کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون ایک تحقیقی مطالعہ
(Muhammad Saqib Raza Qadri, Lahore)
علمی حلقوں میں کشف الظنون یا اس
کے مؤلف حاجی خلیفہ کانام اجنبی نہیں ہے-یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری (۱۷ویں
صدی عیسوی)کے وسط میں تالیف کی گئی تھی-جیسا کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب
مختلف علوم وفنون کی تعریف اور ان پر لکھی جانے والی مختلف کتابوں کے تعارف
وتذکرے پر مشتمل ہے،اس موضوع پر لکھی جانے والی اگرچہ یہ پہلی اور آخری
کتاب نہیں ہے اس کی تالیف سے پہلے بھی اہل علم نے اس موضوع پر داد تحقیق دی
ہے اور اس کے بعد بھی اس موضوع پر کافی کچھ لکھا گیا ہے،کشف الظنون طبع
چہارم کے ناشرین نے اپنے مقدمہ میں ان کتب کا ذکر کیا ہے جو کشف الظنون سے
قبل اس موضوع پر لکھی گئی ہیں-لیکن اپنی بعض علمی وفنی خصوصیات کے سبب کشف
الظنون کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے-اسی امتیازی خصوصیت کے سبب اہل علم
وتحقیق نے اس پر اعتماد کیا ہے-اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی
لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تالیف کے فوراً بعد ہی سے اس پر تحقیقی کام کا
آغاز ہوگیا تھا -جس کے نتیجے میں عالمی زبانوں میں اس کے ترجمے،اس کے
ذیول،اس کی شروحات،اور اس کے مختصرات منظر عام پر آئے-
کشف الظنون طبع چہارم کے ناشرین کے اعداد وشمار پر اعتماد کیا جائے تو یہ
کتاب ۳۰۰ علوم کی تعریف،پندرہ ہزار کتب کے تعارف ،اور نو ہزار پانچ سو
مصنفین کے تذکرے پر مشتمل ہے-زیر نظر مقالے میں ہم اس اہم کتاب کا جائزہ
لیتے ہوئے اس کی فنی خصوصیات،اس کے قلمی اور مطبوعہ نسخوں،اس کے ترجمے،اور
مختصرات سمیت مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے-کتاب کے تعارف
سے قبل صاحب کتاب کی سیرت وشخصیت پر بھی ایک سرسری نظر ڈالتے چلیں-
مختصر سوانح مصنف - کشف الظنون کے مؤلف کا اصل نام مصطفی بن عبداللہ ہے
،حاجی خلیفہ یا کاتب چلپی کے نام سے علمی حلقوں میں مشہور ہیں-حاجی خلیفہ
کی ولادت ۱۰۱۷ہجری مطابق ۱۶۰۸عیسوی میں استنبول(ترکی )میں ہوئی،اور وفات
بھی اسی شہر میں ۱۰۶۷ہجری مطابق۱۶۵۶عیسوی میں ہوئی(۱)-سرکیس یوسف الیان نے
حاجی خلیفہ کا سن ولادت ۱۰۰۴ھ لکھا ہے (۲)اور ایڈورڈفنڈک نے سال وفات ۱۰۶۸ھ
تحریر کیا ہے (۳)یہ دونوں خلاف تحقیق ہیں-
حاجی خلیفہ نے اپنی زندگی کے ابتدائی پانچ سال اپنے والد کی زیر سرپرستی
گزارے ،جو دربار سلطانی میں ایک معزز عہدے پر فائزتھے،مؤرخین کے مطابق ان
کے والد شیخ عبداللہ عبادت گذار،ایمان دار اور علما ومشائخ کی صحبت میں
بیٹھنے والے تھے،حاجی خلیفہ کی علمی اور عملی زندگی پر ان کے والد کی حسن
پرورش اور عمدہ تربیت کا گہرا اثر تھا-
تعلیم - حاجی خلیفہ کی عمر جب چھ سال کی ہوئی توان کے والد نے ان کو امام
