عورتوں کی تعلیم کیسی ہونی چاہئے
اور کہا ں ہونی چاہئے اس کی صورت اور کیفیت کیسی ہونی چاہئے چنانچہ اﷲ
تعالیٰ نے اس کے متعلق صاف کہدیا ہے کہ واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکنّ من آیات
اﷲ والحکمة ـ
(سورة الاحزاب آیات ٣٤، پارہ ٢٢)
اور یاد کرو جو پڑھی جاتی ہے تمہارے گھروں میں اﷲ کی باتیں اور عقلمندی کی
ـ چونکہ خواتین سے متعلق احکامات عفت پردہ وغیرہ قدرے تفصیل سے مذکور ہیں
اس لئے آںحضرت ۖ نے سورة نور کی تعلیم کی خصوصی ''ترغیب دیتے ہوئے فرمایا
کہ'' علمو انسائکم سور ة النور'' اپنی عورتوں کو سورة نور کی تعلیم دو۔ اب
کتاب و سنت میں بیان فرمودہ خدا اور رسول کی پاکیزہ تعلیمات سے مسلم بچیوں
کو محروم کر کے، کالجوں ، یونیورسٹیوں وغیرہ میں پڑھنے کیلئے بھیجنا نا
معلوم کو نسی غیرت وحمیت اور عظمت وترقی ہے ایسا کرنا مسلم بچیوں کے ساتھ
یقینا ظلم وزیادتی ہے اور ان کے دین وایمان اور شرم وحیاء کو برباد کرنے کی
ایک عظیم سازش ہے۔ دنیوی علوم وفنون اور معلومات عامہ کیلئے عورت ذات کا تو
ان سے بے خبر ہونا ہی حق تعالیٰ کے نزدیک اس کی خوبی ہے جس پر'' الغا فلات
المؤمنات'' (سورہ نور پ١٨) کی نص صریح موجود ہے اس کے مقابلہ میں آج کے اس
جنون ترقی پر ایک نظر ڈالئے کہ نوجوان بچیوں کو اس دنیوی تعلیم وادب کی
تربیت کیلئے اندرون ملک تو کیا بیرون ملک یورپ وامریکہ اور فرانس وبرطانیہ
تک کی یونیور سٹیوں کے چکر لگوائے جارہے ہیں ۔
خداوند کریم ہی ہدایت وغیرت کی نعمت عطا فرمائے اس کے باوجود کیا کہا جا
سکتا ہے جبکہ خواتین کیلئے تعلیم کی نوعیت متعین ہوگئی کہ فقط قرآن وحدیث
کی تعلیم ہی سے انہیں روشناس کرایا جائے اب سوال یہ رہا کہ خواتین کے لئے
تعلیم گاہ کہاں ہو گھروں کی پاکیزہ وباپردہ فضا میں یا اسکولوں، کالجوں اور
یونیور سٹیوں وغیرہ کے آوارہ مزاج و ماحول میں چنانچہ ''وقرن فی بیوتکن''
کہہ کر بتلا دیا گیا کہ خواتین دینی تعلیم گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر
حاصل کریں تاکہ ستر وحجاب کے باعث ، شرم وحیا اور عزت وعفت محفوظ رہے۔
اس کے متعلق صحیح بات یہی ہے کہ خواتین اپنے گھر میں رہتے ہوئے محرم مردوں
مثلاً والد، دادا، چاچا ،تایا ، نانا، بھائی ، ماموں، وغیرہ اور اسی طرح
پختہ علم رکھنے والی عورتوں سے علم دین حاصل کریں۔ البتہ اگر بدقسمتی سے
پورے گھرانے میں کوئی ایک بھی متقی وپرہیز گارعالم دین موجود نہ ہو ، اور
نہ ہی کوئی متقی وپرہیز گار عالمہ فاضلہ عورت ہو تو اس صورت میں دینی مسائل
کی تحقیق کیلئے اھل حق علماء کے پاس اپنے کس محرم کے ساتھ باپردہ جانا درست
ہے جیسا کہ تحقیق مسائل کیلئے بہت سے مواقع پر حضرات صحابہ کرام کی عورتوں
کا آنحضرت ۖ کی خدمت میں حاضر ہونا ثابت ہے یہاں تک کہ عورتوں کی تعلیم
وتربیت کیلئے ان کی درخواست پر آنحضرت ۖ نے ہفتہ میں ایک دن بھی ان کیلئے
مقرر فرما دیا تھا (صحیح بخاری) اب خوب غور فرمائیں کہ جو نام نہاد تعلیم
پردہ اور چار دیواری ختم کرنے کے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتی اور جس کا
بنیاد ہی پردہ شکنی کے اصول پر ہو اس کا حصول کسی مسلمان لڑکی کیلئے کہاں
تک جائز ہو سکتا ہے بلکہ لڑکیوں کے حق میں اسے تعلیم کہنا ہی دھوکہ اور
فریب ہے کہ تخریب اخلاق وکردار کو تعلیم کا نام دیا گیا۔
عورت ذات کا ستر وحجاب اور ا س کے جوہر شرم وحیا کا تحفظ شریعت مطھرہ کو اس
حد تک مطلوب ہے کہ بہت سے وہ احکامات شرعیہ جن کی بجا آوری کیلئے گھر سے
باہر نکلنا پڑتا ہے مثلاً مسجد کی نماز باجماعت ، جمعہ کی نماز عیدین کی
