بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(3دسمبر خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر ایک تحریر)
اﷲ تعالٰی نے کوئی چیز بھی بے مقصد پیدا نہیں کی۔اس کائنات میں ایک ذرے سے
لے کر،پودے پتے،جھاڑ جھنکار اور ریت کے ذروں سے لے کر پہاڑ،چٹانیں،غاریں
اور دریا اور سمندر تک بے شمار مخلوقات ہیں اور کتنی ہی مخلوقات ہیں جو ان
دریاؤں اور سمندروں کے اندر اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی ہیں ،اور کتنی ہی
مخلوقات ہیں جوپہاڑوں کے درمیان وادیوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں اور
پتھروں کے اندر اور درختوں کی جڑوں سے چمٹے ہوئے اس دنیا میں موجود ہیں اور
نہ جانے کہاں کہاں اور کیسے کیسے اور کس کس طرح کی مخلوقات جو ہنوزانسانی
مشاہدے میں نہیں آسکیں اﷲ تعالٰی کی خلاقی کا پتہ دیتی ہیں ۔لیکن یہ سب
قطعاََ بھی بے مقصد نہیں،اتفاقََانہیں اور نہ ہی الل ٹپ ہیں بلکہ اﷲ تعالٰی
نے یہ سب ایک نظام کے تحت ،ایک منصوبے کے مطابق اور ایک منزل کے تعین کے
ساتھ تخلیق فرمایا ہے۔ان ساری مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق حضرت انسان ہے
جسے اﷲ تعالٰی نے خود اشرف المخلوقات کہا ہے،اور اپنے دست قدرت سے تخلیق
کیا ہے اور اپنی مقرب ترین مخلوق ”ملائکہ“سے اس انسان کو سجدہ کروایا ہے
اور اس سجدے سے انکار کرنے والے کو راندہ درگاہ کیا ہے اور قرآن مجید میں
اﷲ تعالٰی کا ارشاد ہے ”ولقد کرمنا بنی آدم“کہ ہم نے بنی آدم کو عزت والا
بنایا ہے۔گویا اب جو بھی حضرت آدم کے قبیلے میں اورانکی نسل میں پیدا ہو گا
وہ اﷲ تعالٰی کے ہاں سے پیدائشی طور پر عزت والا بن کر آئے گا۔یہ انسان کے
لیے بہت بڑا اعزازہے کہ اسے خالق کائنات نے اپنے ہاں سے عزت والا بنا کر
بھیجا ہے۔
اسی انسان کے ہاں ایسے بچے بھی جنم لیتے ہیں جو بعض اوقات جسمانی یا ذہنی
طور پر معذورہوتے ہیں،لیکن حضرت آدم کی نسل سے ہونے کے باعث وہ اﷲ تعالٰی
کے ہاں سے حق عزت ساتھ لے کر آئے ہیں اور انسانی معاشرے میں معزز و محترم
ہیں کہ اس معاشرے کے خالق نے انہیں یہ حق عطاکیا ہے اور کوئی قانون،کوئی
تہذیب،کوئی معاشرت ،یا رویہ ان سے ان کا یہ حق چھین نہیں سکتا۔عربی زبان
میں”نفس“اسکو بھی کہتے ہیں جو سانس لے، چنانچہ قانون اسلام کے
ماہرین،فقہائے کرام انسان کو اس وقت سے ”نفس“ سمجھتے ہیں جب سے وہ ماں کے
پیٹ میں سانس لینا شروع کر دیتاہے اور قرآن نے ”نفس“کے قتل کوناجائز قرار
دیا ہے۔گویا اگر ماں کے پیٹ میں ہی بچے کی معذوری کی اطلاع ہو جائے تو بھی
اسکا قتل ناجائز ہے معذوربچے قدرت نے بے مقصد پیدا نہیں کیے ہیں،انکی
پیدائش کا کیا مقصد ہے ؟یہ انسانی دماغ کا امتحان ہے کہ وہ ان بچوں کا بغور
مشاہدہ کرے اور ان میں وہ جوہر قابل تلاش کرے جو قدرت نے ان میں چھپا رکھا
