ڈاکٹر راغب السرجاني
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
بیعتِ عقبہ ثانیہ مکمل ہوئی، مدینہ کے اندرانصار کی ایک معتدّ بہ تعداد
تیّار ہوگئی، انصار نے یہ اعلان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم
کا استقبال کریں گے، اور ان کی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنے بچوں،
اپنی عورتوں اور اپنے مال کی کرتے ہیں ۔۔۔ یہ تمام باتیں انتہائی مختصر وقت
میں پوری ہوئیں، ان تمام بڑے معاملات کے طئے ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلّیٰ
اللہ علیہ وسلّم کے پاس وحی آئی اور یہ اجازت دی گئی کہ اب صحابہٴ کرام کے
لئے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا دروازہ کھل گیا ہے۔
جو بھی ہجرت کر سکتا ہو وہ ہجرت کر جائے، بلکہ ہجرت کرنا اب ضروری ہے۔
کمزور، طاقتور.. فقیر، مالدار.. مرد، عورت..آزاد اور غلام سب کے لئے یہ
یکساں حکم ہے۔
سب پر واجب ہے کہ اب مدینہ کا رخ کریں۔۔۔ ایک زبردست منصوبہ ہے جس کا نفاذ
مدینہ کی سرزمین پر ہونا ہے۔۔۔ یہ ایسا منصوبہ ہے جس کے لئے تمام مسلمانوں
کی قوّت مطلوب ہے ۔۔۔ یہ منصوبہ ہے امّتِ مسلمہ کی اقامت کا، اور کسی بھی
مسلم کو اس بات کی اجازت نہ ہوگی کہ اس عظیم عمارت کی تعمیر میں پیچھے رہے۔
ہجرت سے متعلق قرآنی آیات پر ایک نظر :
{إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ
قَالُواْ فِيمَ كُنتُمْ قَالُواْ كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الأَرْضِ
قَالْوَاْ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُواْ فِيهَا
فَأُوْلَـئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءتْ مَصِيرًا * إِلاَّ
الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ لاَ
يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلاَ يَهْتَدُونَ سَبِيلاً * فَأُوْلَـئِكَ عَسَى
اللّهُ أَن يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللّهُ عَفُوًّا غَفُورًا * وَمَن
يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللّهِ يَجِدْ فِي الأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا
وَسَعَةً وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللّهِ وَرَسُولِهِ
ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلى اللّهِ وَكَانَ
اللّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا} [النساء: 97- 100]. ﴿جو لوگ اپنے نفس پر ظلم کر
رہے تھے اُن کی روحیں جب فرشتوں نے قبض کیں تو ان سے پوچھا کہ یہ تم کس حال
میں مبتلا تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم زمین میں کمزور و مجبور تھے فرشتوں
نے کہا، کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ
ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے ، ہاں جو مرد، عورتیں
اور بچے واقعی بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے،بعید
نہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور درگزر فرمانے
والا ہے ،جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے
لیے بہت جگہ اوربسر اوقات کے لیے بڑی گنجائش پائے گا، اور جو اپنے گھر سے
اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کے لیے نکلے، پھر راستہ ہی میں اُسے موت آ جائے
اُس کا اجر اللہ کے ذمے واجب ہو گیا، اللہ بہت بخشش فرمانے والا اور رحیم
ہے،﴾
ہجرت کوئی سہل اور آسان کام نہ تھا۔ ہجرت کا مطلب یہ بھی نہ تھا کہ ایک شہر
کو چھوڑ کر اس سے بہتر حالات یا بہتر معاشی امکانات والی جگہ منتقل ہونا
ہے، ﴿یہ اچھی تنخواہ والی ملازمت کے لئے معاہدہ بھی نہ تھا۔﴾ ۔۔۔ ہجرت کا
مطلب تھا اپنے گھروں کو چھوڑنا ۔۔۔ مال کو چھوڑنا ۔۔۔۔ کاروبار کو چھوڑنا
۔۔۔ پرانی یادوں کو بھلا دینا ۔۔۔ یہ ایک سفر تھا مجہول حالات کی طرف ۔۔۔
ایک ایسی نئی زندگی کی طرف جو لازماً پُر مشقّت تھی ۔۔۔ انتہائی پُر مشقّت
