی تو کسی نے بھی نہ کھایا، آپ کی ہیبت کے سبب مجلس والوں کا حال ایسا تھا کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں، پھر آپ نے شیخ علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ “وہ صندوق اٹھا لائیے۔“ ہم اٹھے اور اسے اٹھایا تو وہ وزنی تھا ہم نے صندوق کو آپ کے سامنے لا کر رکھ دیا آپ نے حکم دیا کہ “صندوق کو کھولا جائے۔“
ہم نے کھولا تو اس میں ابو غالب کا لڑکا موجود تھا جو مادر زاد اندھا تھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس سے کہا: “کھڑا ہو جا۔“ ہم نے دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے کہنے کی دیر تھی کہ لڑکا دوڑنے لگا اور بینا بھی ہو گیا اور ایسا ہو گیا کہ کبھی بیماری میں مبتلا نہیں تھا، یہ حال دیکھ کر مجلس میں شور برپا ہو گیا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اسی حالت میں باہر نکل آئے اور کچھ نہ کھایا۔
اس کے بعد میں شیخ ابو سعد قیلوی کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ حال بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ “حضرت سید محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مادر زاد اندھے اور برص والوں کو اچھا کرتے ہیں اور خدا عزوجل کے حکم سے مردے زندہ کرتے ہیں۔“ (الف، بہجۃ الاسرار، ذکر فصلو منہ کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 123)
مانگ کیا چاہتا ہے ؟

ایک دن میں حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت مجھے کچھ حاجت ہوئی تو میں فی الفور حاجت سے فراغت پاکر حاضر خدمت ہوا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مجھ سے فرمایا: “مانگ کیا چاہتا ہے ؟“ میں نے عرض کیا کہ “میں یہ چاہتا ہوں۔“ اور میں نے چند امور باطنیہ کا ذکر کیا آپ نے فرمایا: “وہ امور لے لے۔“ پھر میں نے وہ سب باتیں اسی وقت پالیں۔“ (المرجع السابق، ص 124)
مرگی کی بیماری بغداد سے بھاگ گئی

ایک شخص حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں آیا اور عرض کرنے لگا کہ “میں اصبہان کا رہنے والا ہوں میری ایک بیوی ہے جس کو اکثر مرگی کا دورہ رہتا ہے اور اس پو کسی تعویذ کا اثر نہیں ہوتا۔“ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی، غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “یہ ایک جن ہے جو وادی سر اندیپ کا رہنے والا ہے، اس کا نام خانس ہے اور جب تیری بیوی پر مرگی آئے تو اس کے کان میں یہ کہنا کہ “اے خانس ! تمہارے لئے شیخ عبدالقادر جو کہ بغداد میں رہتے ہیں ان کا فرمان ہے کہ “آج کے بعد پھر نہ آنا ورنہ ہلاک ہو جائے گا۔“ تو وہ شخص چلا گیا اور دس سال تک غائب رہا پھر وہ آیا اور ہم نے اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا کہ “میں نے شیخ کے حکم کے مطابق کیا پھر اب تک اس پر مرگی کا اثر نہیں ہوا۔“
جھاڑ پھونک کرنے والوں کا مشترکہ بیان ہے “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی زندگی مبارک میں چالیس برس تک بغداد میں کسی پر مرگی کا اثر نہیں ہوا، جب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے وصال فرمایا تو وہاں مرگی کا اثر ہوا۔“ (المرجع السابق، ص 140)
فحکمی نافذفی کل حال سے ہوا ظاہر
تصرف انس و جن سب پر ہے آقا غوث اعظم کا
ہوئی اک دیو سے لڑکی رہا اس نام لیوا کی
پڑھا جنگل میں جب اس نے وظیفہ غوث اعظم کا

بادلوں پر بھی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی حکمرانی ہے

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک دن منبر پر بیٹھے بیان فرما رہے تھے کہ بارش شروع ہو گئی تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نےفرمایا: “میں تو جمع کرتا ہوں اور (اے بادل) تو متفرق کر دیتا ہے۔“ تو بادل مجلس سے ہٹ گیا اور مجلس سے باہر برسنے لگا راوی کہتے ہیں کہ “اللہ عزوجل کی قسم ! شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا کلام ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ بارش ہم سے بند ہو گئی اور ہم سے دائیں بائیں برستی تھی اور ہم پر نہیں برستی تھی۔ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 147)
مریض کا علاج

حضرت ابو عبداللہ محمد بن خضری کے والد فرماتے ہیں کہ “میں نے سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تیرہ برس خدمت کی ہے اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں بہت سی کرامات دیکھی ہیں، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ایک کرامت یہ بھی تھی کہ جب تمام طبیب کسی مریض کے علاج سے عاجز آ جاتے تو وہ مریض آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں لایا جاتا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس مریض کے لئے دعائے خیر فرماتے اور اس پر اپنا رحمت بھرا ہاتھ پھیرتے تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے صحت یاب ہو کر آپ کے سامنے کھڑا ہو جاتا تھا، ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں سلطان المستنجد کا قریبی رشتہ دار لایا گیا جو مرض استسقاء میں مبتلا تھا اس کو پیٹ کی بیماری تھی آپ نے اس کے پیٹ پر مبارک ہاتھ پھیرا تو وہ اللہ عزوجل کے حکم سے لاغر پیٹ ہونے کے باوجود کھڑا ہو گیا گویا کہ وہ پہلے کبھی بیمار ہی نہیں تھا۔(بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، ص 153)
بخار سے رہائی عطا فرمادی

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں ابوالمعالی احمد مظفر بن یوسف بغدادی حنبلی آئے اور کہنے لگے کہ “میرے بیٹے محمد کو کو پندرہ مہینے سے بخار آ رہا ہے۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا کہ “تم جاؤ اور اس کے کان میں کہہ دو “اے ام املدم ! تم سے عبدالقادر (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) فرماتے ہیں کہ “میرے بیٹے سے نکل کر حلہ کی طرف چلے جاؤ۔“ ہم نے ابو المعالی سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ “میں گیا اور جس طرح مجھے شیخ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے حکم دیا تھا اسی طرح تو اس دن کے بعد اس کے پاس پھر کبھی بخار نہیں آیا۔(المرجع السابق)
لاغر اونٹنی کی تیز رفتاری:

حضرت شیخ محی الدین حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں ابو حفص عمر بن صالح حدادی اپنی اونٹنی لے کر آیا اور عرض کیا کہ “میرا حج کا ارادہ ہے اور یہ میری اونٹنی ہے جو چل نہیں سکتی اور اس کے سوا میرے پاس کوئی اونٹنی نہیں ہے۔“ پس آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس کو ایک انگلی لگائی اور اس کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھا، وہ کہتا تھا کہ “اس کی حالت یہ تھی کہ تمام سواریوں سے آگے چلتی تھی حالانکہ وہ اس سے قبل سب سے پیچھے رہتی تھی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب، ص 153)
مریدوں کو خطرہ نہیں بحر غم سے
کہ بیڑے کے ہیں ناخدا غوث اعظم

سانپ سے گفتگو فرمانا

حضرت شیخ ابوالفضل احمد بن صالح فرماتے ہیں کہ “میں حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ساتھ مدرسہ نظامیہ میں تھا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے پاس فقہاء اور فقراء جمع تھے اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے گفتگو کر رہے تھے اتنے میں ایک بہت بڑا سانپ چھت سے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی گود میں آگرا تو سب حاضرین وہاں سے ہٹ گئے اور آپ کے سوا وہاں کوئی نہ رہا، وہ آپ کے کپڑوں کے نیچے داخل ہوا اور آپ کے جسم پر سے گزرتا ہوا آپ کی گردن کی طرف سے نکل آیا اور گردن پر لپٹ گیا، اس کے باوجود آپ نے کلام کرنا موقوف نہ فرمایا اور نہ ہی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ سانپ زمین کی طرف اترا اور آپ کے سامنے اپنی دم پر کھڑا ہو گیا اور آپ سے کلام کرنے لگا آپ نے بھی اس سے کلام فرمایا جس کو ہم میں سے کوئی نہ سمجھا۔
پھر وہ چل دیا تو لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں آئے اور انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا کہ “اس نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے کیا کہا اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس سے کیا کہا ؟“ آپ نے فرمایا کہ “اس نے مجھ سے کہا کہ “میں نے بہت سے اولیاء کرام کو آزمایا ہے مگر آپ جیسا ثابت قدم کسی کو نہیں دیکھا۔“ میں نے اس سے کہا: “تم ایسے وقت مجھ پر گرے کہ میں قضاوقدر کے متعلق گفتگو کر رہا تھا اور تو ایک کیڑا ہی ہے جس کو قضا حرکت دیتی ہے اور قدر سے ساکن ہو جاتا ہے۔“ تو میں نے اس وقت ارادہ کیا کہ میرا فعل میرے قول کے مخالف نہ ہو۔“ ( المرجع السابق، ص 168 )
ایک جن کی توبہ

حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا ابو عبدالرزاق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد گرامی سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ “میں ایک رات جامع منصور میں نماز پڑھتا تھا کہ میں نے ستونوں پر کسی شے کی حرکت کی آواز سنی پھر ایک بڑا سانپ آیا اور اس نے اپنا منہ میرے سجدے کی جگہ میں کھول دیا، میں نے جب سجدہ کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ سے اس کو ہٹا دیا اور سجدہ کیا پھر جب میں التحیات کے لئے بیٹھا تو وہ میری ران پر چلتے ہوئے میری گردن پر چڑھ کر اس سے لپٹ گیا، جب میں نے سلام پھیرا تو اس کو نہ دیکھا۔
دوسرے دن میں جامع مسجد سے باہر میدان میں گیا تو ایک شخص کو دیکھا جس کی آنکھیں بلی کی طرح تھیں اور قد لمبا تھا تو میں نے جان لیا کہ یہ جن ہے اس نے مجھ سے کہا: “میں وہی جن ہوں جس کو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کل رات دیکھا تھا میں نے بہت سے اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کو اس طرح آزمایا ہے جس طرح آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو آزمایا مگر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی طرح ان میں سے کوئی بھی ثابت قدم نہیں رہا، ان میں بعض وہ تھے جو ظاہر و باطن سے گھبرا گئے، بعض وہ تھے جن کے دل میں اضطراب ہوا اور ظاہر میں ثابت قدم رہے، بعض وہ تھے کہ ظاہر میں مضطرب ہوئے اور باطن میں ثابت قدم رہے لیکن میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو دیکھا کہ آپ نہ ظاہر میں گھبرائے اور نہ ہی باطن میں۔“ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ “آپ مجھے اپنے ہاتھ پر توبہ کروائیں۔“ میں نے اسے توبہ کروائی۔“ ( بہجۃ الاسرار، ذکر طریقہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 168 )
ادائے دستگیری

حضرت سیدنا عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “میں ہمدان میں ایک شخص سے ملا جو دمشق کا رہنے والا تھا اس کا نام “ظریف“ تھا ان کا کہنا ہے کہ “میں بشر قرظی کو نیشاپور کے راستے میں ملا ۔ ۔ ۔ یا ۔ ۔ ۔ یہ کہا کہ خوارنرم کے راستے میں ملا، اس کے ساتھ شکر کے چودہ اونٹ تھے اس نے مجھے بتایا کہ ہم ایسے جنگل میں اترے جو اس قدر خوفناک تھا کہ اس میں خوف کے مارے بھائی بھائی کے ساتھ نہیں ٹھہر سکتا تھا جب ہم نے شب کی ابتداء میں گھٹڑیوں کو اٹھایا تو ہم نے چار اونٹوں کو گم پایا جو سامان سے لدے ہوئے تھے میں نے انہیں تلاش کیا مگر نہ پایا قافلہ تو چل دیا اور میں اپنے اونٹوں کو تلاش کرنے کے لئے قافلہ سے جدا ہو گیا، ساربان نے میری امداد کی اور میرے ساتھ ٹھہر گیا، ہم نے ان کو تلاش کیا لیکن کہیں نہ پایا۔ جب صبح ہوئی تو مجھے حضرت سیدنا محی الدین شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی کا فرمان یاد آیا کہ “اگر تو سختی میں پڑے تو مجھ کو پکارنا تو تجھ سے مصیبت دور ہو جائے گی۔“
(میں نے یوں پکارا) اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ! میرے اونٹ گم ہو گئے، اے شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ! میرے اونٹ گم ہو گئے۔“ پھر میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو صبح ہو چکی تھی جب روشنی ہوگئی تو میں نے ایک شخص کو ٹیلے پر دیکھا جس کے کپڑے انتہائی سفید تھے اس نے مجھ کو اپنی آستین سے اشارہ کیا کہ “اوپر آؤ۔“ جب ہم ٹیلے پر چڑھے تو کوئی شخص نظر نہ آیا مگر وہ چاروں اونٹ ٹیلے کے نیچے جنگل میں بیٹھے تھے ہم نے ان کو پکڑ لیا اور قافلے سے جاملے۔“ (المرجع السابق، ص 196)
روشن ضمیری

