نوجوان کسی بھی قوم کے معما ر
ہوتے ہیں انہی کے بل بوتے پر قومیں ترقی کی منازل طے کرتی ہیں اور انہی کے
بل بوتے پر دوسری قومو ں سے اپنے حقوق کی جنگیں لڑتی ہیں اور انہی کی وجہ
سے جنگوں میں کامیابی ہوتی ہے ان کے ہی دم پر انقلاب کے لئے راہیں ہموار
ہوتی ہیں اورپوری دنیا میں آ ج کل کے سیاست دان بھی اپنے اقتدار کے لئے
انہی کاسہارا استعمال کر نے کے لئے ان کو سا تھ ملانے کا اعلان کر تے نظر آ
تے ہیں غرض یہ طفل مکتب کچھ نہ ہو تے ہو ئے بھی بہت کچھ ہیں اور سچ بھی یہی
ہے کہ ان کی طاقت کو کوئی برداشت نہیں کرسکا شاید انہیں کے لئے بر صغیر پا
ک وہند کے ممتازاور عظیم شاعر علامہ اقبا ل نے فرمایاتھاکہ
تو شاہین ہے پروا ز ہے کام تیرا
مگر آ ج اپنے شاہینوں کی طرف دیکھیں تو وہ کو ن سی اخلاقی پسماندگی ہے جوان
میں موجودہ نہیں غنڈہ گردی یہ کرتے نظرآتے ہیں اساتذہ کو ڈرانے میں کمال
مہارت یہ رکھتے ہیں سگریٹ چرس، ہیرون اور دوسری نشہ آ ور اشیا ءکا بے تحاشا
یہ استعمال کر تے نظر آ تے ہیں اور ہمارے رائٹر ان کو ”معمار پاکستان“ کہتے
نہیں تھکتے جب کہ یہی شاہین اپنی غیر اخلاقی حرکتوں کی و جہ سے خبروں کی
زینت بنتے رہتے ہیں کبھی کسی حا دثے کی سرخی بن کر ابھر تے ہیں تو کبھی یو
نیورسٹیوں میں مار کٹائی سے اپنا نام بڑاکر نے کی جدوجہد مسلسل میں مصروف
عمل نظر آ تے ہیں اور کبھی یہ گرم خون سڑکوں پرگاڑیوں کے ساتھ غنڈہ گردی کر
تے نظر آ تے ہیں اور اپنے والدین کا نام مٹی میں ملا نے میں مصروف ہو تے
ہیں جیسے یہ گاڑیاں اور ان کے مالکان اور ورکرز ان کے آ با ﺅ اجداد کے نوکر
ہیں اور یہ سب چیز یں ان کے ذاتی خرید ہیں۔ یہ صرف اس وقت ہو تا ہے جب یہ
بچے میٹرک سے پاس ہو کر نئے نئے ”کالج“ جا تے ہیں اور خود کو کوئی بڑا
”ڈان“ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں جن کے ایک اشارے پر گاڑی رک جا تی ہے اور یہ
نوابوں کی طرح اس میں سفر کر تے ہیں اور دوسر ے مسا فروں کو تکلیف دے کر
اپنی مرضی کی جگہ پر گاڑی لے جاتے ہیں اور مسافر سوائے پر یشان ہو نے کے
کچھ نہیں کر پاتے ۔جب کہ گاڑیوں میں سفر کی اجا زت صرف ان کو سہولت دینے کے
لئے اور ان کے ذاتی اخراجا ت میں کسی حد تک کمی کے لئے سا بق حکومت وقت نے
دی تھی اور پڑھائی سے ان میں سے اکثریت کو اتنا ہی پیار ہو تا ہے جتنا ایک
گدھے کے مالک کو اس کی کمائی سے ہوتا ہے جب کہ اس کے برعکس بیرونی دنیا کے
لوگ،حکومت اور خود طلباءاپنے لئے ایک روشن راہ متعین کر تے ہیں ایک زندگی
کا مقصد بناتے ہیں اور اس کوپانے کے لئے سردھڑکی بازی لگاتے نظر آ تے ہیں
ان میں سے کئی کامیاب ایسے بھی ہو ئے ہیں جن کے گھر میں کھا نے کے لئے کوئی
چیز نہیں تھی اور پڑ ھنے کے لئے دیا بھی نہیں تھا مگر آ ج ان کی ایجا دات
کی بدولت دنیا روشن چاند کی طرح جگمگا تی نظر آ تی ہے ان کی کامیا بی میں
ایک طرف ان کی اپنی ذاتی محنت شامل ہوتی ہے تو دوسری طرف ان کی حکومت انکو
وہ تمام سہولیات فراہم کر تی ہے جو ان کے لئے ضروری تصور کی جاتی ہیں اور
اوپر سے ان کی خدمات کو سنہری حروف میں لکھا جا تا ہے ان کی خدمات پر ان کو
ایوارڈسے نوازہ جاتا ہے ان کو ان کی محنت کا پورا ثمر دیا جاتا ہے اور ان
کی قدر کیا جاتی ہے مگر اپنے ملک کی طرف دیکھ کے دکھ ہو تا ہے کہ یہ معمار
پاکستا ن ایک طرف تو خود اپنے کل سے بے خبر نظرآ تے ہیں تو دوسری طرف
ہزاروں لاکھوں پڑھے لکھے نوجوان جو اس امید سے پڑھتے رہے کہ کل کو ان کا
مستقبل روشن ہو گا وہ کامیاب تصور کیئے جائیں گے گلیوں روڑوں اور پارکوں
