حقیقت ۔۔۔یا۔۔۔ فسانہ

 سمیر کے موبائل پر مس کال آئی ،نمبر دیکھ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ دوستوں سے اجازت لے کر اپنے کمرے میں گھس کر کال کرنے لگابیل جا رہی تھی اور سمیر بے تاب تھا کہ جلد کال رسیو ہو اور پھر دوسری طرف سے ایک خوبصورت ہیلو کی آواز سنائی دی۔۔

سمیر گاﺅں کے چودھری کا اکلوتا بیٹا تھا جو چار بہنوں کے بعد بڑی منتوں سے پیدا ہوا تھا اس کی پیدائش پرچوہدری نے پورے گاﺅں میں ایک جشن منایا تھا جوں جوں سمیر بڑا ہوتا گیا اس کے لاڈ اور نخرے بھی بڑھتے گئے اس کی ہر خواہش کی تکمیل کی جاتی تھی لیکن چوہدری نے اس کی تربیت کا خاص خیال رکھا تھا اسی لئے سمیر پڑھائی میں کافی اچھا تھا اور کلاس میں پہلی پوزیشن پر آتا تھاگاﺅں میں صرف ایک ہائی سکول تھا سمیر نے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کر لیا۔

چودھری نے اپنے بیٹے کو مزید تعلیم کے لئے شہر بھیج دیا اور یہاں اسے ایک اچھے کالج میں داخل کروانے کے ساتھ ہاسٹل میں اس کی رہائش کا بندوبست بھی کروادیا یوں سمیر گاﺅں کی زندگی سے شہری ماحول میں آگیا، شروع شروع میں اس کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے پڑھائی پر توجہ مرکوز کر دی، یوں وہ کالج کا ایک ہونہار سٹوڈنٹس کے طور پر ابھر کرسامنے آیا لیکن بدقسمتی سے اسے کالج میں کچھ برے لوگوں کی صحبت میسر آگئی،جو آوارہ قسم کے تھے لیکن سمیر نے یہاں پر بھی اپنا دامن بچائے رکھا اور پڑھائی میں مصروف رہا ،شہزاد جوکہ سمیر کا دوست تھا ،نے ایک بار سمیر سے پوچھا کہ تیری کوئی گرل فرینڈ بھی ہے سمیر نے نفی میں سر ہلایا اور کہا کہ گرل فرینڈ کو وہ اچھا نہیں سمجھتا ،شہزاد نے اسے کہا کہ انسان کی گرل فرینڈہونی چاہئے جب سمیر راضی نہ ہوا تو اس نے اس دن سے اسے مولوی کہنا شروع کر دیا یوں دن بیتتے چلے گئے اور سمیر تیسرے سال میں پہنچ گیا ۔

ایک رات وہ اپنے کمرے میں ایک اسائنمنٹ بنا رہا تھا کہ اس کے موبائل پرکسی انجان نمبر سے کال آئی،دوسری طرف کوئی لڑکی تھی سمیر نے اس کے بارے پوچھا اور پھر رانگ نمبر کہہ کر کال منقطع کر لی ،اس کے بعد اس نمبر سے دو بار مس کال آئیں،تو سمیر نے موبائل فون سائلنٹ پر لگایا اور اسائنمنٹ بنانے میں مشغول ہوگیا جب لیٹ نائٹ وہ اپنے کام سے فارغ ہوا ،اور سونے لگا تو موبائل پہ الارم لگانے کے خیال سے اسے اٹھایا تو اس میں اسی رانگ نمبر سے تین میسجز آئے ہوئے تھے،جس میں لکھا تھا ’پلیز کال می‘۔

