امن ۔۔۔مگر دستار نہ گر پڑے

امن یقیناً ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے چاہے یہ دو انسانوں کے درمیان ہو دوگھروں کے درمیان یا دو ملکوں کے بیچ کیونکہ امن ہی دنیا میں انسانی بقا کی ضمانت ہے اسی سے دنیا حسین ہے اور اسی کے نہ ہونے سے بدنما۔ امن مظالم پر چپ رہنے کا نام نہیں بلکہ ظلم، زیادتی اور ظالم کے خلاف ڈٹ جانے سے جو امن قائم کیا جائے وہ زیادہ پائیدار ہوتا ہے۔

پاکستان کی ترقی کی راہ میں جو اندرونی رکاوٹیں ہیں وہ تو ہیں لیکن اس راہ کا سب سے بڑا روڑا ہماری سرحد پر موجود ایک ایسا ملک ہے جس کی بدنیتی اور دشمنی نے ہمیں مجبور کر رکھا ہے کہ باوجود ایک غریب ملک ہونے کے ہم اپنے وسائل دفاع پر خرچ کرتے رہیں اور ایٹمی اسلحہ بنائیں لیکن ہمیں یہ سب کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ دوسری طرف ایک بہت بڑا ملک ہے جس کے عوام بھوکے مر رہے ہیں۔ ممبئی اور دہلی کی چکاچوند کے پیچھے کھلے آسمان تلے بسنے والے بے شمار انسان ہیں لیکن بھارت سرکار خوش ہے کہ وہ ایک بہت بڑی فوجی طاقت ہے اور وہ اپنے اسلحے کا ڈھیر اونچا ہی اونچا کرتا جا رہا ہے ظاہر ہے کہ اس کی یہ ساری جنگی تیاری اپنے سے کئی گنا چھوٹے ملک پاکستان کے خلاف ہے اور یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ واحد محاذ نہیں جس پر وہ ہمارے خلاف سرگرم عمل ہے۔ دہشت گردی کے جس طوفان نے پاکستان کا احاطہ کیا ہوا ہے اُس میں بھی بھارت کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ بلوچستان میں اُسکی دلچسپی اور باغی بلوچ لیڈروں سے اُسکے تعلقات بلوچوں سے ہمدردی نہیں بلکہ پاکستان سے دشمنی کی بنا پر ہیں۔ افغانستان کی ترقی کی بھی اُسے خواہش نہیں لیکن ایک اور سمت سے پاکستان پر یلغار اُسکی اولین ترجیح ہے ۔ ان سارے عناصر کے ذکر کی وجہ آج کل کے وہ ’’امن پسند‘‘ گروہ اور ان کی انکی وہ سرگرمیاں ہیں جسے امن کی آشا کے نام پر پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ جیسا کہ میں نے شروع میں لکھا کہ امن کی خواہش ہر معقول انسان کو ہوتی ہے اور یہی حال بین الاقوامی امن کا بھی ہے لیکن نہ تو شخصی اور نہ ہی قومی خودی اور خودداری کا سودا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے دائو پر لگایا جا سکتا ہے ۔ اگر بھارت آج اپنے اعمال پر نظر ثانی کرتے ہو اپنی پاکستان دشمن سرگرمیوں سے ہاتھ کھینچ لے تو پھر تو پڑوسی ہی سب سے اچھے دوست ہو سکتے ہیں لیکن ایسے کسی اقدام کی فی الحال کوئی توقع تک نہیں کی جاسکتی۔ بھارت کشمیر کو آج بھی اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے اور اُس پر پاکستان کا حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ وہ تو اس مسئلے پر بات چیت سے ہی گریزاں رہتا ہے۔ اسے اپنے ان وعدوں کا بھی کوئی پاس اور لحاظ نہیں جو اُس نے کشمیر میں استصوابِ رائے کے بارے میں اقوام متحدہ میں کئے ہوئے ہیں اور اگر یہ کہہ دیاجائے کہ اس مسئلے کے ہوتے ہوئے امن کی آشارے مضحکہ خیز ہے تو بے جانہ ہوگا۔

