”بَلاؤں“ سے نجات پانے کے نُسخے

جو لوگ ماہر نفسیات ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اُنہیں ہمارا مشورہ ہے کہ نجومیوں اور عاملوں سے کچھ سیکھیں۔ ہر نجومی اچھی طرح جانتا ہے کہ سبھی تابناک مستقبل چاہتے ہیں اِس لیے وہ کبھی تاریک مستقبل کی بات ہی نہیں کرتا! اور ساتھ ہی ساتھ وہ ہر مَرد کا ہاتھ دیکھنے کے بعد پہلی شادی کی نوید سُنائے یا نہ سُنائے، دوسری شادی کی لکیر کا ذکر ضرور کرتا ہے! ہمارا گمان ہے کہ بہت سے لوگ دوسری شادی سے سُکھ پانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے ہی کے لیے پہلے پہلی شادی کرتے ہیں! دوسری شادی کی لکیر دراصل مَرد کی خاص اور خاصی دُکھتی رگ ہے۔ دوسری شادی کا یارا ہو یا نہ ہو، اِنسان بار بار اُس کے امکان کے بارے میں سُن کر دِل تو بہلا سکتا ہے!

نجومیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر عامل کوئی اور دعویٰ کرے یا نہ کرے، سنگ دِل محبوب کو بے بس کرکے قدموں میں ڈالنے کی بات ضرور کرتا ہے! یہ معاملہ بھی ”دُکھی“ دِلوں کی کمزوری سے کھیلنے کا ہے! کون ہے جس کا کوئی نہ کوئی (یا دو چار!) محبوب نہیں؟ اور وہ محبوب ہی کیا جو سنگ دِل نہ ہو!

مرزا تنقید بیگ کو اُن لوگوں سے چڑ ہے جو بیویوں سے چڑتے ہیں۔ ثابت ہوا کہ وہ دُنیا بھر کے شادی شدہ مَردوں سے چڑتے ہیں! ہم نے جب بھی اپنے کالموں میں ازواجی زندگی کی ناہمواریوں پر نکتہ سرائی کی ہے، مرزا نے لپک کر ہمارے لَتّے لیے ہیں اور ہمیں جی بھر کے ڈانٹا ہے۔ وہ اِس بات پر مُعترض ہیں کہ ہم اپنے کالموں میں بیویوں کو ہمیشہ منفی انداز سے پیش کرتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ مِرزا کو یہ سمجھانا اب تک ممکن نہیں ہوسکا کہ ہم نے صحافت کے شعبے کے سینئرز کی نصیحت کے مطابق اپنے کالموں میں ہمیشہ ”سچ“ ہی لکھا ہے! مرزا شادی شدہ ہیں یعنی اوکھلی میں خود بھی سَر دے رکھا ہے مگر جان کر انجان بنتے ہیں۔ اُن کی ازواجی زندگی اِسی تجاہل عارفانہ کا صدقہ ہے۔ بھابی کے سامنے وہ ٹھیک سے سانس بھی نہیں لے پاتے اور اُن سے یہ کہہ رکھا ہے کہ یہ ”ضبطِ تنفس“ کی مَشق کا حصہ ہے! اگر مِرزا ”ضبطِ نفس“ سے کام لیتے تو ”ضبطِ تنفس“ کی منزل سے نہ گزرنا پڑتا!

اب ہم مرزا کو کیا سمجھائیں کہ بھلے ہی اُنہیں ہمارے کالموں میں بہت کچھ جھوٹ لگتا ہو مگر ہمارے شادی شدہ مَرد قارئین کی کچھ نہ کچھ ”تشفّی“ تو ہو ہی جاتی ہے اِس لیے ہم قارئین کے ایک ”وسیع“ حلقے سے محروم نہیں ہونا چاہیں گے یعنی نجومیوں اور عاملوں کا طریق واردات اپناتے ہوئے ہم ازواجی زندگی کے ”تابناک“ پہلو اجاگر کرتے رہیں گے!

جب ہم نے مرزا کو بتایا کہ بھارتی ریاست تامل ناڈو کے ایک علاقے میں بَلائیں اُتارنے یا بھگانے کے لیے خواتین کو کوڑے مارنے کا رواج ہے تو اُن کا چہرہ غصے سے سُرخ ہوگیا اور ہمیں گھورنے لگے۔ ہم نے واضح کیا کہ ہم کوڑے مارنے پر نہیں، کھانے اور کھا کھاکر مُسکرانے پر یقین رکھتے ہیں! مرزا بولے ”تم نے جس انداز سے یہ خبر سُنائی ہے اُس سے خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمہیں تامل ناڈو کے مَردوں پر رشک آ رہا ہے!“ ہم نے اعتراض کیا کہ پوری بات سُنی نہیں اور تبصرے کا ڈنڈا برسا دیا۔ مرزا نے معذرت چاہتے ہوئے ”ہمہ تن خرگوش“ ہونے کا تاثر دیا۔ ہم نے بتایاکہ بَلائیں بھگانے کے لیے عورتوں کو کوڑے مارنے پر یقین رکھنے والے یہ بھی مانتے ہیں کہ ایسا کرنے سے متعلقہ خواتین ہی کی نہیں بلکہ اُن کے تمام گھر والوں کی بَلائیں بھی بھاگ جاتی ہیں!

