بد انتظامی یا عذاب الٰہی! حصہ دوم

بڑی قدرتی آفات ماہ رمضان المبارک میں ہی کیوں؟
اس موقع پر یہ امر قابل غور ہے کہ تمام بڑی بڑی قدرتی آفات ماہ رمضان المبارک میں ہی کیوں آتی ہیں؟

2005ء کا زلزلہ : آغاز ماہِ رمضان المبارک میں
2010ء کا سیلاب : آغاز ماہ رمضان المبارک میں
2011ء کا سیلاب : آغاز ماہ رمضان المبارک میں، اور
حالیہ ڈینگی بخار کی وباء : آغاز ماہ رمضان المبارک میں
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ تمام مشکلات اور آفات ہم پر رمضان المبارک میں ہی کیوں آتی رہی ہیں؟

یاد کیجئے، رمضان ہی وہ مبارک مہینہ ہے جس کی ستائیسویں شب کو اللہ تعالیٰ کی آخری کتابِ ہدایت بنی نوع انسان کے لیے نازل کی گئی، جس میں خالقِ کائنات نے ہمیں زندگی کے ہر پہلو پر رہنما اُصول عطا فرما دیے۔ اِسی ماہ مقدس کی ستائیسویں تاریخ کو برصغیر کے مسلمانوں کو جبر و اِستبداد سے نجات دے کر ایک آزاد اور قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ عطا فرمایا تاکہ ہم کتابِ ہدایت کو اِس آزاد وطن کا دستور اور نظامِ حیات قرار دے کر، اس کی رہنمائی میں، اپنے ملک کو اَمن و سلامتی اور خیر و برکت کا گہوارہ بنا سکیں اور اُس کے شکر گزار بندے بن جائیں۔ لیکن افسوس! ہم نے اس نعمتِ آزادی اور اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات کی قدر نہ کی اور اﷲ رب العزت سے بغاوت اور نا شکری کا راستہ اختیار کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو قوم ناشکر گذار ہو جاتی ہے اُس پر معاشی بدحالی اور خوف مسلط کر دیے جاتے ہیں، جیسا کہ سورۃ النحل میں فرمایا :

وَضَرَبَ اﷲُ مَثَـلًا قَرْيَةً کَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اﷲِ فَاَذَاقَهَا اﷲُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا يَصْنَعُوْنَo (النحل، 16 : 112)

’’اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) امن اور اطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھےo‘‘

ہمارا وطن عزیز، پاکستان اِس وقت جن آفاتِ ارضی و سماوی میں گِھر چکا ہے یقینا یہ اللہ تعالیٰ کے اَحکامات سے سرکشی اور اُس کی نعمتوں اور اِحسانات کی ناشکری کا نتیجہ ہے۔ اِس صورت حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم اُس کے شکر گذار اور مومن بندے بن جائیں۔ رب العزت کا ارشاد ہے :

مَا يَفْعَلُ اﷲُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ. (النساء، 4 : 147)

’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ۔‘‘
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آفات و مصائب محض بد انتظامی کا نتیجہ ہیں اور وہ اس کو عذاب تصور نہیں کرتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ برے منتظم بھی عذاب الٰہی کی ایک صورت ہیں پھر بھی ہمارا ان سے سوال ہے کہ :

2005ء کا زلزلہ کس بد انتظامی کی وجہ سے آیا تھا؟ انسان طاقت کے باوجود بے بس کیوں تھا؟
2010ء کے سیلاب سے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی ہوئی۔ ایسے مقامات اور بلندیوں پر بھی سیلاب نے نقصان کیا جہاں کبھی زندگی بھر لوگوں نے سیلاب دیکھا نہیں تھا۔ تمام انسانی وسائل اور ذرائع بے بس کیوں ہوگئے؟
2011ء میں تو دریاؤں میں پانی نہیں تھا محض چند دنوں کی بارشوں نے سندھ کے ایک کروڑ سے زائد لوگوں کو متاثر کیا۔ طاقت کے باوجود حکومتی مشینری اور انسانی ذرائع بے بس کیوں تھے ؟
ڈینگی بخار اور ملیریا کی وباء کو روکنے کے لیے اربوں روپے خرچ ہوئے۔ تمام وسائل جھونک دیے گئے، تمام حکومتی مشینری میدان میں اُتر آئی، ہسپتالوں میں ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا گیا مگر ایک چھوٹے سے مچھر نے تباہی مچا دی اور ابھی تک کنٹرول نہیں ہو رہا۔
دوسرا سوال یہ کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ گنداپانی ہو تو ملیریا کا مچھر پروان چڑھتا ہے اور لوگوں کو بیمار کرتا ہے، اگر صاف پانی ہو تو ڈینگی مچھر پلتا ہے اور انسانوں کی جان لے لیتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟

