هندستان پر انگريزوں كے تسلط كے
نتيجے ميں هندستانيوں كي جانب سے وقتاً فوقتاً ان كے خلاف بے چيني اور
بغاوت كا ماحول پيدا هوتارها، جو1857ئ ميں ايك منظم پيمانے پر ميرٹھ كي
چھاو ني سے شروع هو كر هندستان كے ديگر خطوں ميں بھي پهنچ گيا۔ اس سلسلے
ميں هندو قوموں كے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں اور علماے كرام كي كوششيں بھي
مسلسل آزادي كے حصول تك جاري رهيں۔ متعصب تاريخ نگاروں نے جب ان حالات اور
ماحول كا نقشه اپنے طور پر پيش كيا تو حقائق كے ماتھے پر سياهي پوت كر تعصب
اور تنگ نظري سے كام ليتے هوئے مسلمانوں كے كردار كو بالكليه ختم كر دينے
كا ناپاك جرم كيا ۔ اس پهلو كا دوسرا رخ يه سامنے آيا كه سواد اعظم اهل سنت
سے خارج علما جنگ آزادي كا سارا كردار اپنے نام كرنے لگے۔اور علماے اهل سنت
كے مقتدر مجاهدين آزادي كو انگريز نوازوں كي فهرست ميں شمار كروانے لگے يا
پھر اپني جماعت كا فرد بنا كر علماے اهل سنت كے عظيم كارناموں كے نشانات پر
مٹي ڈالنے كي ننگي جرا ت هي كر بيٹھے۔ اب ان حالات ميں ضروري هے كه اصل
واقعات سے قوم كو روشناس كرايا جائے اور بازار سياست كے دلالوں كے سامنے
حقيقي صورت حال پيش كر دي جائے تاكه آج جو غدارِ وطن كا بد نما داغ اقتدار
كے زور پر هماري پيشانيوں پر مڑھا جا رها هے ، اس كا بے بنياد هونا معلوم
هوجائے۔
سيد احمد اور شاه اسماعيل كے تعلق سے پورا ديوبندي مكتبِ فكر مسلسل تحرير
و تقرير كے ذريعه يه ذهن دينے كي كوشش كرتا رها هے كه انگريزوں كے خلاف
محاذ آرائي اور جهادي سرگرميوں ميں سارا رول ان هي كا هے اور انھوں نے هي
مسلمانوں كو انگريزوں كے خلاف جهاد كے ليے وعظ كے ذريعه منظم كرنے كے بعد
جنگيں كيں اور شهادت كے درجے پر فائز هوئے، جب كه سچائي اس كے بر عكس هے،
بلكه يه دونوں اور ان كے ديگر حامي و متبعين انگريزوں كے وظيفه خوار اور
مكمل هم نوا تھے۔ اس سلسلے ميں خود افرادِ خانه كي بے شمار شهادتيں موجود
هيں ، جن ميں سے چند ايك هديه قارئين هيں۔
سياسي مصلحت كي بنا پر سيد احمد صاحب نے اعلان كيا كه سركار انگريز سے
همارا مقابله نهيں اور نه هميں اس سے كچھ مخاصمت هے ۔ هم صرف سكھوں سے اپنے
بھائيوں كا انتقام ليں گے۔ يهي وجه تھي كه حكام انگلشيه بالكل باخبر نه
هوئے اور نه ان كي تياري ميں مانع آئے۔﴿حيات طيبه ، مطبوعه مكتبۃ
الاسلام،ص:260﴾
اسي مفهوم كي عبارت دوسرے مقام پر يوں هے:
٫٫سيد صاحب كے پاس مجاهدين جمع هونے لگے، سيد صاحب نے مولانا شهيد كے
مشورے سے شيخ غلام علي رئيس الٰه آباد كي معرفت ليفٹيننٹ گورنر ممالك مغربي
شمالي كي خدمت ميں اطلاع دي كه هم لوگ سكھوں سے جهاد كرنے كي تياري كرتے
هيں، سركار كو تو اس ميں كچھ اعتراض نهيں هے۔ ليفٹيننٹ گورنر نے صاف لكھ
ديا كه هماري عمل داري ميں امن ميں خلل نه پڑے تو هميں آپ سے كچھ سروكار
نهيں، نه هم ايسي تياري ميں مانع هيں۔ يه تمام بين ثبوت صاف اس امر پر
دلالت كرتے هيں كه جهاد صرف سكھوں سے مخصوص تھا سركار انگريزي سے مسلمانوں
