از : خلیل عیاش (بیت المقدس)
انٹرنیشنل مجلہ المجتمع شمارہ ١١٦٥ ( ١٩٩٥ /٩/٥ )
یہودیوں کے ہاتھوں مصری قیدیوں کے قتل کی المناک داستان
قیدیوں نے گولیوں کا نشانہ بننے سے پہلے اپنی قبریں خود کھودیں
بھیانک جنگی جرائم میں سے ایک حیرت انگیز اور نہایت قبیح جرم جس کے انکشاف
نے انسانی ضمیر کو بجلی کی طرح جھنجھوڑا اور افراد اُمت کو اس سنگ گراں سے
متنبہ کیا ۔ ذرائع ابلاغ جسے امن و سلامتی کا نام دینے کی کوشش کر رہے ہیں
۔اس بھاری جرم نے یہودیوں کے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے فریب کا پردہ چاک
کیا اور صہیونی جنگ کے غاصب جرنیلوں کی بربر یّت کو بےنقاب کیا۔ یہی جرنیل
آج اسرائیل کے سیاسی زعماء اور امن کے ہیرو بنے ہوئے ہیں ۔ ان فوجیوں نے جو
آج بلند و بالا سیاسی مناصب پر فائز ہیں ١٩٥٦ء اور ١٩٦٧ء کی جنگوں میں مصر
، فلسطین اور سوڈان کے سینکڑوں قیدیوں کو دھوکے سے بغیر کسی وجہ سے قتل کر
دیا ۔ ان قیدیوں میں کچھ مذکورہ ممالک کے شہری تھے اور کچھ فوجی تھے ۔
قطع نظر ان عوامل کے جو ان بھیانک جرائم کے بے نقاب ہونے کا سبب بنے ' یہ
جرائم درندگی اور وحشی پن میں کسی صورت میں کم نہیں ہیں ۔ جن ذرائع نے ان
کا انکشاف کیا ہے وہ تمام اسرائیلی ذرائع ہیں جن کا تعلق اسرائیل میں دائیں
اور بائیں بلاک کے درمیان پائی جانے والی سیاسی کشمکش کے ساتھ ہے جو کہ
ووٹوں کے حصول کیلئے جاری ہے ۔
اسی انکشاف کا آغاز گذشتہ اگست کی چار تاریخ کو ہوا جب ریٹائرڈ کرنل (فوجی
افسر) (Colonel)ارییہ بیرو نے اعتراف کیا کہ وہ ٤٩ مصری فوجیوں کے قتل میں
شریک ہوا تھا جنہیں چھاتہ بردار یونٹ نے ١٩٥٦ء کی جنگ کے دوران قیدی بنایا
تھا بلکہ اب تک منکشف ہونے والی تفصیلات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ جرائم
محض اتفاقی اور منصوبہ بندی کے بغیر نہیں تھے کہ جن کا ارتکاب بعض کینہ دار
انتقام لینے والے فوجیوں نے کیا ہو بلکہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ جو کچھ
ہوا اسرائیلی فوج کی جنگی منصوبہ بندی سے ہوا ۔ یہ منصوبہ تیار بھی فوج نے
کیا تھا اور اس پر عمل درآمد بھی فوج نے کیا تھا ۔اسحاق رابین کی موجودہ
اسرائیلی حکومت کی ایک خاتون وزیر نے ١٨ اگست ١٩٩٥ء کو ٹیلیویژن پر ایک
انٹرویو میں کہا کہ سابق اسرائیلی حکومتوں کے تمام رؤسا ء 'دفاع کے تمام
وزیر اور تمام کمانڈر انچیف اس بات سے آگاہ تھے مگر انہوں نے خاموشی اختیار
کی ۔
جرائم کا پہلا سلسلہ:
١٩٥٦ء میںمصر پر حملہ آور ہونے کے دوران قیدیوں کو قتل کیا گیا ۔ اس کی
تمام تفاصیل اس شکایت کی رپورٹ میں آئی ہیں جو ''اوری افنیری'' نے اسرائیلی
پولیس کے پاس اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک رکن رفائیل اتیان کے خلاف پیش کی ہے
جو کہ دائیں بلاک کی تسومیت تحریک کا صدر ہے اور وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہے
۔ مذکورہ رپورٹ ''جنرل ارییہ بیرو '' اور ارییل شارون کے بھی خلاف ہے ۔
