غیر ملکی سپر اسٹوروں کے ذریعے ہندوستان میں تباہی کی دستک

ہندوستانی کابینہ کی طرف سے کئے جانے والے اس اہم فیصلے کے بعد اب مغربی ملکوں کی وال مارٹ جیسی بڑی ریٹیلر کمپنیوں کیلئے ہندوستان کی ایک اعشاریہ دو بلین آبادی میں سپر مارکیٹیں بنانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔دوسری جانب سرمایہ داری کے خلاف تحریک کے مرکز شمال مشرقی امریکہ میں موسم سرما شروع ہوچکا ہے جس کی وجہ سے اس تحریک کے حامیوں کا سڑکوں پر رہنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ امریکی پولیس مظاہرین پر آئے دن اپنے تشدد میں شدت پیدا ہی نہیں کرتی جارہی بلکہ مختلف بہانوں سے ان کو گرفتار کررہی ہے ۔ ان تمام تباہیوں سے بے نیازی اختیار کرتے ہوئے ہندوستان میں ریٹیل سیکٹر کو عالمی سپر مارکیٹ اداروں کیلئے کھولنے کے فیصلے پر ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔ کاروباری طبقہ نے اس فیصلے کو سراہا ہے تو حزب مخالف نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ اس سے چھوٹی تاجر برادری کو نقصان ہو سکتا ہے۔ ملکی بزنس کمیونٹی نے توقع ظاہر کی ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے ملک میں خوراک کی فراہمی کے نظام میں بہتری پیدا ہو گی تاہم اپوزیشن اور حکمران اتحاد میں شامل کچھ سیاستدانوں نے اس فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کو اس طرح کی اجازت ملنے سے ملک کے اندر چھوٹی تاجر برداری کا بزنس شدید طور پر متاثر ہوگا اور غریب آبادی کی قوت خرید ختم ہو جائے گی۔

اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکومت کے اس قدم کو غیر ضروری قرار دیا ہے ۔ اس پارٹی کے ترجمان چندن مترا نے ہندوستانی ٹیلی ویژن این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاکہ حکومت بین الاقوامی دباؤ کے آگے جھک کر رہ گئی ہے۔ٹیسکو کی طرف سے جاری کئے گئے ایک بیان میں ہندوستانی حکومت کے اس فیصلہ پر پیٹھ تھپتھپائی گئی ہے۔ بیان کے مطابق اس قدم سے ہندوستان میں صارفین اور بزنس کمیونٹی کو فائدہ ملے گا۔اس سے پہلے کی ہم ہندوستان میں ریٹیل میں سرمایہ کاری کرنے کے بارے میں سوچیں، ہم اس فیصلے کی جزئیات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔وال مارٹ انڈیا کے صدر راج جین نے بھی اس فیصلے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی کابینہ کی طرف سے منظور کئے گئے اس فیصلے کا قانونی طور پر مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح کئیر فور Carrefour نے بھی اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے فوری طور پر کوئی بیان کرنے سے احتراز کیا ہے۔ہندوستانی کابینہ کی طرف سے ملک کے ریٹیل سیکٹر کو عالمی سپر مارکیٹ اداروں کیلئے کھولنے کی منظوری کے فیصلے سے متعلق تفصیلات ابھی عام نہیں کی گئی ہیں لیکن یہ فیصلہ مسقبل میں کیا گل کھلانے والا ہے اس کا اندازہ امریکہ میں سرمایہ داری کے خلاف چلنے والی تحریک سے بخوبی لگایا جا سکا ہے ۔ اس تحریک کا نعرہ ہے کہ وال سٹریٹ پر قبضہ کرو۔