پچیس اور چھبیس نومبر کی رات کو
ہونے والا واقعہ نہ تو پہلا تھااور نہ ہی غیر متوقع اس سے پہلے بھی امریکہ
کئی بار یہ حرکت کر چکا ہے۔ دس جون 2008کو گورا پرئی پر فضائی حملہ کیا
گیا،تین ستمبر2008کو انگوراڈا، اسی سال اکیس ستمبر کو لوڑہ منڈی ، پچیس
ستمبر کوتنئی میں فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزیاں کی گئی اور ایک دفعہ
پھر اسی سال پندرہ ستمبر کو امریکی فوجیوں نے پاکستان میں داخل ہونے کوشش
کی جس پر ایف سی کے جوانوں کی امریکی فوجیوں سے جھڑپ بھی ہوئی۔2011میں
سلالہ چیک پوسٹ حملے سے پہلے سترہ مئی کو دتہ خیل میں بھی ایک جھڑپ ہوئی۔
موجودہ حملے سے پہلے ان حملوں میں 72شہادتیں ہو چکی ہیں اور چوبیس مزید
شہادتیں اس تازہ واقعہ میں ہوئیں اوریہ اب تک ہونے والا سب سے سنگیں واقعہ
تھا۔اگرچہ ڈرون حملے اور ان حملوں میں شہادتیں اور ہلاکتیں ایک معمول ہے
مگر ان حملوں کے لیے تو امریکہ کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ و ہ دہشت گردوں کے
خلاف ہیں لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے لیے وہ کہتا ہے کہ یہ حملہ غلط
فہمی کی بنیاد پر ہواجب کہ سچ یہ ہے کہ سلالہ چیک پوسٹ پر پاکستانی پرچم
لہرا لہرا کر امریکہ کو بتا رہا تھا کہ یہا ںپاکستانی فوجی موجود ہیں دہشت
گرد نہیںاور حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ پہلے سے یہ سب جانتا تھا اور اس نے
جان بوجھ کر یہ حملہ کیا تھااور اس کا خیال تھا کہ ہمیشہ کی طرح پاکستان اس
واقعہ پر بھی صبر کے ساتھ خاموشی اختیار کر لے گاکہ جہاں اس کے پانچ ہزار
دیگر فوجی شہید ہوئے وہاں یہ چوبیس اور بھی سہی ۔دہشت گردی کی جنگ کی نذر
ہو کر شہید ہونے والے بھی تو امریکہ کے لیے ہی مارے گئے سو اب کے فوجی اگر
براہ راست امریکیوں کے ہاتھوں شہید ہو جائیں تو بھی کوئی بات نہیں لیکن
امریکہ کی توقعات کے خلاف پاکستانی اس بار برداشت نہ کر سکے اور چیخ اٹھے
عوام بھی اور حکومت بھی۔حکومت کو یا توخود احساس ہوا یا عوامی احتجاج کے
سامنے مجبور ہو کر بہرحال جو بھی ہے اس نے امریکی اقدام کے خلاف معقول رویہ
اختیار کیا ۔یوں تو پاک امریکہ تعلقات ریمنڈ ڈیوس کی دہشت گردی کے بعدکئی
بار بھنور میں آئے اور ان میں کافی سردمہری رہی، پھر دو مئی کے واقعے نے
اسے مزید جھٹکا لگایا لیکن اب کی بار تو براہ راست پاکستان کی سرحدوں کے
اندر پاک فوج کے خلاف کاروائی کی گئی جو ایک کھلی جنگ میں ہی ممکن ہوتی ہے
اگرچہ اس سے پہلے بھی امریکہ کے لیے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ہے کہ وہ
پاکستانی سرحدوں کے اندرکاروائی کرے۔ وزیرستان پاکستان کا ہی حصہ ہے جہاں
اس کے ڈرون دندناتے پھرتے ہیں اور حتیٰ کہ اڑتے بھی پاکستان کے اندر سے ہیں
کم از کم حالات وواقعات یہی بتاتے ہیں اور امریکہ کا بھی شروع سے یہی کہنا
تھا ۔چاہے ہماری حکومت نے اس کی ہر بار تردید کی لیکن آخر اب کی بار اس نے
ان ایئر بیسوں کااعتراف کر ہی لیا ۔جو اقدامات حکومت پاکستان اب اٹھا رہی
ہے پہلے ہی اس کی ہمت کر لیتی تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہی نا ۔اب خرابئی
بسیار کے بعد بھی اگر کچھ کرنے کی ابتدا کر ہی لی گئی ہے تو بھی شاید باقی
کی بچت ہو جائے۔اگرچہ امریکہ اپنی دھونس کی عادت کے مطابق اب بھی کسی قسم
کی معذرت سے انکار کر رہا ہے لیکن اب اگر معذرت کی بھی جائے تو بات معذرت
سے آگے جا چکی ہے جبکہ وہ اب بھی حالات کی ذمہ داری پاکستان پرڈالنے پر مصر
ہے ۔سینٹر جان کیری نے بون کانفرنس میں پاکستان کے شرکت سے انکار پر کہا کہ
پاکستان کے بائیکاٹ کا مطلب یہ ہے کہ وہ علاقے میں حالات کی بہتری کے بارے
