خواجہ سرا

گزشتہ دنوں قومی دارالحکومت دہلی میں خواجہ سراؤں کے ایک کنونشن میں آگ لگنے سے کم سے کم پندرہ خواجہ سرا ہلاک جبکہ چالیس سے زائد زخمی ہوگئے ،یہاں تقریبا ڈیڑھ ہزارسے زیادہ خواجہ سرا جمع تھے ، ہم اس بابت اس وقت تک کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک اس بات کی کلی جانچ نہ ہو جائے کہ آگ کیوں اور کیسے لگی ۔چونکہ حادثات انہونی ہوتے ہیں اور وہ بتا کر نہیں آتے اس لئے بھی ہم اس پر کچھ تبصرہ نہیں کر سکتے لیکن حادثہ کے بعد انتظامیہ ،پولس اور دیگر عملہ نے جو رویہ اپنایا اسے کسی بھی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا ،یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایک طرف لوگ خاک ،خون اور زخموں سے تڑپ رہے ہیں وہیں دوسری جانب ملک اور اس کے باشندوں کی حفاظت و صیانت کا فریضہ انجام دینے والی پولیس متاثرین کے زیورات اتارنے میں مصروف تھی ۔ انھیں مناسب طبی سہولیات بھی فراہم نہیں کی گئیں اور ان سب سے بڑھ کربات یہ کہ وزیر اعلٰی کی جانب سے راحت کے نام پر متاثرین کو دو دو لاکھ روپئے دینے پر بھی بعض لوگوں نے اعتراض جتانا شروع کر دیا ۔

خدا کی اس مخلوق کے ساتھ اس قسم کا رویہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ ہمیشہ ہی ان کے ساتھ حکومتوں کے علاوہ عام شہریوں نے بھی یہی رویہ اپنایا ہے ۔ لوگ انھیں گالیاں دیتے ہیں ، ڈراتے دھمکاتے ہیں ،ان کے خلاف ایسے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ شیطان بھی سن کر شرما جائے ، لوگ کہتے ہیں کہ یہ غنڈہ گردی کرتے ہیں ، بدتمیز ہیں ،یہ ان کے ڈر کا فائدہ اٹھاتے ہیںوغیرہ وغیرہ، لیکن افسوس کوئی بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا کہ وہ اس حال میں کیوں ہیں اور انھوں نے عام انسانوں کے راستہ سے پرے یہ ڈگر کیونکراپنائی ہے ۔

ہمارے معاشرے میں جانوروں کے بھی محافظ ہیں ، بڑی بڑی ہستیاں جانوروں پر ہو رہے ظلم کے لئے آواز اٹھاتی ہیں اور چندے کے نام پر پیسہ بھی بٹورتی ہیں،مگرمعتوبوں کے معتوب خواجہ سراؤں کی برادری آج بھی اپنے حقوق کےلئے ایک مشکل لڑائی لڑ رہی ہے۔ ان پر تعلیم و صحت کی سہولتوں کے دروازے اکثر بند کر دئے جاتے ہیں۔ جائیداد خریدنے یا مکان کرایے پر حاصل کرنے میں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ان کے اپنے خاندان بھی انہیں میراث کے حقدار نہیں سمجھتے۔معاشرہ انہیں خدا کی ٹھکرائی ہوئی مخلوق گردانتا ہے۔ پیدائش کے وقت ہی ماں باپ چھوڑ دیتے ہیں اور اگر نا بھی چھوڑنا چاہیں تو سماج چھڑوادیتا ہے۔ ان بچوں کو اپنایا نہیں جاتا اور پھر شروع ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کا سفر جہاں وہ دوسرے خواجہ سراؤں کے یہاں ہی پلتے اوربڑے ہوتے ہیں ، نا پڑھائی نا لکھائی۔نا مستبل کی باتیں نا ماضی کی سنہری یادیں،اب ایسے میں بڑے ہو کر اگر وہ لوگوں سے پیسہ نہ وصولیں ،تو کیا کریں؟کیوں کہ یہی طریقہ انھوں نے سیکھا ہے۔