سمیر نے پہلے تو اس میسج کو ignoreکرنا چاہا لیکن پھر یہ سوچ کر کال ملادی کہ نہ جانے اسے کوئی مسئلہ ہو،بیل جاتی رہی اور پھر دوسری طرف سے اسی لڑکی کی نیند میں ڈوبی ہوئی آواز آئی ،کہ مجھے آپ کی آواز اچھی لگی تھی اس لئے آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی لیکن اس وقت سب سو رہے ہیں کل میں آپ سے بات کروں گی پلیز مجھ سے ضرور بات کرنا ،یہ بات کہہ کر اس نے کال منقطع کر دی لیکن سمیر اس کے خیالوں میں کھویا رہا ۔رات کے کونسے پہر سے اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ نیند کی وادی میں اترتا چلا گیا، دوسرے د ن معمول کے مطابق وہ کالج گیا رات والا واقعہ اس کے ذہن سے محو ہوچکا تھا جب واپس ہاسٹل پہنچ کر موبائل دیکھا تو رات والے رانگ نمبر سے کئی کالیں اور میسج آئے ہوئے تھے جس میں بات کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

سمیر نے کال کی اور اس کے بارے پوچھا تو اس نے کہا کہ بس آپ کی آواز مجھے اچھی لگتی ہے اس لئے روز مجھ سے بات کیا کرو،سمیر نے پہلے تو ٹالنا چاہا لیکن اس نے منت آمیز لہجے میں کہا تو سمیر بھی بادل نخواستہ اسے بات کرنے پر آمادہ ہو گیا اور یوں ان دونوں کی ٹیلیفونک دوستی ہوگئی پہلے پہلے تو دن میں ایک بار تھوڑی دیر کے لئے بات ہوتی ،لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ایک دوسرے سے لمبی بات کرتے نہیں تھکتے اور بسا اوقات تو پوری رات باتوں میں بیت جاتی ،اب سمیر بھی اس کی کال کا انتظار کرتا اور وہ یوں دونوں طرف سے ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے حالانکہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا نہیں تھا۔یوں سمیر اس کی آواز کے جادو میں گرفتار ہو کر اسے دل دے بیٹھا،دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا اورنوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ گھر سے بھاگنے کا پروگرام بننے لگے۔

اب جب سمیر نے فون ملایا تو دوسری طرف وہی ٹیلیفونک محبوبہ کی آواز سن کر سمیر کا انگ انگ مسرت سے لبریز نظر آنے لگا کیونکہ آج دونوں نے پروگرام فائنل کر لیا تھا پلین کے مطابق سمیر کو دوسرے شہر اپنی محبوبہ کو لے کر اپنے دوست کے پاس جانا تھا جہاں ان کا نکاح ہوتا، پروگرام کے مطابق سمیر اپنی ٹیلی فونک محبوبہ کے شہر پہنچا جہاں ان دونوں کوریلوے سٹیشن پر اکٹھے ہونا تھا سمیر کافی دیر انتظار کرتا رہا ،اور اس کا فون ملاتا رہا لیکن آگے سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا اسی طرح گھنٹوں گزر گئے اب سمیر آکر پچھتا رہا تھا لیکن اس کا دل اسے تسلیاں دے رہا تھا کہ نہیں وہ ضرور آئے گی جب انتظارطویل ہوگیا تو سمیر واپسی کے قصد سے ٹکٹ لینے لگا تو موبائل پر بیل سنائی دی جب نمبر دیکھا تو اس کی جان میں جان آگئی کیونکہ اس کی محبوبہ کی مس کال تھی سمیر نے جلدی سے کال بیک کی تو اس نے کہا کہ سرخ کپڑے پہنے میں رکشہ سٹینڈ پر کھڑی ہوں ،سمیر جلدی جلدی رکشہ سٹینڈ پر پہنچا تو اسے کوئی لڑکی نظر نہیں آئی البتہ ایک پینتیس سالہ عورت سرخ کپڑوں میں ملبوس چیچک ذدہ چہرے والی سامان کی دو گٹھڑیاں باندھے پاس کھڑی تھی ،سمیر نے فون ملایا ساتھ کھڑی اس عورت کا موبائیل بجنے لگا اور وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی ،سمیر کے پاﺅں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ اس عورت کے ساتھ وہ گھر سے بھاگ رہا تھا جلدی سے وہاں سے کھسکا ،موبائل آف کر کے ٹرین پر بیٹھا اورپشیماں پشیماں شہر واپس آگیا۔
AbdulMajid Malik
About the Author: AbdulMajid Malik Read More Articles by AbdulMajid Malik: 171 Articles with 188158 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.