یہ اتوار کی خوبصورت صبح تھی
کرکٹ کا میچ شروع ہونے والا تھا ٹیموں نے آپس میں ٹاس کے زریعہ بیٹنگ اور
با لنگ کا فیصلہ بھی ہوچکا تھا یہ کراچی کے نشتر پارک کا واقعہ ہے جہاں ہر
اتوار کو کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان
میدان میں جمع ہوکر کھیلنے کا شوق پورا کرتے ہیں. لیکن کھیل شروع ہونے سے
پہلے پچ کے بارے میں بحث چھڑ گئی اور تھوڑی دیر میں یہ بحث لڑائی میں تبدیل
ہوگئی ایک نوجوان نے عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پستول نکال کر فائرنگ
کر دی، تھوڑی دیر میں دو افراد جاں بحق اور تین زخمی ہوگئے وہ میدان جس میں
زندگی سے بھرپور نئی نسل ایک صحت مند تفریح کے لئے مخصوص تھا لمحہ بار میں
غصہ اور عدم برداشت کی وجہ سے میدان حشر میں تبدیل ہوگیا۔
یہ ھمارے معاشرے کی عدم برداشت کی ایک مثال ہے اسی طرح کچھ دن پہلے ایک
محلہ میں آپس کی لڑائی میں بھینٹ چڑھنے والی 5 سالہ لائبہ تھی۔ بڑوں کے
دلوں میں پلنے والی نفرت سے بےخبر دشمن کے دروازے پر کھیل رہی تھی انتقام
کی آگ بجھانے کے لئے ظالم نے باپ کا بدلہ بچی سے لیا اور حلیم کی پکتی ہوئی
دیگ میں اسے پھینک دیا۔
اس لڑائی میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا محض ایک ظالم کی نفرت، غصہ، عدم
برداشت کی بھینٹ چڑھ گئی۔
اس قسم کی زندہ مثالیں ہر وقت ہر جگہ ہمیں اپنے معاشرے میں بکھری ہوئی ملیں
گی ھمارے اندر قوت برداشت کی کس قدر کمی ہوگئی ہے ہم کتنے جلدی آپے سے باہر
ہو جاتے ہیں ہم اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے اپنی
فرسٹریشن میں ہم بینکوں کو جلانے ، گا ڑ یو ں اور پٹرول پمپوں کو نقصان
پہنچانے حتیٰ کہ اپنے ہی بے گناہ بھائیوں کو بھی نقصان پہنچانے سے نہیں
چوکتے ہم لوگ اتنے بےرحم اور سفاک ہوگئے ہیں عدم برداشت کی زندہ اور بےمثل
قوم ہن گئے ہیں.
ہمیں اتنا غصہ کیوں آتا ہے جبکہ ہمارے مذہب میں بھی اس کی سخت ممانعت ہے آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غصّہ ایمان کو ایسے خراب کرتا ہے جیسےا یلو
ا شہد کو۔ معاف کر دینے سے بڑی کوئی فضیلت نہیں حق تعالٰی نے بھی انکی
تعریف فرمائی ہے جو اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں۔ غصہ آگ ہے جب دل میں لگے تو
اسکا دھواں دماغ میں گھس جاتا ہے اور عقل و فکر کی جگہ کو تاریک کر دیتا ہے
اسی طرح جس طرح کسی غار میں دھواں بھر جائے تو پھر ایسی تاریکی پیدا کر
دیتا ہے کہ کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتوں پر میں قسم کھا سکتا ہوں، اول
صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا تم صدقہ دیا کرو، دوئم کہ جو شخص سوال اور
گدائی کا کاسا دوسروں کے آگے پھیلاتا ہے وہ پھر سدا کا محتاج ہی رہتا ہے،
اور سوئم جو شخص کسی کا قصور معاف کرتا ہے تو قیامت کے دن حق تعالیٰ معاف
کرنے والے کی عزت میں زیادتی فرمائے گا ۔ اسلئے کہتے ہیں کہ جب غصّہ آئے تو
برداشت سے کام لیا جائے کہ جس کام میں نرمی کا دخل ہو وہ کام بن جاتا ہے
اور جس کام میں نرمی منقطع ہوجائے تو وہ بگڑ جاتا ہے۔ ہمارے مذہب میں بھی
عفو درگزر اور معاف کردینے کی بڑی فضیلت ہے مگر بدقسمتی سے جب ہم مسلم
معاشرے اور مغربی معاشرے کا موازنہ کریں تو ہمیں وہاں جو نظم وضبط اور
اخلاقی قدریں نظرآتی ہیں ہمارے معاشرے میں وہ ناپید ہیں کسی فورم پر احتجاج
کرنا ہو تو وہاں پرآمن مارچ ہوتا ہے۔ کوئی کسی کی املاک کو نقصان نہیں
پہنچاتا، پٹرول پمپ اور بینکوں کے آگے کوئی ٹینٹ نہیں لگانے پڑتے۔
مسلمانوں کو دہشت کی علامت کیوں بنا دیا گیا ہے ہم کیوں ہر بات پر اسقدر
جذباتی فیصلے کرنے لگتے ہیں 16 نومبر کو پوری دنیا میں برداشت کا عالمی دن
منایا گیا مگر ہمارے مذہب میں تو ہر دن ہر گھڑی ہر لمحہ درگزر، صلہ رحمی،
امن و آشتی کا درس دیا جاتا ہے سلام کرنا ہمارے معاشرے میں کسی دوسرے سے
ملنے کی پہلی د عا کا آغاز ہے جو کسی بھی مذہب میں اسلام کو ممتاز رکھتا ہے
بحیثیت مسلمان مایوسی کفر ہے اسلئے ہر منفی مایوس پہلو میں بھی کہیں نہ
کہیں کوئی روشن اور مثبت پہلو ضرور موجود ہوتا ہے۔
کبھی آپ نے سوچا کے ہم غصہ کا جواب صرف اسی کو دیتے ہیں جس پر ہمارا بس
چلتا ہو کبھی آپ نے کسی ماتحت کو اپنے افسر پر غصہ اتارتے دیکھا یا کسی
طالب علم نے اپنے اُستاد پر غصہ اتارا، نہیں ، اس وقت بدلہ لینے والا، یہ
پہلوان غصہ کہاں چلا جاتا ہے یقینا ہم اسے برداشت کر لیتے ہیں تو پھر ہم
بےبس لوگوں پر ہی اپنا غصّہ کیوں اتارتے ہیں یہ ہمارے لئے یقینن سوچنے کا
مقام ہے ہمیں اپنے رویہ میں تبدیلی کی ضرورت ہی تاکہ ہماری نئی نسل ایک صحت
مند تفریح کے لئے میدان میں جائے تو عدم برداشت کی بنا پر نگاہ عبرت نہ
بنے، جہاں ننھی معصوم لائبہ جیسے بچے بے فکراور آزاد ہوکر زندگی سے لطف
اندوز ہوسکے۔
رحمان بابا نے کیا خوب کہا ہے:
"
پھولوں کے بیچ بوکر ہی تم
اپنے اردگرد باغیچہ لگا سکتے ہو،
کانٹے نہ بونا کہ یہ
تمہارے تلوؤں میں چبھیں گیں
تم دوسروں پر تیر اندازی کرو گے
تو یاد رکھو کہ یہ تیر
پلٹ کر تمھیں چھیدنے آئیں گے،
دوسروں کے راستے میں گھڑا نہ کھودو
مبادا تم اس گھڑے کے کنارے آ پہنچو۔ |