اپنے پڑوسیوں کو ستانا حرام ہے۔
اس لئے ان کو تنگ کرنا، گالیاں دینا یا آوازیں کسنا اور بلاوجہ نفرت کرنا
ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے پڑوسی کو ستانے سے
ان الفاظ میں منع فرمایا ہے،
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر یقین
رکھتا ہے وہ اپنے پڑؤسی کو نہ ستائے۔
(بخاری و مسلم شریف)
تاجدار رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کہ جس نے پڑوسی کو
تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس
نے خدا عزوجل کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اپنے پڑوسی سے لڑائی کی اس نے مجھ
سے لڑائی کی اور جس نے مجھ سے لڑائی کی اس نے خدا سے لڑائی کی (ترغیب) اس
سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کو ستانا بہت بڑا گناہ ہے ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے
کہ وہ آدمی جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کی ایذاؤں سے امن میں نہ
ہو۔
(مسند احمد)
بخاری شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا، خدا کی قسم ! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم وہ مومن نہیں۔ صحابہ کرام
علیہم الرضوان نے عرض کیا، کون یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
؟ فرمایا، جس کی ایذاء رسانی سے اس کا پڑوسی مامون نہ ہو۔
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہمسایہ کو تکلیف نہ
دی جائے بلکہ حقیقت میں اہل ایمان وہی ہیں جن کے پڑوسی ان سے راضی ہیں اللہ
تعالٰی ہمیں ہمسایوں کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی
یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فلانی عورت نماز و روزہ و صدقہ
کثرت سے کرتی ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف
پہنچاتی ہے۔ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، وہ
جہنم میں ہے اس شخص نے پھر عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ
وسلم فلانی عورت کے روزہ، نماز و صدقہ یعنی نوافل میں کمی ہے وہ پنیر کے
ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں دیتی۔ آقائے دو
جہاں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، وہ جنت میں ہے۔ فقہیہ ابو
للیث نقل کرتے ہیں کہ مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
“جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے تین ہمسایہ ہوں اور وہ سب کے سب اس راضی ہوں
تو اس شخص کی مغفرت ہو جائے گی۔
ایک شخص تاجدار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا
اور اپنے ہمسائے کا شکوہ کیا۔ مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے
ارشاد فرمایا، صبر کر دوسری، تیسری اور چوتھی بار بھی جب شکایت کی تو آقا
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، “اپنا سامان راستے میں ڈال دے
راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے جب اس کا سامان باہر راستہ پر پڑا دیکھا تو
پوچھا، کیا بات ہے ؟ اس نے کہا، “مجھے ہمسایہ ستاتا ہے“ لوگ وہاں سے گزرتے
رہے، پوچھتے رہے اور کہتے رہے، “اللہ تعالٰی اس ہمسائے کو ہدایت کرے، جب اس
ہمسائے کو پتہ چلا تو بے حد نادم ہوا اور معذرت چاہنے لگا اور درخواست کی
کہ اپنا سامان واپس لے آؤ، بخدا میں پھر تمہیں کبھی تکلیف نہ دوں گا۔
(مکاشفۃ القلوب)
سبحان اللہ ! سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے قربان !
اگرچہ ہمسایہ لاکھ جھگڑا کرے ہمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی اجازت نہیں
گھر چھوڑ مگر پڑوسی سے نہ لڑو۔
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک مکان کرایہ پر لیا اس
مکان کے پڑوس میں ایک یہودی کا مکان تھا اور حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ کا حجرہ اس یہودی کے مکان کے قریب تھا۔ اس یہودی نے ایک پرنالہ
بنا رکھا تھا اور ہمیشہ اس پربالے کی راہ سے نجاست حضرت مالک بن دینار رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کے گھر میں پھینکا کرتا تھا اس نے مدت تک ایسا ہی کیا،
مگر حضرت مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس سے کبھی یہ شکایت نہ فرمائی۔
آخر ایک دن اس یہودی نے خود ہی حضرت مالک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا،
حضرت آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو میرے پرنالے سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی ؟
آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا، ہوتی تو ہے مگر میں نے ایک ٹوکری اور
جھاڑو رکھ چھوڑی ہے، جو نجاست گرتی ہے، اس سے صاف کر دیتا ہوں۔ اس یہودی نے
کہا آپ اتنی تکلیف کیوں کرتے ہیں ؟ اور آپ کو غصہ کیوں نہیں آتا ؟ فرمایا،
کہ میرے پیارے اللہ عزوجل کا فرمان عالیشان ہے اور غصہ پینے والے اور لوگوں
سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ عزوجل کو محبوب ہیں۔
(پ 4 ع 5)
یہ آیات مقدسہ سن کر وہ یہودی بے حد متاثر ہوا اور یوں عرض گزار ہوا یقیناً
آپ کا دین نہایت ہی عُمدہ ہے آج سے میں سچے دل سے اسلام قبول کرتا ہوں، پھر
اس نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔
:: تذکرۃ الاولیاء |