قصوروار کون۔پولیس‘عوام یا حکمران۔۔۔۔

میں یونیورسٹی سے واپس آرہا تھاکہ سیکٹریٹ سے تھوڑا پیچھے ایک پولیس والے نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔میں نے موٹر سائیکل روکی تو اس نے پوچھاکہ کیا میں اسے آگے تک ڈراپ کر سکتا ہوں میں نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا کافی صحت مند جسم کا مالک‘ گھنی مونچھیں‘ بھا ری چہرہ‘ شیو بنی ہوئی اور ہاتھ میں گن پکڑی ہوئی ایک بارعب پولیس مین دکھائی دے رہا تھا۔ لاہور کی سڑکوں پر رش اتنا زیا دہ ہوتا ہے کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہمیشہ دھیان آگے مرکوز رکھنا پڑتا ہے۔اس لیے میں نے اس سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ بند روڈ کے قریب بس سٹاپ پہ اس نے مجھے رکنے کو کہا۔ میں نے بریک لگائی تو وہ مجھ سے بولا۔ ’بھائی آپ میری بات ذرا توجہ سے سنیے گا میرے پاس کھانا کھانے کیلیئے پیسے نہیں ہیں آپ میری مدد کر دیجیئے۔ میں بڑا حیران ہواکہ اگر ایک سرکاری ملازم کے پاس کھانا کھانے کیلیے پیسے نہیں باقی غریب عوام کس حال میں ہو گی؟ G3گن اس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی کہیں یہ پولیس کی وردی میں ڈاکو تو نہیں ! اچانک میرے ذہن میں خیال ابھرا۔میں نے وہاں سے کھسکنا مناسب سمجھا۔میرے پاس آپ کو کو کھانا کھلا نے کیلیئے پیسے نہیں ہیں میں نے اسے بتایا۔ ’بیس روپے تو ہونگے۔ بیس روپے ہی دے دو آپ کی مہربانی‘ میں بڑا حیران و پریشان کھڑا تھا۔تبھی وہ دوبارہ بولا’دس روپے ہی دے دیں‘

بند روڑ کی نکڑ پر شام 6سے7بجے تک آپ کو کافی پولیس والے دکھائی دیں گے۔ یہ سب لفٹ کے چکر میں کھڑے ہوتے ہیں۔ایک کانسٹیبل کی تنخواہ تقریباً 13000کے قریب ہوتی ہے جس میں 500روپے کھا نا کھانے کا الاوئنس اور 650روپے رہائش کا الاؤئنس شامل ہوتا ہے۔اس طبقے کے ملازمین کو حکو مت کی طرف سے نہ رہائش دی جاتی ہے اور نہ ہی کھانا۔ انہیں 1150روپے میں یہ دونوں کام نمٹانے ہوتے ہیں یہ ملازمین لاہور کے مضافاتی علاقوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں جہاں انہیں 3000سے لیکر4000روپے تک کمرہ کرائے پر مل جاتا ہے۔اور اگر یہ ملازمین دا ل روٹی کھائیں تو 4500روپے ماہانہ اس کا بن جاتا ہوگااس کے بعد ان کے پاس کیا بچتا ہوگاگھریلو اخراجات کیلیئے۔اسی لیے یہ لوگ اکثر چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث نظر آتے ہیں۔

لاہور میں ٹریفک کنٹرول کرنے کا مناسب سٹرکچر موجود ہے جبکہ اگر ہم پنجاب کے چھوٹے شہروں پر نظر دوڑائیں توسفید وردی میں ملبوس ٹریفک پولیس والے نظر آئیں گے۔یہ چالان کم کرتے ہیں رشوت زیادہ لیتے ہیں۔ٹریفک پولیس کے علاوہ دوسری پولیس بھی آپ کو نظر آئے گی یہ بھی اپنی جیب گرم کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ہر شریف شہری کو روک کر پریشان کرتے ہیں۔لاہور اور اسلام آباد میں میں پولیس کی کارکردگی پھر بھی قابلِ اطمینان ہے جبکہ دوسرے شہروں میں انتہائی تشویشناک ہے۔ان شہروں کے پولیس والوں اور عام شہری کی صحت سے حساب لگانے کی کوشش کیجیئے۔پولیس والے اتنے اتنے موٹے ہیں یہ ملزمان کا پیچھا کیسے کرتے ہونگے؟

آئے دن اخباروں میں پڑھنے کو ملتا ہے ڈکیتی کی واردات میں پولیس ملوث نکلی۔ یا کوئی وڈیرہ جرم کرتا ہے تو ہماری پولیس اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے قاصر ہوتی ہے غریبوں پر ظلم کرتے ہیں امیروں کو جیل میں بھی گھر جیسا ماہول مہیا کرتے ہیں۔قصوروار کون ہے ہم عوام‘ ہمارے حکمران یا پولیس؟

اس محکمے کی ازسرِ نو ترتیب بہت ضروری ہے۔ ایک مناسب سٹرکچر ہونا چاہیئے جیسا ڈسپلن آرمی میں نظر آتا ہے ویسے ان کی مناسب ٹریننگ اور ڈیلی بیس پرورزش کا انتظام کارآمد ہوگا۔ اگر ہمارہ یہ محکمہ قانون کی پاسداری شروع کر دے اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنا دے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کانام دنیا کی عظیم مملکتوں میں شامل ہوگا۔
Shahid Chaudhry
About the Author: Shahid Chaudhry Read More Articles by Shahid Chaudhry: 13 Articles with 11890 views I am journalist and columnist. .. View More