ماحول اور صحبت کا اثر

یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ماحول اور صحبت سے بہت جلد متاثر ہو جا تاہے .... آپ کا خدا نخواستہ کسی ہسپتال میں خصوصاً سرکاری ہسپتال میں جانا ہوا ہوتو آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ وہاں کے افسردہ ماحول کا اثربہت جلد آپ کے مزاج میں سرایت کر گیا ہے۔ دکھی لوگوں کے دکھ ، بیماروں کی آہ وبکا اور متعلقین کی پریشانی آپ کو بھی دکھی اور پریشان کر دے گی۔ آپ کتنے ہی رجائی ذہن کے مالک اور ہنسنے ہنسانے والے ہوں، ہسپتال کے ماحول میں خودبخود قنوطی اندازمیں سوچنے لگیں گے۔اس کے بالمقابل آپ کسی بات پر غمگین ہوں اور ایسے میں آپ دوستوں کی محفل میں چلے جائیں ، جہاں بے فکرے دوست معمولی باتوں پر فلک شگاف قہقہے لگا رہے ہوں تو نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ جائے گی۔ کچھ دیراور وہاں بیٹھیے تو آپ کو اپنے غم ہوا میں تحلیل ہوتے محسوس ہوں گے۔

جی ہاں یہ انسانی فطرت کا ایک بہت اہم پہلو ہے کہ اس کی خاص داخلی کیفیات خارجی ماحول سے متاثر ہوجاتی ہیں....بے شک ذاتی طبعی رجحان بھی اہمیت کا حامل ہے لیکن ماحول ہی کے زیر اثر طبیعت اپنے اظہار کی جرات کر پاتی ہے۔اور اس سے بڑھ کر اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ ماحول اور صحبت کی اثر انگیزی اتنی گہرائی میں سرایت کر جاتی ہے کہ انسان کے ذاتی رجحانات تک کو متاثر کردیتی ہے۔ ماحول اور صحبت ہی کا اثرتو ہوتا ہے کہ خونخوار بھیڑئیے دوسروں کے لیے جان نثار کر نے کو آمادہ ہو جاتے ہیں....اور یہ بھی ماحول کا اثر ہوتا ہے کہ ایک انتہائی نرم خُو اور محبت کرنے والا انسان تشدد پر اتر آتا ہے۔

مندرجہ بالا سطور بطور تمہیدہم نے تحریر کی ہیں....مقصد تو آپ کو ایک ملاقات کا حال سنانا تھا۔ اوپر چند باتیں اس لیے عرض کیں کہ آپ کی ذرا ذہن سازی ہو جائے اور آپ کو حیرت کا وہ جھٹکا نہ لگے ، جس جھٹکے سے پچھلے دو ہفتوں سے میںسنبھل نہ پایا ہوں....

ہمارے پرانے محلے میں ایک نوجوان رہا کرتا تھا۔ نام آپ اس کا عالم فرض کر لیں۔عمر اس کی سولہ سترہ برس تھی کہ ابھی مسیں بھیگ رہی تھی۔ انتہائی شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے والا.... خوش اخلاق اور ملنسار.... صبح گھر سے سیدھا کالج، اور کالج سے سیدھے گھر، اسی طرح شام کو گھر سے نکلتا تو انسٹیٹیوٹ کے لیے.... اور پھر فارغ ہو کر سیدھا گھر۔ کم ازکم میں نے اسے کبھی اِدھر اُدھرفالتو بیٹھتے نہیں دیکھا تھا۔ پھر تھوڑا عرصہ گزرا اور ہم کچھ ناگزیر وجوہات کی وجہ سے وہ محلہ چھوڑ کر دوسرے محلے میں آ گئے۔ شروع میں ہفتہ دو ہفتہ میں پرانے محلہ میں چکر لگ جاتا، پھر آہستہ آہستہ یہ دورانیہ ہفتوں سے بڑھ کر مہینوں اور پھر سالوں پر محیط ہو گیا۔اب پچھلے دنوں شاید ڈیڑھ سال بعد ایک دوست سے ملاقات کی غرض سے اپنے قدیم محلے میں جانا ہوا ۔ ہم ایک ہوٹل پر چائے کے لیے بیٹھے تو باتوں کے دوران اس نے اچانک ایک طرف اشارہ کر کے مجھ سے کہا: ”اسے پہچانتے ہو؟“

میری نگاہیں اس کے اشارے کے تعاقب میں ایک الٹرا ماڈرن سی شے پر جا رکیں۔ وہ ایک نوجوان تھا ، ویسا ہی ایک عام سا فریب خوردہ نوجوان جو ہمارے گلی محلوںمیں آج کل عام ملتے ہیں۔ سنہرے بلیچ شدہ لمبے لمبے بال، فرنچ کٹ ، بلیڈ سے خود ہی پھاڑی ہوئی تنگ میلی جینز پہنے اس لڑکے نے کانوں،گلے اور ہاتھوں میں لڑکیوں کی طرح مختلف زیورات پہنے ہوئے تھے.... میں نے بیزاری سے منہ موڑا اور کہا: ”نہیں....“

”تم کہتے کہ میں نے پہچان لیا ہے تو مجھے حیرت ہوتی.... ارے یہ عالم خان ہے!“ نعمان نے اپنی دانست میں انکشاف کیا تھا لیکن میں پھر بھی پہچان نہ سکا اور لاتعلقی سے اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔

”ارے بھائی ! ابھی تک نہیں پہچانے، وہ منی باجی کا بیٹا عالم ہے، گورنمنٹ اسکول کے ساتھ والے گھر کا عالم خان عرف گڈو!“اور اب مجھے اچانک یاد آیا کہ وہ کس عالم خان کی بات کر رہا ہے۔ بے یقینی کی کیفیت میں ‘ میں نے دوبارہ اس لڑکے کو دیکھا جو اب اپنے دوستوں کے ساتھ کسی بات پر عامیانہ انداز میں قہقہے لگا رہا تھا۔”ارے نہیں بھائی، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“ میرے منہ سے بے اختیار نکلا لیکن ساتھ ہی میری نگاہوں نے اس کے میک اپ زدہ چہرے کے پیچھے وہ معصوم نقوش تلاش کر لیے تھے جو میری یاد میں ایک شرمیلے سے نوجوان کے ساتھ وابستہ تھے ۔ ”جی ! یہ وہی گڈوہے، اب تو بڑی فنٹر چیز ہو گیا ہے۔لیکن تمہیں پتا ہی ہے کہ پہلے کیسا شریف نوجوان ہوا کرتا تھا؟ بس چند بدمعاش لڑکوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ انہیں پتا تھا کہ غریب لڑکا ہے ، اس لیے مختلف ترغیبات دے کر اسے پھسلا لیا۔ اسے موبائل لے کر دیا اور موٹرسائیکل کے لالچ میں اسے خراب کرتے رہے۔ پھر بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ انہوں نے عالم خان کو اپنی تنظیم میں جوائن کر لیا۔ اب تم صاحبزادے کا حال دیکھ ہی رہے ہو کہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے؟ پڑھائی سب چھوڑ دی ہے،اور موصوف اپنے لچّے دوستوں کے ساتھ غنڈہ گردی کرتےپھرتےہیں۔اور یہ توکچھ نہیں، تمہیں بتاؤں کہ ....“ یہاں پہنچ کر میرے دوست نومی نے اپنی دھیمی آواز سرگوشی میں بدل لی۔ ”کہ وہ اب تک تین چار قتل بھی کر چکا ہے!!“

میں جو حیرت سے ایک بے یقینی کی کیفیت میں یہ سب روداد سن رہا تھا، تقریباً اپنی جگہ سے اچھل ہی پڑا۔”وہ کیسے؟“

”کیسے؟.... ارے بھئی وہ اب تنظیم کے عسکری ونگ میں ہے۔اور تین چار قتل ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں ہوتی!“

میں تاسف سے عالم کو دیکھنے لگا۔یکایک مجھے اس کی ماں منی باجی کا خیال آیا۔ وہ بے چاری تو زندہ درگور ہو گئی ہوں گی۔ بیوہ تھیں اور اکلوتا لڑکا تھا۔ کیسے سنبھال سنبھال کر انہوں نے اسے پروان چڑھایا تھا .... چچ۔

نعمان سے پوچھا تو کہنے لگا: ”ہاں پہلے تو بے چاری بہت زیادہ پریشان ہوئیں، ان کی زندگی بھر کی کمائی جو بیچ چوراہے میں لُٹ رہی تھی۔ لیکن پھر جب پیسے کی ریل پیل ہوئی تو انہوں نے سمجھوتا کر لیا۔ اب تو بڑے ٹھاٹ ہیں اُن لوگوں کے....“

میں تھوڑی دیر بعد وہاں سے چلا آیا۔وہی روزمر ہ کے معمولات شروع ہو گئے لیکن بیس بائیس برس کا عالم خان عرف گڈو میرے اعصاب پر بری طرح سوار ہو گیا ہے....چند بدقماش لڑکوں کی بدنیتی نے ایک شریف نوجوان کو ذلالت کی کس پستی میں پھینک دیا تھا! اب یہی کل کا معصوم گڈو آیندہ دہشت گرد بن کر ابھرے گا، شریفوں کی عزتوں سے کھیلے گا اور نہ جانے کتنی معصوم جانیں لے گا۔ اور یہ سب کیوں ہوا؟ محض بری صحبت اور گندے ماحول کی نحوست کی وجہ سے....

جی ہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان عالی شان کا مفہوم ہے کہ بری صحبت سے بچو اور اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرو ، پھر آگے مثال دی کہ عطر فروش کی دوستی سے اگر عطر میسر نہ بھی ہوا تو کپڑوں سے خوشبو آئے گی اور کوئلہ فروش کی صحبت سے اگر کوئلہ نہ بھی لیا تو کپڑے ضرور کالے ہوں گے۔ تو یوں ثابت ہوا کہ صحبت اچھی ہو یا بری رنگ ضرور لاتی ہے.... اب ایک نظر ہم اپنے بچوں کو دیکھیں کہ ان کا اٹھنابیٹھنا کن لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ خصوصاً یہ ضرور دیکھیں کہ وہ اپنے سے بڑی عمر کے لڑکوں کے ساتھ تو نہیں بیٹھ رہے۔ کیوں کہ بڑی عمر والوں کے ساتھ دوستی اور اختلاط مردوزن بہت بڑی برائی کا پیش خیمہ ہے۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ دوسری طرف کسی اللہ والے کا مقولہ ہے کہ
یک زمانہ صحبتِ با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا
”ایک گھڑی اللہ والوں کی صحبت میں گزارنا سو سال کی بے ریا عبادت سے بہتر ہے۔“
Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 174777 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More