سب سے بڑا مفلس
اس دنیا میں ہر شخص مالدار بننے کی دھن میں لگا ہوا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے
کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے۔ اور عیش و آرام، سکون و اطمینان اور آسائش و
راحت کے حصول کا سبب دولت ہی ہے۔ لٰہذا دولت کا حصول ہی آج کی دنیا میں
انسان کی تمام تر بھاگ دوڑ کا مقصد بن چکا ہے۔ اور اس مقصد تک پہنچنے کے
لئے ہر جائز و ناجائز راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ حلال و حرام کا کوئی پاس و
لحاظ نہیں رکھا جاتا ہر شخص اپنے خوابوں کی دنیا آباد کرنے کی دھن میں
سرمست و سرشار ہے۔ اسے کچھ ہوش نہیں کہ اپنی اصل منزل سے غیر محسوس طور پر
کس طرح دور ہوتا جا رہا ہے۔ کسی کا حق داب کر، کسی کو قتل کرکے، کسی کو
گالی دے کر، کسی پر ظلم کرکے اور کسی کا گھر اجاڑ کر وہ مالدار تو بن گیا۔
اس کے گھر میں عیش و آرام کے سامان کی کمی نہیں رہی۔ فریج بھی آگئی، ٹیلی
ویژن بھی آگیا۔ ائیرکنڈیشنڈ مکان اور گاڑی کا مالک بھی بن گیا۔ بینک بیلنس
بھی اچھا خاصہ ہوگیا اور اس طرح وہ اس غربت و افلاس اور غریبی و محتاجی سے
محفوظ ہوگیا۔ جس کا محض تصور ہی آدمی کے رونگٹے کھڑا کر دیتا ہے۔ جس کی
بناء پر ایک شخص کے سارے ارمان سینے کے اندر ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ جس کی
کوکھ سے عموماً مصیبت، ذلت اور ناکامی کے سوا اور کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا۔
لیکن او مست مئے غفلت ! تو اس پر نازاں ہے کہ تجھے مالداری مل گئی اور تو
ناداری سے بچ گیا۔ لیکن کیا کبھی تونے قیامت خیزی کا تصور کیا۔ کیا تجھے
کبھی اس ہوشربا دن کا بھی خیال آیا جب تجھے اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا
ہوگا اور جس دن بندوں کے حقوق جو تونے ظلماً غصب کئے ہیں دلائے جائیں گے
پہلے ان میں تیری نیکیاں تقسیم کی جائیں گی۔ جب نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو
ان بندوں کے گناہ تیرے اوپر لاد دئیے جائیں گے اور پھر تو جہنم میں ڈال دیا
جائے گا۔ اور غافل انسان ! یاد رکھ روز آخرت کی یہ مفلسی کہ تیرا نامہء
اعمال نیکیوں سے خالی ہو جائے گا۔ سب سے بڑی مفلسی ہوگی۔ لٰہذا غفلت کی
آنکھ کھول اور دیکھ کہ اس سلسلے میں اللہ کے پیارے نبی، غمخوار امت، محسن
انسانیت کی حدیث پاک کیا ہے۔ لے پڑھ، بغور پڑھ اور ہوش پکڑ۔
“حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: کیا
تمہیں معلوم ہے مفلس کون ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس
کے پاس پیسے ہوں نہ سامان ! حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: میری امت
میں دراصل مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ، زکوٰۃ لیکر آئے ہیں
اس حال میں کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو، کسی پر تہمت لگائی ہو، کسی کا مال
کھا لیا ہو، کسی کا خون بہایا ہو اور کسی کو مارا ہو تو اب انہیں راضی کرنے
کیلئے اس شخص کی نیکیاں ان مظلوموں کے درمیان تقسیم کی جائیں گی پس اس کی
نیکیاں ختم ہو جانے کے بعد بھی اگر لوگوں کے حقوق اس پر باقی رہ جائیں گے
تو اب حقداروں کے گناہ لاد دئیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اسے دوزخ میں پھینک
دیا جائے گا۔“ :: انوار الحدیث، ص 353 |