علامہ اسید الحق قادری
بدایونی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے ایک مضمون
حدیبیہ کے مقام پر سرور کائنات ﷺنے اپنے جاں نثار صحابہ سے جہاد پر بیعت
لی،بیعت لینے کا یہ واقعہ جس وقت پیش آیا اس وقت آپ ﷺ ایک درخت کے نیچے
تشریف فرما تھے،بیعت رضوان کا یہ واقعہ تاریخ اسلام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے،
اس لیے جس درخت کے نیچے یہ واقعہ رونما ہوا اس کو بھی تاریخ میں غیر معمولی
اہمیت حاصل ہوگئی،خود قرآن کریم نے اس درخت کا تذکرہ کر کے اس کے ذکر کو
زندۂ جاوید کردیا،ارشاد ربانی ہے:لقد رضی اللہ عن المومنین اذ یبایعونک
تحت الشجرۃ (الفتح ۱۸)ترجمہ:یقینا راضی ہوگیا اللہ تعالٰی مومنین سے جب وہ
درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے-روایات میں اس درخت کا نام ’’سمرہ‘‘
بتایا گیا ہے جس کا ترجمہ اردو مترجمین نے ’’کیکر کا درخت ‘‘کیا ہے-
اس درخت کے بارے میں ایک روایت یہ مشہور ہے کہ بعض لوگ اس سے برکت حاصل کر
نے کے لیے اس کے پاس نماز پڑھنے لگے، جب یہ خبر امیر المومنین سیدنا عمر
فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تک پہنچی تو آپ نے ان لوگوں کو سرزنش فرمائی
اور اس درخت کو کٹوانے کا حکم فرمایا لہٰذا آپ کے حکم سے وہ درخت کاٹ دیا
گیا،انبیاو صالحین کے آثار وتبرکات سے برکت حاصل کرنے کے سلسلہ میں جب بھی
بحث ہوتی ہے تو ایک مخصوص طبقہ اس روایت کو بڑی شدومد سے پیش کرکے یہ ثابت
کرنے کی کو شش کرتا ہے کہ اگر انبیا کے آثار سے برکت حاصل کرنے کی شریعت
میں ذرا بھی گنجائش ہوتی تو حضرت عمر اس مبارک درخت کو ہرگز نہ کٹواتے،تبرک
بالآثار کے رد میں سب سے پہلے حافظ ابن تیمیہ نے اس روایت کو بطور دلیل
پیش کیا، لکھتے ہیں :
وروی محمد بن وضاح وغیرہ ان عمر بن الخطاب امر بقطع الشجرۃ التی بویع تحتہا
النبی بیعۃ الرضوان لان الناس کانوا یذہبون تحتہا فخاف عمر الفتنۃ علیہم-(۱)
محمد بن وضاح وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر نے اس درخت کو کاٹنے کا حکم
فرمایاجس کے نیچے حضور اکرم ﷺ نے بیعت رضوان لی تھی ،اس لیے کہ لوگ اس کے
نیچے جایا کرتے تھے تو حضرت عمر کو ان کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہوا-حافظ
ابن تیمیہ کے معتقدین و متبعین بغیر تحقیق کے محض ان کی ’’تقلید ‘‘ میں اس
روایت کو آج تک بطور دلیل پیش کرتے چلے آرہے ہیں لیکن ہمیں اس روایت پر
چند وجوہ سے تأمل ہے-
صحاح ستہ سمیت حدیث کی اکثر مشہورومعتبر کتب میں اس روایت کا کہیں نام و
نشان نہیں ہے بلکہ یہ روایت صحیحین کی روایت کے معارض بھی ہے(جس کا ذکر ہم
آگے چل کر کریں گے)،یہ روایت صرف دو کتابوں میں موجود ہے ایک طبقات ابن
سعد دوسرے مصنف ابن ابی شیبہ (۲)
ان دونوں حضرات نے اس کو نافع مولی ابن عمر سے بطریق ابن عون روایت کیا
ہے،یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب سے نافع مولی ابن
عمر کی ملاقات اور سماع دونوں ثابت نہیں ہیںلہذا نافع اگر کسی درمیانی
