قطرہ قطرہ قلزم بنتا ہے۔۔۔اورتنکے تنکے سے آشیانے کی تعمیر

”اس زندگی سے بہتر ہے کہ یہ لوگ مر جائیں“ اپنے عزیز ترین دوست اور بھائی تقویم انور سے اس طرح کے مایوسی کے الفاظ پہلے کبھی نہیں سنے تھے۔حضرت علی ؓ کا فرمان ہے ”جس کے دوست ہوں وہ غریب نہیں ہوتا۔“اسلئے مجھے اپنے امیر ہونے میں کوئی شک اور خوش نصیب ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔میرے دوست میرے کردار و عمل کے نگہبان بھی ہیں اور میری بے عملی ، غفلت اور کوتاہی کے محاسب بھی ۔کیونکہ یہ خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی سامنے بیٹھ کر کرتے ہیں اور خوبی ”اگر کوئی ہے“تو اس کا ذکر عدم موجودگی میں۔۔۔اس لیے اپنی تعریف سننے کی ”حسرت“ ہی رہتی ہے۔ممکن ہے یہ تحریر انہیں اچھی نہ لگے مگر میرا مقصودنو جوانوں کو ترغیب دلانا ہے ۔تقویم انور خودی ، خود داری ، سخاوت اور صبر و شکر کی دولت سے مالا مال ہےں ۔غصہ شاید گھر والوں پر نکال لیتے ہوں تو معلوم نہیں مگر باہر غصہ پی جانے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں۔اس دن شاید وہ اپنے اندر کا غبار نکالنا چاہتے تھے ۔صوبہ سندھ کے حالیہ تباہ کن سیلاب کے متاثرین کی داد رسی کے لئے ملک اور بیرون ممالک مقیم دوستوں کے تعاون سے صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں میں دس روزہ میڈیکل کیمپس اور ریلیف کا دیگر سامان حسب استطاعت مہیا کر کے آئے تھے۔انہیں افسوس تھا کہ سندھ کے ”مخدوم “ اسلام آباد کے پر تعیش فارم ہاﺅسزمیں اس وقت بھی مکمل آرام فرما رہے تھے یا بیرون ملک دوروں پر تھے جب سندھ کے بائیس اضلاع پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ان ”مخدوموں “کے مزارعے اور کسان کھلے آسمان تلے بیمار، بھوکے اور ننگے امداد کے منتظر تھے اور اب بھی ہیں۔۔۔غذائیت نام کی کوئی چیز ان کے اندر موجودہی نہ۔۔۔ گندے تالابوں سے پانی پیتے ۔۔۔ ان لوگوں کی زندگیاں عزت نفس کے نام سے بھی آشنا نہیں۔صحت ، تعلیم ،علاج کی سہولتوں سے کوسوں دور ۔۔۔تن پر بد بودار ، پھٹے پرانے کپڑے۔۔۔ پاﺅں جوتوں کے بغیر زخمی، چہروں مرجھائے ہوئے ۔۔۔مسکراہٹیں ناپید اور پرسان حال کوئی نہیں۔

میں نے پوچھا بھائی گزرے سال میں کون سے ایسے کام کیے جن سے اطمینان قلب حاصل کر پائے ۔جو بتایا وہ ان کے لیے تھوڑا مگر میرے لیے بہت زیادہ تھا۔ہزاروں سیلاب زدگان کو طبی سہولتیں (بہترین ادویا ت کے ساتھ)۔۔۔چار سو کے لگ بھگ بے گھر افراد کے لیے شیلٹر ہومز ۔۔۔ایک سو کے قریب کشمیرمیں زلزلہ کی آفت سے اپنے والدین سے محروم ہونے والے یتیم بچوں کی کفالت اور ان کے چہروں کی مسکراہٹ ۔۔۔انہی یتیم بچوں کے ذریعے شجر کاری ۔۔۔صوبہ سرحد کے سیلاب سے متاثرہ ہزاروں افراد کے لیے پینے کے صاف پانی کی فراہمی ۔۔۔سکول کے بچوں کی کتابیں ،بیگ اور دیگر ریلیف کا سامان سب کچھ باعث اطمینان ہے۔مگر! رات کو جب روشنی گُل کر کے بستر پر لیٹتا ہوں تو بہت سے خیالات آتے ہیں۔ ان میں ایک خیال زیادہ تنگ کرتا ہے کہ زندگی گزرتی جا رہی ہے مگر ابھی تک ایسا کچھ نہیں کر پائے کہ جس سے یہ اطمینان ہو کہ اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا ٹھیک ٹھیک استعمال کرنے کا کوئی مناسب اہتمام کیا ہو۔۔۔ علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر یاد آرہے تھے کہ گویا میرا دوست یہ کہہ رہا ہے۔(اور ایسا ہے بھی )
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں
عزلت شب میں میرے اشک ٹپک جاتے ہیں

رات کی تنہائی کے آنسو ہی سچے آنسو ہوتے ہیں۔دن کی شورش اور اجالے میں بہائے گئے آنسو اکثر مگر مچھ کے ہوتے ہیں اور پھر کسی نوجوان کے آنسو جو خلق خدا کی اذیت کو دیکھ کر بہہ نکلیں وہ خدا کی ذات کو اس قدر پیارے ہیں کہ وہ ان آنکھوں سے بھی پیار کرتا ہے۔
کہا بھائی اس خلق خدا کو علامہ اقبال کا یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ
لب کشا ہو جا ، سرود بربط عالم ہے تو
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو
آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل تیرا اندیشہ طوفان سے کیا
ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو

ان مجبور اور لاچار دہقانوں اور کسانوں کوبے رحم اور ظالم جاگیرداروں کے چنگل سے رہائی دلانے کے لیے انہیں اپنے وجود کا احساس اور شعور دلانے کی شدید ضرورت ہے۔میرے دوست نے کہا ساری زندگی خواب دیکھنے سے بہت بہتر ہے کہ اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش کریں ۔سفر چاہے لاکھوں میل کا ہو مگر شروع ایک قدم سے ہوتا ہے۔پوچھا کہ آپ مایوس تو نہیں کہا میں مضطرب ضرور ہوں مگر مایوس نہیں ،مایوس لوگ گھر بیٹھ کے ماتم کرتے ہیں جبکہ مضطرب اپنے اضطراب میں سے اطمینان کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔۔۔مایوسی اور اضطراب کا فرق مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔۔۔قطرہ قطرہ قلزم بنتا ہے۔۔۔ اورتنکے تنکے سے آشیانے کی تعمیر ہوتی ہے۔۔۔ہر فرد قوم کے مقدر کا ستارہ بننے کا عزم کر لے تو پژمردہ اور افسردہ چہروں میں خوشی اور خوشحالی کی مسکراہٹیں بکھیری جاسکتی ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ میرے دوست کو بزم جہاں کی رنگینیاں ،رعنائیاں ،دلکش تماشے اپنا گرویدہ نہ بنا سکے وہ مصروف ہے مخلوق خدا کی خدمت کے ذریعے اپنے اضطراب میں اطمینان قلب تلاش کر نے لیے۔خدا کرے ہم سب کے مہ و سال اسی طرح اور اس سے بھی اچھے گزریں۔
Syed Abid Gillani
About the Author: Syed Abid Gillani Read More Articles by Syed Abid Gillani: 24 Articles with 20365 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.