فتح مکہ

(رمضان سن 8ھ مطابق جنوری 630ء)
رمضان 8ھ تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے۔ اور سیرت مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا۔ کیونکہ تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یار غار کو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرما کر اپنے وطن عزیز کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ اور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ “اے مکہ ! خدا کی قسم ! تو میری نگاہ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے۔ اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔ لیکن آٹھ برس کے بعد یہی وہ مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ نے ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہو کر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔

لیکن ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھاتا ہوگا کہ جب کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں یہ تحریر کیا جا چکا تھا۔ کہ دس برس تک فریقین کے مابین کوئی جنگ نہ ہوگی تو پھر آخر کونسا ایسا سبب نمودار ہو گیا کہ صلح نامہ کے فقط دو سال ہی بعد تاجدار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اہل مکہ کے سامنے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پیش آ گئی اور آپ ایک عظیم لشکر کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔

تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا سبب کفار مکہ کے سردار ابوسفیان کی “عہد شکنی“ اور حدیبیہ کے صلح نامہ سے غداری ہے-
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1292398 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.