عیسیٰ خلیفۃ القریمی کے سپرد کردیا ،یہ حاجی خلیفہ کی پہلی درسگاہ تھی،اس
کے بعد انہوں نے مختلف اساتذہ سے کسب علم کیا ،یہاں ہم ان کے مختلف تعلیمی
ادوار کی تفصیل میں جائے بغیرصرف ان اساتذہ ومشائخ کے نام درج کرنے پر
اکتفا کرتے ہیں جن سے انہوں نے مختلف اوقات میں اخذ علم کیا -
(۱) الیاس خواجہ :ان سے ابتدائی صرف ونحو کی کتابیں پڑھیں-
(۲) احمد چلپی خطاط:ان سے فن خطاطی کی تحصیل کی-
(۳) الشیخ محمد بن مصطفیٰ معروف بہ قاضی زادہ حنفی(م۱۰۴۴ھ)
(۴) علامہ قاضی مصطفیٰ الاعرج(م۱۰۶۳ھ)
(۵) الشیخ عبداللہ کردی(م۱۰۶۴ھ)
(۶) الشیخ محمد البانی(م۱۰۵۴ھ)
(۷) الشیخ ولی الدین الواعظ(م۱۰۶۵ھ)(۴)
درس وتدریس اور مطالعہ -حاجی خلیفہ اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہوکرتقریباً۱۰۵۴ھ
میں تدریس کی طرف متوجہ ہوئے،اور دس برس تک نہایت انہماک اور دلچسپی سے
طلبہ کو درس دیا ،مؤرخین کے بقول اس دوران وہ نہایت گہرائی سے مطالعہ کرتے
اور بعض اوقات رات رات بھر مطالعہ میں منہمک رہتے یہاں تک کہ فجر طلوع
ہوجاتی،ان برسوں میں ان سے کثیر تعداد میں طلبہ نے استفادہ کیا ،مرعشی نے
اپنے مقدمے میںان کے تین قابل ذکر مستفیدین کا ذکر کیا ہے-
(۱) حاجی خلیفہ کے صاحبزادے فخرالدین محمد چلپی(م۱۱۴۰ھ)
(۲) علامہ محی الدین برساوی(م۱۱۳۰ھ)
(۳) ملا محمد نعیم الشاعر(م۱۱۲۵ھ)
تصنیف وتالیف - حاجی خلیفہ نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور فطری ذوق وذہانت کے
نتیجے میںتصانیف کا ایک قابل قدر ذخیرہ چھوڑا،تفسیر،فقہ،ادب،فلکیات،اور
تصوف وسلوک سمیت انہونے ایک درجن علوم وفنون میں ۳۰ سے زیادہ کتابیں تصنیف
کیں،جن میں عربی،فارسی،اور ترکی ہرسہ زبانوں میں کتب شامل ہیں-ان کی تصانیف
میں کشف الظنون جیسی اہم کتاب کے علاوہ تفسیر بیضاوی کی تعلیق،فقہ حنفی میں
الالہام المقدس من الفیض الاقدس،تصوف وسلوک میںمیزان الحق فی اختیار
الاحق(ترکی)ادب میں تحفۃ الاخیار فی الحکم والامثال والاشعار،تاریخ میں
تاریخ قندیہ،تقویم التواریخ،تحفۃ الکبار،سلم الوصول،جغرافیہ میںجہاں
نما،لوامع النور فی اطلس مینور،اور ترکی وفارسی کے دواوین شعری قابل ذکر
ہیں(۵)-
حاجی خلیفہ نے عراق وشام سمیت کئی ممالک کا سفر کیا ،۱۱۴۶ھ میں حج بیت اللہ
کی سعادت سے بہر ور ہوئے، ترک افواج اور دربار سلطانی میں مختلف حیثیتوںسے
متعلق رہے ،ایک مرتبہ جنگ میں بھی شرکت کی-
کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون - حاجی خلیفہ اپنی ترکی زبان کی کتاب
’’میزان الحق‘‘میں لکھتے ہیں:
’’حلب کے دوران قیام مجھے یہ خیال آیاکہ ایک کتاب میں کتب اور مصنفین کے
اسما جمع کیے جائیں،یہ خیال آتے ہی میں نے اسی وقت سے کام کا آغاز کر دیا
،پھر جب میں استنبول آیا تو مجھے ایک عزیز کے ورثے سے کافی دولت ملی ،جس
سے میں نے کتب خریدیں،اس کے بعد میرے اندر کام کرنے کا ایک نیا جذبہ اور
