عباس نے بتایا کہ بس جب سٹاپ پہ
پہنچے گی تو ہارن بجاتے ہوئے آئے گی اور ہارن بجاتے ہوئے ہی جائے گی ،اس
لئے اس نے مجھے نصیحت کی کہ میں بس کا انتظارچلچلاتی دھوپ میں لاری اڈے پہ
نہیں بلکہ ان کے گھر بیٹھ کر کروں،جو کہ وہاں سے چند گزکے فاصلے پہ
تھا۔عباس کا کہنا سچ ہوا اور آدھے گھنٹے بعد بس دور سے ہارن بجاتی شور
مچاتی بس سٹاپ پہ پہنچی۔سواریوں کے سوار ہونے کے بعد بس دوبارہ مختلف ہارن
بجاتی ،سڑک پہ تیکھے موڑ کاٹتی، اپنی منزل کو روانہ ہوئی ۔میری سیٹ بڑی
مونچھوں والے ڈرائیور کے ساتھ تھی۔ میں نے ڈرائیور کی طرف ملتجی نظروں سے
دیکھا اور اس کے توجہ کرنے پہ ہارن نہ بجانے کی درخواست کی مگر ڈرائیور نے
میری بات کا شاید غلط مطلب لیا کہ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ ہارن بجانے لگا
۔میں نے خاموش ہوکر اسے ایک مصیبت سمجھ کر برداشت کرنے کی کوشش کی مگر
برداشت نہ ہونے پہ اب اسے سختی سے منع کیا۔ بس میں سوار باقی لوگ بھی تنگ
آگئے تھے اس لئے انہوں نے بھی میرے مؤقف کی حمایت کی جس پر ڈرائیور کے ساتھ
اچھی خاصی جھڑپ ہوئی اور اس طرح خدا خدا کرکے ہارن بند ہوا ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسافر بر دار گاڑیوں کے ڈرائیورجب گاڑی چلا تے ہیں
تو ان کا ایک ہاتھ عموما ہارن پہ ہوتا ہے اور وہ مسلسل اور بلا ضرورت ہارن
بجاتے چلے جاتے ہیں جس سے نہ صرف مسافر بے چین ہوتے ہیں بلکہ ارد گرد کے
لوگ بھی کوس رہے ہوتے ہیں ۔مزید براں کام سے تھکے لوگ جب تروتازہ ہونے
کیلئے پارکوں اور سیرگاہوں کا رخ کرتے ہیں تو تفریح گاہوں کے سڑک کے نزدیک
ہو نے کی وجہ سے، شور سے محفوظ نہیں رہ سکتے جس سے ذہنی تناﺅ میں کمی کی
بجائے اور اضافہ ہوتا ہے اور برلب سڑک ،دکانیں اور دفاترسجائے، انسا ن ،قابل
تحسین ہیں جو آلام روزگار کے ساتھ ساتھ پریشر ہارن کی تکلیف سے بھی دوچار
ہیں۔
قرآن پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ آہستہ بولو بےشک آوازوں میں بری آواز گدھے
کی ہے ۔اس آیہ مبارکہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شدت( intensity)آوازپر اثر
انداز ہوتی ہے لہٰذا بسا اوقات پیاری آواز بھی اس عنصر کے زیر اثرہوکر
طبیعت کو خراب کرنے لگتی ہے۔اس کی مثال صور اسرافیل کا پہلے سریلا اور پھر
ناپسندیدہ ہو کر خوفناک ہوجانا ہے اور خوفناکی بھی ایسی کہ جس سے جن و انس
بلا تخصیص موت کا شکار ہو جائیں گے۔پریشر ہارن صوراسرافیل ہرگز نہیں مگر
دونوں میں نا گواریت کا عنصرایک ہی ہے ۔دوران سفر ماﺅں کی گود میں سوئے بچے
پریشر ہارن کے پریشر سے بلبلااٹھتے ہیں ایسے میں ماں کی مامتا کا اندازہ
ڈرائیور کو پڑنے والی گالیوں سے لگایا جا سکتا ہے ۔مانا کہ دوران سفر ہر
کسی کے ساتھ بچے نہیں ہوتے مگر یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ ہارن بجانے والے
بھی کوئی کاکے نہیں ہوتے ۔ جن کے اس عمل سے ماحول میں ناگواری اور شورکا
احساس ہوتا ہے اور شور کرنے والوں کو کوئی پسند نہیں کرتا ۔باقی رہی بات
