انسان اشرف المخلوقات ہے۔ رب
العالمین نے پوری کائنات کو انسان کے لئے مسخر کیا۔ انسان کو عقل و شعور کی
نعمت سے نوازا۔ نیکی اور بدی کی تمیز عطا کی، محبت و مودت اسے ودیعت فرمائی
اور پھر اپنے انبیاء و رسل کے ذریعے ہر دور میں اس کے لئے الوہی رہنمائی کا
اہتمام بھی کیا مگر ہر دور میں انسانیت کے ایک بڑے طبقے نے بغاوت اور
گمراہی کے راستہ کا انتخاب کیا اور الوہی ہدایت کو رد کرتے ہوئے پیغمبران
خدا کو جھٹلایا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے غضب کو دعوت دی۔ لہذا تاریخ کے
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی طوفان نوح کے ذریعے ظالمین کو عبرتناک انجام
تک پہنچایا گیا تو کبھی فرعون اور اس کے قافلہ کے غرور و سرکشی کو نیل میں
بہا دیا گیا۔ بڑے عذابوں کو بھیجنے سے قبل اللہ تبارک و تعالیٰ نے
نافرمانوں کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے مختلف نوعیت کی آفات و بلیات بھی
بھیجیں مثلا بنی اسرائیل کو مینڈکوں، ٹڈی دل، طاعون، پتھروں کی بارش، زلزلے
اورآندھیوں جیسے عذاب میں مبتلا کیا جاتا رہا ان عذابوں کی وجہ سے قومیں
تباہی و بربادی کا شکار ہوتی رہیں۔
لیکن جب اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں
خاتم النبیین بن کر تشریف لائے وہاں سراپا کرم و فضل ہوتے ہوئے شان رحمت
العالمین سے سرفراز کیے گئے۔ جہاں آپ پر سلسلہ نبوت و رسالت کا خاتمہ ہو
گیا وہاں آپ کی رحمت کے تصدق سے پہلی امتوں کی طرح ایسے عذابوں کا سلسلہ
بھی ختم ہوگیا کہ قوموں کی قومیں تباہ کر دی جائیں۔ مگر مختلف نوعیت کی
آفتوں و بلیات کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ آفات و بلیات سنت الٰہی کی مظہر بن کر
ان اقوام پر نازل ہوتی رہیں اور ہوتی رہیں گی، جنہوں نے نیکی کو چھوڑ کر
بدی کا راستہ اپنایا ہو۔ امانت و دیانت کو چھوڑ کر خیانت و بدیانتی کو
کاروبار بنایا ہو، سچائی اور راستی کو چھوڑ کر جھوٹ اور منافقت کا شعار
اپنایا ہو اللہ کی طاعت و بندگی کو چھوڑ کر بغاوت و شرکشی کا کردار اپنایا
ہو، وحدت و یگانگت کو چھوڑ کر عصبیتوں اور فرقہ واریت کو اختیار کیا ہو،
حضور کی غلامی کو ترک کرکے طاغوت و استعمار کے تسلط و اختیار کے سامنے سر
تسلیم خم کیا ہو اور قیادت کے لئے تقویٰ و قابلیت کو چھوڑ کر بے ضمیری،
طاقت و سرمایہ کو معیار بنایا ہو۔
اس ابدی حقیقت کے تناظر میں اگر آج ہم پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ
بات حقیقت ہو جاتی ہے کہیہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اُس کے اَحکامات سے
رُوگردانی آفاتِ اَرضی و سماوی کے پے در پے نزول کا بنیادی سبب ہے۔ حضرت
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا اتُّخِذَ الْفَيْءُ دُوَلًا، وَالْأَمَانَةُ مَغْنَمًا، وَالزَّکَاةُ
مَغْرَمًا، وَتُعُلِّمَ لِغَيْرِ الدِّيْنِ، وَأَطَاعَ الرَّجُلُ
امْرَأَتَهُ وَعَقَّ أُمَّهُ، وَأَدْنَی صَدِيْقَهُ وَأَقْصَی أَبَاهُ،
وَظَهَرَتِ الْأَصْوَاتُ فِي الْمَسَاجِدِ، وَسَادَ الْقَبِيْلَةَ
فَاسِقُهُمْ وَکَانَ زَعِيْمُ الْقَوْمِ أَرْذَلَهُمْ، وَأُکْرَمَ
الرَّجُلُ مَخَافَةَ شَرِّهِ، وَظَهَرَتِ الْقَيْنَاتُ وَالْمَعَازِفُ،
وَشُرِبَتِ الْخُمُوْرُ، وَلَعَنَ آخِرُ هٰذِهِ الأُمَّةِ أَوَّلَهَا،
فَلْيَرْتَقِبُوْا عِنْدَ ذَالِکَ رِيْحًا حَمْرَاءَ، وَزَلْزَلَةً،
وَخَسْفًا، وَمَسْخًا، وَقَذْفًا، وَآيَاتٍ تَتَابَعُ کَنِظَامٍ بَالٍ
قُطِعَ سِلْکُهُ فَتَتَابَعَ.
’’جب مالِ غنیمت (یعنی سرکاری خزانہ)کو ذاتی دولت، امانت کو غنیمت اور
زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے، دین مخالف کاموں کے لیے علم حاصل کیا جائے،
مرد اپنی بیوی کی فرمانبرداری کرے اور اپنی ماں کی نافرمانی، اپنے دوست کو
قریب کرے اور باپ کو دور، مسجدوں میں(فتنہ وفساد اور لڑائی جھگڑوں کی)
آوازیں بلند ہونے لگیں، قبیلے کا بدکار اُن کا سردار بن بیٹھے اور ذلیل
ترین آدمی قوم کا قائد (یعنی حکمران) بن جائے، آدمی کی عزت محض اُس کے شر
سے بچنے کے لئے کی جائے، گانے والی عورتیں اور گانے بجانے کا سامان عام ہو
جائے، (کھلے عام اور کثرت سے) مختلف قسم کی شرابیں پی جانے لگیں اور لوگ
اپنے اَسلاف کو لعن طعن سے یاد کریں، اُس وقت سرخ آندھی، زلزلہ، زمین میں
دھنس جانے، شکلیں بگڑ جانے، آسمان سے پتھر برسنے اور طرح طرح کے ایسے
لگاتار عذابوں کا انتظار کرو جس طرح کسی ہار کا دھاگہ ٹوٹ جانے سے گرتے
موتیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ‘‘
(جامع ترمذی، کتاب الفتن، 4 : 495، رقم : 2210-2211)
اللہ رب العزت کا قانون ہے کہ ذاتی گناہ، نافرمانی یا کوتاہی کے بعد انسان
کو ہر ممکن ڈھیل اور چھوٹ دیتا ہے مگر جب قومیں یا اُمتیں اجتماعی گناہوں
اور سرکشی کا شکار ہو جائیں یا ان میں اکثریت برائی کا شکار یا برائی کی
معاون ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اُس قوم پر عذاب نازل کرتا ہے اور جب تک قوم
توبہ کر کے راہ حق پر نہیں آجاتی عذاب نہیں ٹلتا۔
ہمارے حالات:
الحمد للہ ہم سب لوگ مسلمان ہیں اور ملک خداداد پاکستان کے باسی ہیں، لیکن
ہماری قوم گزشتہ چند سالوں سے مشکل ترین حالات سے دوچار ہے۔ ہم دہشت گردی،
قتل وغارت گری، زلزلے، سیلاب، ڈینگی بخار، مہنگائی اور بے برکتی کے عذابوں
کامسلسل شکار ہیں۔
کہیں بم دھماکے ہو رہے ہیں جن میں کثرت سے بے گناہ لوگ مر رہے ہیں۔ قاتل کو
معلوم نہیں کہ وہ قتل کیوں کر رہا ہے، اور قتل ہونے والے کو معلوم نہیں کہ
وہ کیوں قتل کیا جا رہا ہے۔ روزانہ لاشیں گر رہی ہیں؛ عورتیں بچے، بزرگ
کوئی بھی محفوظ نہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس طرح کے حالات کو قربِ قیامت
کی نشانی بتایا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ! لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا حَتّٰی يَأْتِيَ
عَلَی النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيْمَ قَتَلَ وَلَا
الْمَقْتُوْلُ فِيْمَ قُتِلَ.
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! دنیا کے خاتمے سے پہلے
ایسا دور آئے گا جس میں نہ قاتل کو یہ خبر ہوگی کہ اس نے کیوں قتل کیا، نہ
مقتول کو یہ خبر ہوگی کہ وہ کس جرم میں قتل کیا گیا۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، 4 : 2231، رقم : 2908)
دہشت گرد تنظیمیں جس طرح کم عمر اور نادان بچوں کو ورغلا کر اور اُنہیں خود
کش جیکٹس پہنا کر مارکیٹوں اور عبادت گاہوں میں دھماکے کرا رہی ہیں جس میں
بے قصور مرد و خواتین اور بچے ہلاک ہو رہے ہیں، اِس سے مخبرِ صادق صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی صداقت کا مشاہدہ ہر شخص اپنی آنکھوں سے کر رہا
ہے۔
2005ء کے زلزلے میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے۔ ہزاروں لوگ عمارتوں کے نیچے دب
گئے، بے شمار خاندان اُجڑ گئے اور اَربوں روپے کی اَملاک تباہ ہو گئیں۔
2010ء میں پورے ملک میں سیلاب نے تباہی مچا دی۔ دو کروڑ عوام متاثر ہوئے،
ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ لوگوں کی فصلیں، کاروبار تباہ اور
مویشی ہلاک ہوگئے۔
2011ء میں بارشوں کی وجہ سے سندھ میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے، فصلیں برباد
ہوگئیں اور ابھی تک لوگ بے یار و مددگار پڑے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ 2010ء میں بارشوں اور سیلاب سے سندھ کا آدھا حصہ
جبکہ 2011ء میں باقی آدھا حصہ متاثر ہوا۔ حالانکہ اِس سے قبل اِس خطے میں
فصلوں کی آب یاری کا اِنحصار ہی بارشوں پر ہوتا تھا۔ سوچیے کہ بارش جسے
اللہ کی رحمت قرار دیا گیا ہے، آخر ہمارے لیے زحمت کیوں بن گئی ہے؟
معاشی حالت یہ ہے کہ کمائی میں برکت نہیں رہی، آج سے پانچ سال پہلے کی نسبت
ہماری آمدنی دو گنا اور تین گنا ہے مگر اَخراجات پورے نہیں ہوتے۔ ہم
پریشانی اور قرض کا شکار رہتے ہیں۔ یہ بے برکتی کیوں ہے؟ اِس کی ایک بڑی
وجہ یہ ہے کہ آج ہم نے حلال و حرام کی تمیز ختم کر دی ہے۔ ہم صرف مال کے
حصول میں مگن ہیں قطع نظر اِس کے کہ وہ حلال ذریعے سے حاصل ہو یا ذریعہ
حرام سے۔
اِسی کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا :
يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ
أَمِنَ الْحَلَالِ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ.