''اوری افنیری'' نے ان تینوں کو جرائم قتل او جرائم حرب کا ملزم قرار دیا
ہے کیونکہ ان تینوں نے ١٩٥٦ء کی جنگ میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیا تھا ۔
رپورٹ کے اندر مندرجہ ذیل جرائم کا ذکر کیا گیا ہے ۔
نمبر١: ٤١ مزدوروں کا قتل جو کہ فوجی نہیں تھے ۔
نمبر٢: ٥٦ شہریوں اور فوجیوں کو قید کرنے کے بعد بغیر کسی عذر کے قتل کیا
گیا ۔
نمبر٣: ١٥٠ مصریوں اور سوڈانیوں کا قتل جو کہ ہتھیار پھینک چکے تھے ۔ قیدی
بنانے کے بعد قتل کئے گئے۔
اسرائیلی مؤرخ موتی غولانی کے قول کے مطابق اس کے پاس ایک دستاویز موجود ہے
جس سے یہ ثابت ہے کہ رفائیل اتیان نے قتل کی کاروائی کے دو ہفتے بعد اعتراف
کیا کہ اس نے ذاتی آرڈر سے قیدیوں کو قتل کروایا ۔
اسرائیلی اخبار ''معاریف'' نے اپنی ایک رپورٹ میں جسے صہیونی مضمون نگار ''
رونال فیش ''نے ترتیب دیا ہے ان جرائم کے بارے میں مزید وضاحت کی ہے ۔
چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ:
١٩ اکتوبر بروز سوموار ١٩٥٦ء کو چھاتہ بردار یونٹ نمبر٨٩٠ رفائیل اتیان کی
قیادت میں مرکز متیلاکی مشرقی جانب میں اتری یہ جنگ کے ابتدائی لمحے تھے۔
ایک نشیبی جگہ میں دو بڑے خیمے دکھائی دیئے ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ وزارت
محنت کے تابع مصری مزدور ہیں اور بعض ان میں بد ّو ہیں ۔
اور کرنل Colonelداف فلف جس نے ١٩٦٧ء کی جون کی جنگ کا تمغہ حاصل کیا کہتا
ہے کہ جنگ کے دوسرے دن مصری عمّال کوذبح کر دیا گیا ۔ ان تمام نے لمبے
کُرتے پہنے ہوئے تھے۔ بھوک اور پیاس سے چیخ رہے تھے ان کے قتل کی کاروائی
میں تمام یونٹ نے حصہ لیا ۔ ہم ساتھ والے ٹیلے پر کھڑے ہو گئے اور ہم نے ان
تمام کو بھون ڈالا ۔
ایک رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس نے فوجی اور شہری قیدیوں پر فائر
کھولنے کا حکم دیا وہ جنرل ارییہ بیرو تھا جس نے خود اعتراف کیا کہ اس نے
حرب سویز ١٩٥٦ء میں ٤٠ سے لے کر ٤٩ تک مصری فوجی قیدیوں کو خود گولیوں سے
اڑا یا ۔ اس کیلئے بہانہ اس نے یہ تراشا کہ اس کے پاس اتنے اپنے فوجی نہیں
تھے جو کہ قیدیوں کی نگرانی کیلئے کافی ہوتے ۔ ''بیرو'' رفائیل ایتان کے
زیر کمان چھاتہ بردار یونٹ کی قیادت کر رہا تھا اور ''رفائیل'' ارییل شارون
کے ماتحت تھا ۔
معاریف کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''شرم الشیخ'' میں بھی قتل و
غارت کا بازار گرم کیا گیا ۔ یہاں تقریباً ١٦٨ سوڈانی اور مصری فوجی تھے ان
کو گرفتار کیا گیا ۔ انہیں بیڑیاں پہنا دی گئیں اور کڑیاں لگا دی گئیں اور
انہیں رسیوں سے باندھا گیا پھر ان کی پیٹھوں پے فائر کئے گئے۔
جرائم کا دوسرا سلسلہ:
بیرو کی تصریحات کے بعد اس جرم کا انکشاف ہوا ۔اس سانحے میں جون ١٩٦٧ء کی
جنگ کے دوران ایک ہزار سے زائد مصری اور سوڈانی فوجی قیدیوں کو قتل کیا
گیا۔ اس بات کا اعلان اسرائیل کے فوجی محقق ارییہ اسحاقی نے کیا 'وہ