واسطے کے بغیر براہ راست حضرت عمر سے روایت کریں تو اصطلاح میں ایسی روایت
کو ’’منقطع ‘‘کہا جائے گا،دوسری بات یہ کہ حافظ ابن تیمیہ نے محمد بن وضاح
کی جس روایت کا حوالہ دیا ہے ہمیں نہیں معلوم کہ وہ روایت کس کتاب میں ہے
اور اس کی سند کیا ہے، البتہ جہاں تک خود محمد بن وضاح کا سوال ہے تو ان کے
بارے میں حافظ ابن حجر اور امام ذہبی نے حافظ ابن الفرضی کا یہ قول نقل کیا
ہے :
قال ابن الفرضی لہ اخطاء کثیرہ واشیاء یصحفہا وکان لا علم لہ بالفقہ ولا
بالعربیہ-(۳)
محمد بن وضاح کے بارے میں ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ:
انہ کان یکثر الرد للحدیث فیقول لیس ہذا من کلام النبی ﷺ وہو ثابت من کلامہ
(۴)
اگرچہ حافظ ابن حجر اور امام ذہبی نے ابن وضاح کو ’’صدوق ‘‘ کہا ہے مگر
ساتھ ہی ان کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ابن معین کے بارے میں کہا
کرتے تھے کہ ابن معین امام شافعی کو ’’ثقہ‘‘ نہیں مانتے،حالانکہ ابن معین
کا دامن اس الزام سے پاک ہے، شاید اسی لیے حافظ ابن عبد البر نے فرمایا:ابن
و ضاح لیس بثقۃ (۵) ابن وضاح ثقہ نہیں ہیں-
اب ہم بخاری و مسلم کی ان روایات کی طرف توجہ کرتے ہیںجو اس مشہور روایت کے
معارض ہیں،امام بخاری طارق بن عبدا لرحمٰن سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے
ارشاد فرمایا:
’’میں حج کے لیے نکلا،تو میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جونمازپڑھ رہے
تھے ،میں نے پوچھا کہ یہ کیسی مسجد ہے؟انہوںنے کہا یہ وہ درخت ہے جہاں رسول
اکرمﷺ نے بیعت رضوان لی تھی،پھر میں سعید بن مسیب کے پاس آیا اور ان کو
پورا واقعہ سنایا تو سعید نے فرمایا :مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ میں ان
لوگوں میں شامل تھا، جنہوںنے درخت کے نیچے رسول اکرم ﷺ سے بیعت کی تھی، پھر
جب اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں فراموش ہوگیاکہ کون سا تھاہم اس
کو پہچاننے میں کامیاب نہ ہوسکے،پھر سعید نے (طارق بن عبد الرحمان سے) کہا
کہ حضور ﷺ کے اصحاب تو اس درخت (کی جگہ)کو نہیں جان سکے ا ور تم نے اس کو
جان لیا،تو تم ان سے زیادہ جاننے والے ہوئے-(۶)
امام بخاری سعید بن مسیب ہی سے بطریق قتادہ روایت فرماتے ہیں:
سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ میں نے بیعت رضوان والے
درخت کو دیکھا تھاپھر اس کے بعد میں وہاں گیا تو اس کو نہیں پہچان سکا- (۷)
امام بخاری اس روایت کو ایک دوسرے طریقہ سے بیان فرماتے ہیں:
سعید بن مسیب کے والد نے فرمایا کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جن لوگوں نے
اس درخت کے نیچے بیعت کی تھی پھر اگلے سال ہم وہاں گئے تو وہ درخت ہمیں
نہیں ملا- (۸)
اس روایت کو امام مسلم نے بھی صحیح مسلم میں تین مختلف طرق سے بیان کیا ہے(۹)
طبقات ابن سعد اور مصنف ابن ابی شیبہ جن میں درخت کٹوانے والی روایت ہے ان