بھارت نے کسی بھی زاویے سے پاکستان دشمنی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پانی ہی کے مسئلے کو لیجئے ،پانی جو زندگی کا ضامن ہے اور اسکا ہو نا نہ ہونا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔بھارت نے ہزار ہا سال سے بہنے والے دریائوں کا رخ موڑ کر ان کے پانیوں پر ڈاکہ ڈالا اور مسلسل ایسا کر رہا ہے۔ اُس نے نہ صرف ان دریائوں کا پانی روکا بلکہ ان کا رخ تک موڑنے کی کوشش کی اور پانی کے بہائو کو سرنگوں کے ذریعے اپنی جانب کیا۔ پھر اس ملک سے دوستی اور امن کی خواہش کس بنیاد پر کی جائے کیا اپنے ہرے بھرے کھیتوں کو صحرائوں میں بدلنے کی خاطر یا مستقبل کی نسلوں کی خوراک کی قیمت پر۔

امن کی آشا کوئی قابل اعتراض عمل نہیں لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ خواہش کس سے کی جارہی ہے اور آیا دوسری طرف بھی صرف ایک اشتہاری مہم سے ہٹ کر بھی یہ خواہش موجودہے یا نہیں تو اسکے ثبوت کے لیے سارک سربراہ کانفرنس کے اختتام پر بھارتی وزیراعظم کا وہ بیان ہی کافی ہے جس میں انہوں نے کہا ممبئی جیسا حملہ پاک بھارت تعلقات کے لیے تباہ کن ہوگا یعنی تعلقات کی خواہش کا اظہار بھی دھمکی آمیز انداز میں کیا گیا اور گویا کہ پاکستان کو بھارت کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی کہ وہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہونا چاہیئے اور اس عمل کے لیے راستہ کھلا چھوڑا گیا کہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی بھارت میں ہونے والی کسی بھی بدامنی بلکہ واردات کے لیے بھی پاکستان ہی ذمہ دار ہوگا۔ اب ایسے بیانات کے بعد کسی خیر کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔

ہمارے ہاں اگر ایک مخصوص گروہ کی یہ خواہش ہے کہ بھارت سے کسی بھی قیمت پر دوستی کی جائے تووہ تو اپنی جگہ لیکن جمہوری حکومت نے بھی ماضی سے کوئی سبق سیکھنے اور حال کے حالات میں محتاط رہنے کی بجائے جس طرح بھارت کے نمائندے کملیش شرما کی دولت مشترکہ کے جنرل سیکریٹری کے عہدے میں توسیع کے لیے نہ صرف حمایت کی گئی بلکہ قرارداد کی تائید کی گئی اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اُن تمام شہیدوں کا خون رائیگاں گیا جو اس دشمن سے، اس ماں دھرتی کی حفاظت کے لیے کی خاطر لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اس کامطلب یہ بھی ہے کہ کشمیر پر قابض قوت سے اب ہمیں کوئی شکایت نہیں۔ ہم نے اسی کو تجارت کے لیے پسندیدہ ملک قرار دیا ۔اس کے فوائدو نقصانات پر تو کوئی ماہر معاشیات ہی بہتر تبصرہ کر سکتا ہے تا ہم ایک عام پاکستانی کو اس اچانک انکشاف سے ضرور تکلیف پہنچی ہے اور وہ یقینا یہ سمجھتا ہے کہ اگر حکومت کے پاس اسکے بارے میں فوائد کی تسلی بخش فہرست ہوتی تو اِس فیصلے کو عوام کے سامنے ضرور رکھا جاتا بہر حال ماہرین معاشیات کے غیر جانبرارانہ تبصروں کا عوام کو انتظار رہے گا ۔

بھارت سے دوستی اور امن کی خواہش بذات خود کوئی قابل اعتراض عمل نہیں لیکن اس امن کی آشا کا اظہار ادھر سے بھی برابری کی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔ اور حکومت پاکستان کو اپنی سا لمیت اور میڈیا کو اپنی غیرت ملی کو ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے ۔ غیرت ملی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اُن کے ڈرامے ان کی فلمیں ﴿جن کو دیکھ کر شریفوں کے سر شرم سے جھک جاتے ہیں﴾ اپنے چینلز پر دکھاتے ہوئے ضرور سوچ لیا کریں کہ ہم ان کی ثقافت کو کیوں اپنے ملک میں متعارف بھی کروا رہے ہیں اور مقبول بنانے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ بھارت یا کسی بھی پڑوسی ملک سے دوستی ظاہر ہے پاکستان کے لیے بھی بہتر ہے لیکن اپنی غیرت ملی، سا لمیت اور خوداری کی بنیاد پر ہر گز نہیں بلکہ قومی وقار اور عزت و حمیت کے ساتھ اور ان عناصر کو ہماری حکومتی اور عوامی ہر دو سطح پر ہر صورت ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 519061 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.