تعلیمی دنیا اورسرگرم مافیا

ملک وقوم کی ترقی کاانحصار علم پر ہی ہے ۔ بدونِ تعلیم اقبال وعروج کا خواب سجانا انتہائی سطحی فکر ہے ۔ جس ملک و قوم میں علم دوست افراد ہوتے ہیں ، وہاں ترقی کی شاہراہیں کھلتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فی زمانہ حصول ِتعلیم پر زور دیاگیا ، اس کے حصول کے نت نئے طریقے دریافت کئے گئے ، تعلیمی نظام کو صحتمندبنا نے کے لئے موثر طریقے اختیارکئے گئے ۔ اگر نظام تعلیم پر اضمحلایت کے اثرات مرتب ہونے لگے تو ملک و قوم کی بد نصیبی ہی ہوگی ۔ ترقی کی کشتی بھنور میں چلی جائے گی ۔ اقبال مندی اورظفر یاری کے خوابوں کاخون ہوجائے گا ۔ صرف یہیں تک ہی بس نہیں بلکہ اس کے غلط اثرات معاشرہ پر بھی مرتب ہونے لگتے ہیں ۔

آج پوری دنیا میں تعلیمی بیداری کی لہر ہے ۔ ایک ملک سے دوسرے ملک کثیر تعداد میں طلباءحصول ِ تعلیم کے لئے آجارہے ہیں ۔ ہندوستان میں بھی بیدار مغز ، اصحاب فکر و دانش اور تعلیم دوست افراد بہت ہیں ۔ رہ رہ کے ان کے دلوں میں تعلیمی بیداری کا خیال آتا ہے اورتعلیم کے فروغ میں سرگرداں ہوتے ہیں ۔ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کپل سبل بھی تعلیمی معیار کی بہتری کے لئے ہمہ دم کوشاں نظر آتے ہیں ۔ گاہِ بہ گاہِ تعلیم کے فروغ کے لئے ان کے دل میں نت نئے طریقہ آتے ہیں ۔ چند دنوں قبل کی بات ہے ۔ ہندوستان _یل یونیورسٹی لیڈر شب پروگرام میں مذاکرہ کے دوران انہوں نے کہا کہ 2020تک ہندوستان میں اعلی تعلیم میں داخلے کی شرح 30فیصد حاصل کرنا ہے تو مزید ایک ہزار یونیورسٹیوں اور 50ہزار کالج ضروری ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے انتہائی کم قیمت پر طلباءکے لئے لیپ ٹاپ مہیاکرانے کا اعلان بھی کیا ہے ۔ تاکہ طلباءتکنیک سے جڑ جائیں ۔

سوال یہ ہوتا ہے کہ انتہائی کم قیمت پر لیپ ٹاپ فراہم کرنے سے تعلیمی نظام صحتمند ہوجائےگا ؟ملک کے طول و عرض میں نہ جانے کتنے خطے ایسے ہیں جہاں تعلیم نظام پراضمحلایت کے اثرات ہیں ۔ناقص تعلیمی نظا م ہے ۔ تعلیمی مافیا سرگرم ہیں ۔ بہت سے مقاما ت پر تعلیمی سہولت دستیاب ہی نہیں ۔ اساتذہ کافقدان ہے ۔ کتابوں کی کمیابی ہے ۔ الغرض بدنظمی کے حصار میں اسکول وکالج ہیں تو ایسے میں صرف لیپ ٹا پ کا وعدہ کرناکیسی عقلمندی ہوگی ؟سچ پوچھئے تو ہندوستان میں تعلیمی مراکز کی کمی نہیں ہے ۔ مگر ان سب میں جو چیز عنقاءہے، وہ ہے شفافیت،جس کی بنیاد پرا چھے اہل علم کا فقدان ہے ۔ اس لئے اعلٰی ومعیاری تعلیم کے لئے اعلٰی مراکز کے قیام سے کہیں زیادہ بنیادی تعلیمی سہولت کی فراہمی پردھیان دیناضروری ہے ۔ موجودہ تعلیمی اداروں میں شفافیت پیداکی جائے ۔ ان میں اخلاقیات پر زوردیا جائے ۔ مضمحل ہوتا تعلیمی نظام کو چست درست کرنے پر پوری توجہ دی جائے ۔ ان مسائل سے قطع نظر صرف اعلٰی تعلیمی اداروں کے قیام تئیں آواز بلندکرنابے وقت کی راگنی ہی ہوگی ۔ ایک ہزار یونیورسٹیز ،50ہزار کالجز اورسستا لیپ ٹاپ سے تعلیمی معیار بلند نہیں ہوگا ۔ موقع کے مدنظر اقدامات ہوں گے تو ترقی کی راہ ہموار ہوگی ورنہ نہیں ۔ فخرِملک وملت سرسید احمدخان نے کہاتھا:”جو تعلیم حسبِ احتیاج وقت نہ ہو وہ غیرمفید ہوتی ہے “۔ اسی طرح ایک دانا کابھی قول ہے :”اگرحسب احتیاج وقت لوگوں کی تعلیم وتربیت نہ ہوتواس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ لوگ اول مفلس اورمحتاج ،پھر نالائق وکاہل ، اس کے بعد ذلیل و خوار ،پھر چور و بدمعاش ہوجاتے ہیں “۔واقعی ان دنوں تعلیمی میدان کواحتیاج ہے شفافیت کی ، اخلاقیات کی ، یاپھر بنیادی تعلیم کی نہ کہ صرف اعلٰی ومعیاری تعلیم کے لئے اقدامات کی ۔ کیونکہ جب تعلیم کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط نہیں ہوگا تو معیاری اوراعلٰی تعلیمی اداروں میں آکر طلباءخاطر خواہ فائدہ کیسے اٹھاپائیں گے ؟۔

