تاریخ اسلام میں بارہا ایسے
مواقع آئے جب کہ اسلامی تشخص کے لیے جان و مال کی قربانی پیش کرنے کی ضرورت
ہوئی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ کبھی دین حق کے مقابل خارجی حملے رہے اور
کبھی داخلی۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ کلمہ گو بھی اسلامی اصولوں کی دھجیاں
بکھیرنے پر آمادہ رہے۔ ختم نبوت کے انکار میں مسیلمہ کذاب، اسود عنسی وغیرہ
اور منکرین زکوٰة جن کا فتنہ عہد صدیقی میں ابھرا۔ حوادث سے گزر کر اسلام
کا نورانی کارواں آگے بڑھتا رہا، ذہن و فکر کو متاثر کرتا رہا۔اور اسلامی
خلافت کے بعد جب بادشاہت کا دور آیا تو حضرت سیدنا امیر معاویہ کا فرزند
اپنے عظیم والد گرامی کے مشن سے باغی ہو کر اسلامی حکومت کو قیصر و کسریٰ
کی طرز پر ملوکیت سے بدلنا چاہااور اس پر مستزاد یہ کہ امام حسین سے بیعت
چاہی۔ یہی وہ موڑ ہے جو تاریخ اسلامی میں واقعہ کربلا کا سبب بنا۔
اسلامی اصول و ضوابط سے بے عملی کا مظاہرہ گناہ ضرور ہے لیکن جب یہی پہلو
انکار بن جائے تو وہ فتنوں کو جنم دیتا ہے ، اور عقیدے سے بغاوت کا ذہن ہم
وار کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ اسی لیے انکار ”جرم“ ہے۔ اسلامی نظام شریعت کے
روشن چہرے کو یزید شہنشاہی کے زعم میں مسخ کرنا چاہتا تھا، جس دین کی
اکملیت فخر موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ ہو گئی تھی
اسی دین کے اصولِ حرام و حلال میں یزید اپنے نفس کے فیصلے نافذ کرنا چاہتا
تھا۔ اس کے سامنے دو نمونے تھے، اسلامی نظام حکومت کا نمونہ اور کسریٰ کے
استبداد کا نمونہ۔ اس کور چشم کو اسلامی نظام حکومت کا نمونہ نہیں بھایا۔
بلکہ اس نے کسریٰ کی آمریت کو نمونہ عمل بنایا۔ اسی کی تصدیق کے لیے اس نے
نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو مجبور کرنا چاہا۔ وہ
چاہتا تھا کہ شراب و شباب کی اجازت دے دی جائے، زنا و سود کی اجازت دے دی
جائے، اسلامی تعزیرات میں ردو ترمیم کر دی جائے، شریعت کو طبیعت کے مطابق
ڈھال لیاجائے اور ان سب کے باوجود امام حسین بیعتِ یزید کر کے یزیدی قوانین
کو تسلیم کر لیں۔
معاملہ اسلامی قوانین کی حفاظت کا تھا، شریعت اسلامی میں یزید تحریف چاہتا
تھا، امام حسین کا بیعت کر لینا مثال بن جاتا، یزیدی فتنے پر مہرِ تصدیق
ثبت کرنے کا ذریعہ بن جاتا، امام حسین نے مستقبل کے لیے ایک مثال قائم کر
دی کہ یزید کی بیعت در اصل باطل کی توثیق ہے۔ اس لیے انھوں نے بیعتِ یزید
سے انکار کر کے دنیا کو صدق و وفا کا وہ درسِ عظیم دے دیا کہ ہر باطل کے
مقابل امام حسین حق کی علامت بن چکے ہیں۔ چاہے پھر باطل اسلامی کلمے کے
ساتھ آئے یا صہیونیت کی شکل میںآئے، ایک سچے مسلمان کے لیے اسلامی احکام ہی
کافی ہیں، انھیں کی پیروی میں اس کے لیے نجات ہے۔ کربلا کی سر زمین پر
نواسہ رسول کریم نے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیا، اپنے اعزا و اقربا کی
شہادت منظور کر لی، وہ چاہتے تو تخت و تاج زیرِ قدم ہوتے، مال و دولت ڈھیر
ہوتے لیکن اسلام کا وہ روشن چہرہ باقی نہیں رہتا جس کے لیے خاتم الانبیا
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔ اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان
راہِ خدا میں نچھاور کر کے امام حسین نے بتا دیا کہ جب بھی وقت آئے، اسلام
کے مقابل یزیدیت سر ابھارے، میری شہادت سے درس لے کراستقلال کی تاریخ رقم
کر لینا، باطل کے آگے سرنگوں نہ ہونا، جان دے دینا لیکن یزیدیت کی اطاعت
قبول مت کرنا۔ یہ وہ عزم محکم ہے جس کی مثال بن گیا ہے واقعہ کربلا۔
تاریخ انسانی میں ایسے خونین سانحہ کی مثال نہیں ملتی۔ جان دینا آسان نہیں،
عزیزوں کو قربان کرنا بڑا مشکل کام ہے، یہ سب صرف اللہ تعالیٰ کی خوش نودی
اور دین نبوی علیہ التحیةوالثنا کی سربلندی کے لیے امام حسین نے قبول کیا۔
بتا دیا کہ خود داری یہ نہیں کہ اسلام سے جدا راہ قبول کر لی جائے، خود
داری تو یہ ہے کہ راہِ حق پر چلا جائے چاہے اس کے لیے اپنے لہو سے چمن کی