حوصلہ پیدا ہوا ،۱۰۴۸ھ میں میرے ایک اور تاجر رشتہ دار کی وفات ہوئی،ان کے
ورثے سے بھی مجھے کافی دولت ملی ،جس کے سبب مجھے معاشی معاملات میں فارغ
البالی حاصل ہوئی،نیز اس دولت کا ایک بڑا حصہ میں نے کتب کے حصول میں صرف
کیا ،گذشتہ بیس برس میں مَیں نے جو کتب حلب اور استنبول کے کتب خانوں میں
دیکھی تھیں،نیز دیگر کتب طبقات وتراجم سے میں نے اپنی اس کتاب کی جمع
وترتیب میں مدد لی‘‘-(۶)
طبع چہارم کے ناشرین کی تحقیق کے مطابق یہ کتاب ۱۰۶۳ھ کے آس پاس پایۂ
تکمیل کو پہونچی-کشف الظنون میں علو م وفنون اور کتب کی ترتیب کے سلسلہ
میںحروف تہجی کا اعتبار کیا گیا ہے ،ڈاکٹر سلیمان محمد عطیہ کے بقول ’’کشف
الظنون کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے جس کی وجہ سے وہ سابقہ کتب میں منفرد اور
ممتاز نظر آتی ہے،اور بعد کے لوگوں نے اس معاملے میںاس کی تقلید کی
ہے‘‘(۷)
کشف الظنون کی خصوصیات یا امتیازات کی درجہ بندی ہم درج ذیل تین عنوانات
میں کر سکتے ہیں: (الف) علمی اور تاریخی مباحث
(ب) باعتبار تذکرۂ کتب(ج)باعتبار تذکرۂ مصنفین-
علمی اور تاریخی مباحث - کتب اور علوم کی تعریفات سے قبل مؤلف نے ایک طویل
اور وقیع مقدمہ تحریر کیا ہے،جس کو انہوں نے’’ المقدمۃ فی احوال العلم ‘‘کے
نام سے موسوم کیا ہے ،یہ مقدمہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے ،جن میں سے ہر باب
میں متعدد فصلیں ہیں،ان ابواب وفصول میںعلم کے مختلف پہلوؤں اور گوشوںپر
نہایت عمدہ اور گراں قدر مباحث معرض تحریر میں لائے گئے ہیں،یہاں ان ابواب
اور فصول پر ایک سرسری نظرڈالی جاتی ہے تاکہ مقدمہ کی اہمیت اور وقعت کا
اندازہ لگایا جاسکے -
الباب الاول فی تعریف العلم وتقسیمہ - یہ باب پانچ فصلوں پر مشتمل ہے،جن کی
ترتیب حسب ذیل ہے (۱)علم کی ماہیت(۲)علم کی ماہیت میں اہل علم کا اختلاف
(۳)علم مدون،اس کا موضوع،اس کے مبادی ،اس کے مسائل،اس کی غایت(۴)علوم کی
تقسیم اور اس کی اقسام کا اجمالی تعارف(۵)علم کے مراتب اور اس کی فضیلت
وشرف-
الباب الثانی فی منشأ العلوم والکتب - یہ باب مندرجہ ذیل تین فصلوں پر
مشتمل ہے(۱)علم کی نشوونما کے اسباب (۲)کتب سماویہ کے نزول کا سبب اور اس
بارے میں لوگوں کا اختلاف(۳)اہل اسلام اور ان کے علوم-
الباب الثالث فی المؤلفین والمؤلفات - یہ باب بھی نہایت قیمتی ہے اور تین
ترشیحات پر مبنی ہے (۱)پہلی ترشیح تدوین اور مدونات کی اقسام کے بیان
میں(۲)دوسری ترشیح میں کسی کتاب کی شرح اور شرح کی حاجت بیان کی ہے ساتھ ہی
شروح کی اقسام بھی بیان کی ہیں(۳)تیسری اور آخری ترشیح میں مصنفین کی
اقسام اور ان کے احوال سے بحث کی ہے-
الباب الرابع فی فوائد المنثورۃ من ابواب العلم - یہ باب دس مناظر پر مشتمل
ہے اور ہر منظر میں متعدد فتوحات ہیں-مناظر کی تفصیل علی الترتیب حسب ذیل