دراصل نیو یارک میں وال اسٹریٹ سرمایہ داری نظام کی علامت ہے۔ بڑے بڑے بنکوں، انشورنس کمپنیوں اور تجارتی اداروں کے دفاتر یہیں واقع ہیں۔ پورٹ لینڈ میں مظاہرین سے پارک خالی کرانے کے دوران پولیس اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی تھیںجن میں ایک شخص ہلاک ہوگیا اور کئی زخمی ہوئے۔ یہ نظامِ زر جو مخلوقِ خدا کے ظالمانہ استحصال پر مبنی ہے اب امریکہ سمیت متعدد ممالک میں آخری سانسیں گن رہا ہے جبکہ ہندوستان میں پیر پھیلاتا جارہا ہے۔ماہرین نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کا عملی انداز میں تجزیہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ دونوں نظام عقل او رمنشائے فطرت کے خلاف ہیں لہٰذا یہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ وہ دن دور نہیں کہ جب اشتراکیت کو لینن گراڈ اور ماسکو میں جبکہ سرمایہ داری نظام کو نیو یارک لندن اور پیرس میں پناہ نہیں ملے گی۔آج سے ستر اسی برس پہلے جب یہ بات ماہرین نے کہی تھی تو بعض کو تاہ چشم معیشت دانوں اور دانشوروں نے اسے خوش فہمی قرار دیاتھا مگرآج دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ بیسویں صدی کے اواخر میں اشتراکیت کی سانجھے کی ہانڈی نہ صرف چوراہے پر پھوٹ چکی ہے بلکہ انفرادی ملکیت کے جس حق کو عوامی مفاد کے نام پر اشتراکی حکومت نے روس میں غصب کیا تھا وہ حق بالآخر انہیں اپنے شہریوں کو لوٹانا پڑا۔ اسی طرح چین میں بھی فرد کی معاشی آزادی کے حق کو تسلیم کیا گیا جس کے نتیجے میں چین نے بے مثال ترقی کی۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام کیا ہے اور اس نظام زر کی کوکھ سے جنم لینے والی امریکی اور یوروپی نسل اس کیخلاف کیوں سینہ سپر ہوئی ہے۔ اس نظامِ زر میں عالمگیر بینکروں،صنعت کاروں، تاجروں اور کمپنی مالکان کی ایک مٹھی بھر تعداد تمام دنیا کے معاشی اسباب وسائل پر اس طرح قابض ہو جاتی ہے کہ ساری دنیا اس کے سامنے بے بس نظرآتی ہے۔ کسی شخص کیلئے یہ تقریبا ناممکن ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ پیرکی محنت سے اور اپنے دماغ کی قابلیت سے کوئی آزادانہ کام کرسکے اور خدا کی زمین پر جو اسباب زندگی میسرہیں ان میں اپنا حصہ وصول کرسکے۔ ہندوستان میں بھی غیر ملکی سپر اسٹوروں کے ذریعے یا تباہی کی دستک واضح سنائی دے رہی ہے۔چھوٹے تاجر، چھوٹے دستکار اور چھوٹے کسانوں کیلئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ اپنی دماغی صلاحیتوں اور اپنے ہاتھ کے ہنر اور اپنی شبانہ روز محنت سے اپنے لئے باعزت زندگی کا سامان مہیا کرسکیں۔ سب مجبور ہیں کہ معاشی کاروبا رکے ان بادشاہوں کے غلام اور نوکر اور مزدور بن کر رہیں اور یہ لوگ کم ازکم سامان زنگی کے معاوضے میں ان کے جسم و جاں کی ساری قوتیں اور ان کا سارا وقت سلب کر لیتے ہیں۔ان سرمایہ داروں نے مجبور انسانوں کو بھوکا بیل بنا کر رکھ دیا ہے انسانی شکل و صورت میں یہ بیل صبح سویرے کام میں جت جاتے ہیں اور رات گئے تک ضروریات زندگی اکٹھا کرتے رہتے ہیں جو بمشکل ان کی گذر بسر کیلئے کافی ہوتا ہے۔

