محرم کی دسویں تاریخ کو
”عاشورہ“ کہاجاتا ہے۔جس کا مطلب ہے ”دسواں دن“۔جب تلک مسلمانوں پر ماہ صیام
کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے اسوقت تک عاشورہ یعنی دس محرم کا روزہ مسلمانوں
پر فرض قرار دیا گیاتھا۔جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو پھر عاشورہ کے روزے
کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔مگر حسینؑ کے نانانے فرمایا”مجھے اللہ کی رحمت سے
اُمید ہے کہ جو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا۔تو اس کے پچھلے ایک سال کے
گناہ کا کفارہ ہو جائے گا“۔لیکن آپﷺ کی زندگی میں رمضان کی فرضیت کے بعد جب
بھی عاشورہ آیاتو آپ نے روزہ رکھا۔لیکن حیات مبارکہ کے آخری سال جب دس محرم
کا دن آیاتو آپ نے روزہ رکھا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اس دن یہودی بھی روزہ
رکھتے ہیں لہذا اگر اگلے سال میں زندہ رہا تو عاشورہ کے روزے کے ساتھ نو یا
گیارہ محرم کا روزہ شامل کروں گاتاکہ یہودیوں سے مشابہت کا خاتمہ
ہوجائے۔اگلے برس آپ ﷺ وصال فرما گئے اور اس بات پر عمل نہ کرسکے۔بعد میں
صحابہ اکرامؓواہل بیت نے عاشورہ کے ساتھ نو یا گیارہ کا روزہ ملا کر رکھا
اور اسے مستحب قرار دیا۔لیکن اگر کوئی شخص فقط عاشورہ کا روزہ رکھے تو اُسے
اس کا ثواب ملے گالیکن چونکہ آپﷺ نے دو روزے رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا
تھا اس لیئے بہتر یہ ہے کہ دو روزے رکھے جائیں۔
اور عاشورہ کی فضیلت سے بھرپور فائدہ اٹھایاجائے۔
قرآن کریم نے بھی اس ماہ کی حرمت کا اعلان کیا ہے۔مزید سیدالشہدا کی شہادت
سے قبل دس محرم کو تاریخ میں بھی مقدس مقام حاصل رہا۔دس محرم ہی کے دن حضرت
آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی‘حضرت موسیٰ اور انکی قوم کو فرعون سے نجات ملی(جس
کے شکرانے کے طور پر یہودی دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں)‘کشتیءنوح جودی
پہاڑپرٹھہری‘حضرت یونس ؑ مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے‘اسی دن حضرت یوسفؑ
کنوئیں سے باہر نکالے گئے‘اسی دن حضرت آدمؑ کی ولادت ہوئی اور اسی روز آدمؑ
کو آسمان پر اٹھایا گیا‘حضرت یعقوب کی بینائی واپس آئی ‘حضرت داﺅد ؑ کی
توبہ قبول ہوئی اور اسی دن حضرت ابراہیمؑ کی ولادت ہوئی(شارح بخاری‘علامہ
عینی)۔اسی روز حضرت آدم ؑ کونبوت کیلئے منتخب کیا گیا‘اسی روزحضرت ادریس
آسمان کی طرف اٹھائے گئے‘اسی روز حضرت ابراہیم کو خلیل بنایا گیا(نزہت
البساتین)اسی روز حضرت عیسی ؑ زندہ آسمانوں کی جانب اُٹھائے گئے۔اسی
روزحضرت ابراہیم کو آتش نمرود سے نجات ملی۔قصہءمختصر کائنات کے بیشتر بڑے