اسرائیلی جنگوں کی تاریخ کا سپیشلسٹ (Specialist)ہے اور تل ابیب کی ''بار
ایلان'' یونیورسٹی کا لیکچر ر ہے۔ اس نے گذشتہ اگست کی ١٦ تاریخ کو ایک
بیان میں کہا کہ اسرائیلی افواج نے جون کی جنگ کے دوران آزادی فلسطین کے
لشکر کے تقریباً ہزار مصری اور فلسطینی فوجیوں کو اسرائیلی فوج نے اس وقت
قتل کر دیا جب ان کی اکثریت ہتھیار پھینک چکی تھی ۔ اسحاقی نے مزید کہا کہ
١٩٦٧ء کی جنگ کے دوران مصریوں اور فلسطینیوں کیلئے کم از کم چھ قتل گھاٹ
بنائے گئے۔ خصوصاً قیلا کی راہ گزر ، عریش اور غزہ کی پٹی میں 'خانیونس شہر
میں یہ کاروائیاں کی گئیں ۔ ان میں سے قتل و غارت کی سب سے بڑی کاروائی
''عریش'' کے علاقے میں کی گئی جہاں ایک خصوصی یونٹ نے لشکر آزادی فلسطین کے
٣٠٠ مصری اور فلسطینی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اسحاقی نے مزید کہا کہ اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موشے دیان اور اس
وقت کے کمانڈر انچیف اور موجودہ وزیر اعظم اسحاق رابین کو اس واقعہ کا علم
تھا مگر دونوں نے اسے چھپا دینے کا حکم دیا۔
اسحاقی نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نے جو رپورٹ ١٩٦٨ء میں اسرائیلی فوج کے سلوک
کے بارے میں تیار کر کے پیش کی تھی اسے کوئی اہمیت نہ دی گئی اور وزیر دفاع
موشے دیان کے اشارے پر اس مسئلہ کو دبا دیا گیا ۔ اس پر پردہ ڈالنے میں
اسحاق رابین نے بھی کوشش کی جو اس دور میں کمانڈر انچیف تھا اور اب وزیر
اعظم ہے اور اسے امن کی کوششوں کی وجہ سے نوبل پرائز بھی ملا ہے ۔
جنگی قیدیوں کے ساتھ کیسے درندگی کی گئی:
ایک اسرائیلی صحافی ''غابی براؤن'' نے اس درد ناک داستان کو بے نقاب کیا ہے
۔ وہ صہیونی فوج کا ریٹائرڈ فوجی بھی ہے ۔وہ ان انسانیت سوز مظالم کا عینی
شاہد ہے ۔ براؤن نے ١٧ اگست ١٩٩٥ء کے اخبار ''یدیعوت احرونوت '' میں لکھا
ہے'' آٹھ جنوری کی صبح کو جبکہ میں جنرل اسرائیل طال کی زیر نگرانی ریزرو
فوجی تھا اور میں سینا کے علاقے عریش کے ائر پورٹ میں تھا ۔ میں نے اپنی
آنکھوں سے قیدیوں کو موت کے گھاٹ اترتے دیکھا''۔
وہ واقع کا محل وقوع (Location)یوں بیان کرتا ہے کہ سینکڑوں مصری قیدی
خندقوں میں بند کر دئیے گئے تھے ۔ دو آدمی اسرائیلی فوج کی وردی میں وہاں
بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ دونوں نے ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے اور عینکیں بھی لگائے
ہوئے تھے۔
اس نے مزید کہا کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد فوجی سپاہی قیدیوں سے کھچا کھچ
بھری ہوئی خند قوں میں سے ایک کو نکالتا اس سے کچھ باتیں کہتے ۔ اس کے بعد
دو فوجی اسے آگے لے جاتے ۔
اس نے اس پر اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً ١٠٠ میٹر کے فاصلے پر قیدی کو
اپنی قبر کا گڑھا کھودنے کو کہا جاتا وہ تقریباً ١٥ منٹ اپنی قبر کھودتا اس