’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں آدمی کو یہ پرواہ نہیں ہوگی کہ جو
کچھ وہ مال میں سے لے رہا ہے یہ حلال ہے یا حرام۔‘‘
(صحیح بخاری، کتاب البیوع، 2 : 726، رقم : 1954)
آج 2011ء میں پورا ملک بالعموم اور پنجاب بالخصوص ڈینگی بخار جیسے جان لیوا
مرض اور وبا کا شکار ہے۔ تمام انسانی وسائل، جدید مشینری، میڈیکل سہولیات
کے باوجود لاکھوں لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ پورا نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا
ہے۔ سینکڑوں لوگ لقمہ اَجل بن چکے ہیں۔ ایک چھوٹے، بے وقعت اور نحیف سے
مچھر نے طاقت ور انسان اور حکومتی مشینری کو بے بس کر دیا ہے۔ یہ ایسی وباء
ہے کہ چند سال قبل اِس کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ آخر اِس کی کیا وجہ ہے کہ
ساری میڈیکل سائنس اور پوری انتظامی مشینری اس پر قابو پانے میں ناکام
ہوچکی ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں اگر اس
ساری صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی
کہ
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت
یہ تمام مصائب ہماری بد اَعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
ارشاد مبارک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ حَتَّی يُعْلِنُوا بِهَا
إِلَّا فَشَا فِيْهِمُ الطَّاعُوْنُ وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَکُنْ
مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا، وَلَمْ يَنْقُصُوا
الْمِکْيَالَ وَالْمِيزَانَ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِيْنَ وَشِدَّةِ
الْمَؤنَةِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يَمْنَعُوا زَکَاةَ
أَمْوَالِهِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا
الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوْا، وَلَمْ يَنْقُضُوْا عَهْدَ اﷲِ وَعَهْدَ
رَسُوْلِهِ إِلَّا سَلَّطَ اﷲُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ،
فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَئِمَّتُهُمْ
بِکِتَابِ اﷲِ وَيَتَخَيَرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اﷲُ إِلَّا جَعَلَ اﷲُ
بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ.
’’جب کسی قوم میں فحاشی عام ہو جائے تو اُن میں طاعون اور وہ بیماریاں عام
ہو جاتی ہیں جو پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں، جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے
لگیں تو اُن پر قحط اور اس طرح کے دیگر عذاب نازل ہوتے ہیں اور اُن کے
حکمران اُن پر ظلم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب لوگ زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ
دیتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اُن سے بارش روک لیتا ہے کہ اگر زمین پر چوپائے نہ
ہوں تو اﷲتعالیٰ آسمان سے اُن پر ایک قطرہ بھی پانی نہ گرائے۔ جب لوگ اﷲ
تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد کو توڑ دیتے ہیں تو
اﷲ تعالیٰ اُن پر اُن کے دشمنوں کو مسلط کر دیتا ہے جو اُن کا مال اُن سے
چھین لیتے ہیں، جب مسلمان حکمران اﷲ تعالیٰ کے قانون کو چھوڑ کر کوئی دوسرا
قانون اپنا لیں اور اَحکامِ خداوندی میں سے کچھ اِختیار کر لیں اور کچھ کو
چھوڑ دیں تو اﷲ تعالیٰ اُن پر مصائب و آزمائشیں مسلط فرما دیتا ہے۔ ‘‘
(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، 2 : 1332، رقم : 4019)
قارئین کرام غور فرمائیں! کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
بیان فرمودہ یہ نشانیاں آج من و عن ہم پر صادق نہیں آرہیں؟ |