ہم لکھنے والے بھی کمال کے لوگ
ہوتے ہیں۔ہم میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ایک وہ جو پیسے لے کے لکھتے
ہیں۔ارے نہیں یار میرا وہ مطلب نہیں۔میرا مدعا یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے
اداروں سے بڑی بڑی تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔یہی گروہ یا طبقہ اپنے ذرائع بھی
رکھتا ہے۔وہ ذرائع باخبر بھی ہوتے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے انہیں
ٹپس بھی دیتے ہیں۔یہ لوگ چونکہ عوام کے فیصلوں پہ اثر انداز ہونے کی صلاحیت
رکھتے ہیں اس لئے اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے بنا کے رکھتی ہے۔بڑے لوگوں سے
تعلقات ہو ں تو تحفے تحائف کا سلسلہ تو چلتا ہی رہتا ہے۔ اب یہ تو ہو نہیں
سکتا کہ منہ کھائے اور آنکھ نہ شرمائے۔اگر بندے نے فرانس کی اعلیٰ برانڈ کی
خوشبو لگا رکھی ہو تو اسے ارگرد کی بدبو اور تعفن کا احساس کہاں ہوتا
ہے۔یہی دوست جب قلم ہاتھ میں لے میدان جنگ میں داخل ہوتے ہیں تو کشتوں کے
پشتے لگا دیتے ہیں۔اگر خدانخواستہ ان کے کسی تجزئیے کے نتائج وہ نہ نکلیں
جو یہ نکالنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں انگلی ٹیڑھی کرنا بھی آتی ہے۔صحافی کی
ٹیڑھی انگلی دنیا میں عموماََ اور پاکستان میں خصوصاََ امریکہ کے ڈرون سے
بھی زیا دہ خطرناک سمجھی اور جانی جاتی ہے۔
دوسری طرز کے لوگ وہ ہوتے ہیں۔جنہیں اللہ تعالیٰ لفظ جوڑنے ، اندازے اور
قیافے لگانے کی تھوڑی سی استطاعت دے دیتا ہے۔جس طرح بندر کے ہاتھ ادرک لگ
جائے تو وہ جنگل کے مین چوک میںحکمت کی دکان کھول لیتا ہے۔میرے اور میرے
جیسے لوگ اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ہم لوگ خبر پڑھتے ہیں۔خبر کا تیا پانچہ
کرتے ہیں۔اپنے جیسے کچھ کم فہم اور کم علم لوگوں سے اس خبر کا چرچا کرتے
ہیں۔تحفوں اور تنخواہ کا تڑکا بھی نہیں ہوتا ۔اس طرح کے کالم نویسوں کو
چونکہ حاصل وصول تو ہوتا کچھ نہیں اس لئے جو انہیں سمجھ آتا ہے وہ لکھ کے
اسے اٹھائے در در گھومتے ہیں اور پھر کوئی سخی اسے کسی نہ کسی جگہ چھاپ
دیتا ہے ۔اس کے بعد ہم جیسے لوگ اسی نشے میں سو جاتے ہیں اور صبح اٹھ کے
پھر ایک نئی خبر،نئی گپ شپ ،نیا تجزیہ اور پھر نیا مضمون۔اس پہ جب کوئی دل
جلا یہ کمنٹس لکھ دیتا ہے کہ یہ سب بکواس لکھا ہے تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا
ہے۔اللہ خوشیاں عطا کرے اس شخص کو جس نے انٹر نیٹ ایجاد کیا۔میرے جیسے کتنے
ہی تھے جنہیں یہ سہارا نہ ملتا تو وہ لاکھوں ارمان دل میں لئے کب کے گذر
گئے ہوتے۔
جاوید چوہدری ہمارے ملک کے ایک ایسے ہی تجزیہ نگار ہیں جنہیں راہ چلتے دنیا
مڑ مڑ کے دیکھتی ہے۔خبر بلکہ خبر ہی کیا تجزیہ بھی خود ان کے پاس سر کے بل
آتا ہے۔وہ اس پہ مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔جو ان کے قلم کی کٹھالی سے نکل
جائے سونا اور جو رہ جائے سکریپ بن جاتا ہے۔ان کے لکھے سے ادارہ بھی لاکھوں
کماتا ہے اور وہ خود بھی آج ان گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں ۔لالہ موسیٰ میں
جوکائروں کے پاس بھی نہیں ہیں۔جلن یا حسد کی بات نہیں میں اسے ان کی محنت ،لیاقت
اور پھر اللہ کا کرم اور اس کی نظر عنائت مانتا ہوں۔تھوڑے سے بغض کی تو خیر
چوہدری صاحب بھی اجازت دے ہی دیں گے۔بس ایک فقرہ ! یہ بھی بس دل کی جلن
نکال رہا ہوں۔چوہدری صاحب اور ان کے سٹیٹس کو انجوائے کرنے والے دوست
صحافیوں کے جاگیردار ہیں اور ہم اس قبیلے کے عوام۔اب وڈیروں اور جاگیرداروں
اور عوام کی رائے اور ان کی حیثیت میں جو فرق ہوتا ہے وہی ہماری اور ان کی
