سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات و واقعات حصہ چہارم
(پیرآف اوگالی شریف, Khushab)
دریاؤں پر آپ رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ کی حکومت
ایک دفعہ دریائے دجلہ میں زوردار سیلاب آگیا، دریا کی طغیانی کی شدت کی وجہ
سے لوگ ہراساں اور پریشاں ہوگئے اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے
مدد طلب کرنے لگے حضرت نے اپنا عصاء مبارک پکڑا اور دریا کی طرف چل پڑے اور
دریا کے کنارے پر پہنچ کر آپ نے عصاء مبارک کو دریا کی اصلی حد پر نصب
کردیا اور دریا کو فرمایا کہ “بس یہیں تک۔“ آپ کا فرمانا ہی تھا کہ اسی وقت
پانی کم ہونا شروع ہو گیا اور آپ کے عصاء مبارک تک آگیا۔“ (بہجۃ الاسرار،
ذکر فصول من کلامہ مرصعابشی من عجائب، ص 153)
بچایا تھے پہلے تو ڈوبے ہوؤں کو
اور اب ڈوبتو کو بچا غوث اعظم
اولاد نرینہ نصیب ہو گئی
حضرت شاہ ابو المعالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں ایک شخص نے
حضرت سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر عرض
کیا: “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے اس دربار میں حاجتیں پوری ہوتی ہیں اور
یہ نجات پانے کی جگہ ہے پس میں اس بارگاہ میں ایک لڑکا طلب کرنے کی التجا
کرتا ہوں۔“ تو سرکار بغداد، حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد
فرمایا: “میں نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعاء کر دی ہے کہ اللہ عزوجل
تجھے وہ عطا فرمائے جو تو چاہتا ہے۔“
وہ آدمی روزانہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مجلس شریف میں حاضر ہونے لگا،
قادر مطلق کے حکم سے اس کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی، وہ شخص لڑکی کو لے کر خدمت
اقدس میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا: “حضور والا (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ)! ہم
نے تو لڑکے کے متعلق عرض کیا تھا اور یہ لڑکی ہے۔“ تو حضرت سیدنا غوث اعظم
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “اس کو لپیٹ کر اپنے گھر لے جاؤ
اور پھر پردہ غیب سے قدرت کا کرشمہ دیکھو۔“ تو وہ حسب ارشاد اس کو لپیٹ کر
گھر لے آیا اور دیکھا تو قدرت الٰہی عزوجل سے بجائے لڑکی کے لڑکا پایا۔“ (
تفریح الخاطر، ص 18 )
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی دعاء کی تاثیر
ابو السعود الحریمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے مروی ہے کہ ابو المظفر حسن بن
نجم تاجر نے شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:
“حضور والا ! میرا ملک شام کی طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اور میرا قافلہ بھی
تیار ہے، سات سو دینار کا مال تجارت ہمراہ لے جاؤں گا۔“ تو شیخ حماد رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “اگر تم اس سال سفر کرو گے تو تم سفر میں ہی
قتل کر دئیے جاؤ گے اور تمہارا مال و اسباب لوٹ لیا جائے گا۔“
وہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ارشاد سن کر مغموم حالت میں باہر نکلا تو
حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے ملاقات ہوگئی اس نے شیخ حماد
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا ارشاد سنایا تو آپ نے فرمایا اگر تم سفر کرنا
چاہتے ہو تو جاؤ تم اپنے سفر سے صحیح و تندرست واپس آؤ گے، میں اس کا ضامن
ہوں۔“ آپ کی بشارت سن کر وہ تاجر سفر پر چلا گیا اور ملک شام میں جاکر ایک
ہزار دینار کا اس نے اپنا مال فروخت کیا اس کے بعد وہ تاجر اپنے کسی کام کے
لئے حلب چلا گیا، وہاں ایک مقام پر اس نے اپنے ہزار دینار رکھ دئیے اور رکھ
کر بھول گیا اور حلب میں اپنی قیام گاہ پر آگیا، نیند کا غلبہ تھا کہ آتے
ہی سو گیا، خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ عرب بدوؤں نے اس کا قافلہ لوٹ لیا ہے
اور قافلے کے کافی آدمیوں کو قتل بھی کر دیا ہے اور خود اس پر بھی حملہ
کرکے اس کر مار ڈالا ہے، گھبرا کر بیدار ہوا تو اسے اپنے دینار یاد آگئے
فوراً دوڑتا ہوا اس جگہ پر پہنچا تو دینار وہاں ویسے ہی پڑے ہوئے مل گئے،
دینار لے کر اپنی قیام گاہ پر پہنچا اور واپسی کی تیاری کرکے بغداد لوٹ آیا۔
جب بغداد شریف پہنچا تو اس نے سوچا کہ پہلے حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ وہ عمر میں بڑے ہیں یا حضرت غوث اعظم رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے
میرے سفر کے متعلق جو فرمایا تھا بالکل درست ہوا ہے اسی سوچ و بچار میں تھا
کہ حسن اتفاق سے شاہی بازار میں حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے اس
کی ملاقات ہوگئی تو آپ نے اس کو ارشاد فرمایا کہ “پہلے حضور غوث پاک رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت اقدس میں حاضری دو کیونکہ وہ محبوب سبحانی ہیں
انہوں نے تمہارے حق میں ستر (70) مرتبہ دعا مانگی ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل
نے تمہارے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرمادیا اور مال کے ضائع ہونے
کو بھول جانے سے بدل دیا۔ جب تاجر غوث الثقلین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی
خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ “جو کچھ شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ نے شاہی بازار میں تجھ سے بیان فرمایا ہے بالکل ٹھیک ہے کہ میں نے ستر
(70) مرتبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہارے لئے دعا کی کہ وہ تمہارے قتل
کے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرمادے اور تمہارے مال کے ضائع ہونے
کو صرف تھوڑی دیر کے لئے بھول جانے سے بدل دے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر فصول من
کلامہ مرصعابشی من عجائب، ص 64)
بیداری میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت
ایک دن حضرت غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان فرما رہے تھے اور شیخ علی
بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کو نیند
آگئی حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اہل مجلس سے فرمایا خاموش رہو
اور آپ منبر سے نیچے اتر آئے اور شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے
سامنے باادب کھڑے ہوگئے اور ان کی طرف دیکھتے رہے۔
جب شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ خواب سے بیدار ہوئے تو حضرت غوث
پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ان سے فرمایا کہ “آپ نے خواب میں تاجدار
مدینہ، راحت قلب و سینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے ؟“
انہوں نے جواب دیا: “جی ہاں۔“ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: “میں
اسی لئے باادب کھڑا ہو گیا تھا پھر آپ نے پوچھا کہ “نبی پاک، صاحب لالوک
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو کیا نصیحت فرمائی ؟“ تو کہا کہ آپ
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ “آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی
خدمت اقدس میں حاضری کو لازم کر لو۔“
بعد ازیں لوگوں نے شیخ علی بن ہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے دریافت کیا کہ
“حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے اس فرمان کا کیا مطلب تھا کہ “میں
اسی لئے باادب کھڑا ہو گیا تھا۔“ تو شیخ علی بن ہیتی علیہ رحمۃ اللہ الباری
نے فرمایا: “میں جو کچھ خواب میں دیکھ رہا تھا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس
کو بیداری میں دیکھ رہے تھے۔“ ( بہجۃ الاسرار ذکر فصول من کلامہ مرصعا من
عجائب، ص 58 )
ڈوبی ہوئی بارات
ایک بار سرکار بغداد حضور سیدنا غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ دریا کی طرف
تشریف لے گئے وہاں ایک 90 سال کی بڑھیا کو دیکھا جو زار و قطار رو رہی تھی،
ایک مرید نے بارگاہ غوثیت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ میں عرض کیا: “مرشدی! اس
ضعیفہ کا اکلوتا خوبرو بیٹا تھا، بیچاری نے اس کی شادی رچائی دولہا نکاح
کرکے دلہن کو اسی دریا میں کشتی کے ذریعے اپنے گھر لا رہا تھا کہ کشتی الٹ
گئی اور دولہا دلہن سمیت ساری بارات ڈوب گئی، اس واقعہ کو آج بارہ سال گزر
چکے ہیں مگر ماں کا جگر ہے، بے چاری کا غم جاتا نہیں ہے، یہ روزانہ یہاں
دریا پر آتی ہے اور بارات کو نہ پاکر رو دھو کر چلی جاتی ہے۔“ حضور غوث
اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو اس ضعیفہ پر بڑا ترس آیا، آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ نے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دئیے، چند منٹ تک کچھ
ظہور نہ ہوا، بے تاب ہو کر بارگاہ الٰہی عزوجل میں عرض کی: “یااللہ عزوجل !