ہم جمہوریت اور یکساں حقوق کی خاطر بحث و مباحثہ،سیمنار اور جلسے وجلوس نکالتے ہیں ،کتابیں لکھتے اور فلمیں بناتے ہیں مگر یہ مساوی حقوق عورت مرد کے حقوق تک ہی محدود رہتا ہے۔ معاشرے میں تیسری جنس بھی ہے یہ سوچنے کی زحمت کسی کو نہیں ہوتی ؟حد تو یہ ہے کہ اگر اس جانب کوئی دھیان بھی دیتا اور ان کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اسے بھی ایسے ہی عتاب کا شکار ہونا پڑتا ہے۔اس سلسلہ میں ابھی حال ہی میںریلیزہونے والی شعیب منصورکی پاکستانی فلم’ بول‘کوپیش کیا جا سکتا ہے جسے گرچہ بعض وسیع الذہن افراد نے سراہا ہے ۔لیکن اس سے کہیں زیادہ افراد نے اس کو تنقیدو تنقیص کا نشانہ بنایا ہے اور اسے حقیقت سے دور قرار دیا ہے،قابل ذکر ہے کہ اس قسم کا خیال رکھنے والے زیادہ تر افراد کی تعداد مذہبی طرز فکر رکھنے والوں کی ہے اور اس میں بھی انکی جو اپنے آپ کو ساری دنیا میں حق اور سچ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے،یہ حضرات اپنی سوچ کے ساتھ چلتے ہوئے دنیا جہاں پر رائے دیتے ہیں لیکن جب اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں تو ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں اور وہ اس کے حق میں ایک لفظ بولنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔

یہ صرف پاکستان کی ہی بات نہیں ہے بلکہ ہمارے ملک میں بھی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے ،آج ہندوستان میں دس لاکھ خواجہ سراؤں کی تعداد ہے ،مگران کے پاس ووٹ دینے کا حق نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ ووٹر شناختی نمبر کے لئے جن دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے پاس نہیں ہیں۔ پبلک پلیس پر میل اورفی میل کے لئے استنجا خانہ و بیت الخلاءکی بحث ہوتی ہے پر خواجہ سراؤں کے لئے الگ سے ایسا کوئی بندوبست کرنے کی بات نہیں اٹھتی۔ان کے لئے اسکول قائم کرنے ،اس سے چھڑا کر کوئی مناسب ملازمت دینے یا کچھ متبادل تلاشنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔حالانکہ یہ بات سبھی خاص کرپڑھا لکھا طبقہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ ہیجڑے ٹیکنیکل بنیاد پر نامرد نہیں کہے جا سکتے۔ ایک عام مرد بھی اس چیز کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کا ہارمونل بیلنس کس طرف زیادہ ہے اسی بنیادپرہارمونل ٹیسٹس کے بعد ان کو قریبی مرد یا عورت کہا جاتا ہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ عام انسانوں کی طرح اپنی نسل کو آگے بڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے،شاید اسی وجہ سے ان کو نہ تو معاشرہ قبول کرتا ہے اور نہ ہی ان کی حرکات و سکنات کی وجہ سے ان کے گھر والے قبول کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے اندر احترام آدمیت نہیں رہا۔ مانا کہ یہ معاشرے میں کچھ برے کاموں کا ذریعہ بنتے ہیں لیکن یہ برائی بھی اسی معاشرے ہی کی پیداوار ہے۔ ان کی یہ تیسری کنڈیشن انہیں گندی عادات پر مجبور نہیں کرتی بلکہ معاشرہ ہی کے چند لوگ انہیں اس طرف مائل کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ اسے عادت اور پیشہ بنا لیتے ہیں۔یہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ انہیں پیدا کرنے والی ہستی تو وہی ہے جس نے ہمیں پیدا کیا۔ ہمارے معاشرے نے ان لوگوں پر ہر قسم کے پیشے کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ کوئی ان کو چپڑاسی تک کی نوکری نہیں دیتا۔پھر اگر یہ ایسا نا کریں تو کیا کریں ،بلاشبہ ہمارے معاشرے نے ان کے ساتھ جو کیایہ بے چارے وہی معاشرے کو لوٹا رہے ہیں۔ایسے میں ان کے عمل کو کلیتا غلط بھی نہیں کہا جا سکتا ۔اسلئے کہ ہم نے ان کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ہے،اس میں ہمارے معاشرے کے علاوہ، حکومت، ملی تنظیمیں اور وہ ادارے بھی مجرم ہیں جنھوں نے تمام تر دعوﺅں کے باوجود ان مظلوموں کو کبھی بھی اپنا موضوع نہیں بنایا ۔جو ایک تلخ حقیت بن کر رہ گئے ہیں اور ہمارے ہی درمیان معاشرے میں سانس لیتی اللہ کی بنائی ہوئی یہ تیسری مخلوق ہمارے سامنے غربت، حقارت، حق تلفی، نظر اندازی کا پیکر بنی کھڑی ہے۔ان کی مسکراہٹ اور من چلے انداز میں لپٹا درد چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میرا کیا قصور ، اگر بنانے والے نے مجھے ایسا ہی بنایا ہے۔