ہے: (۱)علوم اسلامیہ (۲)اسلامی علوم کے حاملین اکثر اہل عجم ہیں(۳)علم بھی
ایک حرفہ ہے (۴)طلب علم میں سفر(۵)علوم کے موانع اور عوائق(۶)قوت حافظہ
ملکۂ علمیہ کے علاوہ ایک الگ چیز ہے(۷)تحصیل علم کے شرائط اور اس کے
اسباب(۸)افادہ کی شرائط اور نشرعلم(۹)اہل علم میں جو اوصاف ضروری ہیںان کا
بیان(۱۰)تعلّم کے بیان میں-
الباب الخامس فی لواحق المقدمۃ من الفوائد - اس آخری باب میں چند مطالب
ہیںجن میں حسب ذیل مطلب شامل ہیں(۱)علوم عربیہ(۲)علوم لسان
عربی(۳)ادبیات(۴)علوم کے اسما(۵)بعض علوم کا موضوع متعین نہ ہونے کی وجہ-اس
کے بعد ’’خاتمہ‘‘کے عنوان سے مختصراً یہ بیان کیا ہے کہ انہوں نے علم کی یہ
تفصیلات کیوں قلم بند کی ہیں-
تذکرۂ کتب کی خصوصیات - ہم نے پہلے ذکر کیا تھا کہ کشف الظنون پندرہ ہزار
کتب کے تذکرے پرمشتمل ہے ،حاجی خلیفہ نے کسی کتاب کے ذکر میں جن خاص امور
کا لحاظ کیا ہے(۸) وہ حسب ذیل ہیں:
(۱)کتاب کے نام میں اگر لغوی اعتبار سے کوئی ابہام ہے تو اس کو دور کیا ہے
،مثلاًامام جلال الدین سیوطی کے رسالہ ’’اتحاف الفرقۃ برفو الخرقۃ‘‘کے بارے
وضاحت کرتے ہیںکہ’’ الرفو اصلاح الثوب‘‘-(۲)کتاب کے ذکر کے ساتھ اس کے
موضوع کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے (۳)کتاب کے بارے میں یہ وـضاحت کردی گئی
ہے کہ مختصر ہے ،مبسوط ہے یا متوسط ہے- (۴)اگر کسی کتاب کی تلخیص ،تعلیق یا
شرح کی گئی ہے تو اس کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا ہے،مثلاً حافظ منذری کی
کتاب’’ الترغیب والترہیب ‘‘کی تلخیص حافظ ابن حجر عسقلانی نے کی ہے اوراس
کتاب پر تعلیق امام برہان الدین ناجی نے لکھی ہے-(۵)کتاب کی ضخامت کی طرف
بھی اشارہ کردیا گیا ہے ،مثلاً ’’حلیۃ الابرار ‘‘دس جلدوں میں ہے اور’’
تسہیل المقاصد ‘‘ایک جلد میں ہے -(۶)اگر کتاب عربی کے علاوہ کسی اور زبان
میں ہے تو اس کی وضاحت،مثلاً’’الخلاصہ فی تاریخ المدینہ‘‘اور
’’بہاروخزاں‘‘کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اول الذکر فارسی میں ہے اور دوسری
ترکی میں ہے-(۷)بعض مقامات پرکتاب کا خطبہ یا ابتدائی عبارت بھی نقل کر دی
ہے -(۸)کتاب کے فصول وابواب کا ذکر،کہیں صرف اجمالاً کیا ہے اور کہیں قدرے
تفصیل سے ،مثلاً’’ الدر الثمین فی سیرۃ نورالدین‘‘کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
سات ابواب پرمشتمل ہے ،اور امام ابو جعفر احمد سرماری کی کتاب ’’الابانہ فی
رد من شنع علی ابی حنیفہ‘‘کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اس کو چھ ابواب پر
ترتیب دیا ہے -(۱)پہلے باب میں اس کا بیان ہے کہ مذہب حنفی وُلاۃ وقضاۃ کے
لیے اصلح ہے (۲)دوسرا باب اس بیان میں کہ امام ابو حنیفہ نے آثار صحیحہ سے
تمسک کیا ہے (۳)تیسرا باب اس بیان میں امام ابو حنیفہ نے فقہ میں احتیاط کا
پہلو اختیار کیا ہے (۴)چوتھا باب اس بیان میں کہ ان کے مخالف نے احتیاط کا
