وزیراعلی پنجاب جناب شہباز شریف کے ادبی مقابلہ جات

کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا دارومدار صرف اور صرف تعلیم پر ہی نہیں بلکہ اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ اس ملک میں رہنے والے لوگوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے ان سے مکمل طور پر فائدہ اٹھایا جائے۔ ہمارے ملک کی بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ اس کے اندر باکمال اور باصلاحیت لوگوں کی صلاحیتوں کو نہ صرف صحیح اور مکمل طور پر اجاگر کیا جاتا ہے بلکہ ہمارے ملک کے اندر رہنے والے لوگوں کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتؤں سے کما حقہ فائدہ بھی نہیں اٹھایا جاتا ہے۔ جس سے ملک کو ہر شعبہ زندگی میں ناقابل برداشت نقصان اٹھانا پڑرہاہے۔

وزیر اعلٰی پنجاب جناب شہباز شریف صاحب نے اس سال بھی ادبی سکولز کی سطح پر طلبا اور طالبات کے ادبی مقابلہ جات منعقد کروائے اور پہلے کی طرح اس سال بھی پرائمری، مڈل اور ہائی سکولز میں سے بہت سے طلبا اورطالبات کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا شاندار موقع فراہم کیا۔ اس سلسلہ میں ناقابل یقین ٹیلنٹ سامنے آیا ہے۔

وزیر اعلٰی پنجاب جناب شہباز شریف صاحب کے ان ادبی مقابلہ جات میں کچھ کمزوریاں بلکہ خامیاں بھی نظر آئی ہیں جن کو دور کرنا بہت ضروری ہے تاکہ اس عمل سے بھر پور فائدہ اٹھا یا جاسکے اور یہ ہر سال بخیرو خوبی سر انجام پاتا رہے۔

١۔ تیاری کا مناسب وقت: اس سال وزیر اعلٰی پنجاب جناب شہباز شریف صاحب کے ادبی مقا بلہ جات میں جو سب سے بڑی خامی نظر آئی اور جس پر کافی تنقید کی گئی وہ اس کی تیاری تھی۔ ہر سطح کے لیئے تقاریر، مضامیں اور اس قسم کے دوسرے ادبی مقابلہ جات کی تیاری کے لئے طلبا اور طالبات کو بہت کم وقت دیا گیا۔ اور صرف ایک یا دو دن پہلے ہی اطلاع دی گئی جس کی وجہ سے وہ مناسب اور بھر پور طریقے سے تیاری نہ کر سکے۔

٢۔ ایک سے زیادہ عنوانات: وزیر اعلٰی پنجاب جناب شہباز شریف صاحب کے ادبی مقابلہ جات میں تیاری کے وقت نہ دئے جانے سے بھی زیادہ بڑی خامی یہ نظر آئی کہ تقریر اور مضمون کے لئے ایک نہیں بلکہ تین تین عنوانات دیئے گئے جن کو بچوں نے ایک یا دو دن میں تیا ر کرنا تھا اور زادہ تر طلبا اور طالبات کو وقت کی کمی کی وجہ سے ایک ہی عنوان تیا ر کروایا گیا جس کی وجہ سے بہت سے باصلاحیت طلبا اور طالبات کو اپنی صلاحتیں اجاگر کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ اول تو ایک ہی عنوان ہونا چاہئے تھا اگر تین تین عنوان دینے ہی تھے تو کم از کم ان کو تیا ر کرنے کے پانچ چھے دن دیئے جانے ضروری تھے۔ مگر اتنے کم وقت کے باوجود بھی طلبا اور طالبات نے ہمت کی اور بھر پور حصہ لیتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

اس لحاظ ان طلبا اور طالبات کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ کرام بھی مبارک اور داد کے مستحق ہیں۔ اس مسئلہ یعنی تین تین عنوان پر نہ صرف طلبا اور طالبات نے تنقید کی بلکہ اساتذہ کرام، ججز، عام شہریوں اور بعض اعلٰی تعلیمی عہدیداروں نے بھی تنقید کی مگر سب کچھ کرنے والے اہلکاروں کو اس کمزوری بلکہ خامی کو دور کرنے کا مشورہ کسی نے نہیں دیا۔