ہندوستان میں ریٹیل سیکٹر کو عالمی سپر مارکیٹ اداروں کیلئے کھولنے کے فیصلے پرخوش ہونے والے عناصر یہ سمجھ لیں کہ اس وقت دنیا میں سرمایہ داری کی بد ترین شکل امریکہ میں موجود ہے۔امریکہ میں چند بڑی کمپنیاں تمام وسائل پیداوار اور وسائل روزگار پر قابض ہیں۔مثلاً روزمرہ ضروریات کیلئے امریکہ میں بڑے ا سٹوروں کی چند چین ہیں جو امریکہ کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ان میں سے ایک وال مارٹ کے علاوہ ، ٹیسکو، Carrefour اور IKEAجیسی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔وال مارٹ کے ا سٹور وں کا نظم کیسا چلا ہے ‘ اس کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وال مارٹ کے اسٹور امریکہ میں ہزاروں کی تعداد میں پھیلے پڑے ہیں جن میں بلا مبالغہ لاکھوں افرادکام کرتے ہیں۔ان ملازمین کو وال مارٹ کے مالکان بہت کم تنخواہیں دیتے ہیں ۔انہیں صحت کا انشورنس تک حاصل نہیں اور نہ ہی کسی ناگہانی آفت یا مصیبت کا شکار ہونے کی صورت میں اس ادارے کی طرف سے ملازمین کو کوئی تحفظ ملتا ہے۔ امریکہ کے نظام کو جاننے والے لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہاں صحت کا انشورنس کتنا ضروری ہوتا ہے۔ وال مارٹ کے ملازمین جب بیمارپڑنے کی صورت میں اپنے ادارے کی طرف سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہیں تو انہیں جواب ملتا ہے کہ ہم ایسی کوئی انشورنس پالیسی تمہیں نہیں دے سکتے۔ اگر ملازمت کرنی ہے تو انہی شرائط پر کرنا ہوگی ورنہ کہیں اور ملازمت تلاش کرو۔ امریکی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملازمین انہی چند سرمایہ داروں کی کمپنیوں ہی کے پاس ہیں جو اپنی اجارہ داری کی بنا ءپر من مانی مشکل شرائط پر ہی لوگوں کو ملازم رکھتے ہیں۔ روزمرہ کی اشیائے ضروریات کیلئے وال مارٹ اور جائنٹ ریگل جیسی دو تین بڑی چینیں سارے امریکہ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹروں کے کلینک اور چھوٹے چھوٹے اسپتال معدوم ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ اسپتالوں کی بڑی بڑی چینیں سامنے آرہی ہیں جو اپنی مرضی کی شرائط پر صحت انشورنس کی پالیسی دیتی ہیں۔اسی طرح کتابو ں کی چھوٹی بڑی دکانیں کمیاب ہیں ان کی جگہ چین Chaneوالی بک شاپ Book Shop پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔

وسائل پیداوا چند ہاتھوں میں اکٹھا کرنے والوں نے کوئی ذریعہ معاش عوام کے ہاتھوں میں نہیں رہنے دیا۔ امریکہ میں’ کافی شاپس‘ کے بھی چند سلسلے ہیں جن میں ڈنکنن ڈونٹ اورا سٹاربکس مشہور ہیں۔ اسی طرح آئس کریم کے بھی ایک دو برانڈ ہیں۔مثلاً ڈیری کوئین اور کولڈ اِسٹون آئس کریم کی چینز امریکہ کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔تیز رفتارکھانوں کے سلسلوں میں پہلے سے ہی میکڈونلڈ، کے ایف سی اور برگر کنگ کی سارے امریکہ میں حکمرانی ہے۔صرف سارے امریکہ ہی میں نہیں بلکہ متعددترقی سے محروم اور ترقی پذیر ملکوں کے چھوٹے بڑے شہروں میں بھی یہ چینیںچھوٹے تاجروں اور کاروباریوں کا سکون غارت کرچکی ہیںجس سے چھوٹے کاروباربتدریج دم توڑ رہے ہیں۔ امریکہ میں ضروریات زندگی کی شاید ہی کوئی چیزایسی ہو جو ان بڑے برانڈ وں کی زد سے بچی ہو۔ حتیٰ کہ بچوں کے ملبوسات اور کھلونوں کی بھی مشہور چینیں قائم ہیں۔ان دیو ہیکل کمپنیوں کے مقابلے میں چھوٹے دکاندار یا ٹھیلے اور ریڑھی والے کسی بھی صورت میں اپنا کاروبار نہیں چلا سکتے۔ بے پناہ وسائل رکھنے کی بناءپر یہ کمپنیاں اشتہاری مہم پر اندھا دھند سرمایہ خرچ کرتی ہیں اور ایک ایسی فضا پیدا کر دیتی ہیں جس میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان مشہور برانڈ ناموں کی اشیاءہی استعمال کرے۔ انہی معروف ناموں والے ریستورانوں میں چائے اور کافی پی جاتی ہے۔ اشتہاری مہم اس طرح کی فضا بنا دیتی ہے کہ اگر آپ نے مخصوص برانڈ کی چیز استعمال نہ کی تو سوسائٹی میں آپ کی ناک کٹ جائے گی۔ اس وقت امریکہ میں بے روزگاری عروج پر ہے غیر سرکاری ثقہ اعدادو شمار کے مطابق یہ دس فیصد کے قریب ہے جو بہت بڑی تعداد ہے۔ میکڈونلڈ اور کے ایف سی جیسی چیزیں بحیثیت ویٹر کام کرنے کیلئے بڑے بڑے انٹرویو ہوتے ہیں۔ سرمایہ داری کی بنیادی روح ارتکاز دولت ہے۔میکڈونلڈ، کے ایف سی اور وال مارٹ جیسی کمپنیاں مزید دولت سمیٹنے کیلئے امریکہ سے باہر نکل کرہندوستان سمیت ساری دنیا میں اسی رواج کو فروغ دے رہی ہیں اورہندوستان جیسے غریب ملکوں کی مزید اراشیاءمعدوم ہوتی جارہی ہیں۔وسائل اور دولت کے اسی ارتکاز کےخلاف، وسائل پیداوار پر چند افراد کے قبضے کیخلاف اورر بڑھتی ہوئی بے روزگاری کیخلاف امریکی شہری اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس آگ کی تپش یوروپ میں بھی پہنچ چکی ہے اور وہاں بھی یہ استحصالی نظام زر اپنے تحفظ کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے جبکہ ہندوستان جیسے ملکوںمیں پیر جمانے کی تگ و دو میں ہے جبکہ اشتراکیت کے بعد اب سرمایہ دارانہ نظام بھی محض چند سال کا مہمان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم معیشت دان اسلام کے عادلانہ اور منصفانہ نظام معیشت کا کوئی ایسا قابل عمل خاکہ تیار کرتے ہیں جو مغربی دنیا کیلئے باعث کشش ہو۔ غیر سودی اسلامی بنکاری دنیا میں بہت مقبول ہورہی ہے اسی طرح عملی طور پر اسلامی فلاحی معیشت کے کامیاب ماڈل ہندوستان ‘پاکستان‘ترکی‘ ملیشیا اور مصر جیسے ملکوں میں پیش کرکے دنیا کو دعوت دینی چاہئے کہ وہ دیکھیں کہ وسائل دولت چند ہاتھوں میں نہیں عامة الناس کے ہاتھوں میں ہے اور لوگ اس معاشی آزادی اور خوشحالی پر کتنے خوش ہیں۔ حق پرست معیشت دانوں کو اپنا ہوم ورک جلد سے جلد مکمل کرلیناچاہئے کیونکہ سرمایہ پرستی کا سفینہ جلد ڈوبنے والا ہے۔ تاریخی قرائن سے اس بات کی نشاندہی ہورہی ہے کہ ممالک اور معاشروں کا نظام مسقل طور پر ناانصافی ، امتیازی سلوک اور بدعنوانی کی بنیاد پر قائم نہیں کیا جاسکتا ۔ہندوستان کے عوام بھی جلد یا بدیر ان امور کے خلاف ضرور اٹھ کھڑے ہوں گے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 122945 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More