نتیجہ مانوس سا لفظ ہے ہر اس
طالب علم کے لیے جس نے اسکول میں پڑھا ہو یا کبھی کوئی امتحان دیا ہو،نتیجے
کے بغیر امتحان اور پورے کا پورا امتحانی سسٹم فضول سا محسوس ہوتا ہے،نتیجہ
کے بغیر امتحان فضول ،نتیجہ کے بغیر کام فضول ،نتیجہ کے بغیر بازار جانا
فضول،نتیجہ کے بغیر دنیا کا کوئی بھی کام فضول ہے،مگر بعض چیزوں کے نتائج
جو ہمارے سامنے آتے ہیں وہ کوئی خاص نتائج نہیں ہوتے ہاں یوں لگتا ہے کہ اس
چیز کا مقصد کیا ہے؟ اور اس کا حصول اور نتیجہ اور ٹارگٹ کیا ہے ؟کیونکہ اس
میں کوئی خاطر خواہ کوئی فائدہ یا کسی کے لےے کوئی اچھائی معلوم نہیں ہوتی
۔
ہر شخص اپنے اردگرد مشاہداتی حس کو جگائے تو بہت ساری ایسی مثالیں ملیں گی
بلکہ اگر سب سے پہلے انسان خود اپنی ذات سے شروع کرے کہ میں نے اب تک زندگی
کی 15,20بہاریں دیکھ لی ہیں اور 15,20کے قریب قریب کی یہ عمر ایسی ہوتی ہے
جس میں یہ عمل ضرور کرنا چاہیے کہ میں جو ابھرتے سورج کے ساتھ اپنے دن کا
آغاز کر کے اور غروب آفتاب کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک دن کم کرتا جارہا ہوں
میری اس زندگی کا مقصد کیا ہے؟16,17سال کی عمر میں پڑھنے والے طالب علم
میٹرک کر لیتے ہیں اور انہی مدارس کے طلباءدرس نظامی کے کورس کے ابتدائی یا
کچھ اوپر کے درجات میں ہوتے ہیں،اسکول میںتوسہ ماہی امتحانات کا رواج بہت
کم ہے خصوصاً سرکاری اداروں میں اور مدارس میں تو سہ ماہی اور ششماہی تو
باقاعدگی سے ہوتے تو ہیں بلکہ سہ ماہی اور ششماہی کے نتائج کو سالانہ
امتحانی داخلے کے لیے بھی خصوصاً دیکھا جاتا ہے خیر جملہ معترضہ کے طور پر
آگئی بات نتیجہ کے بارے میں معلوم کرنا ویسے بھی طلباءکا رجحان زیادہ ہوتا
ہے کہ کیا نتیجہ ہوگا مگر ہم نے کبھی اپنے مستقبل کے نتیجہ کے بارے میں
کبھی نہیں سوچا یا سوچا بھی ہوتا ہے تو نتیجہ وہ اہل ظرف کے ہاں نتیجہ نہیں
ہوتا وہ کام ہوتا ہے،بالفرض اگر میٹرک پاس لڑکے سے پوچھا جائے کہ تعلیم
کیوں حاصل کررہے ہو تو وہ فٹ بتائے گا کہ ڈاکٹر بنوں گا ،انجینئر بنوں گا
مدارس کے طلباءکرام سے پوچھ لیجئے کہ آپ نے درجہ رابعہ کا امتحان پاس کرلیا
آپ کیا کریں گے تو وہ بھی بتائیں گے ،کہ ہم نے آگے تدریس کرنی ہے ،دونوں
بہت اچھے آئیڈیاز اور سوچیں ہیں مگر نہیں کامیابی تب ہے جب ہم نے تھوڑا سا
آگے سوچنا ہے وہ بھی سوچنا ہے جو عموماً ہم B.A,F.Aیا ماسٹر کے بعد سوچتے
ہیں یا دورہ حدیث یا تخصص کے بعد سوچتے ہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر یہ سوچنا ہے کہ ہم نے پڑھانے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر،انجینئر
،بننے کے ساتھ ساتھ اپنے دین،اپنے ملک کی حفاظت اور آنے والے نوجوانوں نسل
کے لیے کیا کرنا ہے،اگر چہ پڑھنے کے بعد پڑھانا بہت اچھی اور قابل ستائش
اور احسن اقدام ہے ،ڈاکٹر اور انجینئر بننا بھی اچھا ہے مگر ایک ”مفتی“عالم
اور ڈاکٹر اور انجینئر ہونے اور اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات تعلیم کے
لیے وقف کرنے کے بعد لامحدود زندگی کی وسعتوں میں ایک سرکل بند ہو کر رہ
جانا یہ اس علم کی توہین ہے،جس نے ہمیں سکھایا اور بتایا کہ حضور میدان میں