كو هرگز مخاصمت نه تھي۔٬٬﴿حيات طيبه، مكتبۃ الاسلام،ص:523﴾
اس تعلق سے مولانا جعفر تھانيسري كي تحرير اس طرح هے:
٫٫سيد صاحب كا انگريزي سركار سے جهاد كرنے كا هر گز اراده نهيں تھا، وه اس
وقت آزاد عمل داري كو اپني هي عمل داري سمجھتے تھے۔ اس ميں شك نهيں كه
سركار انگريز اس وقت سيد صاحب كے خلاف هوتي تو هندستان سے سيد صاحب كو كچھ
بھي مدد نه ملتي، مگر سركار انگريزي اس وقت دل سے چاهتي تھي كه سكھوں كا
زور كم هو۔٬٬﴿حيات سيد احمد شهيد،ص:293﴾
سر سيد بھي ان واقعات كي طرف عنانِ قلم موڑتے هوئے بالكل ملتي جلتي باتيں
لكھتے هيں، جس سے سيد احمد راے بريلوي اور شاه اسماعيل دهلوي كے جهادي
كارناموں كا سراغ به آساني لگايا جا سكتا هے:
٫٫سيد احمد صاحب نے پشاور پر پھر سكھوں كا قبضه هونے كے بعد اپنے ان
رفيقوں سے جو جهاد ميں جان دينے پر آماده تھے، يه كها كه تم جهاد كے ليے
بيعت شرع كرلو، چناں چه كئي سو آدمي نے اسي وقت بيعت كي اور يه بات تحقيقي
هے كه جو شخص شير سنگھ كے مقابلے ميں لڑائي سے بچ رهے تھے ان ميں صرف چند
آدمي اپنے پيشوا سيد احمد صاحب كي شهادت كے بعد مولوي عنايت علي اور ولايت
علي ساكن پٹنه ان كے سردار هوئے، ليكن انھوں نے جهاد كے فرائض انجام دينے
ميں كچھ كوشش نهيں كي اور جب پنجاب پر گورنمنٹ انگريز كا تسلط هواتو مولوي
عنايت علي اور ولايت علي مع اپنے اكثر رفيقوں كے 1847ئ ميں اپنے گھروں كو
واپس بھيج ديے گئے، پس اس سے هم كو يه بات معلوم هو گئي كه خاص پٹنه يا
بنگاله كے اور ضلعوں سے بلكه عموماً هندستان سے روپے اور آدمي اس وهابيت كے
پهلے تين زمانوں ميں ضرور سرحد كو بھيجے گئے تھے۔ ليكن ميري راے ميں يه بات
بهت كھلي هوئي هے كه ان ميں سے كوئي آدمي انگريز گورنمنٹ پر حمله كرنے كے
واسطے هر گز نهيں گيا تھا اور نه ان سے يه كام ليا گيا اور نه تين زمانوں
ميں سے كسي كو اس كا كچھ خيال هوا كه هندستان كے مسلمانوں كي نيت بغاوت كي
جانب مائل هے۔٬٬﴿مقالات سر سيد حصه نهم145 146﴾
مزيد شواهد كے ليے اور آگے كي عبارت بھي ملاحظه كريں:
٫٫جب مولوي عنايت علي اور ولايت علي 1847ئ كو هندستان لوٹ آئے تو اس وقت
سيد احمد صاحب كے چند پيروكار سرحد پر باقي ره گئے تھے اور يه بات بھي صحيح
هے كه ان دو شخصوں نے پٹنه اور اس كے قرب و جوار كے آدميوں كو اس كي ترغيب
دينے ميں هر گز كوتاهي نهيں كي كه وه جهاد ميں شريك هوں اور يه اس كام كے
واسطے روپيه جمع كريں۔ چناں چه وه برابر بڑي سرگرمي سے كوشش كرتے رهے، اور
جس بات كا اب تك ان كو دل سے خيال تھا اس كا اظهار انھوں نے 1851ئ ميں اس
طرح صحيح هے ، كيا كه وه پھر هندستان سے سرحد كي جانب چلے گئے ، مگر ڈاكٹر
هنٹر صاحب نے خيال كيا كه يه لوگ دوباره سرحد كو انگريزوں پر حمله كرنے كي
نيت سے گئے تھے اور انھوں نے بجاے سكھوں كے انگريزوں پر جهاد كيا تھا۔
حالاں كه جب ان لوگوں كو انگريزوں سے كسي طرح كي شكايت نه تھي تو پھر ان كا
اراده كسي طرح پر صحيح نهيں هو سكتا۔٬٬ ﴿ايضاً،ص:147﴾
اس پر تھوڑي اور روشني ڈالتے هوئے سر سيد كا رواں قلم سرخ لكير كھينچتا
