لندن سے دہلی تک حلال گوشت کا مسئلہ

نئے سال کے پہلے ہی دن نیور پورٹل’میل آن لائن‘ پر یہ خبر شائع ہوئی کہ برطانوی پارلیمنٹ کی انتظامیہ نے مسلم ممبران کی اس درخواست کو مسترد کردیا ہے کہ اس کے احاطے کے ہوٹلوں اور چائے خانوں میں حلال گوشت بھی فراہم کیا جائے اس طرح اس اطلاع کی تصدیق ہوگئی ہے کہ ’دی پیلس آف ویسٹ منسٹر‘(The Palace of Westminster)، (وہ کمپلکس جس میں ایوان بالا ’ہاﺅس آف لارڈس‘ اور ایوان زیریں ’ہاﺅس آف کامنس‘ اور ان سے متعلق دفاتر ہیں) میں واقع ہوٹلوں اور چائے خانوں میں حلال گوشت فراہم نہیں کیا جائے گا۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ:” مسلم ممبران پارلیمنٹ اور ارکان ہاﺅس آف لارڈس کو بتادیا گیا ہے کہ ان کو اسلامی طریقے سے ذبح کیا ہوا گوشت فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی طریقہ یہ ہے کہ مویشی کے گلے کو تیز دھار دار آلہ سے کاٹ دیا جائے۔ لیکن بعض غیرمسلم ممبران سمجھتے ہیں جاندار کو بیہوش کئے بغیر اس طرح ذبح کرنا ظالمانہ فعل ہے۔“

اس خبر سے برطانیہ میں ا ز سر نو ایک نئی بحث اقلیتی فرقوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے سوال پر چھڑ گئی ہے۔ بات صرف ان 23ہوٹلوں اور چائے خانوںکی نہیں ہے جو اس کمپلکس میںواقع ہیں اور صرف ان لوگوں کےلئے مخصوص ہیں جو جوکسی بھی حیثیت سے ان اداروں سے وابستہ ہیں، بلکہ آثار کچھ ایسے ہیں کہ ملک بھر میں حلال گوشت کی فراہمی میں بھی رکاوٹیں پیدا کردی جائیں گی۔

اس مضمون نگار کو ایک عرصہ قبل یوروپ سفرکا اتفاق ہوا تھا۔ ہالینڈ کے ایک خوبصورت گاﺅں ہاﺅس ہتھسٹ میںچند روزہ قیام کے دوران میرے میزبان کو حلال گوشت لانے کےلئے کوئی سوا سو کلومیٹر واقع قصبہ ایکلو جانا پڑاتھاجہاں ایک مصری دوکاندار ترکی کے ذبح کئے ہوئے چکن فروخت کرتا تھا۔ایک دوسرے شہر انتوریپ میں ایک گھر میں کھانے کا اتفاق ہوا تو میزبان نے، جو اصلا ً ہندستانی تھے، بتایا تھا کہ وہ حلال گوشت لندن سے لاتے ہیں۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب برطانیہ میںبھی اس سہولت پر بھی اسلام اور مسلمانوں سے معاندانہ روش کی زد پڑنے والی ہے۔

’میل آن لائن‘ پر شائع اس خبر کے بین السطور سے ظاہرہوتا ہے گویا حلا ل گوشت کی فراہمی کوئی بہت ہی حساس معاملہ ہے اور اس میںاب تک لاپروائی برتی جاتی رہی ہے۔ اخبار نے ایک طرح پارلیمانی کمپلکس انتظامیہ کے اس نئے اقدام کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے ہم نے تو 2010میں ہی یہ انکشاف کردیا تھا کہ برطانیہ ہے اسپتالوں ، اسکولوں ، عام ہوٹلوں اور چائے خانوں میں حلال گوشت استعمال کیا جارہا ہے ۔رپورٹ میں کئی بڑی بڑی فوڈ چینس مثلاً کے ایف سی، ڈومینو پزّا، پزّا ہٹس وغیرہ کے نام گنوائے گئے ہیں اور لکھا ہے صارفین کو با خبر کئے بغیر ہی اسلامی طریقے سے حلال گوشت کھلایا جارہاہے۔ گویا حلال گوشت کاکھانا کھلانا کوئی قابل گرفت عمل ہے، اور خریداروں کو بتائے بغیر حلال کھلاناکوئی جرم ہے؟

برطانی پارلیمنٹ کے احاطے میں 23ہوٹل اور ریستوراں ہیں، ان میں اب تک یہی بتایا جاتا تھا کہ گوشت اسلامی طریقہ سے حلال ہوتا ہے۔چنانچہ مسلم ممبران اور دیگر عملہ بلا تکلف ان میں گوشت کھاتا تھا۔ مگر اب ان کےلئے دشواری پیدا ہوگئی ہے۔ ایوان بالا کے ایک رکن مسٹر احمد نے اس صورتحال پر تشویش جتائی ہے اور کہاہے حلال کا متبادل تو برقرار رہنا ہی چاہئے۔ خیال رہے کہ اسلام میں اہل کتاب کاذبیحہ حلال ہے اور وجہ اس کی یہی ہے کہ ان کا ذبح کرنے کا طریقہ بھی وہی ہے کہ گلے کوتیز دھار دار آلہ چلا کر مویشی کی شہ رگ کوکاٹ دیاجائے تاکہ اس کا خون بہہ جائے ۔ ذبیحہ ٹھنڈا ہوجائے تب اس کی کھال اتارکر گوشت بنایا جائے۔ یہ ہدایت بھی موجود ہے کی ذبح کےلئے تیز دھار کا آلہ استعمال کیا جائے تاکہ ذبح کے وقت تکلیف نہ ہو۔