وزیر اعظم کے اقتصادی مشیر رگھو را م راجن نے کا کہنا ہے کہ ہندوستانی رسمی تعلیمی نظام ناکا م ہورہاہے ۔ سرکاری اسکولی نظام نا کام ہورہا ہے ۔ سرکار بہتر کا م نہیں کررہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کے شعبہ میں اصلاح کی ضرورت ہے ۔ ہماری ضرورت ہے کہ سبھی بچے اسکول جائیں ، ہندوستانی پرائمری اسکولوں میں آدھے طلبا کلاس میں نہیں ہوتے ہیں ۔ اوسط اسکول امریکہ میں اچھے ہیں ۔ ہندوستانی طلباءمیں تعلیم کی خواہش ہوتی ہے، اس کے باوجود اسکو ل چھوڑجاتے ہیں ۔

فی الوقت ملک کے محکمہ تعلیم کی تمام تر توجہ اس پر مرکوز ہونی چاہئے تھی کہ ابتدائی درجات میں طلباءیکسوئی سے حصول علم کےلئے منہمک رہیں ۔ انہیں اس کے لئے ہر سہولت بہم پہونچائی جائیں ۔ یہ امر قابل توجہ ہونی چاہئے کہ تعلیم کی خواہش کے باوجود طلباءتعلیم کیوں ترک کردیتے ہیں؟ان بنیادی باتوں سے قطع نظر فقط اعلٰی تعلیم کے لئے معیاری اداروں اورجدید آلات کی فراہمی چہ معنی دارد؟۔

دہلی کے پرائمری اسکولوں میں خالی اسامیوں کے لئے دہلی میونسپل کارپوریشن نے پہلی مرتبہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر اساتذہ کی بحالی کے تئیں آن لائن عمل شروع کیا تھا ۔ تقریباً 48ہزار درخواستیں موصول ہوئیں ۔جن میں سے لگ بھگ 2500امیدواروں کو میرٹ لسٹ میںشامل کیا گیا تھا ۔ جب میرٹ کی بنیاد پر منتخبہ امیدواروں کوسرٹیفکٹ چیک کرانے کے لئے بلایاگیا تو ہر تیسری امیدوار کے سرٹیفکٹ میں خامیاں نظر آئیں ۔ چانچ میں حقیقت واشگاف ہوتی نظر آئی تو بہت سے امیدواروں نے کارپوریشن جانا ہی بند کردیا ۔ جن 1767امیدواروں کوجاناتھا ان میں سے 572پہونچے ہی نہیں ۔ خبر یہ ہے کہ نریلا زون کے 57، شاہدرہ نارتھ زون کے 204میں سے 60، روہنی کے 200میںسے 70، شاہدرساؤتھ کے 200میں سے 67امیدوار میرٹ لسٹ میں آنے کے باوجود چانچ کے لئے نہیں گئے ۔

