عورتوں پر تشدد آخر کب تک ؟

کہتے ہیں وجود زن سے ہے تصویر کا ئنا ت میں رنگ ! مو جودہ دور میں اس تصویر میں مز ید خو بصورت رنگ بھر نے کے لیے بیو ٹی پا رلر مو جو د ہیں ایسے ہی ایک بیوٹی پا رلر کی با ت میں یہاں کر نا چا ہوں گی بلکہ اسے قابل ستا ئش بھی کہوں گی اس پا رلر کی خا ص با ت یہ ہے کہ وہاں کی ما ہر حسن وہ لڑ کیاں ہیں جن کے چہرے بھیا نک انداز میں جلے ہو ئے ہیں جنھیں معا شرے کے انا پر ست بیما ر ذہنیت مردوں نے اپنی بدلے کی بھینٹ چڑھا دیا تھا تیزاب اور جلا ئے جا نے والی ان لڑکیوں کا کو ئی پر سان حال نہیں وہ اپنے جلے ہو ئے چہروں کے سا تھ زندگی کو کس طرح انجوائے کر سکتی ہیں کہ نہ کو ئی ذریعہ معا ش ہے نہ کو ئی پنا ہ ! بیوٹی پا رلر کی اونر مسرت مصباح نے اس نیک کا م کا بیڑ ہ اٹھا یا وہ قابل تعریف ہیں کہ معا شرے کی ستا ئی ہو ئی ان بے سہا رالڑ کیوں کے روز گا ر اور علا ج کا نتظام کر تی ہیں۔ ہما رے معا شرے میں خواتین پر تشدد اور تیزاب پھینکنے کے وا قعات عام ہو تے جا رہے ہیں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کو ئی سخت اقداما ت نظر نہیں آتے ۔ پا کستا ن میں 2009ءکی نسبت2010 ءمیں خوا تین پر جبر تشدد کے وا قعات میں زیادہ اضا فہ ہو ا ہے یہ بھی بد قسمتی ہے کہ جولڑکیاں اس ظلم کا شکا ر ہو ئیں ان میں اکثریت کے کیس رجسٹرڈ ہی نہیں کیے جا تے کہیں بد نا می کے خوف سے تو کہیں اس ڈر سے کہ خوا مخواہ کی دشمنی ہو گی ملز م کو سزا نہیں ملتی وہ عدالت کے کٹہرے سے با عز ت بر ی ہو کر وا پس آجاتا ہے ایسی بہت ہی کم مثا لیں ہیںجو ملزم نے اپنے کیے کی سزا بھگتی ہو ۔

ہیو من را ئٹس کمیشن آف پا کستا ن ایک ایسا ادارہ ہے جوحقو ق انسا نی سے محروم سما ج میں محروم طبقے کے لیے انصاف کی آواز اٹھا تی ہے ۔ جو مذہب رنگ نسل ،زبا ں اور علا قے کی تفریق کئے بنا ءسب کے حقوق کی با ت کر تی ہے یہ ادارہ 80ءکی دھا ئی میں قا ئم ہو ا۔اور 1990ءمیں اس ادارے نے پا کستان میںاپنی سالا نہ رپو ٹوں کا دائرہ کا ر شروع کیا پا کستان میں انسانی حقوق خصوصا خوا تین پر تشدد کے واقعات پریہ رپو ٹیں کم صفحات پر مشتمل تھیں پھر ان میں اضا فہ ہو تا گیا ان رپوٹوں میں عمر بھر کے لیے معذور کئے جا نے ، جنسی تشد د ،اغو اءو زنا ،خو دکشی ،چولھا پھٹنے اور تیزاب سے جلا ئے جا نے کی دلخراش داستانیں شامل ہیں جس قدر بھیا نک احوال اس ضیخم رپوٹ کا ہے دل دہلا دینے کے لیے کا فی ہے۔یہ ہما رے مسلم معا شرے کی بے حسی اور سنگ دلی کا منہ بو لتا ثبوت ہے مسلم معا شرے میں یہ سب وہ لوگ کر تے ہیں جنھوں نے ا سلام کا کلمہ پڑ ھاہے لیکن حجتہ وداع کے پیا رے خطیبﷺ کی بات بھول گئے جنھوںنے فر ما یا ”لو گوں عورتوں کے معا ملے میں اللہ سے ڈرو وہ تمھا رے پا س خدا کی امانت ہیںپس تم ان سے نیک سلوک کرو تمھا را عورتوںپر اور عورتوں کا تم پر حق ہے “۔ عورتوں کو تعلیم کا حق دیا گیا لیکن شما لی علا قوں مین شدت پسند وں کے ہا تھوں لڑ کیوں کے تعلیم اداروں کو ایک سو چے سمجھے منصوبے کے تحت تحس نہس کیا جا رہا ہے ایسا لگتا ہے ہم قبل اسلا م کے زما نے میں داخل ہو گئے ہیںجب عورت دنیا میں با عث شرم وذلت اور گنا ہ سمجھی جا تی تھی ھندو مذہب میں ویدوں کی تعلیم کا ا دروازہ عورتوں کے لیے بند تھا وہ دا سی کہلا تی پتی ورتا اس کا دھرم تھا شوہر اس کا معبود اور دیو تا تھا یہو دیت اور عیسا ئیت میں عورت گنا ہ کی با نی سمجھی جا تی تھی انھیں کسی مذہب میںکو ئی مقام نہیں حا صل تھا لا طینی امریکہ اور یو رپی مما لک میں خو اتین کو دوسرے درجے کا شہری ما ناجا تا تھا ان پر تشد اور جبر عام سی با ت تھی ۔