میں آوارہ گردی کر تے نظر آ تے ہیں جس میں ان کا کو ئی قصور نہیں سمجھا جا
سکتا کیو نکہ وہ تو پڑھ لکھ کر اپنے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر نا
چاہتے ہیں مگر نوکری نہیں ملتی اور جہاں سے کوئی امید نظرآ بھی جائے تو
وہاں ”جیب گرم“ نہ کر نے کی وجہ سے یہ ہمیشہ کے لئے ملازمت کی امید لئے یا
مر جاتے ہیں یا پھر جگہ جگہ سے ٹھوکریں کھا تے ہو ئے اور اندر ہی اندر
ٹوٹتے ہوئے خود کومنشیات کا عادی بنا لتے ہیںجب کہ ا ب بھی وقت ہے ہم ان سے
وہ امیدیں پوری کر سکتے ہیں جو ہماری قوم کو ان سے وابسطہ ہیں اپنے ملک کو
کامیابی دلا سکتے ہیں جو ہمارے آ باﺅ اجداد سوچتے ہو ئے منوں مٹی تلے جا کر
سو گئے آ ج بھی ہم وہ پاکستان بنا سکتے ہیں جس کی سوچ 1947/1948ءمیں
قائداعظم اور ان کے رفقاءکار کو تھی آج بھی پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالا
جا سکتا ہے بس اس کے لئے ضروری اقدامات کر نے کی ضرورت ہے اورسب سے ضروری
یہ ہے کہ ان معماروں کو ایک روشن مستقبل دینے کے لئے اقدامات کئے جائیں ان
کو یہ باور کروایا جائے کہ ان کی حاصل کی گئی تعلیم کبھی ضا ئع نہیں ہو گی
بلکہ اس سے یہ ملک اور حکومتیں بھرپور فائدہ اٹھا ئیں گی اور کوئی بھی
تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیروزگار نہیں ہو گا اور جو تعلیم پوری کر چکے ہیں
ان کے لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ہو نگے اور ان نوجوانوںاور طفل
مکتبوں پر یہ ذمہ داری ڈالی جا سکے گی کہ یہ معمار پاکستان اپنی پڑ ھائی پر
تو جہ دے کر پا کستان اور اس کی عوام کے لئے کچھ کر سکیں ا س کا نام عا لمی
سطح پر اونچا کریں اور اس کے ساتھ ہمارے والدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ
اپنی نسل کو وہ تہذیب اپنی ثقافت اور اسلام کی تعلیمات دیں تا کہ وہ اچھا
اور محب وطن پاکستانی بن سکیں کیو نکہ آ ج راقم کو یہ د یکھ کے دکھ ہو تا
ہے کہ آج ہم بحیثیت قوم اپنے بڑوں کے افکار اور ان کے نظریات،و عقائد کو
بری طرح فراموش کر چکے ہیں آ ج صرف خودی کی سربلندی اور ”صرف میں ہوں، میں
ہوں‘ ‘ نے ان ساری اچھی باتوں کی جگہ لے لی ہے آ ج بھی ہم وہ قوم بن سکتے
ہیں جو عالمی دنیا کے نزدیک صرف گروہوں میں بٹ چکی ہے اور اپنے کل سے بے
خبر اپنے ہی ملک کو تباہی کے دھا نے پر لے جا رہی ہے اس کے لئے سب سے پہلے
ہمیں اپنی نسل کو ایک اچھا سچا انسان بنا نا ہو گااور یہ بتا نا ہو گا یہ
کہ یہ وقت کھیل کود کا نہیں اور نہ ہی وقت برباد کر نے کا ہے بلکہ یہ تو وہ
وقت ہے جہاں ایک دوسرے بلکہ خود اپنے جسم سے آ گے جا نے کی جنگ ہے اور
لوگوں کے ساتھ ساتھ قو موں میںخودی کو بہتر سے بہترین بنانے کی جنگ ہے اور
وہی کامیاب ہو نگے جو زمانے کی چال چلیں گے ورنہ دوسرے اور پچھلے رہ جانے
والے زمانے کی جوتیوں کی دھول میں خود کو گمراہ کر بیٹھیں گے اور ان کو یہ
بھی بتا ناہو گا کہ یہ چیزیں جو تم استعمال کر تے ہو یہ تمھاری نہیں بلکہ
یہ قومی اثا ثے ہیں اور ان کی حفاظت کر نا بھی ان پر اتنا اہم ہے جیسے
انسان کے لئے کھانا اہم ہے اوروہ ان کو احتیا ط سے استعمال کر یں سماج دشمن
عناصر جیسی حرکات کر نا بند کر دیں اور خود بھی یہ تہذیب سیکھیں کہ یہ
ہماری ہی چیز یں ہیںاور ان کو ہم نے ہی بچا نا ہے اور سماج دشمن عناصر کا
آلہ کار نہ بنیں اور اس کے بعد ایک محب و طن پاکستانی بنا نا ہو گا اوراس
کے بعد اس گر م خون کو ایک سید ھی اور واضع لائن بنا کردینا ہو گی
جوپاکستان کو عالمی سطح پر ایک مقام فراہم کر ے اور اس کی عز ت میںبھی اضا
فہ کرے٭ |