گئے آپ ﷺ منبر ومحراب میں گئے،تجارت کے اصولوں سے لے کر سیکھنے اور سکھانے
کے اصولوں تک،دعوت کے میدان سے لے کر جہاد کے میدان تک،سماج سے لے کر انصاف
تک ہر ہر قدم پر آپ ﷺ کی تعلیمات اور بہترین زندگی کا گوشہ گوشہ موجود
ہے،پھر آج پڑھے لکھے طبقے نے سیاست سے لے کر قیامت تک اور علم سے لے کر ہنر
تک تجارت سے لے کر سفارت تک کیوں نہ کوشش کی اس طرف آنے کی ....؟
ایک بار پھر کہ ہم نے نتیجہ ہی ذہن میں نہ رکھا کہ فقط کام کو ذہن میں بٹھا
کر رکھا اس بات کا مقصد یہاں یہ بالکل بھی نہیں ہے کہ کہیں ذرا سا بھی علم
کے سکھانے کی افادیت سے انکار نہیں مگر سوچ کے زاویے تھوڑے تبدیل کر کے
اجتماعی اور پورے world کی سوچ جب رکھنی ہے ہمارے ذہن میں نتیجہ آئے گا جب
نتیجہ اور ٹارگٹ سامنے آجائے تو پھر ڈاکٹرز اپنے مطالبات کے لیے مریضوں کو
یوں یوں ہی چھوڑ کر ہڑتال پر نہیں نکلے گا ۔
پھر یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹ اپنے ٹیچرز پر ہاتھ نہیں اٹھائیں گے اگر نتیجہ
اور سوچ سامنے ہوئے اور وہ وہی اجتماعی اور عالمی ہوئے تو پھر اسٹوڈنٹ وہ
خواب جو سب کو مل کر دیکھنا چاہےے وہ انفرادی طور پر نہیں سب کے ساتھ مل کر
دیکھے گا ،اور یوں وہ کبھی بھی اپنے کلاس فیلو اور کالج فیلو پر گولی نہیں
چلائے گا اور نہ ہی کالج اور یونیورسٹی میں اسلحہ کلچر کا حصہ بنے گا،جب
سوچ اجتماعی ہوگی تو پھر اپنی زندگی کے قیمتی لمحات تعلیم نذر کیے جانے کا
احساس ہوگا اور تباہی آنے والی نوجوان نسل کے لیے اور کوئی صحیح مستقبل
سوچا جاسکتا ہے،کامیاب انسان بننے کے لیے بھی اپنی زندگی میں نتیجہ ،ہدف
اور ٹارگٹ ضروری ہے ورنہ ”صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے یوں ہی زندگی عام ہوتی
ہے“نیک عمل پر ثواب بھی ملتا ہے مگر جو چیز سیکھی ہے اس کے خاطر خواہ فوائد
حاصل نہیں کیے اور یہ علامت اور اقدام خوش آئند نہیں ہوگا۔
جب سوچ کے زاویوں سے پھوٹنے والا نتیجہ اپنے ٹارگٹ کو Achiveکرتا ہوا ذہن
اسکرین پر واضح دکھائی دے گا تب نوجوان کو وہ ہوگا جن کے شاعر مشرق نے کہا
تھا کہ
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
پھر ایسا نوجوان اگر سیاست کے میدان میں نکلتا ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ
سیاسی میدان کو اکھاڑ نہیں بلکہ عبادت سمجھ کر وسعت ظرفی اور عالمی سوچ سے
لے کر چلے گا تب وہ ایسی سیاست کو فروغ دے پائے گا جو سیاست نظر یات کی
سیاست کہلائی جاسکے،سیاست کوئی نئی چیز نہیں ہے مگر غلط لوگوں اور کم ظرف
لوگوں نے اپنے کردار سے اس کو بدنام کردیا ہے علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
جلال بادشاہی ہو یا جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اور اگر یہ نوجوان تدریس کے میدان میں اپنے علم کی شمعیں روشن کرتا ہے تو
یہ اپنے معیت میں ان تشنگان علوم کو اور ان کی سوچ کے زاویوں کو ہنر عالمی
سوچ بنائے گا ،کیونکہ جب سوچیں وسیع ہو جاتی ہیں تو چھوٹے چھوٹے جھگڑے ختم
ہوجاتے ہیں اور بہت سارے مشترکات نظر آتے ہیں اور چند ایک کا اختلاف پھر
وسیع سوچ پر حاوی نہیں ہوتا تو پھر جھگڑے اور قتل وغارت گری بھی نہیں ہوتی
تب امن کی صدائیں اور فضائیں عام چلتی ہیں۔