جدید قسم کی مذبح خانوں میں ہاتھ کے بجائے مویشی کی گردن کومشین سے کاٹا جاتا ہے۔ مشین سے ہی کھال اتاری جاتی ہے۔ یہ طریقہ اگرچہ صفائی ستھرائی اور لاگت کے اعتبار سے اچھا ہے، مگر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ذبح کے وقت اللہ کی پاکی’بسم اللہ ، اللہ اکبر‘کے کلمات بھی زبان سے ادا کئے گئے یا نہیں؟ بہر حال یہ الگ فقہی مسئلہ ہے۔ہماری بحث کا موضوع نہیں۔حیرت ان اقوام پر ہوتی ہے جنہوں نے انسان کی جان کوارازاںجانا اور اپنے ناپاک سیاسی عزائم کےلئے بے دریغ لوگوں کے قتل کو روا رکھاہے، وہ جانوروں کے حقوق کے معاملے بڑے حساس ہیں ۔ان کو نامعلوم یہ گمان کیسے پید اہوگیا ہے کہ شہ رگ کاٹے جانے سے مویشی کو اذیت زیادہ ہوتی ہے اور اس کے اذیت سے بچانا حرام کھانے سے زیادہ افضل و اہم ہے؟

خیر یہ تو یوروپ اور برطانیہ کا معاملہ ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اب ہندستان میںبھی یہی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ہماری پارلیمنٹ نے 2010 میں ایک قانون بعنوان ”غذائی تحفظ اور معیارات‘ (Food Safety and Standards Act, 34 of 2006منظور کیا ہے۔ اس قانون کے تحت ضابطوں کا اعلان 21اکتوبر2011کو جاری ایک خصوصی گزٹ میں کیا گیا ہے۔اس کا عنوان ہے: Licensing Food Safety and Standards and Registration of Food Buiseness- Regulations, 2011 گزٹ کے افتتاحیہ میں اعلان کیا گیا ہے اگر کسی کو ان میں سے کسی ضابطہ پر اعتراض ہو تو وہ مقررہ مدت کے اندر اپنا اعتراض داخل کرے۔ اس مسودے کی ضابطہ 4.1 میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ذبح کرنے سے پہلے جاندار کو بے ہوش کرنا(stunning) کو لازم ہوگا۔ ایک جدول دی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ stunningکا یہ عمل کس طرح انجام پائے گیا؟ کتنے وزن کے کس مویشی کو بے حس کرنے کےلئے اس کے سر سے کتنی طاقت کا کرنٹ کتنی دیر گزارنا ہوگا ؟ اس کام کےلئے مخصوص قسم کی مشینیں استعمال کی جائیں گی اور ہر لائسنس یافتہ مذبح خانے کےلئے یہ لازم ہوگا کہ وہ یہ مشینیں فراہم رکھے اور سرکاری عملہ وقتاًفوقتاً معائنہ کرتا رہے تاکہ اس ضابطہ کیخلاف ورزی نہ ہو۔

یہ فتوٰی تو علمائے کرام ہی صادر فرمائیں گے کہ اس طرح کا ذبیحہ حلال ہوگا یا نہیں، تاہم ہمارے علم کی حد تک یہ طریقہ شرعی نقطہ نظر سے قابل اعتراض ہوگا۔اس شق پر ہماری اطلاع کے بموجب کوئی اعتراض داخل نہیں ہوا اور اگر ہوا ہے توا س کی پیروی کی کیا صورت ہے؟ اندیشہ اس بات کا زیادہ ہے افسر شاہی بین الاقوامی معیارات کا حوالہ دیکر ان اعتراضات کو اسی طرح مسترد کردیگی جس طرح ہم جنسی کو مباح کرنے کے معاملے میںہوا۔برطانیہ میں تو عیسائی مذہبی اداروں (چرچ) نے حلال گوشت کی فراہمی میں رخنہ اندازی پر اعتراض اٹھایا ہے۔ ہندستان غیر مسلم اکثریت ، جو گوشت خور بھی ہے، اس پر شاید اس بات کو کوئی اثر نہیں پڑیگا کہ جانور کو ذبح کیا گیا یا جھٹکا کیا گیا۔ لیکن مسلمانوں پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ اگر سرکار نے اس ضابطہ کے نفاذ پر اصرارکیا، اور ہمارا گمان ہے کہ ضرور کیا جائے گا تو اس کا اثر گوشت کے ایکسپورٹ کے بزنس پر بھی پڑےگا۔ہمارے ملک سے بڑی مقدار میں’حلال گوشت‘ مسلم ممالک کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اور سالانہ کروڑوں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے۔ یہ ممالک ہرگز اس معاملے یورپی ضابطوں کو قبول نہیں کریں گے۔ چنانچہ وہ تاجر اور وہ لاکھوں افراد جن کا ذریعہ معاش حلال گوشت کا ایکسپورٹ ہے، مشکلات میں گرفتار ہوجائیں گے۔ اس ضابطہ کی زد ہماری حلا ل و حرام کی تمیز پر بھی پڑیگی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملی جماعتیں اور کاروباری ادارے اس صورتحال کی نزاکت کو سمجھیں۔اس مضمون نگار نے حال ہی میں ” مسلم پرسنل لاءبورڈ کی ’احتجاجی ‘مہم“ عنوان سے ایک مضمون میں اس مسئلہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھا بھی تھا؛ اب اس بات کےلئے تیار ہوجائیے کہ مذبح خانوں سے جو گوشت آپ کے دسترخوان پر آئے گا وہ مشکوگ ہوگا ۔ اس پر شور تو مچے گا مگر اس وقت جب سرکاری عملہ اس کے نفاذ کےلئے تادیبی اقدامات شروع کریگا۔“ خداکرے ایسا نہ ہو۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 164307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.