هوا نظر آتا هے ، جس سے سيد احمد راے بريلوي كا كردار پوري طرح لهو لهان
نظر آتا هے:
٫٫اور يه بات بھي ياد ركھني چاهيے كه يه وهابي اپنے مذهب ميں بڑے پكے،
نهايت سچے هوتے هيں ، وه اپنے اصول سے كسي حال ميں منحرف نهيں هوتے ، اور
جن شخصوں كي نسبت ميں يه لكھ رها هوں، وه اپنے بال بچوں اور مال و اسباب كو
گورنمنٹ انگريزي كي حفاظت ميں چھوڑ گئے تھے اور ان كے مذهب ميں اپنے بال
بچوں كے محافظوں پر حمله كرنا نهايت ممنوع هے، اس لحاظ سے اگر وه انگريزوں
سے لڑتے اور لڑائي ميں مارے جاتے تو وه بهشت كي خوشبوو ں اور شهادت كے درجه
سے محروم هو جاتے، بلكه اپنے مذهب ميں گناه گار خيال كيے جاتے۔٬٬ ﴿ايضاً، ص
:148 ﴾
مذكوره اقتباسات كي بنياد پر ديوبندي جماعت كے پيشوا سيد احمد راے بريلوي
كو انگريز نوازوں كي پهلي فهرست اور بانيوں ميں شمار كرنا تاريخي سچائي هے
اور اس ميں كوئي جرم نهيں كه انھيں انگريزوں كاكھلا هوا معاون اور ناصر
گردانا جائے ، جب كه ان شكسته حالات ، فرياد كناں ماحول ميںعلماے اهلِ سنت
اپنے وطن كي آزادي كے ليے پوري طرح انگريزي افواج كے خلاف صف آرا اور تحرير
و تقرير كے ذريعه عام هندستانيوں كو انگريزوں كے خلاف متحد كر رهے تھے، جس
كے نتيجے ميں قيد و بند كي صعوبتوں كے ساتھ جان و مال كے اتلاف كا شكار
بنتے رهے۔
انگريز نوازي كے ايسے واقعات سے خود سيد احمد كے ماننے والوں هي كي كتابيں
شور محشر جيسا ماحول پيش كرتي هيں اور بعد كے متبعين كي جھوٹي كهاني كا
كھلا مذاق اڑاتي هيں۔ سوانح احمدي، مخزن احمدي، نقش حيات، الدرر المنثور
وغيره كي عبارتيں بھي سيد صاحب كے جهاد كو انگريز مخالف بر سرِ پيكار
طاقتوں كے خلاف بتاتي هيں، مگر اس جماعت كے شرپسندوں نے تاريخ نگاري كي
روايت پر فرنگي ظلم كرتے هوئے تاريخ سازي كي نئي طرح ايجاد كر كے يه بتا
ديا كه جھوٹي شهيدي كا ڈھنڈورا پيٹنے والے اب جھوٹي تاريخ كا سبق بھي عام
كريں گے۔ حالاں كه سيد احمد كے عهد كے قريبي مورخين وهي باتيں لكھتے رهے جو
علماے اهلِ سنت بتاتے رهے هيں۔مگر بعد كے مورخين نے اپني جماعت كے اكابرين
كا دامن الجھتا ديكھ كر دروغ گوئي سے تاريخ كے صفحات پاٹ ديے۔
سيد احمد كے جهادي پهلو كے سلسلے ميں مندرجه ذيل اقتباس بھي كافي واضح
هے:
٫٫سركار انگريز گو منكرِ اسلام هے، مگر مسلمانوں پر كوئي ظلم اور تعدي
نهيں كرتي اور نه ان كو فرائض مذهبي اور عبادات لازمي سے روكتي هے ، هم ان
كے ملك ميں اعلانيه كهتے هيں اور ترويجِ مذهب كرتے هيں ، وه كبھي مانع و
مزاحم نهيں هوتي، بلكه اگر هم پر كوئي ظلم و زيادتي كرتا هے تو اس كو سزا
دينے كو تيار هے، پھر هم سركار انگريز پر كس سبب سے جهاد كريں اور اصولِ
مذهب كے خلاف بلا وجه طرفين كا خوف گراديں۔٬٬﴿حيات سيد احمد شهيد،ص:171﴾
فرانس كے مشهور مستشرق گارسن دتاسي كي كتاب تاريخ ادب اردو كي تلخيص طبقات
الشعراے هند ،ص:295مطبوعه1848ئ ميں سيد صاحب كے تعلق سے موجود هے كه:
٫٫بيس برس كا عرصه هوا كه وه سكھوں كے خلاف جهاد كرتا هوا مارا گيا۔٬٬