دامن چھوڑ دیا ہے (۵)پانچواں باب ان کے مخالف کی شناعت کے بیان میں(۶)چھٹا
باب ان کے مخالف کے جوابات میں-ڈاکٹر سلیمان محمد عطیہ نے اس خصوصیت میں
بھی کشف الظنون کو منفرد قرار دیا ہے(۹) بعض جگہ کتاب کے محاسن یا معائب کی
طرف بھی اشارہ کردیا ہے،اس سلسلہ میں کہیں وہ خود اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے
ہیں،اور کہیں کسی دوسرے کی تعریف یا تنقید نقل کرنے پر اکتفا کرتے
ہیں-مثلاً ابراہیم الشبستری کی کتاب’’ التائیہ فی ایسا غوجی ‘‘کے بارے میں
لکھتے ہیں: ’’سماہاموزون المیزان ثم شرحھاایضاًوکلتا ہما فی غایۃ
البلاغۃ‘‘-اسی طرح علامہ ابن حزم کی کتاب ’’الفصل بین اہل الہواء
والنحل‘‘پرعلامہ تاج الدین سبکی کی تنقید اورشہرستانی کی تحسین نقل کی
ہے-کشف الظنون کی ان بیان کردہ خصوصیات کی طرف خود حاجی خلیفہ نے بھی مقدمہ
میں اشارہ کیا ہے -
تذکرۂ مصنفین کی خصوصیات - مصنفین کے تذکرے میں حاجی خلیفہ نے جن امور کا
لحاظ کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)مؤلف کی تاریخ وفات کا ذکر،یہاں اس بات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ
تاریخ وفات کے سلسلہ میں متعدد مقامات ایسے ہیں جن میں حاجی خلیفہ کی تاریخ
دانی اور گہری نظر بھی دھوکا کھا گئی ہے ،چنانچہ بڑی تعداد میں تاریخ وفات
غلط بھی لکھ گئی ہیں(۹)مگر ہم طبع چہارم کے ناشرین کی اس بات سے متفق ہیں
کہ اتنے بڑے اور وسیع کام میںکچھ غلطیاں ہوجانا ایک فطری امر ہے -
(۲)مؤلف کے فقہی مذہب کی طرف اشارہ بھی کردیا ہے-
(۳)مؤلف کے نام میں کوئی لفظ مشکل ہے تو اس کے صحیح تلفظ اور حرکتوں کی
وضاحت-مثلاً ’’ابرازالاخبار‘‘کے مؤلف جمال الدین محمد ابن نباتہ کے بارے
میں یہ وضاحت کی ہے’’نباتہ نون کے ضمے اور با کی تشدید کے ساتھ ہے‘‘-
(۴) مؤلف کے وطن کی وضاحت کے ساتھ اس جغرافیائی محل وقوع کی طرف اشارہ بھی
کردیا گیاہے،مثلاًکتاب الاتضاع فی حسن العشرۃ والطباعکے مؤلف شیخ محمد حسن
عبدالعال الدیری کے بارے میں یہ وضاحت کہ ’’الدیری نسبۃ الی دیر البلوط
قریۃ بالرملۃ‘‘-
(۵) مؤلف کی نسبت اگر کسی قبیلے کی طرف ہے تو اس کی طرف اشارہ اور قبیلہ
کے بارے میں ایک جملے میں تبصرہ-
کشف الظنون کے قلمی نسخے - حاجی خلیفہ نے کتاب کی تکمیل کے بعد اس کی تبییض
شروع کی،ابھی وہ ’’دال‘‘کے مادے تک پہونچے تھے کہ ان کا آخری وقت آگیا
اور انہوں نے کتاب کو چھوڑ کر داعیٔ اجل کو لبیک کہا،لہٰذا ’’دال‘‘سے لے کر
کتاب کے آخر تک کی تبییض نہ ہوسکی-مؤلف کے ہاتھ کا یہ ادھورا مبیضہ توپ
کاپی میوزیم استنبول(ترکی)کے ’’روان کوشکی کلکشن‘‘میں ۲۰۵۹ پر موجود ہے
،کتاب کا اصل مسودہ مکتبہ جاراللہ ولی الدین (استنبول)میںمحفوظ ہے(۱۰)-ایک
مخطوطہ حلب (شام)کے المکتبۃ الاحمدیہ میں محفوظ ہے ،استاذ راغب الطباخ نے