اقوام متحدہ کے قیام نے جہا ں دنیا مسا ئل حل کر نے میں مدد دی وہاں انسانی حقوق کی تنظیمیں ادارے قا ئم ہو ئے اقوام متحد ہ نے25نومبر کو خواتین پر تشدد کے خلا ف عالمی دن قرار دیا اس دن کے پس منظر تین بہنوں کاالمنا ک قتل تھا جن کا گنا ہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے ملک کے ایک ظالم و جابر آمر سے ٹکر لی 25نومبر1960ءکو ڈومینکن ری پبلک کے آمر را فیل لیونڈیس مولینا(Refael Leanidas Molina) نے مرابیل نا می چار بہنوں کو ان کی گستاخیوں کی سخت سزا دی ان کے خاندان کو کئی بار قید و بند کی صعو بیتں بر داشت کر ناپڑی آخر 25نومبر کو تین بہنوں کو بہیما نہ طریقے سے قتل کر دیا گیا اس قتل سے پورے ملک میں غم وغصے کی آگ بڑھک اٹھی عوامی احتجاج رنگ لا یا اور را فیل کو حکو مت چھوڑنا پڑی ڈومیکن ری پبلک کے نما ئندے نے 74ممالک کی حما یت کے ساتھ اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی اس دن کو خوا تین پر تشدد کے حوا لے سے منا نے کا اعلا ن ہو اڈو مینکن کے عوام نے ان بہنوں کی جدوجہدپر خراج تحسین پیش کیاانھیں ”نا قابل فرموش تتلیاں “کے لقب سے یا دگا ر بنا دیا ۔ اقوام متحدہ کی رپوٹ کے مطا بق دنیا بھر میں 70 سے 80 فی صد خوا تین کو زندگی کے کسی مرحلے میں تشدد اور جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس میں پندرہ سے چا لیس سال کی عورتوں اور لڑکیوں کے لیے زنا اور گھریلوتشدد کے وا قعات میں زیا دہ اضافہ ہوا ہے ۔دیہی اور قبا ئلی علا قوں میں کا روکا ری کی رسم جا ری ہے ایک قبیلے کا دوسرے دشمن قبیلے سے خون بہا کے بدلے لڑکی کو ونی کر نے کا رواج ہے اس میں کو ئی قبا حت نہیں سمجھی جا تی کہ مرد کتنا بڑا ہے یا معذور ہے ایسے جرائم کو روکنے کے لیے چند روز پہلے قومی اسمبلی میں ایک قانون پا س کیا گیا ہے جس کے تحت زبر دستی کی شادی پر قید اور جرما نہ کی سزا ئیں رکھی گئی ہیں اگر یہ قابل عمل بھی ہو تو بہت اچھا فیصلہ ہے ۔کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ طاقت ور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانو ن کا دہرا نظام ہے ۔

دیکھا جا ئے توعالمی حقوق انساں کی تنظیمیں بھی دہرا معیا اپنا ئے ہو ئے ہیں اس کی شر مناک مثال عا فیہ صد یقی کیس ہے اس عورت پر کیے گئے ظلم وستم کے خلا ف یہ تنظیمیں مجرما نہ خامو شی اپنا ئے ہو ئے ہیں قدرت کا نظام ہے کہ نیکی اور بدی آپس میں صف آرا رہی ہیں ان سب با توں کا روشن پہلو یہ ہے کہ خوا تین کو اپنے حقوق کی پہلے سے زیا دہ آگا ہی ہو ر ہی ہے جن جرا ئم کی پہلے پردہ پو شی کی جا تی تھی اب کھل کر عوام کے سا منے آرہی ہیں یہ کا رنامہ دلیر صحا فیوں کے سر جا تا ہے مختاراں ما ئی کیس ہو یا نصیر آبا داور خیر پور میں پیش آنے والے نا قابل یقین وا قعات ہو ں ان آوازوں نے ایوان با لا کو ہلا کر رکھ دیا یے ہر بڑا لیڈر اور صا حب اختیار ان سے نا لا ں نظر آتا ہے خواتین پر تشدد کے خلا ف جہا ں معا شرے میں درد مند دل رکھنے والے اپنا کر دار اداکر رہے ہیں وہاں مسرت مصبا ح جیسی خوا تین بھی اپنی کو ششوں میں مصروف عمل ہیں کہ چھوٹی چھوٹی کو ششیں ہی بڑی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں۔
Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148439 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.