ہارن بجا کر رستہ لینے کی تو اس مقصد کیلئے پریشر ہارن یا میوزیکل ہارن کی
کوئی ضرورت نہیں،جو کہ قانونا بھی ممنوع ہے ۔
ہارن کو اپنی آمد کا اعلان سمجھ کربجانا ،غیر قانونی ہے ۔ یہ صرف اس وقت
بجایا جاتا ہے ،جب کو ئی لین لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹریفک کے بہاﺅ
میںر کاو ٹ ڈ التا ہے ۔ یا پھر بغیر اشارہ دیئے یک دم دوسری طرف کو مڑنے
لگتاہے یوں اچانک آگے آجانے کی وجہ سے پیچھے آنے والوں کو ہارن بجانا پڑتا
ہے لہٰذاایسے موقع پرمعمولی سا ہارن بجا کر رستہ لیا جاسکتا ہے مگر پریشر
ہارن پھر بھی بجانے کی اجازت نہیں ہے ۔لیکن معاشرے میں پھیلے ذہنی تناﺅ کی
بدولت اب ہمارا قومی مزاج کچھ اس طرح کا بن چکا ہے کہ اگرکوئی غلطی سے بھی
ہماری راہ میں آجائے تو ہم برداشت نہیں کر پاتے اور غصے میں آکردیر تک ہارن
بجاتے ہیں۔بعض احباب نے عام گاڑیوں پہ ایمبولینس کا ہوٹر لگا رکھا ہوتا ہے
جسے بجانے پہ دیگر ڈرائیور ایمبولینس سمجھ کر ایک طرف ہو جاتے ہیں جو کہ
بہت بڑا دھوکا اور جرم ہے۔ بعض اوقات ایمبولینس ڈرائیور مریض سے خالی گاڑی
ہونے کی صورت میںیا پھرلاش لے جانے کی صورت میں بھی ہوٹر بجا رہے ہوتے ہیں۔
یہ قانونا ممنوع ہے ۔ ایسا کرنے سے عوام میں عدم تعاون کی فضا جنم لیتی ہے۔
لہٰذا ہمارے معاشرے میں ایمبولینس کو راستہ دینے کی اخلاقیات زوال پذیرہوتی
جا رہی ہے جو کہ ہم سب کیلئیے ایک لمحہءفکریہ ہے ۔
تہذیب یافتہ ملکوں میں پریشر ہارن کا استعمال گالی کے مترادف ہے لیکن ہمارے
ہاں ایک طاقتور پریشر ہارن معاشرتی تفاخرکی علامت ہے۔ یہاں ویگن،بس ،اورٹرک
ڈرائیو راپنی کم فہمی کے باعث پریشر ہارن کو زیادہ سواریاں اکٹھا کرنے
کاذریعہ سمجھتے ہیںجبکہ مقابلہ بازی کے وقت یہ پریشر ہارن ان کیلئیے لطف
اندوزی کاایک سستا ذریعہ ہے۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب اقبال کے شاہین، موٹر
سائیکل کو بال و پرجان کر، ون ویلنگ کرتے ،ہوٹر بجاتے ،ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پہ
اڑتے نظر آتے ہیں ۔افسوس اس وقت بھی ہوتا ہے جب ویگن والے کا پریشر ہارن پہ
چالان ہو رہا ہوتا ہے اور ساری سواریاں اتر کر ڈرائیور کی حمایت میںٹریفک
اہل کار سے معافی مانگ رہی ہوتی ہیںاورتب بھی جب ایک پڑھا لکھا شخص ہارن کو
روایت سمجھ کردانستہ یا نادانستہ طور پہ بجاتا ہی چلا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا صرف افسوس کرلینا ہی کافی ہے اور اس سے آگے ہماری کوئی
ذمہ داری نہیں ؟پریشر ہارن بجانا ایسے ہی ہے جیسے ہم کسی سے چیخ کراپنی بات
منوا رہے ہوں ۔ایسے میں عام طور پر ہمارا مخاطب ہماری بات پہ کان نہیں
دھرتا اور ہمارے کہے کا غلط مطلب لیتا ہے۔ اور نوبت لڑائی جھگڑے تک آ جاتی
ہے اسی طرح سڑک کے اوپر جب ہم کسی سے راستہ لینے کے لئے پریشر ہارن بجاتے
ہیں تووہ راستہ دینے کی بجائے الٹا چڑ جاتا ہے جس سے وہ جان بوجھ کر بھی
راستہ نہیں دیتا ۔ لہٰذا آئیں! آج سے یہ عہد کریں کہ ہم بلا ضرورت پریشر
ہارن بجا کر کسی کو پریشان نہیں کریں گے ۔ |