۔۔۔۔ ہجرت کا مطلب تھا ایک ہولناک جنگ کی تیّاری ۔۔۔ جزیرہٴ عرب کے تمام
مشرکین کے خلاف ایک ہمہ گیر جنگ۔۔۔ بلکہ ساری دنیا کے خلاف جنگ ۔۔۔ اس جنگ
کی ہولناکی کا نقشہ کھینچتے ہوئے بزرگ صحابی حضرت عبّاس بن عبادہ رضی اللہ
عنہ نے کہا : یہ سارے انسانوں، کالے اور گورے انسانوں کے خلاف جنگ کی
تیّاری تھی۔
یہ ہے ہجرت ۔۔۔ یہ فرار نہیں ہے، دامن بچانا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عظیم دن
یا عظیم معرکوں کی تیّاری ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے
مہاجرین کے لئے بے پناہ اجر کا وعدہ کیا {وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي
سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ
رِزْقًا حَسَنًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ *
لَيُدْخِلَنَّهُم مُّدْخَلاً يَرْضَوْنَهُ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ
حَلِيمٌ} [الحج: 58، 59] ﴿ اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی، پھر
قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھّا رزق دے گا اور یقیناً اللہ ہی
بہترین رازق ہے، وہ انہیں ایسی جگہ پہنچائے گاجس سے وہ خوش ہو جائیں گے بے
شک اللہ علیم اور حلیم ہے ﴾
تمام مسلمانوں کے لئے یہ حکمِ نبوی ہوا کہ جو بھی ہجرت کر سکتے ہوں وہ ہجرت
کر جائیں ۔۔۔ لیکن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس وقت ہجرت کی جب
تمام لوگ مدینے کی طرف نکل گئے ۔۔۔ آپ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کا ارادہ یہ
نہ تھا کہ اپنے آپ کو بچا لے جائیں، اپنے حالات پُر امن بنا لیں، یا اپنے
مال کی حفاظت کر لیں بلکہ آپ کی پوری چاہت یہ تھی کہ مہاجر مسلمانوں کے
حالات کے سلسلہ میں آپ کو اطمینان ہو جائے۔ آپ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم اس
ملّاح کی طرح معاملات کو انجام دے رہے تھے جو اپنی کشتی سے اسی وقت نکلتا
ہے جب تمام سواروں کے بارے میں اسے یہ اطمینان ہو جائے کہ سب محفوظ ہیں ۔۔
ان کے نزدیک قیادت آرام اور عیش کا نام نہ تھا بلکہ یہ ذمہ داری، قربانی
اور امانت تھی۔
ہجرتِ مدینہ کے بعض نقوش
﴿1﴾صدقِ نیّت کا اہتمام ۔۔ ہجرت کیوں کریں؟
روى البخاري عن عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ـ رضي الله عنه ـ أن رَسُولَ
اللَّهِ قال: "إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ
امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ
فَهِجْرَتُهُ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ، وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ لدُنْيَا
يُصِيبُهَا أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا
هَاجَرَ إِلَيْهِ". ﴿بخاری کی روایت ہے عمر بن خطّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
کہتے ہیں رسول اللہ صلیّٰ اللہ علیہ وسلمّ نے فرمایا:"اعمال کا دار و مدار
نیّت پر ہے۔ ہر شخص کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے وہ ہجرت کرتاہے۔ جس کی
ہجرت اللہ اور رسول کی طرف ہوتی ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لئےہے
اور جس کی ہجرت دنیا پانے کے لئے ہوتی ہے یا کسی عورت سے نکاح کے مقصد سے
ہوتی ہے تو اس کی ہجرت اُسی چیز کی طرف ہے جس کی طرف وہ ہجرت کرتا ہے۔
مسلمان اگر شادی کے لئے ہجرت کرے تو یہ حرام نہیں ہے، دنیا کمانے کے لئے
بھی ہجرت کرنا حلال ہے حرام نہیں لیکن ہجرت کی ان اقسام کا وہ مقام نہیں ہو
سکتا جو امتِ مسلمہ کی عمارت کی تعمیر کے لئے کی جانے والی ہجرت کا ہے۔
ایک شخص صرف اپنی زندگی کے لئے جیتا ہے، اس کی زندگی گو کہ حلال ہوتی ہے پر
کتنا فاصلہ ہے اُس کی زندگی اور اس زندگی میں کہ کوئی اپنا سب کچھ اللہ کی
رضا ، امتِ مسلمہ کی نشوو نما اور روئے زمین پر اللہ کے قانون کے نفاذ کے
لئے چھوڑ دے!!