میں بھی حضرت سعید بن مسیب کی مذکورہ روایت موجو د ہے،بلکہ طبقات ابن سعد
میں نافع مولی ابن عمر سے ایک روایت یہ بھی ذکر کی گئی ہے:
اخبرنا علی بن محمد عن جویریۃ بن اسماء عن نافع قال خرج قوم من اصحاب رسول
اللّٰہﷺ بعد ذلک باعوام فما عرف احد منہم الشجرۃواختلفوا فیہاقال ابن
عمرکانت رحمۃ من اللّٰہ(۱۰)
ہمیں علی بن محمد نے خبر دی، وہ جویریہ سے روایت کرتے ہیںوہ نافع سے روایت
کرتے ہیں کہ نافع نے کہا رسول اللہﷺ کے صحابہ میں سے ایک جماعت (اس واقعہ
کے)کچھ سال بعد وہاں گئی تو ان میں سے کوئی بھی اس درخت کو نہیں پہچان سکا،
اس درخت کے محل وقوع کو لے کر ان کے درمیان اختلاف رائے پیدا ہواتو ابن عمر
نے فرمایا کہ وہ درخت اللہ کی طرف سے رحمت تھا -
ضیاء الامت پیر کرم شاہ ازہری نے تاریخ الخمیس کے حوالے سے ایک روایت نقل
کی ہے جس میں خود حضرت عمر بن الخطاب کے حوالے سے درخت کو نہ پہچاننے کی
بات کی گئی ہے، روایت یہ ہے:
ان عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ مر بذلک المقام بعد ذہاب
الشجرۃفقال این کانت فجعل بعضہم یقول ہہنا وبعضہم یقول ہہنافلما کثر
اختلافہ قال سیروا فقد ذہبت الشجرۃ(۱۱)
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ درخت کے غائب ہونے کے بعد وہاں سے گزرے،آپ
نے پوچھاوہ درخت کس جگہ تھا؟کسی نے کہا اس جگہ تھا کسی نے کہا اس جگہ تھاجب
اس درخت کی جگہ کے بارے میں لوگوں کا اختلاف بڑھا تو آپ نے فرمایا کہ آگے
چلو وہ درخت غائب کر دیا گیا -
تاریخ الخمیس پیش نظر نہیں ہے، اس لیے اس روایت کی صحت و ضعف کے سلسلہ میں
میں کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتا-بہر حال بخاری ،مسلم،طبقات ابن سعد اور
تاریخ الخمیس وغیرہ کی مذکورہ روایتوں کی روشنی میں چند باتیں سامنے آتی
ہیں:
( ۱) بیعت رضوان کے اگلے سال حضرت مسیب نے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ اس
درخت کو تلاش کرنا چاہا مگران کو وہ درخت نہیں مل سکا -
(۲) کچھ سال بعد ایسا ہی واقعہ حضرت عمرکی معیت میں چند صحابہ کے ساتھ بھی
پیش آیا-
(۳) پھر کچھ سال بعد ایسا ہی واقعہ حضرت ابن عمر اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ
بھی پیش آیا-
(۴) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اس قسم کے متبرک مقامات کی تلاش
میں رہا کرتے تھا-
(۵) بخاری شریف کی پہلی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی دوسرے درخت کو
لوگوں نے غلطی سے بیعت رضوان والا درخت سمجھ لیا تھااور وہاں آکر نمازیں
پڑھا کرتے تھے-
ان نکات سے یقینی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جب ایک سال بعد ہی
اس درخت کا محل وقوع اختلاف رائے کا شکار ہو گیا تھا اورایک روایت کے مطابق
وہ کسی مصلحت خداوندی کے تحت نظروں سے اوجھل کر دیا گیا تھا تو خلافت
فاروقی میں اس کو کٹوانے والی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے؟ طبقات ابن سعد اور
مصنف ابن ابی شیبہ والی روایت جس میں درخت کٹوانے کی نسبت حضرت عمر کی طرف