جب ہم معاشرے کے اچھے یا برے ہونے کی بات کرتے ہیں تو وہاں کے بسنے والوں کے آپس میں میل جول اور مساوات کو دیکھتے ہیں۔کہ آیا وہاں کسی کی حق تلفی تو نہیں ہورہی اور عدل و انصاف کے ترازو میں تولا جائے تو سب برابر ہوں۔ خواجہ سراؤں کی موجودہ حالت کے ذمہ دار ہم خود ہیں، کم از کم اس مسئلے پر تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان لوگوں کے مسائل کا حل حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ان کو شرم کے مارے کچرے میں کو ن پھینکتا ہے، حقارت اور ذلت کی نظر سے کون دیکھتا ہے، راہ چلتے ان پر فقرے کون کستا ہے، انہیں اسکول کالج کوئی کیوں نہیں بھیجا جاتا ، کوئی باعزت نوکری کیوں نہیں دی جاتی، بچوں کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ یہ بھی ہم ہی جیسے انسا ن ہیں، ان کا بھی دل ہے اوریہ بھی محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جب تک خواجہ سراؤں کے ساتھ معاشرے میں ایک عام انسان جیسا سلوک نہیں کیا جاتا اس وقت تک ان کو اس دلدل سے نکالنا نا ممکن ہے۔ میں یہاں حکومت کی ذمہ داری پر بحث نہیں کرنا چاہتا اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت بھی تو مجھ جیسے اور آپ جیسے لوگوں کی ہی ہے۔ جب تک عوام کی سوچ نہیں بدلی جائے گی اس وقت تک کچھ نہیں ہونے والا۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہم نے ان کو خلائی مخلوق کیوں سمجھ رکھا ہے ؟ ہم کیوں آج تک ترقی یافتہ تو کیا ترقی پزیر قوموں کی صف میں بھی نہیں؟ صرف اس لیئے کہ ہماری فرسودہ اور جدت سے عاری سوچ نے ہمیں آج تک غلام بنا رکھا ہے۔ جب تک ہم ان چھوٹی چھوٹی ناانصافیوں کو ختم نہیں کریں گے اس وقت تک ہم ترقی کی کسی بھی پکڈنڈی پر بھی چل سکتے ہیں۔

یہاں پر بطور اسلام کے نام لیواﺅں اور اس کے ماننے والوں کی زیادہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس جانب خاص توجہ دیں اور اس کے لئے باضابطہ کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔ اس لئے کہ اسلام نام ہی ہمدردی ،مسیحا ئی، بھائی چارے اور انصاف و مساوات کی تعلیم دینے کا ہے۔اس سے یقینا مثبت نتائج بر آمد ہونگے اور اچھی خاصی آبادی اپنی ناپسند روش چھوڑ کر اسلام کی آغوش میں پناہ لے لے گی جس سے سماج اور معاشرے کا بھی بھلا ہو -
ALAMULLHA ISLAHI/محمد علم اللہ اصلاحی
About the Author: ALAMULLHA ISLAHI/محمد علم اللہ اصلاحی Read More Articles by ALAMULLHA ISLAHI/محمد علم اللہ اصلاحی : 60 Articles with 54386 views http://www.blogger.com/profile/14385453359413649425.. View More