نماز ، جنازہ کی نماز ، تدفین میت ، جہاد فی سبیل اﷲ ، امامت صغریٰ امامت
کبریٰ وغیرہ سب کی طرف سے عورت ذات کو سبکدوش کردیا تاکہ وہ چشم غیرت زیادہ
سے زیادہ پوشیدہ رہے اور یہ اس لئے کہ عورت ذات اپنی اصل کے اعتبار سے چھپی
رہنے کی چیز ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ۖ المرة عورة فاذا اخرجت استشرقھا
الشیطان (الحدیث رواہ الترمذی)
عورت تو چھپے رہنے کی چیز ہے جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے
تاکتا ہے یعنی شیطانی مزاج لوگوں کو ابھار کر اس کے پیچھے لگا نے کی کوشش
کرتا ہے ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا ویل للرجال من النساء وویل النساء
من الرجال (الحدیث رواہ ابن ماجہ)
ہلاکت ہے مردوں کیلئے عورتوں کی وجہ سے اور ہلاکت ہے عورتوں کے لئے مردوں
کی وجہ سے چنانچہ تمام شرور اور فتنوں کا دروازہ بند کرنے کیلئے اﷲ جل
جلالہ نے یہ حکیمانہ ارشاد جاری فرمایا کہ ''وَقَرْن فی َ بُیُوْتِکُنّ َ
''
(سورة احزاب آیت ٣٣، پارہ ٢٢)
اے عورتو اپنے گھروں میں ٹکی بیٹھی رہو کہ نہ گھر سے باہر نکلیں گی نہ کوئی
فتنہ فساد ہوگا، البتہ بوقت ضرورت مکمل پردہ کے ساتھ اپنے کسی محرم کے ساتھ
باہر نکلنے کی اجازت شریعت میں ضرور موجود ہے۔
اورحقیقت یہ ہے کہ ان جدید تعلیم یافتہ ماڈرن قسم کی لڑکیوں کی مخلوط تعلیم
کی صورت میں بے پروائی ''نمائش '' فضول خرچی وغیرہ ان کی طبیعت بن جاتی ہے
اور یہ کیوں نہ ہوگا جو بچی بچپن سے لے کر بیس پچیس سال کی عمر تک آزادی
اور آورگی کی زندگی گزارے اب خود اندازہ لگائیے کہ جب نوجوان لڑکیوں کا
اپنے جیسے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ اختلات ہوگا تو کیا اس صورت میں جانبین کے
جذبات میں جوش وہیجان پیدا نہیں ہوگا جبکہ فطری طور پر بھی مرد اور عورت
میں ایک دوسرے کی طرف کشش کا مادہ طبعا موجود ہے۔
چنانچہ مخلوط تعلیم کے حوالے سے یہ کہنے پر ہم مجبور ہیں کہ آج کل عموماً
دوران تعلیم ہی اکثر طلبہ وطالبات کے مابین عشق وفاء کے عہد وپیمان اور
کہانیاں شروع ہو جاتی ہیں اور اس نتیجے میں وہ سب کچھ گزرتا ہے جس کا تصور
شادی بیاہ ہوجانے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ ناجائز تعلقات اور حرامکاری کا
یہ غلیظ دھندہ اپنی روز افزوں ترقی کے باعث اب اس قدر عام ہونے لگا ہے کہ
اس کے بھیانک انجام کو سوچتے ہوئے دل ودماغ ماؤف ہونے لگتے ہیں کہ خدا یا
بعد چندے نامعلوم کیا کچھ سامنے آو نے والاہے۔
کتنے معزز گھرانوں کی نیک سیرت ونیک صورت بچیاں اس مخلوط تعلیم ہی کی وجہ
سے بدنام زمانہ ہوئیں۔ مگر ان جدید تعلیم وتہذیب کے مقابلہ میں وہ لڑکیاں
جو قرآن کریم اور دینی مسائل کی چند ابتدائی کتابیں مثلاً تعلیم الاسلام ،
بہشتی زیور ، بزرگان دین کے رسائل وغیرہ پڑھتی ہیں ان میں عموماً شرم وحیا
اور عزت وعفت کا جوہر موجود ہوتا ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ شریف
التبع انسان ہمیشہ ایسی ہی نیک بخت اور سادہ طبیعت والی لڑکی کو ازدواجی
رشتہ کیلئے زیادہ پسند کرتا ہے۔
اس لئے حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر وبیشتر انگریزی اور جدید تعلیم وتہذیب ہی
شادی بیاہ کے سلسلہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اگر ان تمام مندرجہ بالا بدیہات
وحقائق پر یقین نہ آئے تو شہروں اور دیہاتوں کا سروے کر کے دیکھ لیا جائے
کہ انگریزی خوند لڑکیاں بغیر نکاح کے گھر میں بیٹھی ہیں یا دینی تعلیم
یافتہ لڑکیاں گھر میں بغیر نکاح کے بیٹھی ہیں اس کی حقیقت سب کے سامنے
کھوئی ہوئی ہے۔٭٭٭٭٭ |