کی گئی ہے وہ منقطع ہونے کے علاوہ صحیحین کی روایت سے معارض بھی ہے اس لیے
ہمیں یہ تسلیم ہی نہیں کہ حضرت عمر نے بیعت رضوان والا درخت کاٹنے کا حکم
دیا تھا اور اگر بر سبیل تنزل ابن سعد کی روایت تسلیم کر لی جائے تو پھر
بخاری شریف کی روایت کی روشنی میں یہ کہا جائے گا کہ لوگوں نے کسی دوسرے
درخت کو غلطی سے بیعت رضوان والا درخت گمان کرلیا تھااس لیے حضرت عمر نے اس
کو کاٹنے کا حکم دیا تاکہ نقلی درخت کو لوگ اصلی نہ سمجھنے لگیں -اب سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ درخت کو کیوں لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ اور مخفی کردیا
گیا ؟اس کا جواب صرف یہی ہے کہ اس کی حکمت اور مصلحت کا صحیح علم اسی ذات
کے پاس ہے جس نے اس کو پوشیدہ فرمایا یعنی اللہ تبارک و تعالٰی،البتہ شارح
مسلم امام النووی نے اس کی یہ حکمت تحریر فرمائی ہے:
قال العلماء سبب خفائہا ان لا یفتتن الناس بہا لما جری تحتہا من الخیر
ونزول الرضوان والسکینہ وغیرہ ذلک ظاہرۃ معلومۃ لخیف تعظیم الاعراب والجہال
ایاہا لہا فکان خفائہا رحمۃ من اللہ تعالٰی(۱۲)
علما نے فرمایا ہے کہ اس کے مخفی ہونے میں حکمت یہ تھی کہ لوگ اس کی وجہ سے
فتنہ میں نہ پڑجائیں کیوں کہ اس کے نیچے بیعت رضوان ہوئی تھی اور سکینہ
نازل ہوا تھا،یہ بات ظاہر اور معلوم تھی اندیشہ ہوا کہ دیہاتی اور ناواقف
لوگ اس کی تعظیم کریں گے پس اس کا مخفی ہونا بھی اللہ کی رحمت تھا-
امام نووی کی جلالت علمی کے سامنے میری حیثیت ’’صفر محض‘‘ سے بھی کم ہے اس
کے باوجود میری ناقص فہم میں یہ بات نہیں آئی کہ اگر درخت کے مخفی ہونے کی
یہی حکمت ہے (یعنی جہال کی تعظیم کا اندیشہ)تو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ
میں صرف یہی ایک درخت نہیں تھا جہاں یہ اندیشہ ہو بلکہ غار حرا سے لے کر
منبر رسول اور قبر اطہر تک بے شمار ایسے متبرک اور مقدس مقامات موجود تھے
جہاں مذکورہ اندیشہ ہو سکتا تھا تو پھر آخر وہ سارے مقامات کیوں نظروں سے
اوجھل نہیں ہوگئے؟
(جامِ نور دسمبر ۲۰۰۵ئ)
مــــراجــــع
۱- اقتضاء الصراط المستقیم:ج۱ ص ۳۸۶۔مطبعۃ السنۃ المحمدیہ القاہرہ
۲- الطبقات الکبری لابن سعد:ج۲ ص۱۰۰۔دار صادر بیروت (سن ندارد)و مصنف ابن
ابی شیبہ ج ۲ ص۱۵۰مکتبۃ الرشد ریاض ۱۴۰۹ھ
۳و ۴-لسان المیزان ج۵ ص۴۱۶مؤسسۃالاعلمی للمطبوعات بیروت ۱۴۰۶ھ ومیزان
الاعتدال فی نقد الرجال ج۶ص۳۶۰ دارالکتب العلمیہ بیروت الطبعۃ الا ولی
۱۹۹۵ء
۵- الرواۃ الثقات للذہبی ص۹:دار البشائر الاسلامیہ بیروت الطبعۃ الاولی(سن
ندارد)
۶،۷، ۸- صحیح بخاری،کتاب المغازی،باب غزوۃ الحدیبیہ)
۹- صحیح مسلم،کتاب الامارۃ،باب استحباب مبایعۃالامام الجیش عند ارادۃ القتل
وبیان بیعۃ الرضوان تحت الشجرہ)
۱۰- طبقات ابن سعد:ج۲ ص۱۰۵ ،دارصادر بیروت
۱۱- ضیاء النبی ج۴ ص۱۶۵ ،اسلامک پبلشر دہلی (سن ندارد)
۱۲- شرح مسلم لنووی:ج۱۳ص۵، دار احیا ء التراث العربی بیروت،الطبعۃ
الثانیہ۱۳۹۲ |