اس کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے(۱۱)ایک نسخہ پیرس (فرانس)میں محفوظ
ہے ،اس میں ابراہیم بن علی عربہ جی پاشا کی زیادات بھی شامل ہیں،یہ نسخہ سن
۱۲۰۰ھ کے آس پاس نقل کیا گیا ہے(۱۲)ایک نسخہ برٹش میوزیم (انگلینڈ)میں
موجود ہے
یہ بھی پیرس والے نسخے کی طرح عربہ جی پاشا کی زیادات کے ساتھ ہے (۱۳)قاہرہ
میں ازہر شریف کے کتب خانے میں اس کے دو نسخے موجود ہیں- ان کے علاوہ بھی
کچھ قلمی نسخوں کا ذکر بروکلمان نے کیا ہے (۱۴)
کشف الظنون کی طباعت - کشف الظنون کو سب سے پہلے مشہور مستشرق
مسٹرفلوجل(Gustavus Flujel)نے شائع کیا ،یہ اشاعت ۱۸۳۵ئ؍۱۸۵۸ء کے درمیانی
عرصے میں عمل میں آئی ،گلوجل نے اس کو اپنے عربی ترجمے اور حنیف زادہ
(م۱۲۱۷) کے ذیل کے ساتھ شائع کیا تھا،اور ساتھ ہی قاہرہ اور استنبول کے کئی
کتب خانوں کی فہرستیں بھی شائع کر دی تھیں،لیکن چونکہ فلوجل کے سامنے مؤلف
کے ہاتھ کا مسودہ یا مبیضہ نہیں تھا،اور جو قلمی نسخے فلوجل کے سامنے تھے
ان میں کاتبین وناقلین کی ’’کرم فرمائیاں‘‘شامل تھیں،اس لیے اس اشاعت میں
سیکڑوں خامیاں راہ پا گئیں-اس اشاعت میں ایک بڑی کمی یہ بھی رہ گئی کہ حاجی
خلیفہ نے اپنے مسودے اور پھر مبیضے میں جابجا جوتعلیقات وحواشی تحریر کیے
تھے،ناقلین نے ان کو نقل کرنا ضروری نہیں سمجھا ،چنانچہ فلوجل کے سامنے جو
نسخے تھے وہ سب ’’معریً‘‘تھے اس لیے یہ اشاعت حاجی خلیفہ کے ان مفید حواشی
سے محروم رہی-ڈاکٹر سلیمان محمد عطیہ نے بڑی تفصیل سے اس اشاعت کا تنقیدی
جائزہ لیا ہے(۱۵)-ہاں اس اشاعت میں فلوجل نے امر کا التزام کیا تھا کہ
قوسین میں جگہ جگہ عربہ جی پاشا (م۱۱۹۰ھ)کی زیادات شامل کر لی تھیں-
(۲) کشف الظنون کی دوسری اشاعت مصر میں مطبع بولاق قاہرہ سے۱۲۷۴ھ میں
ہوئی،یہ طباعت چونکہ فلوجل والے نسخے کو سامنے ر کھ کر کی گئی تھی لہٰذا اس
میں وہ ساری خامیاں جوں کی توں باقی رہی جو فلوجل والے نسخے میں تھیں-بلکہ
مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ فلوجل نے عربہ جی پاشا کی جن زیادات کو قوسین
میں جگہ دی تھی ان ناشرین نے ان قوسین کو حذف کر دیا جس کی وجہ سے متن اور
زیادات آپس میں خلط ملط ہوکر رہ گئیں-
(۳) تیسری مرتبہ کشف الظنون کو حسن حلمی الکتبی نے اپنے اہتمام سے ۱۳۱۰ھ
؍۱۳۱۱ھ میں مطبع العالم استنبول سے شائع کیا،اس اشاعت میں بھی کوئی قابل
ذکر اصلاح نہیں کی جاسکی لہٰذا یہ بھی پچھلی اشاعتوں کے نقش قدم پر رہی-
(۴) چوتھی مرتبہ کشف الظنون ترکی کی وکالۃ المعارف کے زیر اہتمام مطبع بھیہ
سے ۱۹۴۱ئ؍۱۹۴۳ء میں شائع ہوئی،اس اشاعت میں جامعہ استنبول کے دو اساتذہ
محمد شرف الدین اور رفعت الکلیسی نے کافی محنت سے ان خامیوں کو دور کیا جو
سابقہ اشاعتوں میں ہوتی چلی آرہی تھیں،نیز ایک مقدمہ بھی تحریر کیا جو
اختصار کے باوجود نہایت وقیع ہے،(۱۶)بعض پہلؤوں سے اس اشاعت کو گذشتہ
اشاعتوں سے ممتاز کہا جاسکتا ہے،مثلاً :