کے بعد کدال پھینکنے کو کہتا ۔ وہ کدال رکھ دیتا اور اسرائیلی سپاہی اس پر
اپنی کلاشنکوف تان لیتا اور فائر شروع کر دیتا ۔ ہم ہر بار دو ، تین یا چار
گولیوں کی آواز سنتے۔
براؤن نے کہا یہ بھیانک منظر اس کی آنکھوں کے سامنے بیسیوں بار دھرایا گیا۔
میرے ساتھ اور بھی کئی فوجیوں نے یہ منظر دیکھا اور اس پر ناگوارئی طبع کا
اظہار کیا اور دینید ایشل جو اس وقت لیفٹیننٹ کرنل تھا وہ چلّایا اور اس نے
اپنا پستول ہوا میں لہرایا تا کہ ہم وہاں سے منتشر ہو جائیں ۔
براؤن نے لکھا کہ ایک اور فوجی افسر نے ہمیں بتایا کہ یہ قیدی وہ فلسطینی
ہیں جنہوں نے یہودی بچوں اور عورتوں کو قتل کیا ہے اور انہوں نے مصری
فوجیوں کے بھیس میں بھاگنے کی کوشش کی ہے ۔ اگلے دن افواہ پھیلی کہ سینکڑوں
مصری قیدی جو کہ اسرائیلی لشکر کی پیش قدمی کیلئے رکاوٹ تھے انہیں قتل کر
دیا گیا ہے۔
عسکری مؤرخ ارییہ اسحاقی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی کمانڈوز کی یونٹ جسے
''شاکد'' کہا جاتا ہے وہ موجودہ وزیر ہاؤسنگ بنیامین بن الیعازر کی زیر
قیادت تھی۔ اس نے ١٩٦٧ء کی جنگ میں ٩٠٠ مصری قیدیوں کو موت کی نیند سلا
دیا۔ ادھر یہودی مؤرخ میخائیل بارو نے ان تمام روایات و واقعات کو صحیح
قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی افواج نے صرف ١٩٥٦ء اور ١٩٦٧ء کی جنگوں
میں ہی ایسے جنگی جرائم کا ارتکاب نہیں کیا بلکہ وہ ١٩٤٨ء اور ١٩٧٣ء کی
جنگوں میں بھی ایسے جرائم میںملوث تھے۔
مصریوں کا ردّ عمل:
مصر کی سطح پہ ان معلومات اور تصریحات و بیانات کے بعد سرکاری اور عوامی
حلقوں میں غیض و غصہ کی ایک شدید لہر پائی جاتی ہے ۔ ان انکشافات نے مصریوں
کو بھڑکا دیا ہے۔ قاہرہ یونیورسٹی کے پرنسپل بین الاقوامی قانون کے استاذ
ڈاکٹر مفید شہاب نے کہا ''جرم کا انکشاف خواہ کئی سال بعد ہو قیدیوں کو قتل
کرنے والا ملک اس کا ذمہ دار ہوتا ہے''۔ یہ ایسا جرم ہے جو پرانا ہونے کی
وجہ سے ساقط نہیں ہوتا ۔
ڈاکٹر شہاب نے کہا کہ اسرائیل پر شہداء کے اجسام کو تلاش کرنااور انہیں مصر
کے سپرد کرنا لازم ہے۔ نیز اسرائیل سرکاری طور پر مصر اور شہداء کے
خاندانوں سے معافی مانگے اور قانونی معاوضے ادا کرے اور ڈاکٹر شہاب نے واضح
کیا کہ اگر اسرائیل مذکورہ باتوں کو پورا نہیں کرتا تو مصر بین الاقوامی
محکمہ عدل میں یہ مسئلہ اٹھانے کا حق رکھتا ہے جس طرح کہ مصر کیلئے یہ بھی
ممکن ہے ۔ بین الاقوامی انجمن صلیب احمر کے پاس اپنی شکایت پہنچائے کیونکہ
صلیب احمر اوقات جنگ میں انسانی قانون کے احترام کی ضامن ہے۔
ڈاکٹر مفید شہاب نے کہا اس سے آگے بھی یہ مسئلہ بڑھایا جا سکتا ہے کہ یہ
مسئلہ اقوام متحدہ کی مجلس امن میں پیش کیا جائے اور اس سے اسرائیل کو سزا
دلوائی جائے کیونکہ اس نے انٹرنیشنل قوانین کی مخالفت کی ہے۔
ڈاکٹر یوسف قرضا وی نے مصری قیدیوں کو شہید کرنے کے اس عظیم جرم پر اپنے
خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو ایک اسرائیلی لیڈر کے ہاتھوں مصری
قیدیوں کا قتل سرزد ہوا یہ ایسی قبیح حرکتیں ہمیشہ ان میں پائی جاتی رہی
ہیں ۔ ہمیں ان سے عذر اور کمینے پن کے علاوہ کسی شی ئ کی اُمید نہیں رکھنی
چاہیئے۔ وہ صرف انسانوں کے ساتھ ہی خیانت کرنے والے نہیں ہیں بلکہ حقوق
اللہ کے بھی خائن ہیں۔
ہمیں ان کی طبیعتوں کو اچھی طرح پہچان لینا چاہیئے تا کہ ہم ان کے ساتھ اسی
بنیاد پر معاملات کریں ۔ ان کا ایک ہزار مصری قیدیوں کو قتل کرنے کا اعتراف
ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور مصری حکومت کو اس مسئلہ پر مکمل طور پر سٹینڈ
لینا چاہیئے اور اسرائیل کو کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں دینی چاہیئے اور
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان خونخواروں سے اپنا ہر تعلق منقطع کر لیں ۔ یہ
بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اسرائیل ہمارے خلاف اپنے تمام ہتھیار
استعمال کر رہا ہے ۔ ایڈز سے لے کر زرعی پیداوار کے بیج متاثر کرنے تک اور
فضائی راستوں کے ذریعے ذرائع ابلاغ استعمال کر کے ہمارے نوجوانوں کو خراب
کرنے تک ۔
اسرائیلی ہمارا خون بہانا اور ہماری عزتیں لوٹنا جائز سمجھتے ہیں ۔ ایسے
قاتلوں سے صلح صرف غیر مالوف اور بے اعتبار ہی نہیں بلکہ محال ہے ۔ ہم پر
واجب ہے کہ ہم ان سے ہر لحاظ سے بائیکاٹ کریں کیونکہ یہ محرمات سے ہے بلکہ
صہیونیوں سے بیع و شراکت کرنا کبیرہ گناہ ہے ۔ عرب اسرائیل جنگوں کے مصری
فلسطینی اور سوڈانی قیدیوں کو شہید کر دینے کے بارے میں گذشتہ چند ہفتوں
میں جن باتوں کا انکشاف ہوا ہے اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس مجرمانہ سلوک
کا مرکزی کردار ہمیشہ حکومت رہی ہے۔ یہ کسی کاانفرادی عمل نہیں ہے کیونکہ
بڑے فوجی افسراں نے اس جرم پر سکوت اختیار کیا اور اس کے آثار مٹانے کی
کوشش کی ہے ۔ اسے وہ اپنا ایک کارنامہ سمجھتے ہیں ۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ صہیونی خونی دہشت گردی کا پورا پلندہ ہی عرب فوجیوں
اور شہریوں کی قتل و غارت کے اجتماعی اور انفرادی جرائم سے بھرا پڑا ہے ۔
یہ جو کچھ منکشف ہوا ہے یہ اسی طویل سلسلے کی ایک کڑی ہے جو قتل و غارت کا
سلسلہ صہیونیوں کے مقبوضہ فلسطین پر قابض ہونے سے لے کر اب تک جاری ہے ۔ جس
کو صہیونی دہشت گردی کا بھی نام دیا جا سکتا ہے ۔ ایسے لوگوں سے صلح کی بات
سراب کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
کیونکہ جن لوگوں نے اس بھیانک جرم کا ارتکاب کیا وہ آج یہودی حکومت میں
اقتدار کے نشے میں مست ہیں جس حکومت کی بنیاد ہی ظلم و زیادتی پر ہے ۔ لہذا
اسحاق رابین کی حکومت کا ان مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنا عجیب نہیں
ہے کیونکہ مجرموں کی فہرست میں پہلا نام اسحاق رابین کا ہی ہے جو اس وقت
کمانڈر انچیف تھا اور اب وزیر اعظم اور وزیر دفاع ہے ۔ |