اِتنا سُننا تھا کہ مرزا ہم پر برسنے لگے ”پتا نہیں کیا اول فول پڑھتے رہتے ہو؟ اوّل تو بَلا اُتارنے کے بہانے کِسی عورت کی کوڑوں سے تواضع کرنا ہی قابل مذمت ہے۔ اور سِِتم ظریفی یہ کہ پورے گھر کی بَلائیں دور کرنے کے لیے بھی اُسی غریب کو تختہ مشق بنایا جائے۔ بَلاؤں کو بیچ میں لانے کی کیا ضرورت ہے؟ ممبئی کی بھاشا میں صاف کہہ دو کہ خواتین پر ”خُنّس“ اُتارنی ہے!“

ہم نے عرض کیا کہ بَلائیں اُتارنے کے لیے خواتین پر کوڑے برسانے کی خبر جنوبی بھارت کی ہے، پاکستان کی نہیں اِس لیے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ابھی ہمارا معاشرہ اِتنا ”بَلا شناس“ نہیں ہوا۔ مرزا بولے ”ایسی خبریں ہمارے اخبارات میں شائع نہیں ہونی چاہئیں۔ تم جیسے سازشی ذہن رکھنے والے لوگ ایسی خبروں کا کچھ زیادہ ہی اثر قبول کرسکتے ہیں۔ ہم نے وضاحت کی کہ فی الحال ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔ مرزا فرمانے لگے ”مَرد کا کیا اعتبار؟ اگر کوئی بیوی سے انتقام لینا چاہے تو جن بھوت یا بَلا کا بہانہ کرکے اُس پر کوڑے اور ڈنڈے برسانے کا عمل شروع کرسکتا ہے! اور اگر یہ رجحان عام ہوا تو کوڑوں کا سُن کر بِلائیں تو کیا بھاگیں گی، شادی شدہ عورتیں گھروں سے نِکل بھاگیں گی!“

ہم نے عرض کیا گویا روحانی علاج کی کوکھ سے معاشرتی بیماری جنم لے گی۔ مرزا پھر ہم پر برس پڑے۔ ”تم ہو ہی منفی ذہنیت کے آدمی۔ اگر کسی کے جسم پر کوڑے برسائے جائیں تو وہ روحانی علاج کہاں سے ہوا؟ اور میں خوب سمجھتا ہوں یہ بَلائیں اُتارنے اور بھگانے کا چکر۔ ہمارے ہاں بیشتر عامل بَلا کو بھگانے کی آڑ میں بَلا ہی کو بھگا لے جاتے ہیں!“

ہم نے مرزا کو مُشتعل دیکھ کر بھارتی ریاست بہار کے ضلع دَربھنگاکی یہ خبر نہیں سُنائی کہ ایک شخص نے گھر کو بَلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے بیوی کو ذبح کیا اور پھر بیوی کا کٹا ہوا سَر کو لیکر گلیوں میں گشت کرتا رہا تاکہ اہل علاقہ کو یقین دِلا سکے کہ کم از کم ایک ”بَلا” پر قابو پانے میں تو وہ کامیاب ہو ہی چکا ہے!

ہمارے دوست محمد احمد انصاری نے ”بَلاؤں“ سے نجات کا ایک منفرد طریقہ سُجھایا ہے۔ ہر بَلا دور رکھنے کے حوالے سے اُن کا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ کِسی ”بَلا“ سے شادی نہ کی جائے! ویسے بَلاؤں کو زندگی کا حصہ بنانے کے چند ایک فوائد بھی ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پھر اِنسان ایسی ویسی بَلاؤں سے ڈرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ایک صاحب رات کے وقت قبرستان سے گزر رہے تھے۔ راستے میں موٹر سائیکل خراب ہوگئی۔ ایک درخت کے نیچے موٹر سائیکل کا پلگ چیک کرنے لگے تو اُوپر سے کِسی کے ہنسنے کی آواز آئی۔ سَر اُٹھاکر دیکھا تو ایک تگڑی ٹہنی پر کوئی اُس سے بھی تگڑی عورت بال کھولے بیٹھی تھی۔ اُس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ مَوصوف نے گھور کر دیکھا تو بولی ”ہاہاہا۔ دیکھتا کیا ہے، میں چُڑیل ہوں۔“ وہ صاحب تپ کر بولے ”شرم نہیں آتی بہنوئی سے مذاق کرتے ہوئے!“
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 483396 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More