فیصلے اسی روز مقرر ہوئے ۔یہ دن بہت سی مقدس ہستیوں کے نام سے جاناجانے
لگا۔لیکن پھر کربلا نے 61ھ دس محرم کا دن دیکھا۔فاطمہؓ کا لال دس اکتوبر
680ءکو کربلا کی سرزمین پر شہید ہوگیا۔اور پھر دس محرم (عاشورہ)کی پہچان
یکسر بدل گئی ‘حضرت محمدﷺ کے نواسہ کی شہادت کے لمحہ سے لے کر آج تک یہ دن
سیدنامولاناالحسین ؑ کا دن ہے۔پانچوں براعظموں میں اس دن کی فضاسوگوار
ہوجاتی ہے‘آسمان پر لالی چھاجاتی ہے‘گلستان کا پتا پتا‘زمین کا ذرہ
ذرہ‘پرندوں کی چہچاہٹ ‘ہوا کی سرسراہٹ انسانوں کے چہرے الغرض ہرذی روح اور
بے جان شہ پر اداسی چھاجاتی ہے۔سال کے تین سو ساٹھ دنوں میں سے یہ ایک ایسا
دن ہے کہ غم کی انتہامعلوم ہوتاہے‘اور کائنات یک جان ہو کر اک درد کی بستی
بن کر رہ جاتی ہے۔ہر عقیدے ومذہب کا فرد اپنے اپنے انداز میں
سیدنامولاناالحسین ؑ کو خراج عقیدت پیش کرتاہے۔
اور یہ مقام و رتبہ سیدنا حسین ؑ کے حصے میں اس لیئے آیاکہ سیدنا حسینؑ نے
اس دن اسلام کے جداگانہ نظریے کا احاطہ کیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ سیدنا
حسینؑ نے کربلا میں ثابت کر دیا کہ حق کے سپاہی چاہے تعداد میں تھوڑے ہوں
‘چاہے ملک کا سربراہ خلافت کا دعوی کرتا ہو‘چاہے شمشیروسناں کی کمی ہو‘چاہے
نیزے بھالے‘اونٹ ‘خچر نہ ہوں‘چاہے تلواریں کم اوردشمن ہزاروں گنا زیادہ
ہو‘چاہے بچے بھوکے پیاسے ہوں ‘چاہے مجاہد وں کے پاس ترکش میں تیر‘پیٹ میں
روٹی اور حلق میں نمی تک نہ ہوں‘چاہے سارا خاندان قربان کرنا پڑے حق کی
خاطر ہا ں حق کی خاطر جبر کی قوتوں سے ٹکرا جاﺅ چاہے وہ کلمہ گو ہی کیوں نہ
ہوں ۔اور یہی حسینیتؑ ہے۔کیونکہ کوئی شخص کلمہ گو ‘حاجی نمازی اور زکوتہ کا
پابند ہونے کے باوجود بھی شدادونمروداور فرعونیت کے نظریے کا علمبردارس ہو
سکتاہے۔اسلام اس کے خلاف بھی ایکشن کی اتنی ہی افادیت بتلاتاہے جتنی کسی
کافر ‘مشرک کے خلاف جہاد کی۔باطل کی قوتیں چاہے جتنی بھی قوت پیدا کرلیں
بالاآخر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔حسینیتؑ پر عمل کرنے والے چاہے مٹھی بھر بھی
ہوں جیت انہی کے قدم چومتی ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج یزیدیت جاہلت کے
گھٹاٹوپ اندھیروں میں گم ہو چکی ہے لیکن حسینیت زندہ جاویدہے۔کسی نے خوب
کہا ہے
جب تک سورج چاند رہے گا
سیدنا حسینؑ تیرا نام رہے گا
امام عالی مقام تو جدوجہد ‘ایمان اور جہاد کی عملی شکل ہیں ۔انہی کی
قربانیوں کا ثمرہے کہ آج تن تنہا انسان بھی وقت کے فرعونوں کے سامنے ڈٹ
جاتاہے ۔آج کے تن تنہاشخص کو فرعونیت کے آگے ڈٹ جانے کا حوصلہ ‘ہمت ‘ولولہ
ہرگز نصیب نہ ہوتا اگر سیدنا حسینؑ اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی نہ