﴿2﴾ تمام مسلمانوں کی ہجرت اسی وقت ہوئی جب مکہ میں دعوت کا دروازہ مکمّل
بند ہو گیا ۔۔ ابو طالب اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی وفات کے بعد ۔۔۔
دعوت کا دروازہ تین سالوں تک بند رہا۔۔۔ اس وقت سے رسول اللہ صلّی اللہ
علیہ وسلّم ہجرت کی تیّاری کر رہے تھے۔ رسول صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم نے جن
وفود کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تھی ان میں سے کوئی وفد اگر اسلام قبول
کر لیتا جیسے بنی شیبان، بنی حنیفہ یا بنی عامر تو اس بات کا بھی امکان تھا
کہ دار الہجرت مدینہ کے علاوہ کوئی اور جگہ ہوتی۔ لیکن اللہ کی مشیئت یہ
ہوئی کہ ہجرت مدینہ منوّرہ کی طرف ہو۔
ہجرت کی جگہ اہم نہیں ہے بلکہ اس بات پر غور کرنا زیادہ اہم ہے کہ ہجرت
مکّہ میں دعوت کے کام کے بجائے گوشہٴ عافیت کی تلاش نہ تھی یا مکّہ کے منظر
نامہ سے کارِ دعوت کا خاتمہ بھی نہ تھا ۔۔۔ مکہ میں دعوت کا کام اول روز سے
مشکل تھا لیکن تمام مسلمانوں نے اُسی وقت یہ شہر چھوڑا جب دعوت کے تمام
دروازے بند ہو گئے ۔۔۔ اگر دعوت کے امکانات باقی ہوتے ۔۔۔ گرچہ اس میں ہزار
دشواریاں سہی۔۔۔ تو اس شگاف کی حفاظت کے لئے جس کو بندہٴ مومن اپنی ذمہ
داری سمجھتا ہے، وہاں قیام کرنا ہی بہتر ہوتا۔
﴿3﴾یہ ہجرت حبشہ کی ہجرت، یا بعض انفرادی ہجرتوں کے برعکس میں تمام
مسلمانوں کی ہجرت تھی۔۔ وجہ یہ ہے کہ مقامِ ہجرت اور اس کے حالات حبشہ سے
مختلف تھے۔ ہجرتِ حبشہ کا مقصود یہ تھا کہ اگر مکّہ میں مسلمانوں کو نسل
کشی کا سامنا ہو تو اسلام کو بیخ و بن سے نہ اکھاڑ پھینکا جائے، اس کے لئے
یہ ایک محفوظ مقام میں جا کر اپنی جانوں کو تحفّظ فراہم کرنا تھا۔ ہجرتِ
حبشہ کا مقصد حبشہ میں اسلامی حکومت کا قیام نہ تھا بلکہ مسلمان ایک عدل
پرور بادشاہ کے پاس پناہ گزین تھے۔ البتّہ ہجرتِ مدینہ کا مقصد ایک ایسی
اسلامی ریاست کا قیام تھا جس کا بنیادی مرکز مدینہ ہو۔
اقامتِ دین کے لئے حبشہ کے بجائے مدینہ ہی کیوں؟
اس کی وجہ مکّہ سے دوری، لسانی اختلاف، یا تہذیبی اختلاف نہ تھی، یہ عوامل
یقیناً اہم ہیں لیکن ۔۔۔ میرے خیال میں۔۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ حبشہ میں
سارا انحصار ایک فرد نجاشی ۔۔۔ وہ عدل پرور بادشاہ جس کے پاس کسی پر ظلم نہ
ہوتا تھا۔۔۔ پر تھا۔ اگر اس فرد کا انتقال ہو جاتا یا وہ سلطنت سے بےدخل کر
دیا جاتا تو اس بات کا بہت امکان تھا کہ مسلمان بڑے خطرات میں پڑ جاتے۔
ایسا ہوا بھی کہ ان کے درمیان خانہ جنگی ہوئی جس میں نجاشی اپنے اقتدار سے
محروم ہونے کےقریب تھا۔ اس کے لئے ایک ہی راستہ بچا کہ اس نے رازداری کے
ساتھ اپنے پاس مقیم مہاجر مسلمانوں کے نکلنے کے لئے راستہ فراہم کیا۔ اس کے
بس میں اس کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ۔۔ یہ حبشہ کی صورتِ حال تھی۔ البتہ مدینہ
منورہ کی صورتِ حال اس سے مختلف تھی۔یہاں ہجرت کا انحصار کسی فردِ واحد پر
نہ تھا بلکہ مدینہ کے قبائل پر تھا۔ ۔۔ مدینہ کی عمومی فضا اسلام کے لئے
سازگار تھی، وہاں لوگ اسلام کے چاہنے والے تھے یا کم ازکم اسلامی فکر کو
قبول کرنے کے لئے تیّار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ کی ہجرت مکمل اجتماعی