جن قوموں پر عذاب آئے ہیں ان کے مدبرین نے بھی بہت سے انتظامی اقدامات کیے تھے مگر ذہن نشین رہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے گرفت ہوتی ہے تو انسانی سوچ ختم کر دی جاتی ہے۔ کثیر سرمایہ خرچ کرنابھی بے فائدہ ہو جاتا ہے۔ تمام مشینری بھاگتی دوڑتی ہے مگر رزلٹ نہیں نکلتا اور ایک چھوٹا سا مچھر کروڑوں لوگوں کو لاچار اور حکومتوں کو بے بس کر دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام قدرتی آفات ہمارے اَعمال کا نتیجہ اور اﷲ تعالیٰ کی گرفت ہیں۔
ہمارا گناہ کیا ہے؟اب ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آخر ہمارا گناہ کیا ہے ؟ اِس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قبل یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گناہ یا اعمال دو طرح کے ہوتے ہیں : ایک وہ جو ہم ذاتی حیثیت میں کرتے ہیں اور ایک وہ جوہم اجتماعی حیثیت میں ملی یا قومی سطح پر کرتے ہیں۔

ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہماری ذاتی زندگی خدا کی نافرمانی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے رُوگردانی، بے ایمانی، رزقِ حرام، جھوٹ، تکبر، قطع تعلقی، ظلم و جبر، ناانصافی، حق تلفی اور دھوکہ دہی سے عبارت ہے؛ جبکہ اجتماعی طور پر بھی ہماری قوم کم و بیش ان ہی امراض کا شکار ہے۔ یہ گناہ اور اعمال ذاتی حیثیت میں ہوں تو گرفت بھی انفرادی سطح پر ہوتی ہے اور جب یہ اعمال اور گناہ اجتماعی طور پر ہوں تو اللہ کی گرفت بھی اجتماعی طور پر ہوتی ہے۔ یہاں اِجتماعیت سے مراد اکثریت ہے۔ محض چند لوگوں کا نیک ہونا یا اللہ کا فرمانبردار ہونا اس قوم کو عذاب سے نہیں بچا سکتا۔

قوم کو اللہ کی فرمانبرداری، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی پیروی، اسلامی ماحول کی فراہمی، اسلامی قوانین کی تشکیل، عدل وانصاف کی فراہمی اور قانون کی پاسداری کی تلقین ریاست اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ مگر اس حکومت کی تشکیل کے لیے نمائندگان کا چناؤ ہماری رائے سے ہوتا ہے۔ ہم گزشتہ چونسٹھ سال سے جن نمائندگان کو منتخب کرکے اسمبلی میں بھیجوا رہے ہیں کیا اُن کے تمام غلط اقدامات میں ہماری معاونت شامل نہیں؟

آئیے ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچیں اور اپنا محاسبہ کریں کہ حکمرانوں کے ان اعمال میں ہمارا کتنا حصہ ہے۔

ملک میں اِسلامی قوانین اور شعائر کا مذاق اڑایا جاتا ہے، لیکن ممبران اسمبلی خاموش۔۔۔
ملک میں رائج بدعنوانی کی وجہ سے دنیا میں ہماری پہچان ہی کرپشن کے حوالے سے ہے۔۔۔
غریب اپنے بچوں کو فروخت کرنے اور بیٹیاں عزت بیچنے پر مجبور جبکہ لیڈر عیاشیوں میں مشغول۔۔۔
ہر طرف قتل وغارت گری اور خون کی ہولی مگر اَرکانِ اَسمبلی خاموش۔۔۔
حکمران اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کے باغی۔۔۔
پڑھا لکھا نوجوان بے روزگار اور خودکشی پر مجبور، ان کے لیے کوئی قانون سازی اور منصوبہ بندی نہیں جب کہ حکمرانوں کے بیٹے پیدائشی حکمران۔۔۔
غریب عوام بغیر علاج اور اَدویات کے مر جائیں اور لیڈروں کا قومی خزانے سے بیرون ملک علاج۔۔۔
غریب آدمی چند روپوں کی چوری کرے تو اس کے لیے جیل، جب کہ حکمران اَربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک لے جائیں مگر پھر بھی پارسا۔۔۔
قدرتی وسائل سے مالا مال مملکتِ خدادا IMF اور ورلڈ بنک کی مقروض؛ لیڈروں کی عیاشیاںجاری۔۔۔
غریب بھوکے مر رہے ہوں، بچے کوڑے کے ڈھیر سے روٹی کے ٹکڑے چن کر کھا رہے ہوں لیکن حکمرانوں کے کتے اور گھوڑے مربہ جات کھائیں۔۔۔
ملک و قوم کا درد رکھنے والے باصلاحیت اَفراد اسمبلیوں سے باہر اور انگریزوں کے پٹھو قوم پر مسلط۔۔۔
ملک میں شرافت اور ایمان داری ایک طعنہ بن چکی ہے اور بدمعاشی و رشوت خوری کو باعثِ اِعزاز سمجھا جاتا ہے۔۔۔
دین اور اچھائی کی بات کرنے والے کا مذاق، بے دینی، بے حیائی کی بات کرنے والے کے لیے داد اور اِعزاز۔۔۔
اللہ کے حکم کے خلاف نیکی اور اچھائی میں تعاون کی بجائے برائی میں تعاون میں آگے آگے۔۔۔
پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اﷲ ۔۔۔ لیکن ہمارے چُنے ہوئے حکمرانوں کا نہ منشور اور نہ طرزِ فکر۔۔۔
مظلوم اور بے کس لوگ بے یار و مددگار، حکمرانوں کی طرف سے صرف نعرے اور وعدے۔۔۔
غریب کے لیے علاج، تعلیم، پانی، بجلی، گیس میسر نہیں، لیکن حکمرانوں کے ایک روز کے ذاتی اخراجات کروڑوں میں۔۔۔
غریب عام شہری کی جان و مال اور عزت تک محفوظ نہیں ۔۔۔ لیکن ہر ایم پی اے و ایم این اے کی حفاظت پر سینکڑوں پولیس اہلکار متعین۔۔۔
ملک میں ڈرون حملے، ٹارگٹ کلنگ اور قتل عام، مگر حکمران خاموش اور حکومت بے بس۔۔۔
مندرجہ بالا رویوں اور قومی کردار کا جائزہ لیا جائے تو کیا یہ حقیقت سامنے نہیں آتی کہ ہم سب بالواسطہ یا بلا واسطہ ان خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔۔۔؟ کیونکہ اِس صورتِ حالات میں ہماری ناروا خاموشی، حالات بدلنے کے لیے عملی جد و جہد سے پہلو تہی اور ملک کو اِس تباہی و بربادی سے دو چار کرنے والے سیاست دانوں کو ہر انتخاب میں کامیاب کرانے کا ہمارا معمول اس بات کا غماز ہے کہ ہم سب مندرجہ بالا خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج سے چودہ سو سال قبل حکمرانوں کے چناؤ کا طریقہ بیعت تھی، آج اس کی جدید صورت ووٹنگ ہے۔ ہم اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے حکمرانوں کی بیعت کرتے ہیں۔ ووٹ دیتے وقت واقعہ کربلا کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جس میں امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے خاندان کی شہادت کا راستہ چنا مگر فاسق و فاجر یزید کی بیعت کے ذریعے ظالم نظام کے قیام میں معاونت سے انکار کر دیا اور میدانِ کربلا میں سرخرو اور کامیاب ہوئے۔

ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ہم جانے انجانے میں بہت بڑے قومی اور ملی گناہ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور یہ قدرتی آفات ہمارے اِنہی اَعمال کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں اس سے نجات کے لیے عملی اِقدامات کرنا ہونگے۔ ورنہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان برحق ہے :

اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِيْدٌo (البروج، 85 : 12)

’’بے شک آپ کے رب کی پکڑ بہت سخت ہےo‘‘

ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اِسی میں اپنے اَعمالِ بد سے توبہ کرنا ہوگی۔ اگر آج ہم نے ایسا نہ کیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے بچے اور آئندہ آنے والی نسلیں اس سے بھی بڑے اور درد ناک عذاب کا شکار ہوں۔
اپنی غلطیوں اور گناہوں کے اِدراک کے بعد ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سر بسجود ہو جائیں، گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔ وہ غفور ہے، رحیم ہے، معاف کرنے والا ہے۔ اگر ہم نے اخلاص کے ساتھ توبہ کر لی تو وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

یاد رکھیں! حقیقی توبہ وہی ہوتی ہے جس میں انسان اس عمل کو دوبارہ نہ دہرائے۔ ساتھ ہی ہمیں یہ عزم و ارادہ اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ ہم آئندہ اس گناہ کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد ہمیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کے لیے تیار کرنا ہو گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اَحکامات کی پیروی کے بغیر ہم کامیاب اور کامران نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ہمیں اپنے آپ کو ’اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر‘ کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے تیار کرنا ہوگا اور عملاً میدان میں نکل کر لوگوں کو اس گناہ سے بچنے کی تلقین کرنا ہوگی تاکہ لوگوں کو ووٹ کے ذریعے گناہوں میں معاونت سے روکا جاسکے اور اس نظامِ انتخاب کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کے لیے اُبھارا جائے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قانون کی پاسداری اور امن و امان کا تحفظ بنیادی اِسلامی تعلیمات ہیں۔ اس لیے ہم کسی طرح کی بھی لاقانونیت یا نقص اَمن کے نہ حامی ہیں اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ چونکہ موجودہ نظامِ انتخابات تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس نظام میں کرپٹ لوگ ہی اسمبلی میں جاسکتے ہیں۔ موجودہ نظام، ظلم، نا انصافی، اقربا پروری، رشوت ستانی اور استحصال پر مبنی ہے۔ اس نظام میں پڑھے لکھے اور با صلاحیت نوجوان ملکی ترقی میں کردار ادا نہیں کرسکتے صرف جاگیردار، بدکردار اور سرمایہ دارانہ سوچ کے حامل چند خاندان ہی ملکی تقدیر کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ ہم پر لازم ہے آزادیِ اِظہارِ رائے کے حق کے اِستعمال کرتے ہوئے کرپٹ اور استحصالی نظام کے خلاف پر امن جدوجہد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

لنک:
https://www.minhajbooks.com/english/control/btext/cid/16/bid/420/btid/2645/read/txt/سرورق-bad%20Intizami%20ya%20Azab%20e%20Elahi!%20Nijat%20kesay%20Mumkin%20hay?.html