يهي بات دوسرے لفظوں ميں نواب صديق حسن خاں بھوپالي نے ترجمانِ وهابيه
ميںبھي لكھي هے كه:
٫٫ حضرت شهيد كا جهاد انگريزوں كے خلاف نه تھا۔٬٬﴿ترجمانِ وهابيه،ص:21 88﴾
يهي حال شاه اسماعيل كا بھي تاريخ كے صفحات پر نظر آتا هے ۔ خود وهابي
نظريات كے حامل قلم كاروں اور ان كے عهد كے قريبي تذكره نگاروںنے ان كي
انگريزوں سے قربت اور وفاداري كے لڈو هر خاص و عام كو بانٹے هيں۔بلكه
حقايقت تو يه هے كه 1857ئ كے وقت وهابي، ديوبندي جماعت كا وجود هي نهيں
تھا۔ لهذا يه كهنا كه اكابر ديوبند نے جنگ آزادي ميں اهم رول ادا كيا اور
انگريزوں كے خلاف جهاد كا بگل بجايا ، شديد ترين نا انصافي اور زيادتي هے۔
اس كے بر عكس علامه فضل حق خير آبادي ، مفتي صدر الدين آزرده ، مولانا
كفايت علي كافي مراد آبادي، مولانا فيض احمدعثماني بدايوني، مولانا احمد
الله شاه مدراسي، مولانا وهاج الدين مراد آبادي، مولانا لياقت علي الٰه
آبادي اور دوسرے علماے كرام نے انگريزوں كے خلاف جهاد كا فتويٰ جاري كيا
اور عام مسلمانانِ هند كو بيدار كيا ۔ مگر علماے سوئ كا يه طبقه پوري
چاپلوسي كے ساتھ انگريزي حمايت ميں قولاً و عملاً سر گرم رها، جس كي گواهي
خود افرادِ خانه نے هي دے دي هے۔ كلكته كے جلسه عام ميں جب ايك شخص نے شاه
اسماعيل سے پوچھا كه انگريزوں كے خلاف آپ جهاد كا فتويٰ كيوں نهيں ديتے تو
شاه صاحب نے فرمايا:
٫٫ ان پرجهاد كرنا كسي طرح واجب نهيں، ايك تو ان كي رعيت هيں، دوسرے مذهبي
اركان كے ادا كرنے ميں وه ذرا بھي دست درازي نهيں كرتے۔ هميں ان كي حكومت
ميں هر طرح آزادي هے، بلكه ان پر كوئي حمله آور هو تو مسلمانوں پر فرض هے
كه وه اس سے لڑيں اور اپني گورنمنٹ پر آنچ نه آنے ديں۔٬٬﴿حيات طيبه،طبع
قديم،ص:364﴾
مرزا حيرت دهلوي كي يه بھي تحرير ملاحظه هو:
٫٫مولوي اسماعيل صاحب نے اعلان كر ركھا تھا كه انگريزي سركار پر نه جهاد
مذهبي طور پر واجب هے نه هميں اس سے كچھ مخاصمت هے۔٬٬﴿حيات طيبه،ص:201﴾
اس تعلق سے سر سيدنے بھي انتهائي واضح الفاظ استعمال كر كے انگريز نوازي
كي ساري پول كھول دي:
٫٫اس زمانے ميں مجاهدين كے پيشوا سيد احمد صاحب تھے، مگر وه واعظ نه تھے۔
واعظ مولوي محمد اسماعيل صاحب تھے، جن كي نصيحتوں سے مسلمانوں كے دلوں ميں
ايك ايسا ولوله خيز اثر پيدا هوتا تھا جيسا كه كسي بزرگ كي كرامت كا اثر
هوتا هے۔ مگر اس واعظ نے اپنے زمانه ميں كبھي كوئي لفظ اپني زبان سے ايسا
نه نكالا جس سے ان كے هم مشربوں كي طبيعت ذرا بھي برا فروخته هو، بلكه ايك
مرتبه كلكته ميں سكھوں پر جهاد كرنے كا وعظ فرما رهے تھے ۔ اثناے وعظ ميں
كسي شخص نے ان سے دريافت كيا كه تم انگريزوں پر جهاد كرنے كا وعظ كيوں نهيں
كهتے، وه بھي تو كافر هيں؟ اس كے جواب ميں مولوي اسماعيل دهلوي صاحب نے
فرمايا كه انگريزوں كے عهد ميں مسلمانوں كو كچھ اذيت نهيں هوتي اور چوں كه
هم انگريزوں كي رعايا هيں اس ليے هم پر اپنے مذهب كي رو سے يه بات فرض هے
كه انگريزوں پر جهاد كرنے ميں هم كبھي شريك نه هوں۔٬٬﴿مقالات سر سيد، حصه
نهم،ص:141-42﴾
تبصرہ قارئین محرم خود کریں گے |