دیتے۔یہ عزم وہمت ذات سیدنا حسین میں ؑفیض محمدﷺ کا ہی سرچشمہ تھا۔جنت کے
سردار حضرت حسین ؑ کے متعلق حدیث مبارک کا مفہوم ہے:”حسینؑ مجھ سے ہے اور
میں حسین سے ہوں“۔کسی نے آپ کی عظمت کا خاکہ ان جامع الفاظ پر مشتمل اشعار
میں نہایت خوبصورتی سے کھینچاہے۔
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
سر داد نہ داد در دست یزید
حقاکہ بنائے لا الہ است حسین
لیکن کیا آج ہم(مسلمان) من حیث القوم وضع قطع‘چال ڈھال ‘اعمال‘اخلاق‘طرزعمل
وعبادات سے حسینیتؑ کا حق ادا کررہے ہیں؟۔کیا ہم ان کے دیئے ہوئے اس عظیم
فلسفے کو اپنی زندگیوں میں ڈھال رہے ہیں؟کیا ہم نے سیدناحسینؑ کی مانند
نظریہ ضرورت کو رد کردیاہے ؟نہیں ہرگزنہیں ۔تو پھر ہم کیونکر حسینیؑ ہونے
یا انکے پیروکارہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔جنرل ایوب‘جنرل یحی‘مشرف ‘صدام‘جمال
عبدالناصر‘حسنی مبارک(مصر)ک‘زین العابدین‘حبیب بورقیہ(تیونس)‘اور مسلم
ممالک کے تمام کٹھ پتلی حکمران نظریہ ضرورت ہی کے تحت تخت پر مسلسل قابض رہ
کر اسلامی دنیا کو نقصان پہنچاتے رہے۔اور پہنچارہے ہیں۔اسوقت مملکت پاکستان
میں مہمندایجنسی میں نیٹو حملے کے نتیجے میں اگر پاک فوج کے جوان شہید ہوئے
ہیں یا فلسطین میں مسلمان ظلم سہ رہے ہیں یا بوسنیاوفلپائن میں کسمپرسی کی
زندگی گزار رہے ہیں‘یا کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر ظلم وستم کو بازار گرم ہے
۔اس سب کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ ہم حسینیتؑ سے عملا انکار کرچکے ہیں۔اگر
مسلم ممالک کے باشندے آج بھی من حیث القوم حسینیت ؑ کے سچے پیروکار بن
جائیں اور پھر وہ بھوکے پیٹ ہوں یا ننگے پاﺅں دینا پر غالب آسکتے ہیں۔
آخرمیں اپنی قلمی بساط کی نااہلی کے اعتراف(کیونکہ چودہ صدیاں گزر گئیں
لوگوں کو سیدنامولاناالحسینؑ کی تعریف کرتے کرتے لیکن حق تو یہ ہے کہ حق
اداہی نہ ہوا) اور مسلم رہنماﺅں کے واسطے چند اشعار پیش خدمت ہیں
کیسے کروں بیان میں رُتبہ حسین ؑ کا
ناناﷺکے دین کے واسطے صدقہ حسین کا
غلبہ ہے آج پھر سے غاصب یزید کا
مقصود پھر ہے آج وہ جذبہ حسین ؑ کا
ظالم کے ظلم وجبر پر تڑپی تھی سرزمیں
رویا تھا کتنے درد سے کوچہ حسین کا
بچے بھی کٹ کے ہوگئے اس راہ پے شہید
تھا کس قدردلیر وہ کنبہ حسین کا
جاتا ہے لے کہ جانب منزل یہ نقش پا
کتنا حسیں ہے دیکھئے رستہ حسین کا
طاغوتی حکمرانی مٹانے کے واسطے
لانا پڑے گا پھر وہی لہجہ حسین کا
ہوکہ شہید کرگئے دین کو وہ جاویداں
رشتہ تھاکتنا دین سے پختہ حسین کا
دعوے تھے جانثاری کے یوں تو وہاں مگر
بس آستیں کا سانپ تھا کوفہ حسیں کا
قربانی کا درس ہے اس میں چھپا ہوا
کیجئے بیان ہر کہیں قصہ حسین کا |