حضرت امام شیخ ابوالبقامکبری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “میں ایک روز حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مجلس میں حاضر ہوا، میں پہلے کبھی حاضر نہ ہوا تھا اور نہ ہی کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا کلام سنا تھا، میں نے دل میں کہا کہ “اس مجلس میں حاضر ہو کر اس عجمی کا کلام سنوں ؟“ جب میں مدرسہ میں داخل ہوا اور دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا کلام شروع ہے تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنا کلام موقوف فرمادیا اور فرمایا: “اے آنکھوں اور دل کے اندھے ! تو اس عجمی کے کلام کو کیا سنے گا ؟“ تو میں نہ رہ سکا یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے منبر کے قریب پہنچ گیا پھر میں نے اپنا سر کھولا اور بارگاہ غوثیت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں عرض کیا: “یاحضرت ! مجھے خرقہ پہنائیں۔“ تو حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مجھے خرقہ پہناکر ارشاد فرمایا: “اے عبداللہ ! اگر اللہ تبارک و تعالٰی نے مجھے تمہارے انجام کی خبر نہ دی ہوتی تو تم ہلاک ہو جاتے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر علمہ و تسمیۃ بعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 211)
شیاطین لعین کے شر سے محفوظ رہنا

حضرت شیخ ابو نصرموسٰی بن شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے ارشاد فرمایا: “میں اپنے ایک سفر میں صحرا کی طرف نکلا اور چند دن وہاں ٹھہرا مگر مجھے پانی نہیں ملتا تھا جب مجھے پیاس کی سختی محسوس ہوئی تو ایک بادل نے مجھ پر سایہ کیا اور اس میں سے مجھ پر بارش کے مشابہ ایک چیز گری، میں اس سے سیراب ہو گیا پھر میں نے ایک نور دیکھا جس سے آسمان کا کنارہ روشن ہو گیا اور ایک شکل ظاہر ہوئی جس سے میں نے ایک آواز سنی: “اے عبدالقادر ! میں تیرا رب ہوں اور میں نے تم پر حرام چیزیں حلال کر دی ہیں، تو میں نے اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم پڑھ کر کہا: “اے شیطان لعین ! دور ہو جا۔“ تو روشن کنارہ اندھیرے میں بدل گیا اور وہ شکل دھواں بن گئی پھر اس نے مجھ سے کہا: “اے عبدالقادر ! تم مجھ سے اپنے علم، اپنے رب عزوجل کے حکم اور اپنے مراتب کے سلسلے میں سمجھ بوجھ کے ذریعے نجات پا گئے اور میں نے ایسے ستر (70) مشائخ کو گمراہ کر دیا۔“ میں نے کہا: “یہ صرف میرے رب عزوجل کا فضل و احسان ہے۔“ شیخ ابو نصر موسٰی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دریافت کیا گیا کہ “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کس طرح جانا کہ وہ شیطان ہے ؟“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “اس کی اس بات سے کہ “بے شک میں نے تیرے لئے حرام چیزوں کو حلال کر دیا۔“ ( بہجۃ الاسرار، ذکرشی من اجوبتہ مماید لعلی قدم راسخ، ص 228 )
غریبوں اور محتاجوں پر رحم

شیخ عبداللہ جبائی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ “ایک مرتبہ حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ “میرے نزدیک بھوکوں کو کھانا کھلانا اور حسن اخلاق کامل زیادہ فضیلت والے اعمال ہیں۔“ پھر ارشاد فرمایا: “میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا، اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک ان میں سے ایک پیسہ بھی نہ بچے۔ (کہ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کردوں اور بھوکے لوگوں کو کھانا کھلا دوں۔) ( قلائد الجواہر، ملخصاً ص8 )
ان کے در سے کوئی خالی جائے ہو سکتا نہیں
ان کے دروازے کھلے ہیں ہر گدا کے واسطے

سخاوت کی ایک مثال

ایک دفعہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک شخص کو کچھ مغموم اور افسردہ دیکھ کر پوچھا: “تمہارا کیا حال ہے ؟“ اس نے عرض کی: “حضور والا ! دریائے دجلہ کے پار جانا چاہتا تھا مگر ملاح نے بغیر کرایہ کے کشتی میں نہیں بٹھایا اور میرے پاس کچھ بھی نہیں۔“ اتنے میں ایک عقیدت مند نے حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر تیس دینار نذرانہ پیش کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے وہ تیس دینار اس شخص کو دے کر فرمایا: “جاؤ ! یہ تیس دینار اس ملاح کو دے دینا اور کہہ دینا کہ “آئندہ کسی غریب کو دریا عبور کرانے پر انکار نہ کرے۔“ ( اخبار الاخیار، ص 18 )
مہمان نوازی

روزانہ رات کو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا دسترخوان بچھایا جاتا تھا جس پر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے مہمانوں کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے، کمزوروں کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے، بیماریوں کی عیادت فرماتے، طلب علم دین میں آنے والی تکالیف پر صبر کرتے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرشی من شرائف اخلاقہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، ص 200)
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ باطن کے حالات جان لیتے تھے

