دن ڈھلتے ہی آخری درویش بھاگتا
ہوا شہرمیں داخل ہوا اور زورزور سے چلانے لگا جاگو جاگو اور دیکھو! بہت دور
ہر طرف آگ ہی آگ ہے ۔ یہ آگ ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح جلاتی مسلسل آگے
بڑھ رہی ہے ۔ درویش کی چیخ و پکار نے فصیل شہر پر اونگھتے محافظوں میں
اچانک افراتفری پھیلا دی وہ بدحواسی سے چاروں جانب دیکھنے لگے انہیں چاروں
جانب دور تلک زمین شعلے اُگلتی اور دھوئیں کے گہرے بادل آسمان کو ڈھانپتے
نظر آرہے تھے۔ آگ شہر سے ابھی بہت دور تھی محافظوں نے اس درویش کو برا بھلا
کہا اور پھر سے فصیل پر اونگھنے لگے ۔
چونسٹھ سالہ شہر وسیع و عریض اور سرسبز و شاداب رقبے پر پھیلا ہوا تھا شہر
میں کھیت ، کھلیان ، باغات ، نہریں ، دریا،سمندر،بُلندوبالا پہاڑ، عمارتیں
اور ان عمارتوں میں بسنے والے مکین موجود تھے ۔
قدرت کی تمام نوازشات کے ساتھ ساتھ اس شہر میں انسان محض جینے کے تقاضے ہی
پورے کررہے تھے ۔ شہر میں ایک عجیب قانون رائج تھا جو شہر میں داخل ہونے
والے ہرنئے فرد پر لاگو ہو جاتا تھا بظاہر یہ قانون بہت واضح اور سخت تھا
لیکن عملی طور پر اس قانون کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
شہر کے داخلی اور خارجی دروازے پر لاقانونیت کا راج تھا شہری اس غیر یقینی
اور متزلزل فضا میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے تھے کیونکہ تمام تر
انتظامی معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھے جو اس شہر کو اپنے آباوءاجداد
کی وراثت میں عطاءکردہ جاگیر سمجھتے آئے تھے ۔
وہاں دو طبقات تھے ان میں سے ایک طبقہ قانون سے ماورا تھا جبکہ دوسرا قانون
کے شکنجے میں آنے کے بعد برسوں اس تفریق پر کڑھتا رہتا تھااور وہاں
چندافراد ایسے تھے جن کی املاک میلوں تک پھیلی ہوئی تھیں جبکہ اکثریت کے
پاس سر چھپانے کو کوئی چھت تک میسر نہ تھی ہر صبح شہر کے مرکزی چوراہے پر
انسانوں کا ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہوتا جو اپنی بھوک اور ضروریات زندگی کی
تکمیل کی خاطرخود کو دن بھر کے لیے بڑی ارزاں قیمت پر فروخت کرنے آتا تھا۔
کئی بار ایسا ہوا شہر کے پورے نظام کو تہہ و بالا کردیا تھاشہر کے جمہوری
نظام کی بساط لپیٹ دی گئی اور فرد واحد کے قانون نے آزادی رائے پر قدغن لگا
دی او رجمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو تاریک قید خانوں میں ڈال دیا
تھالیکن کیا ہوا نہ قلم ٹوٹا ،نہ کاغذ کو دیمک نے چاٹا لیکن سیاہی نے پورے
شہرمیں لاقانونیت کی داستان رقم کردی ۔
شہر میں علم فروش تاجروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہونے لگا جگہ جگہ
تاجروں نے علم فروشی کی آڑ میں نوجوان نسل کے مستقبل کو گروی رکھ دیا وہاں
مسیحائی کا دعویٰ کرنے والے سوداگروں نے بھی انسانی جانوں سے کہیں زیادہ
قیمتی کاغذ کے ان ٹکروں کو سمجھا جن سے ان کی بھوک مٹتے مٹتے نہ مٹتی تھی ۔
کئی بار ایسا ہوا شہریوں نے اپنے لئے ایک ایسا نجات دہندہ چنا جو ان کے
دکھوں کا مداوا کرتا لیکن وہ ہر بار پچھائے کیونکہ ہر آنے والے نجات دہندہ
نے ان سے وہ سکھ چین چھین لیا جو کبھی ان کی دسترس میں تھا ۔ ضروریات زندگی
کی ہر چیز ناپید ہوتی جارہی تھی بیوپارکرنے والے تاجروں کی توندیں ان کی
آنکھوں میں بسی بھوک کی چغلی کھا تی تھیں چند سکوں کی خاطر سرسبز و شاداب
درختوں کو کاٹ کردیوہیکل تابکاری پھیلانے والے آلات نصب کیے جا رہے تھے۔
لیکن شہرمیں کوئی ایک بھی ایسا فرد نہیں تھاجو اس المناک صورتحال پہ احتجاج
کرتا چاروں جانب سکوت کی وجہ سے شہر کی مجموعی آبادی کا پانچ فیصد طبقہ
پورے وسائل کو دھیرے دھیرے ہڑپ کرتا جارہا تھا ۔ ضرورت مندوں کیلئے وسائل
کی فراہمی کے تمام دعو ے کاغذوں میں جنم لیکر دیمک کی خوراک بن جاتے اور
پھر وہی کاغذ اپنے استحصال پر نوحہ کناں تاریخ کا حصہ بنتے جارہے تھے ۔
عموماً دن کے اُجالے میں امیر شہر ہر خاص وعام کو گھور گھور کر دیکھتا اور
اچانک ایک قہقہ بلند کرتاہوا اپنے مصاحبوں کے ساتھ آگے بڑھ جاتا
............ یہ قہقہ جس میں کئی نسلوں کی چیخوں کی گونج ہوتی دیر تک شہر
کی فضاؤں میں گونجتا رہتا تھا۔ شہر میں ایک عجیب قانون تھاجس سے تمام لوگ
متاثر ہورہے تھے قانون کے مطابق مسند اقتدار پر وہی لوگ غالب آتے جنہیں
اپنے آباوءاجدادکی جانب سے وراثت میں دان کی گئی جاگیریں ملی ہوتیں۔ دیگر
پچانوے فیصد غریب و غربا ءطلوع ہونے والی ہر صبح کواپنے لئے نئی صبح تصور
کرتے اور ہر رات اس امید پر سو جاتے کہ آنے والی صبح اُن کے لیے امید کا
کوئی پیغام لائے گی ۔
لیکن صبح ہوتے ہی ساتھ اُن کی ساری امیدیں بھی دم توڑ دیتیں اور آخرایک
ایسی ہی صبح آگئی جب فصیل شہر پر اونگھتے محافظوں نے اٹھ کر دیکھا تو وہ آگ
جو کئی دنوں سے بہت دوربھڑک رہی تھی اب شہر سے کچھ ہی فاصلے پر خس و خاشاک
پہ رقصاں اُن کی جانب بڑھ رہی تھی ۔
وہ آخری درویش جو بھاگتا ہوا شہر میں داخل ہوا تھا بندکواڑوں پر نجانے یہ
لکھ کر کہاں کھو گیا تھا” جاگو جاگو اور دیکھو! اپنے بند کواڑوں سے باہر
دیکھو ! سلگتے شعلے تمہارے بام و در تک پہنچنے والے ہیں بام و در کی راکھ
اٹھانے سے پہلے جاگو“۔ |