ہجرت تھی۔
﴿4﴾ ہجرت افراتفری کی سرگرمی نہ تھی بلکہ قیادت کے حکم سے ایک مخصوص مکان
کی طرف پیش قدمی تھی۔ اس چیز نے ہجرت کے سفراور اقامتِ امّت کی سرگرمی کو
کامیاب کیا۔ اگر صورتِ حال یہ ہوتی کہ فلاں شخص فلاں جگہ چلا جائے، کوئی
اور کسی اور جگہ چلا جائے ۔۔۔ مسلمان مختلف جگہوں پر پھیل جائیں۔ تو ایسی
صورت میں ہو سکتا ہے کہ عارضی تحفّظ حاصل ہو جاتا لیکن اس سے اقامتِ امّت
کا کام نہیں ہو سکتا تھا۔ جو مسلمان کسی بھی ظلم سے اپنے دین کو بچانے کے
لئے بھاگتے ہیں انہیں اس معاملہ کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے۔
مدینہ کی طرف ہجرتِ نبوی ایک منظّم اور منصوبہ بند عمل تھا، صبر، حکمت،
سیاسی بصیرت، اور غوروفکر کے بعد اس کی پوری تیّاری کی گئی تھی۔ غیر منظّم
سرگرمی اسلامی انقلاب کا راستہ نہیں ہے۔
﴿5﴾ اس کامیاب ہجرت کے ساتھ ہی سیرتِ نبوی کا ایک اہم مرحلہ، بلکہ انتہائی
اہم مرحلہ یعنی مکّی زندگی کا مرحلہ پورا ہوتا ہے ۔۔۔ یہ مرحلہ ہر طرح کی
تکلیف دہ واقعات، مصائب اور مشکلات کا مرحلہ تھا۔
اس مرحلہ کا ایک مخصوص رنگ ہے ۔۔۔۔ اجنبیّت کے عالم میں اسلام کی ابتداء
ہوئی، اس کے آخری مرحلہ کے قریب تک اسی اجنبیت کے عالم میں اس کا سفر جاری
رہا یہاں تک کہ انصار نے ایمان قبول کیا رضی اللہ عنھم و رضی اللہ عن
المہاجرین و عن صحابة رسول اللہ ٲجمعین۔
اس مرحلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے صحابہ کے عقائد کو سنوارنے
کا بھر پور اہتمام کیا ۔۔۔۔ اللہ کی ذات پر ایمان میں پختگی ۔۔۔ صرف اور
صرف اسی کی عبادت ۔۔۔۔ اس کے حکم کے خلاف کوئی بات نہ مانیں ۔۔۔۔ اللہ پر
توکّل اور انابت الیٰ اللہ کی صفت سے متّصف ہوں۔۔۔ وہ اس کے عذاب سے خوف
زدہ اوراس کی رحمت کے امّید وار رہیں۔
ربّ العالمین پر گہرا ایمان ۔۔۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے
انبیاء و مرسلین پر ایمان ۔۔۔ یہ پختہ یقین کہ ایک دن تمام مخلوق اٹھائی
جائے گی ۔۔۔ لوگ ربّ العالمین کے سامنے پیش ہوں گے ، اور ان کے کاموں کا
محاسبہ ہوگا۔ اُس دن کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا ۔۔۔ کوئی ذرہ اور معمولی سے
معمولی چیز بھی فراموش نہ کی جائے گے ۔۔۔ یہ حشر اور پھر ہمیشگی کی جنّت یا
ہمیشگی کی جہنّم۔
راسخ عقدہ کے ساتھ ساتھ اس مرحلہ میں مسلمانوں نے پاکیزہ اخلاق اور بلند
کردار کا درس لیا ۔۔۔ اپنے نفس کو آراستہ کیا ۔۔۔ ان کی روح نے بلندی کی
منزلیں طئے کیں۔۔۔ وہ زمینی قدروں، زمینی اخلاق، اور زمینی مزاج سے انتہائی
بلند ہو گئے ۔۔۔ آسمانی قدریں، آسمانی اخلاق، اور آسمانی طبعیت ان کے وجود
کا لازمہ بنیں۔ ان کے سامنے وہ میزانِ حق تھا جس کے ذریعہ لوگ اپنے اعمال
کی عمارت صحیح بنیادوں پر کھڑی کر سکتے ہیں۔
اس مرحلہ میں مومنین کو یہ معلوم ہوگیا کہ جنّت کا راستہ پرمشقّت اور مشکل
ہے ۔۔۔ آزمائشوں اور امتحانات سے یہ راستہ پُر ہے۔ ۔۔ ایک امتحان سے نکلتے
ہیں کہ دوسرا امتحان شروع ہو جاتا ہے ۔۔۔ پوری زندگی ایک جدّ وجہد ہے ۔۔۔
اور اللہ ان کے صبر، ان کی ثابت قدمی اور ان کے جہاد کی نگرانی کر رہا ہے
۔۔۔ کوئی بھی امتحان سے الگ نہیں ۔۔۔ انسان کی آزمائش تو اس کے دینی مرتبہ