٣۔ وقت کا تعین کرنا: وزیر اعلٰی پنجاب جناب شہباز شریف صاحب کے ادبی مقابلہ جات میں ایک ہی دن میں پرائمری، مڈل اور ہائی کے مختلف مقابلے منعقد ہوتے رہے اس وجہ سے بھی طلبا اور طالبات کے علاوہ اساتذہ کرام اور ججز کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ ہر سکول کو صبح نو بجے کا وقت بتایا جاتا رہا چاہے وہ پرائمری تھا ، مڈل تھا یا ہائی سکول۔ اس طرح طلبا اور طالبات کے ساتھ ساتھ ہر سطح کے مقابلے کے لئے آنے والے ججز بھی صبح نو بجے متعلقہ سکولز میں پہنچ جاتے۔ ویاں پہنچ کر کچھ اس قسم کی صورت حال ہوتی کہ ایک ہی جگہ مقابلے ہونے ہوتے تھے جس کی وجہ سے کہیں اگر پرائمری پہلے شروع کر دیا گیا تو مڈل اور ہائی سکولز کے مقابلے کے لئے آنے والے طلبا اور طالبات اور ان کے ساتھ آنے والے اساتذہ کے ساتھ ساتھ متعلقہ ججز کو بھی کافی دیر انتظار کرنا پڑا اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح اگر پہلے ہائی حصے کے مقابلے شروع کروائے گئے تو یہی صورت حال پرائمری اور مڈل کے لئے آنے والوں کو بھی پیش آئی۔ اور سب سے آخر ہونے والے مقابلہ جات بعض سکولز میں پرائمری اور بعض میں ہائی سکولز میں شرکت کرنے والے طلبا اور طالبات اور ان کے اساتذہ کے ساتھ ساتھ ان کے ججز کے لئے حقیقی پریشانی کا سبب بنے کیونکہ کافی دیر تک مقابلے ہوتے رہے اور بعض سکولز میں مغرب کی نما ز کے بعد تک یہ سلسلہ جاری رہا۔

خاص کر یہ مسئلہ ضلعی سطح پر ذیادہ شدت سے سامنے آیا جن میں طلبا اور طالبات نے دور دراز علاقوں سے آنا تھا بلکہ ججز نے تو دوسرے اضلاع سے آنا تھا اور جن کو گھر پہنچتے پہنچتے شاہد آدھی رات بھی ہو گئی ہو یا رات گھر سے باہر گزارنی پڑی ہو۔

ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ ادبی مقابلہ جات کا مکمل شیڈول کم از کم ایک ماہ پہلے جاری کر دینا چاہئے جس میں ہر سطح کے مقابلہ جات کے لئے دن اوقات اور عنوانات بتا دیئے جائیں۔ اور عنوان اگر ایک ہو تو بہتر ہے لیکن اگر ایک ماہ پہلے سب کچھ معلوم ہوگا تو تین بھی ہو سکتے ہیں۔ اور وقت کا تعین ضرور کر دیا چاہئے کہ فلاں سطح کا مقابلہ فلاں دن فلاں سکول میں اتنے بجے سے اتنے بجے تک ہوگا وقت گزرنے کے بعد آنے والے کو مقابلہ میں شریک نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح ہر سطح کے مقابلہ کا نہ صرف طلبا اور طالبات اور ان کے اساتذہ کو معلوم ہو جائے گا بلکہ ججز کو بھی درست اور پورے شیڈول کو علم ہوگا اور وہ گھنٹوں پہلے وہاں پہنچ کر وقت ضائع نہیں کریں گے اور نہ ان کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک اور بات جو بھول گیا وہ یہ ہے کہ اکثر ججز کو صرف ٹیلیفونک احکامات کے ذریعے آگاہ کیا گیا اور کوئی تحریری آرڈر نہیں بھیجے گئے اور ان کو بھی ایک ایک دن پہلے ہی آرڈر کئے گئے بس وجہ کافی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اور کسی کی خاص مجبوری کو مدنظر رکھ کر اس کے متبادل کا انتظام نہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں کوئی بڑا مسئلہ سامنے تو نہیں آیا مگر آئندہ اگر دو تین دن پہلے آرڈر کر دیئے جائیں اور کوئی ایمرجنسی ہیش آنے والے ججز کو اپنی جگہ کسی دوسرے کا نام بطور جج پیش کرنے کی سہولت ہونی چایئے۔

اب تک اتنا کافی ہے پھر موقع ملا تو اس سلسلے پر مزید لکنے کی کوشش کروں گایہ کالم شائع ہونے تک ہو سکتا ہے ڈویژن سطح کے مقابلے شروع ہو چکے ہوں۔

اللہ میرا، آپ کا، ہم سب کا، ہمارے پورے ملک اور پوری قوم کا حامی و ناصر ہو اور ہم کو پوری لگن، محنت، ایمانداری اور دیانت داری سے اپنے اپنے فرائض سر انجام دینے کی توفیق عطا کرے۔ آمین ثمہ آمین
kashif imran
About the Author: kashif imran Read More Articles by kashif imran: 122 Articles with 157271 views I live in Piplan District Miawnali... View More