(۱) ان ناشرین کے پیش نظر چونکہ حاجی خلیفہ کے ہاتھ کا مسودہ اور مبیضہ
موجود تھا اس لیے یہ اشاعت تصحیفات اور کتابت کی اغلاط سے کسی حد تک پاک
ہوگئی-
(۲) اس اشاعت میں حاجی خلیفہ کے حواشی اور تعلیقات بھی شامل کر لیے گئے جن
سے سابقہ اشاعتیں خالی تھیں-
(۳) حاشیہ میں جابجا نمبر ڈال کر اسماعیل پاشا کی زیادات بھی شامل کر لی
گئیں-
(۴) ان تصحیفات کی نشاندہی بھی جلد،صفحہ،اور سطر کی قید کے ساتھ کر دی گئی
جوفلوجل والی اشاعت میں راہ پاگئی تھیں-
(۵) اس اشاعت میں اسماعیل صائب سنجری کی زیادات بھی شامل کی گیئں-
(۶) نیز ناشرین نے خود بھی جگہ جگہ حسب ضرورت حواشی وتعلیقات تحریر کیے-
اس کے جو اشاعتیں ہوئیں وہ اسی طبع چہارم کو سامنے رکھ کر کی گئیں،بعد کی
اشاعتوں میں دیگر لوگوں کے مقدمات تو ضرور شامل کیے جاتے رہے مگر کوئی
تحقیقی کام ہوا ہو اس کاعلم راقم کو نہیں،اس وقت ہمارے سامنے جو نسخہ ہے وہ
دار التراث ،بیروت سے شائع شدہ ہے (سن ندارد)اس پر طبع چہارم کے مقدمہ کے
علاوہ ’’کشف الظنون عن صاحب کشف الظنون‘‘کے عنوان سے شہاب الدین النجفی
المرعشی کا مقدمہ بھی شامل ہے -
کشف الظنون کے ترجمے - ہم نے شروع میں لکھا تھا کہ کشف الظنون کی اہمیت
ووقعت کے پیش نظرکئی زبانوں میں اس کے ترجمے کیے گئے ہیں،فلوجل نے اپنے
انگریزی ترجمے کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے کہ اس کا سب سے پہلا ترجمہPedisdflo
Croixنے فرنچ میں کیا تھا ،جو پیرس کے ایک کالج میں عربی کے استاذ
تھے(۱۷)یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ ترجمہ شائع ہوا یا نہیں،بلکہ مرعشی نے
توفلوجل کے ترجمے کو ہی فرانسیسی ترجمہ قرار دے دیا ہے،جو یا تو مرعشی کا
سہو ہے یا پھر کتابت کی غلطی -فلوجل کے انگریزی ترجمے کا ذکر تو پیچھے گذر
ہی چکا ہے ،اس کے علاوہ مرعشی نے اس کے جرمن ترجمہ کا بھی ذکر کیا ہے -
کشف الظنون کے ذیول - استاذ محمد راغب الطباخ نے مولانا عبدالحی فرنگی محلی
کی کتاب الفوائد البہیہ کے حوالے سے کشف الظنون کے تین ذیول کا ذکر کیا ہے
،ڈاکٹر سلیمان محمد عطیہ نے تلاش وتحقیق کرکے یہ تعداد دس تک پہونچا دی
ہے،جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
(۱) ذیل کشف الظنون:محمد عزتی آفندی وشنہ زادہ(م۱۰۹۲ھ)
(۲) ذیل کشف الظنون:ابراہیم آفندی معروف بہ عربہ جی پاشا(م۱۱۹۰ھ)
(۳) ذیل کشف الظنون:علامہ نوعی آفندی
(۴) آثار نو:احمد طاہرآفندی حنیف زادہ(م۱۲۱۷ھ)
(۵) ذیل کشف الظنون:محمد آفندی الارض رومی،اس میں دولت عثمانیہ کی تالیفات
کا ذکر کیا گیا ہے-
(۶) ذیل کشف الظنون:عارف حکمت بک(م۱۲۷۵ھ)یہ ذیل صرف حرف جیم تک ہے-
(۷) ایضاح المکنون فی الذیل علی الکشف الظنون:اسماعیل پاشا ابن محمدامین
آفندی (م۱۳۳۹ھ)یہ ۱۳۳۰ھ میں مکمل ہوئی اور ۱۳۴۶ھ میں شائع ہوئی-
(۸) ذیل علامہ اسماعیل صائب سنجر-