ہے۔قدرت کبھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتی وہ اگر کسی کوایک چیز سے محروم
کرتی ہے تو اسکا بہترین نعم البدل بھی عطا کرتی ہے،چنانچہ عام مشاہدے میں
یہ بات آئی ہے کہ معذورافراد بعض اوقات بہت بلا کے حافظے کے مالک ہوتے ہیں
،خاص طور پرنابینا افراد میں سے بعض کا حافظہ اس قدر قوی ہوتا ہے کہ دس سال
بعد بھی صرف ہاتھ ملانے سے پہچان لیتے ہیں کہ یہ کون صاحب ہیں کب ملے تھے
وغیرہ۔اسی طرح ہاتھوں سے معذور افراد بعض اوقات پاؤں سے اسطرح کے کام کر
لیتے ہیں اچھابھلاآدمی بھی ایسا نہ کر سکے۔
اس سب کے باوجود معذور افراد کو:
1۔حتی الامکان اعتماد نفسی دینا چاہیے اور ان میں سے اس احساس کو کم سے کم
کرنا چاہیے کہ وہ معذور ہیں۔
2۔ان سے اس طرح کا رویہ رکھنا چاہیے کہ جیسے وہ صحیح الاعضا والحواس ہیں۔
3۔ان کے کسی بھی کام میں معاونت سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ ان میں کسی قسم
کا احساس کمتری پیدا نہ ہو،سوائے مجبوری کے۔
4۔ان کی معاشرتی تربیت معاشرتی ومذہبی اقدار کے بالکل عین مطابق ہو تاکہ ان
میں ذہنی بالیدگی وقوع پزیر ہو سکے اور مسلسل ارتقا پزیر رہے۔
5۔معذور افراد کی اپنی مخصوص نفسےات ہوتی ہے،انکے قریبی رشتہ داروں کو اس
نفسیات سے آگاہ رہنا چاہیے اور اس کے مطابق ان سے برتاؤ کرنا چاہیے۔
6۔معذور افراد جس بات سے خوش ہوتے ہوں،جس کھانے کو پسند کرتے ہوں،جس ماحول
میں آسودگی محسوس کرتے ہوں اورجن افراد سے مطمئن رہتے ہوں ،غیرمحسوس طور پر
انہیں ان کے مزاج کے موافق عناصر فراہم کیے جانے چاہییں۔
7۔ناپسندیدگی اور چڑ جانے کارویہ اور بہت جلد غصہ اور بعض اوقات قابو سے
باہر ہوجانا مخصوص افراد کی نفسیات ایک کمزور پہلو ہوتا ہے،اکثر لوگ مزے
لینے کے لیے معذور افرادکو تنگ کرتے ہیں جس سے یہ افراداپنے ان منفی رویوں
میں مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخریہ رویے ان معذورافراد کی پہچان
بن جاتے ہیں۔اس طرح مخصوص افراد کو گویا انکی محرومیوں میں اندر تک
مزیددھکیل دیا جاتا ہے،جس سے اصلاح احوال کی منزل کی بجائے بگاڑکا گڑھاقریب
آلگتاہے۔
8۔علم نفسیات نے معذورافراد کو بہتر بنانے کے لیے کئی طریقے دریافت کیے
ہیں،یہ طریقے سالہا سال کی طویل مشق کے بعد اور کئی کئی مخصوص افراد پر
تجربوں کے بعد دریافت کیے گئے ہیں،ان طریقوں کا استعمال بہتری کی طرف ایک
مثبت قدم ہو سکتا ہے۔
9۔فن طب میں بہت ساری دوائیاں بھی ان مقاصد کے لیے تیار کر رکھی ہیں،جو
معذورافراد کو عام حالات میں یا کسی خاص حالات میں دینے سے انکوافاقہ ہوتا
ہے ۔
10۔بعض مخصوص افرادبس گوشت کا ایک لوتھ ہی ہوتے ہیں جو بہت بڑے ہو جانے کے
باوجود بھی اپنی ضروریات تک سے آگاہ نہیں ہوپاتے ،یہ اگرچہ معاشرے پر ایک
مستقل بوجھ ہیں اور والدین کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتے ہیں لیکن نہ جانے جس
گھر میں یہ موجود ہوتے ہیں وہاں سے کون کون سی آفتیں محض انہی کی وجہ سے ٹل