اس قدر تاخیر کی کیا وجہ ہے ؟“ ارشاد ہوا: “اے میرے پیارے ! یہ تاخیر خلاف
تقدیر نہیں ہے، ہم چاہتے تو ایک حکم “کن“ سے تمام زمین و آسمان پیدا کر
دیتے مگر بتقضائے حکمت چھ دن میں پیدا کئے، بارات کو ڈوبے ہوئے بارہ سال ہو
چکے ہیں، اب نہ وہ کشتی باقی رہی ہے نہ ہی اس کی کوئی سواری، تمام انسانوں
کا گوشت وغیرہ بھی دریائی جانور کھا چکے ہیں، ریزہ ریزہ کو اجزائے جسم میں
اکھٹا کروا کر دوبارہ زندگی کے مرحلے میں داخل کر دیا ہے اب ان کی آمد کا
وقت ہے۔“ ابھی یہ کلام اختتام کو بھی نہ پہنچا تھا کہ یکایک وہ کشتی اپنے
تمام تر ساز و سامان کے ساتھ بمع دولہا، دلہن وباراتی سطح آب پر نمودار
ہوگئی اور چند ہی لمحوں میں کنارے پر آلگی، تمام باراتی سرکار بغداد رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ سے دعائیں لے کر خوشی خوشی اپنے گھر پہنچے، اس کرامت کو
سن کر بے شمار کفار نے آ آکر سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دست
حق پرست پر اسلام قبول کیا۔“ (سلطان الاذکارفی مناقب غوث الابرار)
نکالا تھا پہلے تو ڈوبے ہوؤں کو
اور اب ڈوبتوں کو بچا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی یہ کرامت اس قدر
تواتر کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود برصغیر پاک و
ہند کے گوشے گوشے میں اس کو گونج سنائی دیتی ہے۔ (الحمدللہ عزوجل)
اعلٰیحضرت، امام اہلسنت، الشاہ مولانا احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن سے
اس واقعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ارشاد
فرمایا: “اگرچہ (یہ روایت) نظر سے نہ گزری مگر زبان پر مشہور ہے اور اس میں
کوئی امر خلاف شرع نہیں، اس کا انکار نہ کیا جائے۔ (فتاوٰی رضویہ جدید،
ج29، 629)
اولیاء کرام علیہم الرحمۃ کا آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے اظہار عقیدت
حضرت شیخ ابو عمر و عثمان بن مرزوق قرشی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں
کہ “شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہمارے شیخ، امام اور سید
ہیں اور ان سب کے سردار ہیں جوکہ اس زمانہ میں اللہ عزوجل کے راستہ پر چلتے
ہیں یا جن کو حال دیا گیا، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ ان کے احوال کی منزلوں میں امام ہیں، اللہ عزوجل کے سامنے ہمارے کھڑے
ہونے میں امام ہیں، اس زمانے کے اولیاء اور تمام بلند مراتب والوں سے اس
بات کا سختی سے عہد لیا گیا کہ “ان کے قول کی طرف رجوع کریں اور ان کے مقام
کا ادب کریں۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر احترام المشائخ والعلماء و ثنائہم علیہ،
ص 332)
میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے
حافظ ابوالعز عبدالمغیث بن ابو حرب البغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے مروی
ہے کہ ہم لوگ بغداد میں حضرت غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رباط حلبہ
میں حاضر تھے اس وقت ان کی مجلس میں عراق کے اکثر مشائخ رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہم حاضر تھے۔ اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ان سب حضرات کے سامنے وعظ فرما
رہے تھے کہ اسی وقت آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا “قدمی ھذہ علی رقبہ
کل ولی اللہ“ یعنی میرا یہ قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔“ یہ سن کر حضرت سیدنا
شیخ علی بن الہیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اٹھے اور منبر شریف کے پاس جاکر
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا قدم مبارک اپنی گردن پر رکھ لیا۔ بعد ازیں
(یعنی ان کے بعد) تمام حاضرین نے آگے بڑھ کر اپنی گردنیں جھکا دیں۔ (بہجۃ
الاسرار، ذکرحضرمن المشائخ ۔ ۔ ۔ الخ، 21، ملخصاً)
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلٰی تیرا
سر بھلا کوئی کیا جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
(1) ۔ ۔ ۔ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
جس وقت حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے بغداد مقدس میں ارشاد
فرمایا: “قدمی ھذہ علی رقبہ کل ولی اللہ یعنی میرا یہ قدم اللہ عزوجل کے ہر
ولی کی گردن پر ہے۔“ تو اس وقت خواجہ غریب نواز سیدنا معین الدین چشتی
اجمیری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی جوانی کے دنوں میں ملک خراسان کے دامن
کوہ میں عبادت کرتے تھے وہاں بغداد شریف میں ارشاد ہوتا ہے اور یہاں غریب
نواز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنا سر جھکایا اور اتنا جھکایا کہ سر مبارک
زمینتک پہنچا اور فرمایا: “بلق دماک علی راسی وعینی بلکہ آپ کے دونوں قدم
میرے سر پر ہیں اور میری آنکھوں پر ہیں۔“ ( سیرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ، ص 89 )
معلوم ہوا کہ حضور غریب نواز قدس سرہ العالی سلطان الہند ہوئے اور یہاں
تمام اولیائے عہدوما بعد آپ کے محکوم اور حضور غوث پاک رحمۃ اللہ تعالٰی
علیہ ان پر سلطان کی طرح حاکم ٹھہرے۔“
نہ کیوں سلطنت دونوں جہاں کی ان کو حاصل ہو
سروں پر اپنے لیتے ہیں جو تلوا غوث اعظم کا
(2) ۔ ۔ ۔ شیخ احمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
جب حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے قدمی ھذہ علی
رقبۃ کل ولی اللہ فرمایا تو شیخ احمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی
گردن کو جھکا کر عرض کیا: علی رقبتی یعنی میری گردن پر بھی آپ کا قدم ہے۔“
حاضرین نے عرض کیا: “حضور والا ! آپ یہ کیا فرما رہے ہیں ؟“ تو آپ نے ارشاد
فرمایا کہ “اس وقت بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی
نے قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ کا اعلان فرمایا ہے اور میں نے گردن جھکا
کر تعمیل ارشاد کی ہے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرمن حناراسہ من المشایخ عند ماقال
ذلک، ص 33)
سروں پر لیتے ہیں جسے تاج والے
تمہارا قدم ہے وہ یاغوث اعظم
(3) ۔ ۔ ۔ خواجہ بہاؤالدین نقشبند رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
جب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے
قول: “قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا: “بل علی عینی یعنی گردن رو درکنار آپ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کا قدم مبارک تو میری آنکھوں پر ہے۔“ (تفریح الخاطر ص 20)
(4) ۔ ۔ ۔ شیخ ماجد الکردی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ “جب سیدنا غوث اعظم رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ ارشاد فرمایا تھا تو اس
وقت کوئی اللہ عزوجل کا ولی زمین پر ایسا نہ تھا کہ جس نے تواضع کرتے ہوئے
اور آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے اعلٰی مرتبے کا اعتراف کرتے ہوئے گردن نہ
جھکائی ہو تمام دنیائے عالم کے صالح جنات کے وفد آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
کے دروازے پر حاضر تھے اور سب کے سب آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دست مبارک
پر تائب ہو کر واپس پلٹے۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکر اخبار المشایخ بالکشف عن ہیۃ
الحال ۔ ۔ ۔ ص 25)
(5) ۔ ۔ ۔ سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق
شیخ خلیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سرور کائنات، فخر موجودات، باعث تخلیق
کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا اور عرض کیا کہ
“حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے قدمی ھذہ علی رقبۃ کل
ولی اللہ کا اعلان فرمایا ہے۔“ تو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم نے ارشاد فرمایا: “صدق الشیخ عبدالقادر فکیف لاوھو القطب وانا ارعاہ
یعنی شیخ عبدالقادر (رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ) نے سچ کہا ہے اور یہ کیوں نہ
کہتے جب کہ وہ قطب زمانہ اور میری زنر نگرانی ہیں۔“ (المرجع السابق، ص 27)
(6) ۔ ۔ ۔ شیخ حیات بن قیس الحرانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے 3 رمضان المبارک 579ء میں جامع مسجد میں ارشاد
فرمایا کہ “جب حضور پرنور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے قدمی ھذہ علی
رقبۃ کل ولی اللہ کا اعلان فرمایا تو اللہ عزوجل نے تمام اولیاء اللہ کے
دلوں کو آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے ارشاد کی تعمیل پر گردنیں جھکانے کی
برکت سے منور فرمادیا اور ان کے علوم اور حال و احوال میں اسی برکت سے
زیادتی اور ترقی عطا فرمائی۔“ (بہجۃ الاسرار، ذکرمن حناراسہ من المشایخ عند
ماقال ذلک، ص30) |
|