کے اعتبار سے کی جاتی ہے۔
میرے بھائیوں- مکّی مرحلہ اسلام کی عظیم الشان عمارت میں مستحکم بنیاد کی
حیثیت رکھتاہے۔ اور مکّی مرحلہ طئے کئے بغیر یہ ناممکن تھا کہ مسلمان بدر،
احزاب، خیبر اور تبوک کی منزلوں کو سر کرتے۔
اسی طرح یہ بھی ناممکن تھا کہ مکّی زندگی کے تمام پہلؤوں کو جھیلے بغیر کسی
صالح امت کا قیام ہو سکتا، مستحکم ریاست قائم ہو سکتی، جہاد کی کامیاب
منزلیں طئے کی جاتیں یا حوصلہ شکن جنگوں میں ثابت قدمی کا مظاہرہ ہو سکتا۔
مخلص داعیوں کی ذمہ داری ہے کہ اس مرحلہ کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کریں، ہر
واقعہ پرخواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑاس پر غورو فکر کے ساتھ ڈیرے ڈالیں۔
یہ وہ ابتدائی مرحلہ ہے جو آنا ہی ہے ۔۔۔
مکّہ کے بغیر مدینہ کا حصول نہیں ہو سکتا تھا ۔۔
مہاجرین کے بغیر انصار نہ ہوتے ۔۔۔
ایمان ، اخلاق، صبر، آزمائشوں پر ثابت قدمی کے بغیر نہ امّت ہوتی، نہ
ریاست، نہ حکومت، نہ اقتدار۔۔۔
﴿6﴾ ہجرت ایک تاریخی واقعہ ہے، گوکہ اس واقعہ کو گزرے صدیوں ہو چکے ہیں
لیکن مہاجرین کی نسل کے بعد کوئی بھی نسل اس تاریخ کو دہرا نہیں سکی۔ بخاری
و مسلم نے ابن عبّاس رضی اللہ عنھما سے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی
حدیث نقل کی ہے : " فتحِ مکّہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں لیکن جہاد اور نیتِ
جہاد ہے"۔ ہاں بعد کے مسلمانوں کے لئے کارِ جہاں دراز کا راستہ کھلا ہے۔
اسی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں میدانِ جنگ کی
طرف کوچ کرنے کی دعوت دی جائے تو نکل پڑو"،اللہ کی راہ میں جہاد، جاں
نثاری، حرکت و عمل کبھی بھی دنیا میں ختم نہ ہوں گے۔ اور صحیح معنوں میں
خوش نصیب وہ ہے جو قول کے بجائے عمل کا راستہ اختیار کرے، دوسروں کے بجائے
اپنی ذات کو مرکزِ توجّہ بنائے، دنیا کے بجائے وہ آخرت پر مرنے والا ہو۔
﴿7﴾ ہجرت کا پہلا مرحلہ نافرمانیوں کو خیرباد کہنااور مشتبہ امور سے کنارہ
کشی ہے۔ اپنی خواہشات کا بندہ کبھی بھی دین کا سپاہی نہیں بن سکتا۔ اور
معروف یہ ہے کہ اضافی اعمال سے پہلے ترکِ معاصی لازمی ہے۔ انسان قیام نہ
کرے، نفل روزوں کا اہتمام نہ کرے، صدقہ نہ کرے تو ہوسکتا ہے کہ وہ معذور
سمجھا جائے لیکن اگر وہ معاصی کا ارتکاب کرے تو کسی بھی صورت میں اسے معذور
نہیں سمجھا جا سکتا۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ
صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کا فرمان نقل کیا ہے : "إِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ
شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا
اسْتَطَعْتُمْ" ﴿جب میں کسی چیز سے روکوں تو اس سے اجتناب کرو اور اگر کسی
بات کا حکم دوں تو طاقت بھر اس پر عمل کرو"۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلّم نے اپنے جوامعِ کلم میں مہاجر کی نہایت عمدہ تعریف کی ہے، احمد
نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے نقل کیا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا : "مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن سے اللہ
تعالیٰ نے روکا ہے". ٭٭٭٭٭ |