میں سنجیدہ نہیں ہے خودامریکہ کی طرف سے کبھی اس حملے کو نیٹو کی جانب سے
قرار دیا جا رہا ہے اور کبھی بھول۔ چاہے جو بھی تھا یہ ایک کھلی جارحیت تھی
امریکی فوجیوں کو اگر یہ نہیں معلوم کہ کہاں افغانستان کی حدود ختم ہوتی
ہیں اور کہاں پاکستانی حدود شروع تو دنیا کا جدید ترین نظام رکھنے والی اس
فوج کو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بھی ترقی دینی چاہیئے جس کا پول کئی بار
کھل چکا ہے کم از کم افغانستان کے بارے میں امریکی دعویٰ محض ایک دعوے سے
بڑھ کر کچھ نہیں ۔امریکہ کو افغانستان سے جانا ہے اور وہ اپنی ناکامیوں کے
لیے بہت سی توجیہات تلاش کر رہا ہے اورمزیدکرے گا ۔ پاکستان بد قسمتی سے
امریکہ کا مدد گار رہا ہے لیکن مزید کسی بھی قسم کی مدد جرم سے بڑھ کر گناہ
کے زمرے میں شامل ہو جائے گی۔ حکومت نے اس حملے کے بعد بہتر قومی رویہ
دکھایا ہے لیکن عوام اب بھی خوف زدہ ہیں کہ وہ کہیں پھر پہلے کی طرح بہت
جلد یا کچھ ہی عرصے کے بعداپنے اقدامات سے نہ پھر جائے اگر ایسا ہوا تو
شاید عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے ۔ایک طبقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ
ان تعلقات کے لیے فوج ذمہ دار ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ فوج حکومت کے
تابع ہے بون کانفرنس اور شمسی ایئر بیس کا فیصلہ اگر حکومت نے کر لیا ہے
توفوج اس سے رو گردانی نہیں کر سکتی ۔دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم
کو بھی اس بار اعتراف کرنا پڑا کہ پاک امریکہ تعلقات کی نوعیت پر انہیں
کوئی عزت نہیں مل رہی اور یہ سچ بھی ہے کہ ملک میں امن وامان کی صورت حال
کی ذمہ داری تمام تر دہشت گردی کی جنگ پرہے جو ساری دنیا جانتی ہے کہ
خالصتاامریکی جنگ ہے جس نے ہماری صنعت ،معیشت،مواصلات ،تعلیم غر ض ہر شعبے
کو متاثر کیا ہے جو پیسہ یہاں لگنا چاہیئے تھا وہ امن وامان قائم رکھنے پر
صرف ہو رہا ہے، نہ بیرونی سرمایہ دار یہا ں آنے پر تیار ہیں اور نہ ہی اپنے
سرمایہ کاری کرنے پر ۔ہم جانتے ہیں کہ ایک پر زور اور مستقل موقف اپنانے پر
ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اگرعوام اس کا مطالبہ کر رہے
ہیں تو یقینا وہ حالات برداشت کر نے کے لیے بھی تیار ہیںبس حکومت اپنے موقف
پر قائم رہے اوربجائے صرف چند وقتی اقدامات پر اکتفا کرنے کے اصل جڑ پکڑنے
کی کوشش کرے ۔کسی بھی امریکی عہدے دار کی آمد پرصدر اور وزیراعظم سے لے کر
بے شمار استقبالی اہلکاروں کی قطار کو عہدے دار کی حیثیت کے مطابق چھوٹا
کیا جائے بلکہ ختم ہی کیاجائے ۔ صرف شمسی نہیں تمام ایئر بیس خالی کروائے
جائیں اوران کے کنٹینرز کوبحری جہازوںسے اتارا نے ہی نہ دیا جائے پھر
امریکہ افغان جنگ کی شدت کو خود دیکھے گا ۔اگر پاک افغان سرحد پر بسنے والے
قبائیلیوں کو ہی اس سرحد کی حفاظت کی ذمہ داریاں دے دی جائیں کیونکہ بقول
قائداعظم یہ قبائلی ہماری تھرڈ لائن فورس ہیں پھر دیکھئے کہ امریکہ کیسے
اور کس حد تک اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔اس وقت جس طرح فوج
نے امریکہ اور نیٹو سے اپنے تعلقات مکمل منقطع کیے ہوئے ہیں یہاں تک کہ
دونوں فوجوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے تک موقوف ہوچکے ہیںان اقدامات کو
جاری رہنا چاہئیے حکومت کے اب تک کے اقدامات بھی کافی حد تک عوامی توقعات
کے مطابق ہیں۔ عوام اس وقت یہی توقع کر رہے ہیں کہ حکومت اور فوج اپنے
فیصلوں پر قائم رہیں گے اور پاکستان کی تقدیر کو پاکستان کے عوام کے ساتھ
منسلک کریں گے نہ کہ امریکہ جیسے خود غرض اور خود پسند ملک کے ساتھ۔ |