سوچ اور تحریر میں ہوتا ہے۔یہ اپنے میدان کے بادشاہ ہیں اور ہمیں تو ابھی
تک اس میدان میں حق مانگنا تو کیا بھیک مانگنا بھی نہیں آیا۔کہتے ہیں کہ
بادشاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوتا ہے۔کسی کو کبھی بھی شاہوں سے عدالت
کی توقع تو نہیں رہی پر پھر بھی اتمام حجت کے لئے زنجیر ہلا دیتے ہیں۔
انہوں نے آج کے کالم میں لکھا کہ میری اطلاعات اور تجزئیے کے مطابق شاہ
محمود قریشی مسلم لیگ نون میں جا رہے تھے۔باتیں طے ہو چکی تھیں۔ان کے پل پل
کی خبر چوہدری صاحب کو بھی فیڈ کی جا رہی تھی۔پھر شاہ محمود نے چوہدری صاحب
کے سارے تجزیوں کو ایک طرف ڈالا اور 28 نومبر کو نالائق عمران خان کے ہاتھ
پہ بیعت کر لی جسے سیاست کا کچھ پتا نہیں۔اب چونکہ چوہدری صاحب کا تجزیہ
الٹ ہو گیا جس کا انہوں نے کمال فراخ دلی سے اعتراف بھی کیا لیکن اپنے اسی
کالم میں پھر جس طرح انہوں نے شاہ محمود اور تحریک انصاف کو دھویا اور
انہیں اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ثابت کیا ہے۔یہ چوہدری صاحب کا کمال فن
ہے۔شاہ محمود اگر نون میں جاتے تو ثابت ہو جاتا کہ وہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ
ہیں۔ان کے تحریک انصاف میں آنے سے ثابت ہوا کہ وہ پرو اسٹیبلشمنٹ ہیں۔اسے
کہتے ہیں کہ
آپ کی زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں ہے
چوہدری صاحب نے اعجاز قلم سے مستقبل کا ایک پورا خاکہ ہمارے سامنے رکھ دیا
ہے۔ان کے اپنے لکھے سے ثابت ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ صحیح بھی ہو۔لیکن ظاہر
ہے کہ وہ صحافی برادری میں سب سے زیادہ باخبر آدمی ہیں۔انہیں ٹپس بھی مل
چکے ہونگے۔اس لئے ان کے مقام اور مرتبے کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس کی
تردید تو نہیں کر سکتا لیکن یہ عرض کرنے کی جسارت ضرور کرونگا کہ ہمارے ہاں
چوہدری صاحب ! فیصلے پہلے کئے جاتے اور ان پہ رائے عامہ بعد میں ہموار کی
جاتی ہے۔یہ نہ ہو شاہ محمود کے فیصلے کی طرح آپ کے اس کالم میں بیان کردہ
باقی اندازے بھی غلط ہو جائیں۔عوام بہت ظالم ہیں یا اب ہو گئے ہیں کہ انہیں
اب سکوائر تحریر پہ اکٹھا ہونا آگیا ہے۔یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ شعور بھی
وائرس کی طرح پھیلتا ہے۔آج اگر یہ مشرق وسطی میں پھیلا ہوا ہے تو کل ہو
سکتا ہے پاکستان پہنچ کے آپ اور آپ کے ٹپس دینے والوں کو بھی ساتھ ہی لے
گیا تو پھر کیا ہوگا؟
آپ ہمارے محبوب قلمکار ہیں۔ہمیں آپ سے پیار ہے۔ہمیں یقین ہے کہ آپ جو لکھتے
ہیں وہی آپ کے من میں ہوتا ہے۔چوہدری صاحب ! پراڈوز اور پجیروز کا واقعی
اپنا نشہ ہے۔فرانس کی خوشبویات بھی اپنا ایک مقام رکھتی ہیں۔ہر سال کا
ورلڈٹور ۔۔۔۔منہ میں پانی بھر بھر آتا ہے لیکن ایک ہوتی ہے عوام کی
محبت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا اپنا ایک نشہ ہوتا ہے۔وہ ہو تو پھر باقی نشے دو
آتشہ ہوتے ہیں۔سیف الاسلام کی کہانیاں تو آپ خود لکھتے ہیں تو پھر انہیں
اپنے باب میں یاد کیوں نہیں رکھتے۔سیف الاسلام تو بادشاہ ابن بادشاہ
تھا۔کہیں کا نہ رہا۔ آپ کی ففٹی سی سی سوزوکی موٹر سائیکل کی فوٹو ز لالے
موسے میں ابھی بھی آپ سے اور آپ کی ترقی سے جلنے والوں کے البمز کی زینت
ہیں۔ جنہیں وہ وقتاََ فوقتاََ نکال کے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے رہتے ہیں۔
نوٹ:-اس کالم میں جاوید چوہدری صاحب کا نام نکال کے کچھ اور بڑے نام لکھ
دیں تو بھی کالم کے تسلسل میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ |