آج بھی ہیں ہم جنس پرستی کی صف اول میں

کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع نیپال دن بدن بے حیائی میں نت نیا ریکارڈ قائم کررہا ہے۔جنوبی ایشیا میں واقع یہ پہاڑی ملک جس کی شمالی سرحد پر چین اور باقی اطراف پرہندوستان واقع ہے‘جبکہ سلسلہ کوہ ہمالیہ اس کے شمالی اور مغربی حصہ میں سے گزرتا ہے اور دنیا کا عظیم ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ اس کی سرحدوں میں پایا جاتا ہے۔چینی رہنماءماوزے تنگ کے سوشلسٹ حامی ایک لمبے عرصہ تک گوریلا جنگ کے بعد اب ملک کی سیاست میںنمایاں مقام حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ یہاںبدھ مت اور ہندو دھرم کے حامیوں کی تعداد برابر ہے۔حالانکہ نیپال کی سرکاری زبان نیپالی ہے لیکن یہاں 26 زبانیں بولی جاتی ہیں اور تمام زبانیں قومی زبانیں سمجھی جاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ نیپال کا لفظ نیوار قوم کے معنی رکھتا ہے جو انکی زبان نیواری کے لفظ ’نیپا‘ سے نکلا ہے‘ نیوار قوم وادی کھٹمنڈو میں پائی جاتی ہے اور نیپا اس قوم کا لقب ہے۔ نیپال میں محض3 فیصد آبادی نیواری بطور مادری زبان بولتی ہے ۔گذشتہ برس جنس پرستوں کی پہلی پریڈنکالنے والے اس ملک نے حالیہ زلزلہ کی تباہی کو نظر انداز کرتے ہوئے2011میں ہم جنس پرستوں کیلئے پہلا آشرم کھولنے کے بعداب ہم جنس پرستی کہ موضوع کوسلور اسکرین پرپیش کردیا ہے جس کی وجہ سے ’شائقین‘ میں یہ فلم بحث کا موضوع بنی ہے۔ اس حوالے سے حال ہی میں سِنے سمپوزیم فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی فلم ’شریر‘ کا چرچا ہے۔سِنے سمپوزیم فلم فیسٹیول کٹھمنڈو میں منعقد کیا گیا، جس میں شائقین نے دو خواتین کے درمیان محبت کی کہانی پر مبنی اس فلم کا پریمیئر رواں ہفتے منگل کو دیکھا۔ اس فلم کا نام ‘شریر‘ یعنی جسم ہے۔ اس کیلئے ہدایات ابھیناش بِکرام شاہ نے دی ہیں جبکہ کہانی بھی انہوں نے تحریر کی ہے۔اس میں دو خواتین سمن اور چاہانا کی کہانی بیان کی گئی، جو اس وقت جدا ہو جاتی ہیں جب کھٹمنڈو کی سڑکوں پر چاہانا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے۔ سمن اپنی پارٹنر کو کھونے کے بعد کس کرب سے گزرتی ہے، کہانی کا مرکزی موضوع یہی ہے۔ فلیش بیک میں ان کی محبت بھی بیان کی جاتی ہے۔چاہانا کی موت کے بعد سمن شراب اور دیگر نشہ آور اشیاءکا سہارا لیتی ہے۔ سمن کا کردار نبھانے والی پوجا گورنگ کہتی ہیں کہ آپ کسی شخص، کتاب اور کتے سے محبت کرتے ہیں، اور جس چیز کو آپ ٹوٹ کر چاہتے ہیں، وہ کھو جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کس سے محبت کرتے ہیں، یہ جذبہ ایک سا ہی ہوتا ہے۔ ہدایت کار شاہ کا کہنا ہے۔آپ اسے دو عورتوں کے درمیان محبت کی کہانی پر مبنی پہلی نیپالی فلم کہہ سکتے ہیں۔ لیکن میں جس وقت اس کا اسکرپٹ لکھ رہا تھا تو میں لو اسٹوری بیان کر رہا تھا۔انہوں نے مزید کہاکہ میں نے اس کہانی کا رخ دو خواتین کے درمیان محبت کی جانب موڑنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ یہ ایک ایسا موضوع ہے، جس پر دوسروں نے طبع آزمائی نہیں کی تھی اور میں کچھ نیا کرنا چاہتا تھا۔شاہ کہتے ہیں کہ میں جب اس فلم پر کام کر رہا تھا، تو میں خوفزدہ تھا کہ لوگ اسے قبول نہیں کریں گے لیکن’شائقین‘ نے اسے پسند کیا ہے کیونکہ اس فلم کا پریمیئر دیکھنے کیلئے موجود شائقین میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، جنہوں نے سمن اور چاہانا کے درمیان پیار و محبت کے مناظر خاموشی سے دیکھے۔پریمیئر کے موقع پر ہم جنس پرستوں کے ایک گروپ ‘بلو ڈائمنڈ سوسائٹی‘ کے ارکان کی بھی بڑی تعداد شائقین میں شامل تھی۔ نیپال میں دھیرے دھیرے ہم جنس پرستی کو قبول کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ وہاں کی عدالت عظمیٰ کا تین سال پہلے کا وہ فیصلہ ہے جس میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ ہم جنس پرستوں کے حقوق کو یقینی بنائے۔ اس کے باوجود وہاں کی اکثریتی ہندو آبادی ایسے موضوعات کے حوالے سے قدامت پسندانہ نظریات کی حامل ہے۔

اس سے قبل جون2011کے دوران 24کی رپورٹ کے مطابق نیپال، ہم جنس پرستوں کیلئے پہلا آشرم کھلنے کی اطلاع منظر عام پر آئی تھی۔فصیلات کے مطابق رواں برس کے دوران نیپال میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک ادارے نے ایک ایسا آشرم کھولا جہاں ایسے افراد رہ سکیں جو جنسی بے راہ روی کیلئے بدنام زمانہ مرض ایڈز یا ایچ آئی وی کے وبال شکار ہوں اور جنہیں ان کے گھر والوں نے آجز تنہا چھوڑ دیا ہو۔نیپال میں اس آشرم یا شیلٹر ہاؤس کے قیام پر ہم جنس پرستوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے سرکردہ کارکنان نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو اکثریتی ملک نیپال کی قدامت پسند روایات میں یہ ایک اچھی تبدیلی ہے۔

نیپال میں ہم جنس پرستی معیوب سمجھی جاتی ہے اور وہاں ہم جنس پرستوں کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق کوئی قانون بھی موجود نہیں ہے۔ نیپال میں ’غیر قدرتی جنسی عمل‘ پر ایک برس کی سزائے قید بھی سنائی جا سکتی ہے۔

اس آشرم کے بانی ادارے بلیو ڈائمنڈ سوسائٹی BDS کے سربراہ سنیل بابو پانت نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا،’ یہ لوگ علاج چاہتے ہیں لیکن یہ اس انتظار میں کافی دیر کر چکے ہیں۔ یہ لوگ اپنی زندگی کے آخری ایام میں سکون چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کی ان کی آخری رسومات مذہبی طریقے سے ادا کی جا سکیں‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان ہم جنس پرستوں کے گھر والے ان کی موت کے بعد ان کا آخری دیدار کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں، اس لیے ان کا ادارہ اِن افراد کی آخری رسومات بھی ادا کرتا ہے۔نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو کے نواح میں ایک پرسکون رہائشی علاقے میں واقع اس آشرم میں تیس افراد کے رہنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ وہاں انہیں رہائش کے علاوہ مفت طبی امداد بھی دی جاتی ہے۔ سنیل بابو نے بتایا کہ اس آشرم کے باہر کوئی سائن بورڈ نہیں لگایا گیا تاکہ مقامی آبادی کو معلوم نہ ہو سکے کہ یہاں ہم جنس پرست لوگ رہتے ہیں۔ سنیل بابو کے بقول نیپال میں ہم جنس پرستوں کیلئے کوئی بھی شخص مکان کرائے پر دینے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔اس آشرم میں جو ہم جنس پرست آتے ہیں اگرچہ وہ اپنی مشکلات کا برملا اظہار نہیں کرتے تاہم انہیں یہاں جو مدد فراہم کی جاتی ہے، اس سے وہ نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ مطمئن بھی۔ اس آشرم میں قیام پذیر ستائیس سالہ ہم جنس پرست راجوبارل کہتے ہیں کہ یہ ہم جیسے لوگوں کیلئے ایک’ انتہائی اچھی جگہ‘ ہے، یہاں بہت اچھی طبی امداد دی جاتی ہے۔راجو کو 2007 میں معلوم ہوا تھا کہ وہ ایچ آئی وی کا شکار ہے۔ اس کے بعد اس نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ اپنے گھر والوں کیلئے شرمندگی کا باعث نہ بنے۔ اس دوران اس کی صحت بگڑ گئی تھی تاہم جب سے وہ اس آشرم میں آیا ہے، اس کی جسمانی حالت بہتر ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ برس موصولہ رپورٹ کے مطابق نیپال میں ہم جنس پرستوں کی پہلی پریڈبھی نکلی تھی۔تفصیلات پر یقین کریں ونیپال میں اب تک منتخب ہونے والے پہلے ہم جنس پرست رکن پارلیمان سنیل پنت نے اس سلسلے میں کہا تھا کہ ہمالیہ کی اس ریاست میں اگلے ماہ پہلی مرتبہ ہم جنس پرستوں کی ایک پریڈ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے AFP سے بات چیت کرتے ہوئے سنیل پنت نے کہا کہ انہیں2010کے دوران منعقد اس پریڈ میں نیپال کے علاوہ پڑوسی ممالک سے تین ہزار ہم جنس پرست شریک تھے۔ پنت کا کہناتھا کہ اس پریڈ میں ہم جنس پرستوں کے علاوہ تبدیلی جنس کرانے والے افراد کی شرکت بھی ہوئی۔ نیپال میں اس پریڈ کا انعقاد اگست کی 25 تاریخ کو کیا گیا۔ اعلانیہ طور پر خود کو ہم جنس پرست کہلوانے والے سنیل پنت خود بھی اس پریڈ میں شریک تھے اور پریڈکے شرکاءنے دارالحکومت کٹھمنڈو کی گلیوں میں مارچ کی۔اس پریڈ کے لئے اگست کی 25 تاریخ کا انتخاب اس لئے بھی کیا گیا ہے کیونکہ اس روز ہندو مت کا وہ تہوار بھی منایا جاتا ہے جس میں مرد خواتین کا لباس پہنتے ہیں۔ یہ تہوار اسی اعتبار سے گزشتہ چند برسوں میں نیپال کی ہم جنس پرست کمیونٹی میں زیادہ مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔سنیل پنت کا کہنا ہے کہ وہ اس پریڈ کو بین الاقوامی ایونٹ کا درجہ دلوانا چاہتے ہیں۔ نیپال میں گزشتہ چند برسوں میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کے حوالے سے کافی زیادہ پیش رفت ہوئی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس پریڈ کے ذریعے ہم ملک بھر میں رہنے والے ہم جنس پرستوں کو امید اور روشنی دیں گے تاکہ دوسرے متاثر ہوں۔دو برس قبل نیپال کی عدالتِ عظمیٰ نے حکومت کو ہدایات کی تھیں کہ وہ ایسی قانون سازی کرے جس کے ذریعے ہم جنس پرستوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنیل پنت کی قیادت میں کام کرنے والے حقوق انسانی کے ایک گروپ کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن کے بعد دیا تھا۔سنیل پنت کے مطابق اس پریڈ میں شوخ رنگوں سے سجائے گئے ہاتھی اور گھوڑے بھی شامل کئے ۔ اس موقع پر HIV اور ایڈز سے متاثر ہونے والوں اور تشدد کا نشانہ بننے والے ہم جنس پرستوں سے اظہار یکجہتی کیلئے موم بتیاں بھی روشن کی گئیںنیز موسیقی کے مختلف پروگراموں کا اہتمام بھی کیا گیا اور پاپ موسیقی کے حوالے سے ملکی سطح پر معروف بینڈز بھی اس روزکٹھمنڈو کے مختلف مقامات پر اپنے فن کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 117838 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More