نظام تعلیم مضمحل ہے اس لئے تو تعلیمی میدانوں کے شہ سواروں میں ایسی ایسی خامیاں نظرآئیں؟سوال یہ ہوتا ہے کہ سرٹیفکٹ میں ایسی خامیاں کیوں نظرآئی ؟تعلیمی نظام میں کہا ںجھول ہے کہ ایسے افراد کوڈگریاں مل گئیں ؟اسناد میں خامیاں کس کی کوتاہی کا نتیجہ ہے ؟ ایسے افراد ، جن کی ڈگریوں میں خامیاں ہیں یا جنہوں نے غلط معلومات فراہم کی، مندِدرس پر متمکن ہوکر کیسے طلباءکی کردار سازی کریں گے؟ کیسے وہ اخلاقیات پر توجہ دیں گے ؟ کیسے وہ مسند درس پر براجمان ہو نے کے بعد شفافیت کے لئے کچھ کریں گے ؟ کیوں کر ایسوں کے دل میں نظام تعلیم کی صحتمندی کا خیال آئے گا ؟لب لبا ب یہ ہے کہ ایسے افراد سے ملک و قوم کی ترقی قطعی متصور نہیں ۔ خداکا کرم ہے کہ ایسے افراد پر ایم سی ڈی افسران کی نگاہ پڑی ، اور وہ مسنددرس پر متمکن نہ ہوسکے ۔ لیکن ان کی ڈگریوں کو کالعدم قرارنہیں دیا گیا ہے ،جو کہ ضروری ہے ۔تاکہ یہ تعلیمی مافیا ان ڈگریوں کی بنیاد پر دوسری جگہ کسی مقام پر فائز نہ ہوسکے ۔ ایم سی ڈی افسران نے ایسے خاطیوں کے خلاف رپورٹ درج کروانے کا عندیہ ظاہر کیا ہے ، بس اب دیکھنا ہے کہ کب تک ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے ۔

ملک میں اعلٰی تعلیمی اداروں اورتکنیکی تعلیم کے لئے نہ جانے کیسی کیسی کوششیں ہورہی ہیں ۔مگر تعلیمی مافیاؤں کا زور ختم کرنے کی طرف فوری توجہ نہیں ہورہی ہے ۔ لکھنو علی گنج چرچ روڈ پر واقع شری گنیش ایجو کیشن اینڈ ویلفیئرسوسائٹی کے افراد بھی تعلیمی فروغ کے نام پر گل کھلارہے ہیں ۔ وہ اس طورپر کہ اس سوسائٹی کے افراد ڈھنڈھورہ پیٹ رہے ہیں کہ کوئی بے روزگار تین ممبر کو ہماری سوسائٹی سے جوڑ کر استاذ بن سکتاہے ۔ تین ہزارروپئے مہینہ کما سکتاہے ۔ اس سوسائٹی کے جال میں تقریباً 350افراد جڑ چکے ہیں ۔جس سے اس سوسائٹی کو ساڑھے دس لاکھ روپئے کی کمائی ہوئی ہے ۔ اس کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ یہ فروغ انسانی وسائل سے رجسٹرڈ ہے ،جب کہ چٹس اینڈ فنڈ میں رجسٹرڈ ہے ۔ان کاکہنا ہے کہ جب ہمارے تین ہزار ممبران ہوجائیں گے تو حکومت سے گرانٹ ملے گا ،جس سے تنخوہ بڑھائی جائی گے۔جڑنے والے ہر ممبر سے کہاجاتاہے کہ 10سے 15بچوں کو فی الحال گھر پر ہی تعلیم دیں گرانٹ ملنے کے بعد تعلیمی اداروں کے تئیں اقدامات کئے جائیں گے ۔ ساڑھے تین سو ممبران میں سے چند کو یہ سوسائٹی تنخواہ بھی دے رہی ہے ، جو کہ ممبران سے ہی کسی نہ کسی صور ت میں یہ رقم جمع کروائی جاتی ہے ۔

سوال یہ ہے کہ مرکزی وزرات برائے فروغ انسانی سے اپنے کو متعلق کرنے والے تعلیمی مافیا پر تعلیم بیدار اوربرائے فروغ انسانی وسائل کے وزیر کی توجہ کیوں نہیں ؟ کیاواقعی یہ سوسائٹی اس سے متعلق ہے ؟ اگراس سے رجسٹرد ہے تو اشتہار کیوں نہیں دیا گیا ؟ سوسائٹی کے افراد کا اعلان کہ ہربے روزگار اس سے جڑ کر تین ہزار روپئے کما سکتاہے ، اس پر یہ کہا جائے گا کہ وزرات فروغ انسانی نے ان شروط اسے رجسٹر کیوں کیا ؟ کیاغیر تعلیم یافتہ بھی بے روزگار ی کے نام پر ٹیچر بن سکتاہے ؟ کیا اب بے روزگاری ایسی قوت ہے جو غیر تعلیم یا فتہ کو بھی مسند در س پر متمکن کردے ؟پہلے یہ سنا کرتا تھا کہ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں اس طرح عوام کو دھوکا دیا کرتی ہیں ، مگر آج تعلیمی کے نام پر یہ کھیل ہورہا ہے، بہت ہی افسوس کی بات ہے یہ ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایسے تعلیمی مافیاو ¿ں کے زور کو ختم کیا جائے ۔ تعلیم کامذاق بنانے والوں کے پنجوں کو مروڑاجائے ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100863 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More