(۹) ذیل آغا بزرگ طہرانی،یہ ذیل اسماعیل پاشا بغدادی کی کتاب’’ہدیۃ
العارفین‘‘کے ساتھ استنبول سے شائع ہوچکا ہے -
ان ذیول کے علاوہ سید حسین نبہانی الحلبی(م۱۰۹۶)کی ’’التذکار الجامع
للآثار‘‘کو بھی کشف الظنون کے ذیول میں شمار کیا گیا ہے ،سلیمان محمد عطیہ
کے بقول یہ ایک حیثیت سے ذیل ہے اور ایک حیثیت سے مختصر،حاجی خلیفہ کے
تلمیذ التلمیذ جار اللہ ولی الدین آفندی کی بھی یہی رائے ہے -
کشف الظنون کے مختصرات - جس زمانے میں کشف الظنون کے ذیول اور زیادات تالیف
کیے جا رہے تھے ٹھیک اسی زمانے میںکچھ اہل علم اس کی مختصرات لکھ رہے تھے-
مختصرات کے تذکرے میں ہم سب سے پہلے سابق الذکر’’التذکار الجامع
للآثار‘‘کا ذکر کریں گے، جو سید حسین نبہانی الحلبی کی تصنیف ہے -اس کے
علاوہ ایک دوسرے خلاصے یا مختصر کا تذکرہ اور بھی ملتا ہے اور وہ ہے کمال
الدین محمد بن مصطفیٰ الصدیقی کی کتاب ’’خلاصۃتحقیق الظنون فی الشروح
والمتون ‘‘-بروکلمان نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے،محمد خلیل مرادی نے بھی
’’سلک الدرر‘‘میں کمال الدین صدیقی کی تالیفات میں اس کا تذکرہ کیا ہے،لیکن
انہوںنے اس کانام’’کشف الظنون فی اسما ء الشروح والمتون‘‘تحریر کیا ہے -
(جامِ نور جون ۲۰۰۸ئ)
مراجع
(۱) ڈاکٹر سلیمان محمد عطیہ:رسالہ کشف الظنون:ص۵: مکتبۃ الانجلو المصریۃ،
قاہرہ۱۹۷۷ئ- عمر رضا کحالہ اور خیر الدین زرکلی نے ولادت کا سن عیسوی
۱۶۰۹اور وفات کا ۱۶۵۷ لکھا ہے -دیکھیے :معجم المؤلفینج۱۲؍ص۲۶۲اور
الاعلامج۸؍ص۱۳۸-
(۲) سرکیس یوسف الیان:معجم المطبوعات العربیہ:ج۱؍ص۱۳۲-
(۳) ایڈورڈفنڈک:اکتفاء القنوع:ص۳۷۷:طبع مصر-
(۴) شہاب الدین مرعشی:مقدمہ کشف الظنون:ص و-ڈاکٹر سلیمان محمد عطیہ:رسالہ
کشف الظنون:ص۱۰تا۱۵: مطبوعہ مصر
(۵) عمر رضا کحالہ:معجم المؤلفینج۱۲؍ص۲۶۳،اور خیر الدین زرکلی:
الاعلامج۸؍ص۱۳۹-
(۶) سرکیس یوسف الیان:معجم المطبوعات العربیہ-سرکیس نے اصل ترکی کا عربی
ترجمہ نقل کیا ہے ہم نے اسی عربی کا اردو ترجمہ کیا ہے-
(۷)ـ ڈاکٹر سلیمان محمد عطیہ:رسالہ کشف الظنون:ص۳۶: مکتبۃ الانجلو المصریۃ،
قاہرہ۱۹۷۷ء
(۸) ان مثالوں میں ہم نے ہر جگہ کشف الظنون کا حوالہ دینے کی ضرورت محسوس
نہیں کی ،حروف تہجی کے اعتبار سے ان مقامات کو کتاب میں دیکھا جاسکتا ہے-
(۹)ـ ڈاکٹر سلیمان محمد عطیہ:رسالہ کشف الظنون:ص۳۵: مکتبۃ الانجلو المصریۃ،
قاہرہ۱۹۷۷ء
(۱۰) حاشیہ مقدمہ طبع چہارم:ص۸-
(۱۱) راغب الطباخ:مقالہ مطبوعہ مجلہ المجمع العلمی العربی دمشق:ج۱۹؍ص۱۷۴،سن
۱۹۴۴ئ-
(۱۲) بروکلمان:G.A.L.Sص۶۳۵-
(۱۳) مرجع سابق-
(۱۴) دیکھیے:مرجع سابق-
(۱۵) ڈاکٹر سلیمان محمد عطیہ:رسالہ کشف الظنون:ص۳۸تا ۴۶: مکتبۃ الانجلو
المصریۃ، قاہرہ۱۹۷۷ء
(۱۶) زیر نظر مقالے میں اس مقدمہ سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے-
(۱۷) بحوالہ مقدمہ طبع چہارم ص۱۰،۱۱- |
|