جاتی ہیں اور نہ جانے کن کن ان جانے اسباب سے محض انہی کی خاطرگھر والوں کے
لیے رزق کے دروازے کھل جاتے ہیں۔اﷲ تعالٰی کے ہاں مایوسی کو کفر سے ملایا
گیا ہے پس کبھی اور کسی بھی حال میں مایوس نہیں ہونا چاہیے،اور پھر کیا سب
معاملات اسی دنیا میں ختم ہوجانے ہیں؟؟نہ معلوم ایک معذور بچے کی پرورش کے
عوض اﷲ تعالٰی کے ہاں کتنا ہی ڈھیرسارااجر لکھاجائے۔
یہ کام اگرچہ محنت طلب اور طویل دورانیے پر مبنی ہے،اور یقیناََ کامیابی کے
امکانات بھی بعض اوقات بہت روشن نہیں ہوتے لیکن اس کے علاوہ اسکا حل ہی کیا
ہے؟وہ بچہ جیسا کیسا بھی ہے بہرحال انسان کا بچہ ہے،ایک جانور بھی اپنے بچے
کا کس قدر خیال کرتا ہے۔والدین کو چاہیے کہ اس طرح کے بچوں کو چھوٹی عمر
میں ہی ایسے اسباق پڑھائیں جو زبانی یاد رکھے جانے کے قابل ہوں،انہیں ایسا
کام سکھلا دیں کہ وہ کم از کم معاشی طور پر کسی کے کے محتاج نہ ہوں اورسب
سے بڑی بات یہ کہ انکے ذہن میں مسلمان ہونے کا تصور ضرور ڈالیں۔حکومت کو
چاہیے کہ ایسے مخصوص افراد کے مشاہیر مقرر کرے جو انکی نگہداشت کرنے والوں
کو ادا کیے جائیں تاکہ سرپرست افراد کی حوصلہ افزائی ہوسکے۔حکومت ایسے
ادارے بھی بنائے جہاں ان بچوں کو کچھ دیر کے لیے یا زیادہ دیر کے لیے
رکھاجاسکے تاکہ انکے ذمہ داران اپنی دیگر ذمہ داریاں بحسن و خوبی ادا کر
سکیں اور جن بچوں میں سمجھنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے حکومت ان کے لیے
تعلیمی ادارے بھی قائم کرے تاکہ انہیں معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جا
سکے۔اور سرکاری سرپرستی میں تحقیق کے دروازے کھولے جائیں جس کے نتیجے میں
معذور بچوں کی پیدائش کو کم سے کم کیاجاسکے اور عوام میں ان تحقیقی نتائج
کی اشاعت کا اہتمام بھی کیا جائے۔
ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے جس کی طرف حکومت،مخیرحضرات اور غیرسرکاری
تنظیموں کی توجہ کی اشدضرورت ہے کہ وطن عزیزمیں بعض مقامات پر پورے کے پورے
قبائل ہیں جو کئی نسلوں سے کسی خاص معذوری کا شکار چلے آ رہے ہیں لیکن غربت
اور جہالت کے باعث وہ اسکے اسباب اوربچنے کے طریقوں سے ناواقف ہیں۔ان کا
کھوج لگانا،ان پر طبی تحقیق کرنا،مستندنتائج حاصل کرنا اور پھر ان میں جو
حکومت اور معاشرے کے کرنے کے کام ہیں وہ انکے ذمے لگانا اور جو متاثرہ
خاندانوں کے کرنے کے کام ہیں اس سے انکو آگاہ کرنا ایک قابل قدر انسانی
خدمت ہوگی اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کی ضامن ہو گی۔والدین اور معاشرہ
ایسے افراد کی پرورش اور نگہداشت کے ذمہ دار ہیں اور جہاں کہیں ضرورت پڑے
وہاں ریاست بھی اپنے فرائض سرانجام دے گی لیکن ریاست اس معاملے صرف مالی و
تکنیکی معاونت ہی فراہم کرسکتی ہے جبکہ اول و آخر ان افراد کی نگہداشت
معاشرے اور والدین کو ہی سرانجام دینی ہے۔ |