آبیاری کرنی پڑے، ایک درخشاں تاریخ لکھ دی ہے امام حسین نے، لہو سے لکھی
گئی اس تاریخ کی سرخی اب بھی ہویدا ہے، اب بھی ہر باطل کے مقابل حسینی فکر
اسلام کی رگوں کو تازہ خون فراہم کر رہی ہے، اسلامی عزم و حمیت کا تقاضا
یہی ہے کہ حسینیت کو رواج دیا جائے، یہی انسانیت کے لیے امن و آشتی کا مشن
ہے، یہی خود داری و وفا شعاری کی تمہید ہے، یہی حق کا وہ باب ہے جس میں عزم
ہے، جواں مردی ہے، حوصلہ ہے: ع
کہ کٹ سکتا ہے سر خود دار کا پر جھک نہیں سکتا
صدق و وفا کا جو درس کربلا کی زمین سے ملا اس کے مظاہرے پوری تاریخ اسلامی
میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اسلاف کی زندگیاں دیکھیے، مجاہدین کی داستانِ
شجاعت پڑھیے، اولیا کے دعوتی باب کھولیے، زبان صداقت کو جنبش دیجیے، یہی
نتیجہ ملے گا کہ ہر دور میں ان اسلافِ کرام نے صبر و عزیمت کی مثال قائم کر
کے چمن اسلام کی آبیاری کی ہے، ان کی کدوکاوش میں عزمِ حسینی نے حرارت پیدا
کی ہے.... کیا تاریخ کے وہ روشن لمحات بھول سکتے ہیںجن میں حسینی تعلیمات
سے بھر پور استفادہ ملتا ہے، غور کریں.... طارق نے ساحلِ اندلس پر اپنی
کشتیاں جلا ڈالیں.... موسیٰ بن نصیر نے ریگ زارِ افریقہ میں کبھی نہ پلٹنے
کا عزم کر کے قدم رکھا اور آج پورا بر اعظم افریقا اسلامی تعلیمات سے فیض
یاب ہے.... قتیبہ بن مسلم نے روسی کوہ و دمن میں اسلام کی سچائی پہنچائی....
پھر اسی علاقہ بخارا سے امام المحدثین امام بخاری جنم لیتے ہیں.... امام
اعظم نے اپنے عہد کے آمر حکمرانوں کے مقابل حسینی صبر کا مظاہرہ کیا....امام
شافعی نے ظلم سہہ لیا لیکن ظالم کی اطاعت نہیں کی.... غوث الاعظم دستگیر نے
شریعت کے مقابل فلسفہ کو قبلہ بنانے والی فکروں کا خاتمہ عزم حسینی سے کیا....
امام غزالی نے فلاسفہ کی دہریت کو دنداں شکن جواب دیا.... امام اشعری و
امام ماتریدی کی دعوت و عزیمت میں بھی عزم حسینی کی ہی جلوہ گری تھی....
ہند کی دھرتی پر حضرت داتا علی ہجویری کی دعوتی خدمات بھی حسینی مشن کا ہی
اظہار ہے....عہد اکبری کے دینِ الٰہی کے مقابل مجدد الف ثانی کی کاوشات اور
اسی ہند میں نئے فتنوں کی بیخ کنی میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی کاوشات
....اور عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فروغ کے لیے امام احمد رضا
محدث بریلوی، مفتی اعظم ہند کی کاوشات بھی کربلا کے درسِ نور سے تابندہ ہیں....
ان احوال کے پیش نظر کیا یہ نتیجہ سامنے نہیں آتا کہ یزیدیت ہر دور میں
خائب و خاسر ہوئی ہے اور حسینیت ہی فتح یاب ہوئی ہے۔ دنیا میں آج ایک بھی
یزید سے نسبت کی بنیاد پر اس کے نام سے منسوب نہیں ملے گا لیکن! ہزاروں
حسینی نسبت رکھنے والے مل جائیں گے، یہ یزیدیت کی شرم ناک شکست ہے۔ امام
حسین علامتِ حق بن چکے ہیں، یزید نشانِ باطل بن چکا ہے، ہر رزم گاہ حق
حسینیت سے فیض یاب ہے، ہر باطل کا میدان یزیدیت کی بدنما تصویر ہے۔ اس
معرکہ حق و باطل میں شجاعت کا استعارہ بن چکے ہیں امام حسین، یہی پیغام حق
اسلامی زندگی کا غازہ بن کر اپنا حسن زمانے پر آشکار کر رہا ہے کہ جس میں
شجاعت کی بہت سی داستانیں ایمان کی تابندگی کا مژدہ سنا رہی ہیں:
شہید کربلا ہو انوکھی شان والے ہو
حسین ابن علی تم پر شجاعت ناز کرتی ہے
ہر باطل فکر ماتم کناں ہے، اہل حق کے یہاں ذکر کا سماں ہے، ذکر امام حسین و
شہدائے کربلا مسلمانوں کی رگوں کو خونِ تازہ فراہم کر کے ایمانی توانائی
میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ عزم و حوصلہ کی جو داستانِ شجاعت کربلا کے ریگ
زار میں لکھی گئی تاریخ انسانی پر اس کے اثرات ہیں کہ آج بھی حق کے متلاشی
واقعہ ¿ کربلا کو تمہید صبر واستقامت سے تعبیر کرتے ہیں۔ گرچہ بڑی خوں آشام
ہے داستانِ کربلا، جس میں کرب کی ٹیسیں بھی ہیں، اور اسلام کے لیے جاں
نثاری کی بہاریں بھی لیکن زندگی یہ نہیں کہ عیاشیوں کے آشیانے تعمیر کیے
جائیں بلکہ زندگی وہی ہے جس میں جہد مسلسل ہو، کبھی جان دے کر بھی زندگی کو
باقی رکھا جاتا ہے اور اسی کا درخشاں باب ہے واقعہ کربلا۔ |