حضرت شیخ ابو محمد الجونی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ “ایک روز میں حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت میں فاقہ کی حالت میں تھا اور میرے اہل و عیال نے بھی کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ میں نے آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو سلام عرض کیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سلام کا جواب دے کر فرمایا: “اے الجونی ! بھوک اللہ عزوجل کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جس کو وہ دوست رکھتا ہے اس کو عطا فرما دیتا ہے۔“ (قلائد الجواہر، ص 57)
مصائب و آلام دور فرما دیتے

حضرت شیخ ابوالقاسم عمر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “جو کوئی مصیبت میں مجھ سے فریاد کرے یا مجھ کو پکارے تو میں اس کی مصیبت کو دور کر دوں گا اور جو کوئی میرے وسیلے سے اللہ عزوجل سے اپنی حاجت طلب کرے گا تو اللہ عزوجل اس کی حاجت کو پورا فرما دے گا۔ (بہجۃ الاسرار، ذکر فضل اصحابہ و بشراہم، ص 197)
اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم
فقیروں کے حاجت روز غوث اعظم

عورت کی فریاد پر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا مدد فرمانا

ایک عورت حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مرید ہوئی، اس پر ایک فاسق شخص عاشق تھا، ایک دن وہ عورت کسی حاجت کے لئے باہر پہاڑ کے غار کی طرف گئی تو اس فاسق شخص کو بھی اس کا علم ہوگیا تو وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیا حتٰی کہ اس کو پکڑ لیا، وہ اس کے دامن عصمت کو ناپاک کرنا چاہتا تھا تو اس عورت نے بارگاہ غوثیہ میں اس طرح استغاثہ کیا:
الغیاث یاغوث اعظم الغیاث یاغوث الثقلین
الغیاث یاشیخ محی الدین الغیاث یاسیدی عبدالقادر
اس وقت حضور سیدی غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنے مدرسہ میں وضو فرما رہے تھے آپ نے اس کی فریاد سن کر اپنی کھڑاؤں (لکڑی کے بنے ہوئے جوتے) کو غار کی طرف پھینکا وہ کھڑاویں اس فاسق کے سر پر لگنی شروع ہو گئیں حتٰی کہ وہ مر گیا، وہ عورت آپ کی نعلین مبارک لے کر حاضر خدمت ہوئی اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مجلس میں سارا قصہ بیان کر دیا۔ (تفریح الخاطر، ص 37)
غوث اعظم بمن بے سروسامان مددے
قبلہ دیں مددے کعبی ایماں مددے

جانور بھی آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی فرمانبرداری کرتے

حضرت ابوالحسن علی الازجی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیمار ہوئے تو حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان کے گھر ایک کبوتری اور ایک قمری کو بیٹھے ہوئے دیکھا، حضرت ابوالحسن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے عرض کیا: “حضور والا (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)! یہ کبوتری چھ مہینے سے انڈے نہیں دے رہی اور قمری (فاختہ) نو مہینے سے بولتی نہیں ہے تو حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے کبوتری کے پاس کھڑے ہو کر اس سے فرمایا: “اپنے مالک کو فائدہ پہنچاؤ۔“ اور قمری سے فرمایا کہ “اپنے خالق عزوجل کی تسبیح بیان کرو۔“ تو قمری نے اسی دن سے بولنا شروع کردیا اور کبوتری عمر بھر انڈے دیتی رہی۔ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب، ص 153)
مریضوں کو شفاء دینا اور مردوں جو زندہ کرنا:

(1) حضرت شیخ ابو سعید قیلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ القوی نے فرمایا: “حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اللہ عزوجل کے اذن سے مادر زاد اندھوں اور برص کے بیماریوں کو اچھا کرتے ہیں اور مردوں کو زندہ کرتے ہیں۔ (المرجع السابق، ص 124)
(2) شیخ خضرالحسیی الموصلی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت اقدس میں تقریباً 13سال تک رہا، اس دوران میں نے آپ کے بہت سے خوراق و کرامات کو دیکھا ان میں سے ایک یہ ہے کہ جس مریض کو طبیب لاعلاج قرار دیتے تھے وہ آپ کے پاس آکر شفایاب ہو جاتا، آپ اس کے لئے دعاء صحت فرماتے اور اس کے جسم پر اپنا ہاتھ مبارک پھیرتے تو اللہ عزوجل اسی وقت اس مریض کو صحت عطا فرما دیتا۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من کلامہ مرصعا من عجائب، ص 147)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1443623 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.