وسعت نظری اور قلبی جس نوجوان کو مل جائے وہ جس میدان میں بھی جائے گاتو
کامیابیاں اس کا مقدر ٹھہرتی ہی ہیں مگرا س کے ساتھ ساتھ اس میدان اور فیلڈ
میں انقلابی روح وہی ہوتا ہے ۔
جب یہ علم سکھاہے تو یہ علم محدود تونہیں یہ تو لا محدود ہے تو سیکھنے والا
محدود کیوں رہے؟اس کا مطلب یہ بھی نہیں لامحدود ہونے کے لےے انہیں اپنی اصل
کو بھول کر” کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا “والی بات ہوگی
خدانخواستہ اگر اس کی ناقدری تک نوبت پہنچ جائے ،مگر ایک بات تو طے ہے کہ
اگر آج بھی ہم یہ طے کرلیں کہ ہم نے کس میدان میں عملاً قدم رکھنے ہیں اب
فیصلہ اس مستقبل کے معمار کو خود کرنا ہے ایسے مستقبل کا،اور یہ تنہا ممکن
نہیں ہے کہ جب صاحب علم نوجوان دور حاضر کے تمام چیلنجز سے آگاہ ہو گا اور
وہی نتیجہ اور سوچ اور ٹارگٹ اس کی نظر میں ہوگا۔اور جو بھی نوجوان ایسا
اور ایسے نظریے کا حامل ہوگا اس کے لیے میدان عمل منکشف ہوتا چلا جاتا ہے
جب سوچ وسیع ہوتی ہے ہر میدان میں عملاً کامیابی آسان ہوتی ہے،اپنے رجحان
اور صلاجیت کے مطابق اپنی منزل کا چناﺅ آسان ہوتا ہے،اور جو بھی نوجوان
اپنے صحیح مستقبل کا فیصلہ کرے وہ کسی پارٹی کے جھنڈے نہیں گاڑے گا اور نہ
ہی کسی لیڈر کے لےے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگائے گا،نوجوان کی
صلاحیتوں کا قتل موجودہ دور کی پیشتر پولیٹیکل پارٹیوں نے کیا ہے اور وہ
نوجوانوں کی صلاحیتوں کے قتل کی ذمہ دار ہیں اور اس میں بہت برا خود اس
نوجوان کا بھی ہے،جس نے ان کا آلہ کار بنے پر اپنی عزت سمجھی ۔
قدرت نے ہر انسان کے اندر بے شمار خوبیوں کا مرکب رکھا ہے مگر کسی استاذ
اور محنت سے اس کو پالش کی ضرورت ہوتی ہے اور نکھار کی ضرورت ہوتی ہے ۔بلا
مبالغہ دینی مدارس اور عصری کالجز اور یونیورسٹی کے طلباءہوں تب خدادا
صلاحیتوں سے مالا مال ہوتے ہیںیہ بات مشاہدات اور تجربات ثابت کرتے ہیں کہ
میڈیکل کے طالب علم بھی اچھے رائٹر بن سکتے ہیں اور بنے ہیں اور اچھا
لکھاری بھی اچھا اینکر پرسن بن سکتا ہے صرف ضرورت اس بات کی ہے آپ خود سے
انصاف کیا جائے تب اور حرکت میں برکت ہے،وہ نوجوان جو اس ظالم معاشرے سے
تنگ ہے ،جسے شکایات ہیں اپنے اداروں سے جو کڑہتا ہے اس وطن کی مٹی کے لیے
اور جس کے پاس درد دل ہے سنانے کے لےے ،قلم ہے ترجمانی کے لیے اور قدرت نے
زبان دی ہے اظہار ما فی الضمیر کے لیے جس کے پاس حل ہے معاشرے میں پھیلے
ہوئے ناسوروں کے ادراک کے لیے جو پیش کرسکتے ہیں اپنی خدمات، صلاحیتوں کی
تو وہ مجرم ہوں گے اگر بولیں اور لکھیں گے نہیں تو۔نظام کتنا ہی بہتر کیوں
نہ ہو جب تک عمل نہیں کیا جائے گا تب تک دنیا اسے مشکل سمجھتی ہے ،وہ
نوجوان جو خیر خواہی کے ساتھ انسانیت کا واقعی درد رکھتے ہوں نوجوانوں کے
لیے تڑپ رکھتے ہوں تو تمام تر تعصبات سے بالا تر ہو کر خالص فنی بنیادوں پر
اس مایوس کن فضا سے نوجوانوں کے لیے رہنمائی کرسکتے ہیں ،اور خود نوجوان
بھی اپنی سوچیں!
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے جہاں میں
وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا تھا آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاﺅں کے تلے تاجِ سر دارا! |